بہاولپور کا شاہی قبرستان، غیر ملکی بیگمات کے سفید مقبرے

 بہاولپور کا شاہی قبرستان، غیر ملکی بیگمات کے سفید مقبرے

اسپیشل فیچر

تحریر : رائے شاہنواز


بہاولپور کے نوابوں کا ذاتی قبرستان شاہی قبرستان کے نام سے مشہور ہے لہٰذا اسے عام لوگوں کے لیے نہیں کھولا جاتا۔ چاردیواری کے اندر کئی طرح کے مقبرے ہیں۔ کچھ مقبروں کے گنبد روایتی سرائیکی اور سندھی فنونِ لطیفہ کے شاہکار ہیں جن پر نیلے رنگ کے پھول بوٹے ہیں اور یہ کشیدہ کاری ہاتھ سے کی گئی ہے۔ کچھ مقبرے سفید سنگِ مرمر کے پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔نوابزادہ سردار مجتبیٰ خان رِند جن کی والدہ اگرچہ عباسی خاندان کی ہیں تاہم رِند قبیلے سے ہونے کی وجہ سے اس خاندان کو بھی نواب کا درجہ حاصل ہے۔وہ مقبروں کے اس فرق کی وضاحت کچھ اس طریقے سے کرتے ہیں کہ ''یہ جو آپ کو سفید مقبرے نظر آرہے ہیں، یہ سفید پتھر فرانس سے درآمد کیا گیا تھا اور نوابوں کی جو ازواج غیر ملکی تھیں ان کے مقبرے سفید پتھر سے تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ جو ازواج اس خطے اور قبیلے کی تھیں ان کے مقبروں پر علاقائی رنگ آپ کو نمایاں نظر آئے گا۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ دونوں میں فرق کیا جا سکے۔‘‘
نوابوں کی غیر ملکی ازواج کے مقبرے سفید پتھر سے تعمیر کیے گئے ہیں۔اخروٹ کی لکڑی سے بنے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوں تو عالی شان مقبروں کی قطاریں اور شاہانہ طرزِ تعمیر آپ کو حصار میں لے لیتا ہے۔بائیں طرف ایک بڑے ہال میں ان 12 نوابوں کی قبریں ہیں جنہوں نے ریاست بہاولپور پر حکومت کی۔ ہر قبر کے تعویذ پر نواب کا نام اور مختصر تاریخ درج ہے جب کہ ساری قبریں سنگِ مرمر کی ہیں اور پتھر پر خطاطی بھی کی گئی ہے۔قبروں کے ایک طرف چھوٹے بڑے ستون رکھے گئے ہیںجن کی اونچائی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ سردار مجتبیٰ کے مطابق ان اونچائیوں کے نیچے اوپر ہونے کی بھی حکمت ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ''یہ چھوٹے ستون ایک خاص پیمائش کی اکائی سے بنائے گئے ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کس نواب نے کتنا عرصہ حکومت کی۔ جس نے زیادہ حکومت کی ان کے مینار بڑے ہیں، جن کی حکومت کا دورانیہ مختصر تھا ان کے مینار چھوٹے ہیں۔‘‘
آخری قبر نواب صادق محمد خان خامس کی ہے جو ریاست بہاولپور کے آخری نواب تھے جنہوں نے 1955 میں ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا اور یوں بہاولپور کی الگ ریاستی شناخت ختم ہوگئی۔
مرکزی ہال کے باہر بنے مقبرے نواب خاندان کی خواتین کے ہیں۔نواب صادق محمد خان پنجم عباسی کی اہلیہ بھی غیر ملکی تھیں جن کا نام اوی لین جمیلہ تھا اور ان کی قبر بھی سفید رنگ کے پتھر کی ہے۔ ریاست بہاولپور کے آخری نواب صادق محمد خان خامس کی ایک اہلیہ برطانوی تھیں جن کا نام وکٹوریہ تھا۔ تاہم بعد میں مسلمان ہونے کے بعد ان کا نام غلام فاطمہ رکھا گیا۔ شاہی قبرستان کے احاطے میں آئیں تو قطار اندر قطار کھڑے مقبروں میں آپ کو وکٹوریہ کا مقبرہ نظر نہیں آئے گا۔مرکزی ہال سے نکل کر ہال کے دوسری طرف جائیں تو پائین کی طرف سفید سنگِ مرمر سے بنا ایک چھوٹا سا مزار ہے اور یہ نواب صادق محمد خامس کی قبر کے بالکل سامنے ہے تاہم مرکزی ہال کی دیوار اس کو جدا کرتی ہے۔نوابزادہ سردار مجتبیٰ خان رِند نے ریاست بہاولپور کی آخری خاتون اول کے مزار کے چھوٹے رکھے جانے اور باقی خواتین کے مزاروں سے ہٹ کے مرکزی ہال کی پچھلی طرف ہونے کی ایک دلچسپ وجہ بتائی۔وکٹوریہ نواب صادق خامس سے بہت پیار کرتی تھیں اور انہوں نے اسلام بھی قبول کر لیا تھا، تاہم مرنے سے قبل انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کو نواب صاحب کے قدموں میں دفن کیا جائے۔''یہ محبت کی ایک عظیم مثال تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی اس خواہش کو پورا کیا گیا اور بالکل نواب صادق محمد خان خامس کی قبر کے سامنے قدموں کی طرف ان کو سپرد خاک کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا مقبرہ بڑا نہ بنایا جائے کہ نواب صاحب کے مقبرے کی چھت سے اونچا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ باہر سے دیکھنے سے وکٹوریہ کا مقبرہ آپ کو نظر نہیں آئے گا اسے دیکھنے کے لیے مرکزی ہال سے باہر دوسری طرف جانا پڑتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
کیلاش شادی سے مہنگی موت

