پروشیا:گمشدہ طاقتور سلطنت
پروشیا ایک بہت طاقتور ریاست تھی، یہ جدید جرمنی کی پیشرو کے طور پر رہی ۔یہ سلطنت شمالی پولینڈ کے ایک چھوٹے سے علاقے سے جرمنی کی ایک اہم سپرپاور بنی جو کہ پندرہویں صدی سے لے کر عالمی جنگ دوم تک قائم رہی۔عالمی جنگ دوم کے بعد اس سلطنت کا نام و نشان مٹا دیا گیا ۔اور یہ تاریخ کے اوراق میں گمشدہ صفحات کی صورت موجود ہے۔پروشیا یورپ کی ایک خوشحال ریاست تھی۔پروشیا کے وزیر اعظم بسمارک نے 1871 میں ایک بکھرے ہوئے جرمنی کو متحد کیا اور اس کے پہلے چانسلر بن گئے تھے ۔ لیکن ایسا کیسے ممکن ہوا کہ ایک چھوٹی ریاست کا حکمران پورے جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ اس کے پیچھے جدوجہد کی ایک لمبی کہانی ہے۔ انیسویں صدی میں پروشیا جرمنی کی ایک واحد بڑی طاقت تھی۔ سلطنت پروشیا پولینڈ اور لتھوینیا کے درمیان بالٹک سمندرکے کنارے پر واقع تھی۔اس کے رہائشی بالٹک زبان بولتے تھے۔شروع میں جرمن کا حصہ بننے سے پہلے یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے ایسے علاقوں پر مشتمل تھا جو کہ رومن ایمپائر کے تحت تھے مگر ان کی زبان مشترکہ تھی۔ تیرہویں صدی میں جرمنی اور پولینڈنے ان علاقوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔پروٹیسٹینٹ ریفارمیشن کے نتیجے میں 1525 میں اس علاقے پر باقاعدہ حکومت قائم ہوئی۔ پولش بادشاہ کے بھتیجے البرٹ کو اس ریاست کا حکمران بناتے ہوئے ڈیوک آف پروشیا کا ٹائٹل دیا گیا۔البرٹ نے تعلیم اور آرٹ پر توجہ دی اور علاقے کے لوگوں کو باشعور بنایا۔13سال کی پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک کی جنگ نے شمالی یورپ کو بہت نقصان پہنچایا۔ پروشیا کا ایک حصہ پولینڈ کے زیر اثر تھا لیکن جنگ کے بعد پروشیا نے اپنے علاقے کو پھیلایا اور پولینڈ کے زیر اثر حصہ بھی بقیہ پروشیا سے آملا۔پروشیا نے بہت جلد اپنی انتہائی ماہر افواج اور نیوی تیار کی جس نے خطے میں اسے ایک طاقتور ریاست بنا دیا ، اس لئے پروشیا نے 1701 میں باقاعدہ سلطنت کا اعلان کردیا۔یورپ کی یہ عظیم طاقتور ریاست کھڑی کرنے میں ولیم فریڈرک کا بہت بڑا کردار ہے ، اگرچہ وہ باقاعدہ کنگ ڈم کو دیکھنے لئے زندہ نہیں رہا لیکن یہ اعزاز اس کے بیٹے کو ملا کہ وہ ایک طاقتور سلطنت کاحکمران بنا۔فریڈک ولیم نے 13سالوں کی جنگ کے بعد ملک کی معیشت کو نئے سرے سے کھڑ ا کیا اور ملک کی فوج کو جدید سامان سے لیس کیا۔یہ مضبوط معیشت اور افواج ہی تھیں جس نے سلطنت کو ایک خوشحال اور طاقتور ریاست بنادیا۔اس نے اپنے بھتیجے ولیم (ڈچ ریپبلک)کے ساتھ بھی اتحاد قائم کیا جو بعد میں برطانیہ کے تخت پر بھی بیٹھا۔اسی دوران فریڈرک نے منتشر جرمنی پر بھی نظر رکھی۔جنگ نے کیتھولک رومن ایمپائر کو کمزور کردیا تھا۔ فریڈرک نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا اور پروشیا کو مزید مضبوط کرنے کیلئے بھرپور محنت کی ۔ 1688 میں فریڈرک کی وفات کے بعد اس کا بیٹا فریڈرک ون پروشیا کی سلطنت کا بادشاہ بنا۔جرمنی اور پولینڈ کے درمیان میں پروشیا نے زبردست ملٹری طاقت حاصل کرلی۔فریڈرک ون اور انگلینڈ کے بادشاہ ولیم سوئم آپس میں کزن تھے۔فریڈرک کے بیٹے فریڈرک ون نے سیاسی طور پر جرمنی کو متحد کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔1713سے لیکر 1740تک پروشیا کی سلطنت نے بھرپور طاقت کے ساتھ یورپ میں حکومت کی کیونکہ اس کے امیر تجار اور اچھی معیشت نے یورپ کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ یورپ بھر سے لوگ پروشیا جانا پسند کرتے تھے۔فریڈرک ون نے سویڈن کے ساتھ ٹکر لی اور اپنے علاقوں کو وسعت دی۔فریڈرک ون کے بعد اس کے بیٹے فریڈرک ولیم دوم نے شاندار حکومت کی اور پروشیا کو مزید خوشحال بنایا۔ اسے'' فریڈرک دی گریٹ ‘‘کا خطاب دیا گیا۔فریڈرک دوم نے پولینڈ کی طرف بھی پیش قدمی کی اور کئی علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلئے اس کے علاوہ جرمنی پر قبضے کیلئے اپنے آسٹرین ہمعصر کے ساتھ بھی مقابلہ بازی شروع کردی۔مذہبی رواداری کی پالیسی ، آرٹ کے پھیلائواور لبرل سیاسی خارجہ پالیسی کے ذریعے پروشیا کو یورپ کی ایک طاقتور ریاست بنایا گیا۔اگلی صدی میں پروشیا نے جرمنی پر مکمل اثر و رسوخ حاصل کرلیا۔ انیسویں صدی میں بہت سے علاقوں کو جمع کرکے جرمنی کو یکجان کیا گیا اور اس کے پیچھے پروشیا کی طاقت تھی۔یہ کوششیں 1860سے شروع ہوئیں۔پروشیا کا اتنا اثرو رسوخ تھا کہ جب جرمن ایمپائر کا اعلان کیا گیا تو اس کے پہلے چانسلر پروشیا کے وزیراعظم تھے۔وہ1871 سے 1890تک جرمنی کے چانسلر رہے۔1918میں جب جرمن انقلاب آیا تو جرمن شہنشاہیت جمہوریہ ملک میں تبدیل ہوگئی۔جرمنی میں نازی ازم پروان چڑھا،جنگ عظیم دوم کے بعد جب جرمن کو شکست ہوئی تو جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ، ایک حصہ امریکہ کے حصہ میں اور ایک حصہ روس کے پاس آیا جس کے بعد پروشیا کی ریاست ختم کردی گئی اور اس کا نام صرف تاریخ میں رہ گیا۔ ایک وقت میں یورپ کی مضبوط ترین سلطنت سمجھی جانیوالی ریاست جنگ کی تباہ کاریوں کی نظر ہوگئی۔