یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
اس خاکسار کی رائے میں اگر کلیم عثمانی فلمی نغمات اور غزلیں نہ بھی لکھتے تو صرف ایک ملی گیت ہی انہیں حیات جاوید بخشنے کیلئے کافی تھا اور وہ ہے موسیقار خلیل احمد کی موسیقی میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ ملی نغمہ جس کے بول ہیں۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواہ اس کے
مہدی حسن نے بھی اس ملی گیت کو وطن پرستی کا وہ پیرہن دیا جسکی نظیر شاید ہی ملے کئی دہائیوں پہلے لکھا گیا یہ مِلی نغمہ آج بھی دلوں کو وہ راحت دیتا ہے جسکی خوشبو سے دل و دماغ معطر رہتے ہیں۔ کلیم عثمانی کا یہ ملی نغمہ بھی انکی عظمت کی گواہی دیتا نظر آتا ہے جس کے بول ہیں۔''اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں‘‘
کلیم عثمانی 28فروری 1928ء کو دیوبند (اتر پردیش‘ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ اصل نام احتشام الٰہی تھا تقسیم ہند کے بعد پاکستان آ گئے اور لاہور میں رہائش اختیار کی۔ انہوں نے 42 فلموں کیلئے 197نغمات تحریر کئے انکے کئی گیتوں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ 1966 ء میں انہیں شہرت ملی جب انکی فلم ''جلوہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس سے پہلے وہ فلم '' انتخاب‘‘ (1955ء)‘بڑا آدمی (1957ء) راز (1959ء)‘ زنجیر (1960ء)‘ ڈاکو کی لڑکی (1960ء) اور دھوپ چھائوں (1963ء) کیلئے نغمات لکھ چکے تھے لیکن ''جلوہ‘‘ وہ فلم تھی جس نے انہیں صف اول کے فلمی گیت نگاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اس فلم میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ کلاسیکی نغمہ وجد طاری کر دیتا ہے۔ اس کے بول تھے ''لاگی رے‘ لاگی لگن یہی دل میں‘‘ موسیقار ناشاد نے بھی کمال کیا اس فلم کا یہ نغمہ بھی دل کو چھو لیتا ہے ''وہ نقاب رخ الٹ کر‘ کوئی جا کے ان سے کہہ دے‘‘ یہ مجیب عالم نے گایا تھا اور ''جلوہ‘‘ انکی پہلی فلم تھی۔ ''جلوہ‘‘ کے آٹھوں نغمات کلیم عثمانی کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ مجیب عالم کے علاوہ میڈم نورجہاں‘ مہدی حسن اور منیر حسین نے اس فلم کے گیتوں کو اپنی آواز سے سجایا۔
1968 ء میں انہوں نے فلم ''دل دیا درد لیا‘‘ کیلئے بھی خوبصورت نغمات لکھے جن میں مہدی حسن کا گایاہوا یہ نغمہ بہت مقبول ہوا''اے حسن بے مثال تری کیا مثال دوں‘‘اے حمید کی لاجواب موسیقی نے اس گیت کو عظمت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مہدی حسن کو صرف ''شہنشاۂ غزل‘‘ کہنا درست نہیں انکی فلمی گائیکی بھی اعلیٰ درجے کی تھی۔1969ء میں ریلیز ہونیوالی فلم ''عندلیب‘‘ سپرہٹ نغماتی فلم تھی۔ اس فلم میں شبنم‘ وحید مراد‘ آغا طالش‘ عالیہ‘ ابراہیم نفیس اور مصطفی قریشی تھے۔ یہ سلمیٰ کنول کے ناول سے ماخوذ تھی موسیقار نثار بزمی نے اپنی دلکش موسیقی سے سجایا اس فلم کے سارے نغمات ہی معیاری تھے۔ کلیم عثمانی کے ساتھ دوسرے نغمہ نگار مسرور انور تھے۔ کلیم عثمانی کا یہ نغمہ اعلیٰ پائے کا تھا جسے میڈم نورجہاں نے گایا اور بلاشبہ یہ فلمی گیت میڈم نورجہاں کے شاہکار گیتوں میں سے ایک ہے۔ اس کے بول تھے''پیار کر کے ہم بہت پچھتائے ‘‘