کیلاش شادی سے مہنگی موت

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادیٔ کیلاش کے باسی لمحہ لمحہ جدید ہوتی دنیا میں بھی دو ہزار سال پرانی رسوم نبھائے جا رہے ہیں اور وہ اپنے قبیلے کی روایات کو بوجھ بھی نہیں سمجھتے، چاہے اس کیلئے انہیں کتنی ہی مشکل کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ہم پانچویں بار کیلاش جا رہے تھے۔ دیر بالا کی سنسان راہوں سے ہوتے ہوئے لواری کے قریب پہنچے تو ساڑھے دس کلومیٹر طویل لواری سرنگ ہماری منتظر تھی۔ اس سے قبل لواری ٹاپ کی برفیلی بلندیاں اہالیان چترال کیلئے عذاب تھیں، انہیں پشاور یا اسلام آباد جانے کیلئے بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا تھا۔ سال بھر میں صرف تین ماہ کیلئے لواری ٹاپ کی برف پگھلتی تو زمینی راستہ کھلتا۔ اب کی بار سرنگ نے دس گھنٹے کا سفر دس منٹ میں بدل کر آسان کر دیا۔ 1971ء کا یہ منصوبہ 2017ء میں مکمل ہوا تھا۔دریائے چترال ہماری بائیں سمت بہتا تھا اور ہم پانی کی روانی کی مخالف سمت میں بڑھتے چلے جاتے تھے۔ نگر کا قصبہ آیا اور فوجی چیک پوسٹ سے گزر کر ہم تحصیل دروش جا پہنچے۔ صرف 31 کلومیٹر کے فاصلے پر افغانستان کی حدود کا آغاز تھا، مگر ہم چترال کی طرف مڑ گئے۔ دروش چار گھنٹوں کی مسافت کے بعد یہ پہلا شہر تھا جہاں زندگی رواں تھی۔دروش کے بعد دریائے چترال کے کنارے ایون کا بس سٹاپ ہمارا دوسرا پڑاؤ تھا۔ الیگزینڈرا ہوٹل کیلاش کے مالک سراج نے ہمارے لیے وادیِ بمبوریت جانے والی جیپ بک کروا رکھی تھی۔ ہم نے اپنی کار پیٹرول پمپ پر پارک کی اور جیپ پر سوار ہو کر دریا پار کرگئے۔ زرخیز اور شاداب باغات کے بعد سنگلاخ چٹانوں اور کچھ ندیوں نے بارہا ہمارا رستہ مشکل بنایا مگر تین گھنٹے کی دشوار گزاری کے بعد ہم خوابوں کی سرزمین کیلاش میں داخل ہوگئے۔یہ وادیِ بمبوریت کا گاؤں کراکال تھا۔ کھیتوں میں کام کرتی خواتین سیاہ رنگ روایتی لباس پہنے کسی فلم کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ سروں پر بیش رنگ ٹوپیاں اور سیاہ رنگ فراکوں پر سرخ و سبز دھاریاں ان کا روایتی لباس تھا۔کیلاش کی تین وادیاں بمبوریت، رمبور اور برون کافرستان کہلاتی ہیں، مگر کیلاش کے لوگ یہ نام پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک کافرستان کہنے والے دراصل نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم الیگزینڈرا ہوٹل کے مہمان تھے اور شام کے کھانے میں اپنے کیلاشی دوست میاں گل سے چکن کڑاہی کی فرمائش کرتے ہوئے بھول گئے تھے کہ ان کے نزدیک مرغی ممنوع ہے، جیسے شراب ہمارے ہاں حرام ہے۔اخروٹ کے درختوں کے حصار میں ایستادہ لکڑی کے کمرے میں رات بسر ہوئی اور صبح ہم بشالی کی طرف گئے جہاں عورتیں اپنے مخصوص ایام گزارتی ہیں۔ کراکال گاؤں کے آخر میں کھلے عام رکھے تابوت دو ہزار سال قدیم روایات کے تسلسل کی شہادت دے رہے تھے۔ کیلاشی قبرستان کے سامنے تہہ در تہہ بنے گھروندے تھے اور ہم تنگ گلی سے گزر کر زائنہ کے گھر پہنچ گئے۔سیاسیات میں ایم فل کرنے والی زائنہ اپنے کمرے کی سیاہ دیواروں کو ثقافت کا نام دے رہی تھی۔ میرے سوال پر وہ چونک اٹھی اور کہا کہ ہاں بالکل میں روایات کی پابند ہوں۔ گھر میں نہانے کے بجائے بمبوریت ندی پر بنی مخصوص جگہ پر نہاتی ہوں، گھر میں بال نہیں سنوارتی کیونکہ کنگھی میں پھنسے بال نحوست پھیلاتے ہیں۔میرے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کہ چترال یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی جدید دور کی لڑکی ذرا برابر اپنی ثقافت سے منحرف نہیں تھی۔ زائنہ کیا تم بھی گھر سے بھاگ کر شادی کرو گی؟‘ میں نے ایک مشکل سوال کر دیا۔جی بالکل، ہماری روایت میں محبت کی شادی ہوتی ہے اور ہمیشہ بھاگ کر ہی ہوتی ہے، زائنہ نے تسلی سے جواب دیا۔دیکھو، ہمارے کلچر میں زنا یا جسم فروشی نہیں ہے، ہم پسند اور محبت کی شادی کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے خفیہ تعلقات کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، یہاں پر جبری شادیاں بھی نہیں ہوتیں۔مگر کیلاش سے منفی کہانیاں کیوں جڑی ہوئی ہیں؟ میں نے وہ سوال کر دیا جو شاید بنتا نہیں تھا۔ کیلاشی اقلیت ہیں، اس لیے ایسی خود ساختہ کہانیاں اقلیتوں کا مقدر ہوتی ہیں حالانکہ ان سب چیزوں کیلئے کیلاش نو گو ایریا ہے،زائنہ کے جواب میں اعتماد تھا۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کیلاش میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، سچ بات تو یہ ہے کیلاشی لڑکیاں ہی نہیں دنیا بھر کی عورتیں بھی محبت کے نام پر دھوکہ کھا جاتی ہیں اور یہی کیلاش کی کچھ لڑکیوں کے ساتھ ہوا جو محبت کے نام پر خواب سجائے، تبدیلی مذہب کے عمل سے گزریں اور انہیں بیوی بنا کر لے جانے والے خاندان کے سامنے اپنی محبت کا دفاع نہ کرسکے اور کیلاشی لڑکیاں دربدر ہو گئیں۔زائنہ اپنی روایات، ثقافت اور رسوم کے متعلق بتاتے ہوئے بارہا آبدیدہ ہوئیں۔ غربت کے باوجود مہنگی رسومات پر عمل کرنا ان کی مجبوری ہے۔ شادی اور موت، دونوں بہت مہنگے ہیں۔ سال بھر کے تین تہوار صرف موسم کی تبدیلی کا جشن ہیں۔''چلم جوش‘‘ کیلاشوں کی عید ہے جو ہر سال 13 مئی سے 16 مئی تک منائی جاتی ہے۔ اس تہوار پر لڑکیاں ڈھول کی تھاپ پر دائروں میں گھومتی ہیں اور گیت گاتی ہیں، یہی ان کی عبادت ہے۔ یہ سردی کے بعد بہار کی آمد کا جشن ہے۔ کیلاشوں کا ایک ہجوم پھول ہاتھ میں لیے امڈ آتا ہے۔ انگوروں کے گچھے بیلوں سے اتارے جاتے ہیں۔ دائروں میں ہونے والا رقص صرف ذاتی سرشاری کیلئے ہوتا ہے۔ یہ جشن عیدین، دیوالی، بیساکھی اور ہولی سے زیادہ جذباتی تھا اور اس روز ہم بھی اس جشن کا حصہ تھے۔ چلم جوش کے رقص میں ایک دوسرے کو پسند کرنے والے جوڑے ''اوچال‘‘ کے تہوار پر شادیاں کرتے ہیں۔ اوچال کا جشن 18 اگست سے شروع ہو کر 21 اگست تک منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار''چاو موس‘‘ آٹھ دسمبر سے 22 دسمبر تک رہتا ہے جس میں صحت و سلامتی کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ دسمبر میں ہونے والا جشن ''چاو موس‘‘ نئے سورج کے پیدا ہونے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ اگر کوئی غیر کیلاشی لڑکا کیلاشی لڑکی کو پسند کرلے اور لڑکی بھی شادی پر رضا مند ہو جائے تو لڑکی اپنے والدین کو مطلع کر دیتی ہے کہ وہ رات کو بھاگ جائے گی۔ گھر چھوڑنے سے پہلے لڑکی اپنے محبوب کا نام اور گھر کا پتہ والدین کو بتا دیتی ہے۔پیشگی اطلاع کے باوجود غیرت کے نام پر خون خرابا ہوتا ہے اور نہ ہی پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ کیلاش رواج کے مطابق گھر سے بھاگ جانے والی لڑکی اپنے والدین کا انتظار کرتی ہے اور کسی طرح کا جسمانی تعلق قائم نہیں کرتی۔ باقاعدہ رسم ہونے تک لڑکی لڑکے کی ماں یا بہن کے کمرے میں سوتی ہے۔لڑکی والے کیلاش بزرگ ایک بار بیٹی کو واپس گھر لے جاتے ہیں اور شادی کی تاریخ طے کرکے بارات کو کیلاش بلایا جاتا ہے اور پھر روایات کے مطابق رخصتی ہوتی ہے۔ مہمانوں کی تواضع بکرے کے گوشت اور پنیر سے کی جاتی ہے۔ بکرے کو ذبح کرتے ہوئے جو خون نکلتا ہے وہی نکاح کا اعلان ہوتا ہے۔بکرا کیلاش والوں کا ہو تو میاں بیوی میں سے صرف ایک کھاتا ہے اور اگر باہر سے خرید کر لایا گیا ہو تو پھر دونوں کھاتے ہیں۔ شادی کے بعد کیلاشی لڑکی جب اپنے شوہر کو میکے لاتی ہے تو دلہن کے ہر رشتہ دار کو دولہا 20، 20 ہزار روپے ادا کرتا ہے اور ایک نئی دیگ تحفے میں دیتا ہے۔ کیلاشی لڑکی سے شادی کرنے والا دولہا اگر مسلمان ہو تو وہ لڑکی کو کلمہ پڑھا کر سبھی رسوم و روایات سے منحرف ہو کر بہت سے کیلاشی اخراجات سے بچ جاتا ہے۔دولہا کیلاشی ہو تو سارا قبیلہ لڑکے کے گھر جمع ہوتا ہے اور ساری برادری تحائف دیتی ہے جسے جہیز کے طور پر دلہن کے سپرد کیا جاتا ہے۔ لڑکی کو میکے سے کم از کم 30 بکریاں اور ایک گائے جہیز کے طور پر ملتی ہے۔ لڑکی کے ماموں کو دولہا ایک بیل یا پھر 50 ہزار روپے دیتا ہے۔کیلاش میں شادی شدہ مرد یا عورت کا کسی دوسرے سے ناجائز تعلق ثابت ہو جائے تو جوڑے میں طلاق ہو جاتی ہے اور سابق شوہر کو ملزم مرد وہ تمام اخراجات ادا کرتا ہے جو اس کی شادی پر خرچ ہوئے تھے۔کیلاش اپنی روایات نبھاتے ہوئے زمینیں سستے داموں بیچ بیٹھے ہیں۔ جدید دور میں بھی روایات سے انحراف گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اسی لیے زائنہ تعلیم یافتہ ہو کر بھی اپنی روایات نباہ رہی ہے۔ زائنہ نے ہمارے لیے گھر میں چائے صرف اس ڈر سے نہ بنائی کہ ہم کافر چائے پینے سے انکار نہ کر دیں، بازار سے بوتلیں منگوائی گئیں۔

