بہاولپور کا شاہی قبرستان، غیر ملکی بیگمات کے سفید مقبرے
بہاولپور کے نوابوں کا ذاتی قبرستان شاہی قبرستان کے نام سے مشہور ہے لہٰذا اسے عام لوگوں کے لیے نہیں کھولا جاتا۔ چاردیواری کے اندر کئی طرح کے مقبرے ہیں۔ کچھ مقبروں کے گنبد روایتی سرائیکی اور سندھی فنونِ لطیفہ کے شاہکار ہیں جن پر نیلے رنگ کے پھول بوٹے ہیں اور یہ کشیدہ کاری ہاتھ سے کی گئی ہے۔ کچھ مقبرے سفید سنگِ مرمر کے پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔نوابزادہ سردار مجتبیٰ خان رِند جن کی والدہ اگرچہ عباسی خاندان کی ہیں تاہم رِند قبیلے سے ہونے کی وجہ سے اس خاندان کو بھی نواب کا درجہ حاصل ہے۔وہ مقبروں کے اس فرق کی وضاحت کچھ اس طریقے سے کرتے ہیں کہ ''یہ جو آپ کو سفید مقبرے نظر آرہے ہیں، یہ سفید پتھر فرانس سے درآمد کیا گیا تھا اور نوابوں کی جو ازواج غیر ملکی تھیں ان کے مقبرے سفید پتھر سے تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ جو ازواج اس خطے اور قبیلے کی تھیں ان کے مقبروں پر علاقائی رنگ آپ کو نمایاں نظر آئے گا۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ دونوں میں فرق کیا جا سکے۔‘‘
نوابوں کی غیر ملکی ازواج کے مقبرے سفید پتھر سے تعمیر کیے گئے ہیں۔اخروٹ کی لکڑی سے بنے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوں تو عالی شان مقبروں کی قطاریں اور شاہانہ طرزِ تعمیر آپ کو حصار میں لے لیتا ہے۔بائیں طرف ایک بڑے ہال میں ان 12 نوابوں کی قبریں ہیں جنہوں نے ریاست بہاولپور پر حکومت کی۔ ہر قبر کے تعویذ پر نواب کا نام اور مختصر تاریخ درج ہے جب کہ ساری قبریں سنگِ مرمر کی ہیں اور پتھر پر خطاطی بھی کی گئی ہے۔قبروں کے ایک طرف چھوٹے بڑے ستون رکھے گئے ہیںجن کی اونچائی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ سردار مجتبیٰ کے مطابق ان اونچائیوں کے نیچے اوپر ہونے کی بھی حکمت ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ''یہ چھوٹے ستون ایک خاص پیمائش کی اکائی سے بنائے گئے ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کس نواب نے کتنا عرصہ حکومت کی۔ جس نے زیادہ حکومت کی ان کے مینار بڑے ہیں، جن کی حکومت کا دورانیہ مختصر تھا ان کے مینار چھوٹے ہیں۔‘‘
آخری قبر نواب صادق محمد خان خامس کی ہے جو ریاست بہاولپور کے آخری نواب تھے جنہوں نے 1955 میں ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا اور یوں بہاولپور کی الگ ریاستی شناخت ختم ہوگئی۔
مرکزی ہال کے باہر بنے مقبرے نواب خاندان کی خواتین کے ہیں۔نواب صادق محمد خان پنجم عباسی کی اہلیہ بھی غیر ملکی تھیں جن کا نام اوی لین جمیلہ تھا اور ان کی قبر بھی سفید رنگ کے پتھر کی ہے۔ ریاست بہاولپور کے آخری نواب صادق محمد خان خامس کی ایک اہلیہ برطانوی تھیں جن کا نام وکٹوریہ تھا۔ تاہم بعد میں مسلمان ہونے کے بعد ان کا نام غلام فاطمہ رکھا گیا۔ شاہی قبرستان کے احاطے میں آئیں تو قطار اندر قطار کھڑے مقبروں میں آپ کو وکٹوریہ کا مقبرہ نظر نہیں آئے گا۔مرکزی ہال سے نکل کر ہال کے دوسری طرف جائیں تو پائین کی طرف سفید سنگِ مرمر سے بنا ایک چھوٹا سا مزار ہے اور یہ نواب صادق محمد خامس کی قبر کے بالکل سامنے ہے تاہم مرکزی ہال کی دیوار اس کو جدا کرتی ہے۔نوابزادہ سردار مجتبیٰ خان رِند نے ریاست بہاولپور کی آخری خاتون اول کے مزار کے چھوٹے رکھے جانے اور باقی خواتین کے مزاروں سے ہٹ کے مرکزی ہال کی پچھلی طرف ہونے کی ایک دلچسپ وجہ بتائی۔وکٹوریہ نواب صادق خامس سے بہت پیار کرتی تھیں اور انہوں نے اسلام بھی قبول کر لیا تھا، تاہم مرنے سے قبل انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کو نواب صاحب کے قدموں میں دفن کیا جائے۔''یہ محبت کی ایک عظیم مثال تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی اس خواہش کو پورا کیا گیا اور بالکل نواب صادق محمد خان خامس کی قبر کے سامنے قدموں کی طرف ان کو سپرد خاک کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا مقبرہ بڑا نہ بنایا جائے کہ نواب صاحب کے مقبرے کی چھت سے اونچا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ باہر سے دیکھنے سے وکٹوریہ کا مقبرہ آپ کو نظر نہیں آئے گا اسے دیکھنے کے لیے مرکزی ہال سے باہر دوسری طرف جانا پڑتا ہے۔