1971 ء میں رنگیلا کی فلم ''دل اور دنیا‘‘ کا یہ گیت بھی کلیم عثمانی کی یاد دلاتا ہے جسے رنگیلا نے خود گایا اور سنگیت کمال احمد کا تھا۔ اس گیت کے بول تھے۔''بتا اے دنیا والے یہ کیسی تیری بستی ہے‘‘۔اس کے بعد 1974 ء میں ہدایتکار نذر الاسلام کی شہرہ آفاق فلم ''شرافت‘‘ ریلیزہوئی جس کے سارے نغمات کلیم عثمانی نے لکھے۔ اسی فلم کے ایک گیت نے کلیم عثمانی کو لازوال شہرت بخشی۔ اس کے بول تھے ''تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی‘‘ موسیقار روبن گھوش کا فن اس فلم میں اوج کمال کو پہنچ گیا۔ اس فلم کے گلوکاروں میں مہدی حسن‘ رونا لیلیٰ‘ نیرہ نور‘ روبینہ بدر اور اخلاق احمد شامل تھے۔ اخلاق احمد اور نیرہ نور کا یہ دو گانا بھی بہت پسند کیا گیا۔''ہو میرے سنگ چلا اک خوبصورت ساتھی‘‘۔1975 ء میں کے خورشید کی فلم ''فرض اور مامتا‘‘ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس کا یہ گیت بہت مشہور ہوا ''آج غم دے دیا کل خوشی بخش دی‘‘ اسی فلم میں کلیم عثمانی کا ملی ترانہ ''اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ بھی شامل کیا گیا جسے نیرہ نور نے گایا۔ ذیل میں کلیم عثمانی کے ان دوسرے خوبصورت نغمات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو مذکورہ بالا نغمات کے علاوہ ہیں۔1۔ حال دل آج ہم سنائیں گے... فلم : ''چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘۔2-دنیا والے کیسا نرالا تیرا یہ سنسار ہے... فلم :''چراغ کہاں روشنی کہاں‘‘۔3- تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا...فلم : '' گھرانہ‘‘۔4- عید کا دن ہے گلے ہنس کے لگا لو مجھ کو...فلم : '' انگارے‘‘۔5- ڈونٹ بی سلی...فلم: '' سبق‘‘۔6- ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا... فلم : ''ہم دونوں‘‘۔7- مرنا بھی نہیں آسان‘ جینا بھی قیامت ہے... فلم :'' ہم دونوں‘‘8- آج وعدہ وفا کرنا ہوگا... فلم : ''تاج محل‘‘۔9- تو ہے سراپا تاج محل... فلم : '' تاج محل‘‘۔10- جھوٹے وعدوں سے نہ دل بہلائیے ... فلم : ''عندلیب‘‘
11- خاموش ہیں نگاہیں اک بار مسکرا دو... فلم : '' بندگی‘‘۔12- میرا محبوب آ گیا... فلم : ''نیند ہماری خواب تمہارے‘‘۔13- لکھ دیجئے اک پیار کی عرضی... فلم : ''ملاقات‘‘۔14- مستی میں جھومے فضا ...فلم :''نازنین‘‘۔15- اگر تم برا نہ مانو... فلم : '' ملاقات‘‘۔16- پیار ہوتا ہے جب دل دل سے ملتا ہے... فلم : ''خلش‘‘ ۔ 17- سالگرہ کا دن آیا ہے... فلم : '' زندگی‘‘۔