امریکہ کے ابتدائی باشندے

امریکہ کے ابتدائی باشندے

12 ہزار سال سے بھی پہلے انڈینز ہجرت کر کے براعظم امریکہ پر آباد ہونا شروع ہوئے اور مختلف تہذیبوں اور معاشروں کی تشکیل کرتے چلے گئے۔ برطانوی نوآبادیات نے 1607 ء میں ورجینیا میں تیرہ کالونیوں کی پہلی آباد کاری کی۔ ٹیکس اور سیاسی نمائندگی پر برطانوی ولی عہد کے ساتھ جھڑپوں نے امریکی انقلاب کو جنم دیا، دوسری کانٹی نینٹل کانگریس نے 4 جولائی 1776ء کو باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کیا۔ انقلابی جنگ پورے شمالی امریکہ میں پھیلتی چلی گئی۔جس نے دیگر امریکی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ غلامی پر سیکشنل تقسیم کے نتیجے میں کنفیڈریٹ ریاستوں کی علیحدگی ہوئی، جس نے امریکی خانہ جنگی کے دوران یونین کی باقی ریاستوں سے جنگ کی۔ یونین کی فتح اور تحفظ کے ساتھ، غلامی کو قومی سطح پر ختم کر دیا گیا۔ 1890ء تک امریکہ خود کو ایک عظیم طاقت کے طور پر قائم کر چکا تھا۔ دسمبر 1941ء میں پرل ہاربر پر جاپان کے حملے کے بعد، امریکہ دوسری جنگ عظیم کا حصہ بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین دنیا کے نقشے پر دو سپر پاور بن کر ابھریں۔ اس کے بعد دنیا میں سرد جنگ کا آغاز ہوا جس کے دوران دونوں ممالک نظریاتی غلبہ اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور 1991ء میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور رہ گئی۔اگر امریکہ میں آبادکاری کے ابتدا کی بات کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ میں آبادکاری ایشیائیوں نے کی۔ خیال یہ ہے کہ یہ لوگ سائبیریا سے ہوتے ہوئے آبنائے بیرگ کے راستے الاسکا میں داخل ہوئے ۔ پھر الاسکا کے مشہور دریا یوکان کے ساتھ ساتھ اندرون ملک کی طرف بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ کینیڈا کے اندر میکنزی پر پہنچ گئے۔ بعد ازاں اس کے ساتھ ساتھ نیچے کی طرف سفر شروع کیا۔ یہاں تک کہ وسطی اور جنوبی امریکہ میں سکونت اختیار کرلی۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کے بعض گروہ جنوبی ایشیایا اوشیانہ سے روانہ ہوئے اور آہستہ آہستہ امریکہ میں داخل ہوگئے۔ لیکن اس نظریے کیلئے اطمینان بخش شہادت نہیں ملتی اور اسے ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔امریکہ میں آبادی کب ہوئی؟امریکہ میں تارکین وطن کے پہلے پہل پہنچنے کی تاریخ کے متعلق اختلاف ہے۔ آثار قدیمہ کے اکثر امریکی ماہروں کا خیال یہ ہے کہ یہ واقعہ آری فرستانی دور کے ختم ہونے کے بعد کا ہے۔ مختلف حصوں میں ابتدائی سنگی دور کے کچھ اوزار بھی ملے ہیں لیکن ایسی کوئی صنعت نہیں ملی جس کا پرانی دنیا کے ابتدائی سنگی صنعت سے کوئی تعلق ہو اور ایسے ڈھانچے بھی نہیں ملے جو امریکہ کے اصل باشندوں کے ان ڈھانچوں سے مختلف سے ہوں جن کا تعلق موجودہ زمانے سے ہے۔ البتہ کیلی فورنیا سے ٹکساس تک جو کھدائی ہوئی اس میں بعض ایسے اوزار ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جس زمانے کے وہ اوزار ہیں اس وقت یہ خطے بہت سرد تھے اور وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی تھیں۔ بعض حالتوں میں ان اوزاروں کے ساتھ قدیم زمانے کے میمتھ ہاتھیوں، اونٹوں اور دوسرے معدوم جانوروں کے ڈھانچے بھی ملے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں آبادی اگر فرستانی دور میں نہیں تو اس کے فوراً بعد شروع ہوچکی تھی۔امریکہ کی نسلی خصوصیاتامریکہ میں جو انڈین آباد ہیں ان کی جسمانی خصوصیات میں منگولی نسل کی شہادتیں بالکل واضح ہیں۔ لیکن ان میں دوسری نسلوں کی آمیزش بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً اہل یورپ اور حبشیوں کی۔ شمالی و جنوبی امریکہ دونوں ملکوں میں لمبوترے سر والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو ابتدائی آباد کاروں کے خلاف ہیں۔ سولہویں سترھویں صدی میں اہل یورپ امریکہ پہنچے تو بعض مقامی باشندوں کا گزارا نباتاتی خوراک پر تھا اور وہ کھانے پینے کی چیزیں جمع کرلیتے تھے۔ گویا وہ ابتدائی سنگی دور سے باہر نکلے تھے۔ لیکن اکثریت نئے سنگی دور میں داخل ہوچکی تھی۔امریکہ کی تہذیب و ثقافت امریکہ میں خاصی ترقی یا فتہ ثقافت دو ہزار سال پیشتر نمودار ہوگئی تھی۔ اس کے خاص مقامات یہ تھے۔ جنوبی امریکہ میں کوہ انڈیز کا علاقہ، وسطی امریکہ اور میکسیکو میں پہاڑی علاقے۔ یہاں ایسی اونچی تہذیب نشوؤ نماپا چکی تھی جو پرانی دنیا کی تہذیبوں سے پہلو مارتی تھی۔ اگرچہ اس تہذیب سے بالکل الگ تھلگ ظہور پذیر ہوئی تھی۔ اعلیٰ درجے کے کپڑے بنے جاتے تھے، کھیتی باڑی ہوتی تھی، مٹی کے نہایت عمدہ برتن بنتے تھے۔ سونے چاندی اور تانبے کے شاندارزیور بنائے جاتے تھے۔ بڑے بڑے شہر آباد ہوگئے تھے۔ ان میں نہریں تھیں، باغ تھے، عالیشان مندر تھے جو اونچے مقامات پر بنائے جاتے تھے۔ ان کے مذہبی پیشوا سیاسی اختیارات کے مالک ہوتے تھے۔ ان کے پاس باقاعدہ فوجیں تھیں ، درس گاہیں جاری تھیں، عدالتیں قائم تھیں، علم ہیئت میں وہ بڑی ترقی کر چکے تھے اور وہ صحیح جنتریاں تیار کرلیتے تھے۔

آج کا دن

آج کا دن

بائیسکل کی ایجاد کے جملہ حقوق حاصل کئے گئے26جون 1819ء کو جرمن موجد بارون کارل فان ڈرائس نے بائیسکل کی ایجاد کے جملہ حقوق حاصل کئے۔ کارل فان ڈرائس نے ایک ایسی مشین بنائی تھی جو آگے چل کر آج کی بائیسکل کی بنیاد بنی۔ انہوں نے لکڑی کے ایک فریم اور لوہے کے دو پہیوں کو آپس میں جوڑا، بغیر پیڈل کے اس مشین کو ''ڈرائسینے‘‘ کا نام دیا گیا،جس کا وزن 25 کلوگرام تھا۔1816ء میں ڈرائسںنے جب اپنی ایجاد کی ہوئی یہ سائیکل، جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے لے کر جرمنی کی سڑکوں پر نکلے تو وہاں کے لوگ انہیں بڑے تعجب سے دیکھ رہے تھے۔آج یہ ایجاد دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔جون بغاوت کا خاتمہ26جون1848ء کو فرانسیسی کارکنوں کی جانب سے ملک گیر بغاوت کا خاتمہ ہوا۔ اس بغاوت کی ابتداء22جون کو ہوئی جب حکومت کی جانب سے قومی کارخانوں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ فرانس کے نیشنل گارڈز کو اس بغاوت کو کچلنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان کی قیادت جنرل لوئس کر رہے تھے ۔ بغاوت کو روکنے کیلئے نیشنل گارڈز نے کھلے عام طاقت کا استعمال کیا اور اس آپریشن میں تقریباً10ہزار افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔4ہزار افراد کو ملک بدر کر کے فرانسیسی جزائر منتقل کر دیا گیا۔حکومت نے طاقت کے استعمال سے بغاوت کو تو روک لیا لیکن اس دوران ملک کے نظام کو بہت نقصان پہنچا۔جنگ فلورس26جون1794ء کو لڑی جانے والی جنگ فلورس، فرانس اور پہلی مرتبہ اتحاد کے نتیجے میں تشکیل پانے والی اتحادی افواج کے درمیان پہلی جنگ تھی۔ دونوں افواج تقریباً 80 ہزار افراد پر مشتمل تھیں۔اس جنگ میں فرانس اپنی افواج کو منظم کرنے اور اتحادی افواج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ اتحادیوں کی شکست آسٹریا اورہالینڈ کے مستقل نقصان اور ڈچ جمہوریہ کی تباہی کا باعث بنی۔ یہ جنگ فرانسیسی فوج کیلئے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی اور ان کا مورال بلند ہوتا چلا گیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا اور بقیہ جنگ میں بھی اتحادیوں کی نسبت فرانسیسی افواج کا پلڑا بھاری رہا۔کرمہ دھماکہعراق کے علاقے الکرمہ میں 26جون 2008ء میں قبائلی شیوخ کا ایک اجلاس جاری تھا کہ اچانک وہاں ایک خودکش حملہ ہوا۔عراقی افواج کی دوسری بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر سمیت بیس عراقی شیخ اور کرمہ کے مئیر بھی اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔حملہ آور نے عراقی پولیس کا لباس پہن رکھا تھا اس لئے وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اجلاس تک پہنچے میں کامیاب رہا۔ دھماکے میں دو ترجمان بھی ہلاک ہوئے۔ بم دھماکے سے منسلک دو باغیوں کو بعد میں تماریہ میں پکڑا گیا۔اس دھماکے کے بعد پورے ملک کی سکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔   