اگر ان کی فلموں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کئی فلموں کے تمام گیت لکھے۔ ہدایتکار کے خورشید کی قریباً تمام فلموں کے نغمات کلیم عثمانی نے ہی تحریر کیے۔ جن موسیقاروں کے ساتھ کلیم عثمانی نے کام کیا ان میں روبن گھوش‘ ناشاد‘ نثار بزمی‘ خلیل احمد‘ ایم اشرف اور اے حمید خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ میڈم نورجہاں‘ مہدی حسن‘ نیرہ نور‘ ناہید اختر‘ رونا لیلیٰ‘ احمد رشدی‘ مسعود رانا اور اخلاق احمد نے ان کے نغمات گائے۔
اب ہم اپنے قارئین کو کلیم عثمانی کی غزلوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔کلیم عثمانی کا مجموعہ کلام ''دیوار حرف‘‘ پہلی بار 1985 ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ 98 غزلیات پر مشتمل ہے ان کی غزلوں میں داخلیت اور خارجیت کا بڑاحسین امتزاج ملتا ہے۔ سادہ اور سلیس زبان میں چونکا دینے والی بات کر جاتے ہیں۔ رومانوی شاعری خاصی متاثر کن ہے اور مضمون آفرینی بھی قابل تحسین ہے۔ اس کے ساتھ غم دوراں کے فسانے بھی ملتے ہیں، معروضی صورتحال کا بھی مکمل ادراک رکھتے ہیں۔ عصری کرب جابجا رقص کرتا نظر آتا ہے۔ سماجی اخلاقیات کی تباہ حالی پر ان کا دل کڑھتا ہے اور کئی اشعار میں وہ اس صورتحال پر ماتم کناں نظر آتے ہیں۔ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کلیم عثمانی صاحب کی شاعری کے کئی رنگ کئی ڈھنگ ہیں اور اہل ادب ان کے شعری رویوں کے تنوع پر دنگ ہیں۔ ان کی غزلوں کے اشعار پر غور فرمائیے۔
1- ان کی نظروں کے بدلتے ہی نہ جانے کیا ہوا
جتنے چہرے جانے پہچانے تھے انجانے لگے
2- بعد مدت کے اسے دیکھا تویوں مجھ کو لگا
دے رہی ہو جیسے دھوکہ میری بینائی مجھے
3- تسخیر کائنات کے چرچے تو ہیں مگر
ہرشعبۂ حیات میں کیوں ابتری سی ہے
4- تو میرے ساتھ تھا تو سبھی آشنا سے تھے
دنیا ترے بغیر لگے اجنبی مجھے
5- کون ہے جس کی قیادت پہ بھروسہ کر لیں
یوں تو کہنے کو بہت راہ نما رکھتے ہیں
6- بھول جاتا ہوں زمانے کے ستم
تیری باتوں کا خیال آتا ہے
7- جانے کیا بات تھی ان مست نگاہوں میں کلیم
ہم نے ایمان ہزاروں کے بہکتے دیکھے
8- نہ ہو سکے گا علاج غم حیات کلیم
کہ اب دشمن جاں بھی ہے چارہ گر کی طرح
9- ہم سے اہل وفا کی قسمت میں
غم نہ ہوتے تو اور کیا ہوتے
10- بنتے ہو مسیحا تو دوا کیوں نہیں دیتے
خاموش زبانوں کو نوا کیوں نہیں دیتے
11- خزاں نصیب بہاروں سے کھیلنے والو
ہٹی نہیں ہے گلستاں سے بجلیوں کی نظر
12- یا تو کسی سے عرض تمنا نہ کیجئے
یا پھر غرور عشق کا دعویٰ نہ کیجئے
13- اب کہاں اگلی شرافت کے نمونے باقی
اب تو پیسہ ہے زمانے میں فقط نام و نسب
نفس کی شاعری کے ساتھ آفاق کی شاعری کا امتزاج دلکش اسلوب کے ساتھ پڑھنے کو ملے تو ذہنی بالیدگی ایک ایسے حسن میں ڈھل جاتی ہے جو انمول ہوتی ہے۔28اگست 2000ء کویہ نادر روزگار فنکار عالم جاوداں کو سدھار گیا۔