آلو۔۔ جو دس لاکھ ہلاکتوں کا باعث بنا

آلو۔۔ جو دس لاکھ ہلاکتوں کا باعث بنا

کیا ایسا کبھی سوچا بھی جا سکتا ہے کہ ایک آلو کسی انسان کی ہلاکت کا باعث بنا ہو ؟ بادی النظر میں ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن تاریخ کے اوراق میںایسا ایک واقعہ درج ہے جس کے مطابق آئر لینڈ میں 1845ء سے 1849ء کے درمیان آلووں کے سبب دس لاکھ سے زائد انسانی ہلاکتوں کا ذکر ملتا ہے ( جبکہ بعض کتابوں میں ان ہلاکتوں کی تعداد بیس لاکھ بتائی جاتی ہے)۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان آلووں کی وجہ سے30 لاکھ سے زائد افراد آئر لینڈ سے مختلف ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور بھی ہو گئے تھے۔ یہ سن کر قدرتی طور پر ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اس سانحہ کا سبب آخر کیا تھا ؟۔جہاں تک وجوہات کا تعلق ہے ، مورخین کے بقول ''ہر سانحہ کے پیچھے اس کی ایک تاریخ ہوا کرتی ہے‘‘۔ چنانچہ اس سانحہ کی تہہ تک پہنچنے کیلئے ہم بھی ''آلو کی تاریخ‘‘ کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں۔آلو۔۔تاریخ کے آئینے میںایک امریکی مصنفہ ربیکا ارل اپنی ایک تصنیف ''فیڈنگ دا پیپل ‘‘ کے ایک باب '' دا پالیٹکس آف دا پوٹیٹو ( لوگوں کی خوراک:آلو کی سیاست ) میں کہتی ہیں '' اس سادہ سی شے یعنی آلو کا اصل وطن جنوبی امریکہ کا خطہ انڈیز ہے جبکہ اس کی دریافت کا سہرا ہسپانوی فاتحین کے سر ہے جنہوں نے 15 ویں صدی کے آخر میں ماونٹ انڈیز میں آلو دریافت کیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ آج سے لگ بھگ آٹھ ہزار سال پہلے انڈیز میں لیک ٹیٹی کاکا کے مقام پر گھریلو استعمال میں آچکا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت آلو صرف ایک جنگلی فصل ہوا کرتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیز میں آلو کیلئے انتہائی موزوں اور موافق جینیاتی تنوع پایا جاتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک آلو کو اپنی غذا کا اہم حصہ بنانے کیلئے بے قرار تو تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ سپین اور یورپ کے دیگر حصوں میں دن کی طوالت یعنی بارہ گھنٹے مسلسل دھوپ نے آلو کی کاشت کا ان علاقوں میں ساتھ نہ دیا۔ مختلف تجربات کے بعد جب انہوں نے خزاں میں یعنی موسم سرما کے آغاز سے قبل اسے کاشت کیا تو یہ خوب پھلا پھولا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع شروع میں یورپ میں آلو کو ایک جنگلی فصل کا طعنہ دے کر کبھی زہریلا اور کبھی اسے مرگی کا ذمہ دار ٹھہرا کر نظر انداز کیا جاتا رہا، لیکن رفتہ رفتہ دنیا کے دیگر خطوں کی مانند یہ یورپ میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔سپین کے دیکھا دیکھی 1580ء میں آئر لینڈ نے بھی اس فصل کو خزاں کے ٹھنڈے موسم یعنی کہر کے موسم سے پہلے پہلے کاشت کرنا شروع کیا تو یہاں بھی اس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ جبکہ آئر لینڈ سے 1600ء میں آلو برطانیہ اور پھر شمالی یورپ جا پہنچا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں یورپ سے آلو برصغیر پہنچا ، اس کے کچھ ہی عرصہ بعد بھارت سے چین پہنچا۔ 1650ء میں یہ جرمنی ، یروشیا اور پھر 1740ء میں پولینڈ میں بھی کاشت ہونا شروع ہوا۔ اس کے ایک صدی بعد یعنی لگ بھگ 1840ء میں آلو روس میں بھی پنجے گاڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں اکثر ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ایک سادہ سا اناج آلو جو انڈیز سے اپنی شروعات کرتا ہے ،محض چند صدیوں میں پوری دنیا کی مقبول ترین غذا کیسے بنا ؟ آلو کی مقبولیت کا سبب کیا تھا ؟آلو شاید ان چند فصلوں میں شامل ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ ملکوں کی مقبول ترین غذا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انڈیز کی اس فصل نے محض چند صدیوں میں دنیا کے کونے کونے میں اپنی جگہ بنا لی۔ بادی النظر میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی مقبولیت کی وجہ اس کی بے پناہ غذائیت ہے ، دیگر زرعی اجناس کے مقابلے میں اس کی اوسط پیداوار بہتر ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر زیر زمین اگنے کی صلاحیت اسے دوسری اجناس سے اس لئے ممتاز کرتی تھی کہ گئے دنوں کی جنگوں میں یہ لگان وصول کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل رہتی تھی۔اس کے علاوہ آلو کسانوں کیلئے ایک قیمتی فصل کا درجہ اختیار کر گئی کیونکہ باقی فصلوں کے مقابلے میں اس کی فی ایکڑ پیداواری آمدن کئی گنا زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے کاشت کرنا اور ذخیرہ کرنا بھی نسبتاً آسان تھا۔ آلو بارے ماہرین غذائیت اور معالجین کہتے ہیں ''آلو میں وٹامن اے اور وٹامن ڈی سمیت تمام غذائی اجزاء بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زندگی کیلئے ضروری غذائی عوامل کی وجہ سے کوئی دوسری غذا اس جنس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے‘‘۔معروف عالمی جریدہ ''کوارٹرلی جرنل آف اکنامکس‘‘ ، اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں آلو کے خواص پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے ''آلو کھانے والوں کے قد میں ڈیڑھ انچ تک کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ایک معاشی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 1700 کے بعد پیدا ہونے والے فرانسیسی فوجی جو آلو کھاتے تھے وہ دوسروں کے مقابلے میں دراز قد کے مالک تھے‘‘۔بعض محققین کے مطابق1700ء اور 1900ء کے درمیان دنیا کی آبادی میں ایک چوتھائی اضافہ آلو کی وجہ سے ہوا تھا۔محققہ ارل کہتی ہیں ، انڈیز میں اس کے جنم کے باوجود یہ ایک زبردست کامیاب عالمی غذا ہے۔ اب یہ دنیا کے ہر خطے میں پیدا ہوتا ہے اور دنیا کے ہر حصے کے لوگ اسے اپنی خوراک سمجھتے ہیں۔ایک جگہ ارل اس کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں ، آلو ، گندم، چاول اور مکئی کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا اناج ہے ، جبکہ غیر اناج میں یہ دنیا کی سب سے بڑی فصل ہے۔ آلو پر مکمل انحصار آئر لینڈ کو لے ڈوبا 16 ویں صدی سے ہی آئر لینڈ وہ واحد ملک تھا جس نے زرعی اجناس کی دنیا میں آلو کی کاشت پر اپنا انحصار حد سے زیادہ بڑھا لیا تھا ۔ اس کی ایک تو سب سے بڑی وجہ آلو کو زیادہ سازگار موسم کا میسر آنا تھا جبکہ اس کے علاوہ یہ مقامی طور پر ایک مقبول ترین غذا بھی بن چکا تھا۔ جس کی وجہ سے آئر لینڈ نے رفتہ رفتہ باقی اجناس پر انحصار ا تنہائی کم کردیا تھا۔ آلو پر آئرلینڈ کا انحصار اس وقت تک جاری رہا جب تک آئرلینڈ میں 1845ء اور1849ء کے درمیان شمالی امریکہ سے آئے ایک وائرس نے آئر لینڈ کی آلو کی فصل کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔چند عشروں پر محیط فاقہ کشی نے جہاں دس لاکھ سے زیادہ جانیں لے لیں اور تیس لاکھ افراد کو دوسرے ممالک میں ہجرت پر مجبور کر دیا وہیں آئر لینڈ کی سماجی اور معاشی زندگی پرانمٹ نقوش بھی چھوڑے۔ بعض ماہرین کے بقول آلو جو آئرلینڈ کے لوگوں کی زندگیوں کا ضامن تھا اب وہی ان کی موت کا سبب بنا‘‘۔اس قحط کے بعد لوگوں میں کم از کم یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ حکومتی غلط منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک کی 80 فیصد غذائی ضروریات کا انحصار آلو جبکہ صرف 20 فیصد دیگر اجناس پر کیا جاتا تھا، جو بالآخر آئرلینڈ کی تباہی کا سبب بنا ‘‘۔آئرر لینڈ کی آبادی میں آلو کی بدولت سو سال میں 60 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا تھا جبکہ آلو کی فصل تباہ ہونے کی وجہ سے آئر لینڈ کی آبادی میں چھ سال میں 20 لاکھ کی کمی واقع ہوئی تھی۔        

عظیم مسلم سائنسدان ابن عراق

عظیم مسلم سائنسدان ابن عراق

ابن عراق غالباًفارس کے شہر گیلانی کا باشندہ تھا۔ ممکن ہے، اس کا تعلق بنو عراق کے شاہی خاندان سے ہو جو محمود غزنوی کی فتح سے پہلے خوارزم پر حکمران تھا۔ ابو نصر کے نام کے ساتھ ''الامیر‘‘ اور ''مولاامیر المومنین‘‘ جیسے القابات اس کے شاہی خاندان سے تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ ابوالوفا البوزجانی کے شاگرد خاص اور البیرونی کے استاد تھے۔ ابن عراق نے زندگی کا بیشترحصہ بادشاہوں کے درباروں میں گزارا۔ علی بن مامون اور ابو العباس مامون علم پرور حکمران تھے اور وہ مسلمان سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے۔ جن سائنس دانوں کی انہوں نے سرپرستی کی ان میں ابن عراق کے علاوہ البیرونی اور ابن سینا بھی شامل ہیں۔1016ء کے لگ بھگ ابوالعباس مامون کی وفات ہوئی تو ابن عراق اور البیرونی خوارزم چھوڑ کر غزنی چلے گئے اور سلطان محمود غزنوی کے دربار سے منسلک ہو گئے،جہاں ابن عراق نے اپنی ساری زندگی گزار دی۔ اس کا سنہ وفات حتمی طور پر معلوم نہیں، لیکن اندازاً اس نے 1036ء میں غزنی میں انتقال کیا۔ ابن عراق کو زیادہ شہرت البیرونی کی معاونت کے باعث حاصل ہوئی۔ اگرچہ عام خیال یہ ہے کہ یہ معاونت 1008ء کے قریب اس وقت شروع ہوئی جب البیرونی جرجان(موجودہ قونیہ ارگنج۔ روسی ترکمانستان) کے دربار سے علیحدہ ہو کر خوارزم آیا۔ اس ضمن میں 1008ء سے پہلے کی کوئی تاریخ بھی قرین قیاس ہے اور اس کے واضح ثبوت موجود ہیں، مثلاً البیرونی نے اپنی کتاب ''الآثار الباقیہ‘‘ کی تکمیل 1000ء میں کی، اس میں وہ ابن عراق کو ''استاذی‘‘ (میرے استاد) لکھتا ہے۔ اسی طرح ابن عراق نے سمت الراس کے موضوع پر اپنی کتاب کو 998ء سے قبل لکھا اور اس کو اپنے شاگرد کے نام معنون کیا ہے۔ابن عراق اور البیرونی کی معاونت کے نتیجہ میں بعض کتابوں کے اصل مصنف کی تعیین میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔ مثال کے طور پر البیرونی نے بارہ کتابوں کی ایک فہرست دی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ''باسمی‘‘ (میرے نام سے) لکھی گئیں۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کی روشنی میں علماء نے ان کتابوں کو اس کی اپنی تصنیف قرار دیا ہے۔ لیکن اطالوی مستشرق نلینو کے خیال میں ''باسمی‘‘ کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ کتابیں میرے نام معنون کی گئیں یا ان میں مجھے خطاب کیا گیا۔ ہو سکتا ہے ابن عراق نے یہ کتابیں معنون کی ہوں۔ نلینو کی اس رائے کی تائید میں بعض نظائر پیش کئے جا سکتے ہیں مثلاً ان الفاظ میں اس مفہوم کو قدیم اور جدید دونوں قسم کی کتابوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ قدیم کتب میں اس کی مثال کتاب''مفاتیح العلوم‘‘ (مصنفہ محمد بن احمد الخوارزی، سنہ تالیف977ء) ہے۔ ان سب کتابوں کے اصل مصنفین کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جہاں تک البیرونی کا ان کتابوں سے تعلق ہے تو ان کے ابتدائیہ اور نفس مضمون دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہیں ابن عراق نے البیرونی کی اس درخواست پر لکھا کہ وہ ان متعین مسائل کا حل بتائیں جو البیرونی کی سائنسی تحقیقات کے دوران پیدا ہوئے۔ خود البیرونی نے اپنی کتابوں میں ابن عراق کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ بعض ایسی تحقیقات کے نتائج اس نے اپنی کتابوں میں شامل کئے جو اس کے کہنے پر اس شیخ کبیر نے شروع کیں۔ البیرونی نے ان دریافتوں پر ابن عراق کی بڑی تحسین کی ہے۔ دوسرے معاونین کے بارے میں بھی البیرونی کا رویہ یہی ہے اور اس نے ابو سہل المسیحی ، ابو علی الحسن بن الجیلی (جو ایک غیر معروف نام ہے) اور ابن سینا وغیرہ کا نہایت عزت و احترام سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس کے پیش کردہ فلسفیانہ سوالوں کے جوابات فراہم کئے۔البیرونی اور ابن عراق کی معاونت کا اندازہ اوّل الذکر کے اس کام سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے طریق الشمس کے جھکائو کی مقدار کے تعین کے سلسلہ میں کیا ہے۔ اس نے اپنے مشاہدات خوارزم میں 997ء میں اور غزنی میں 1016ء،1019ء اور 1020ء میں ترتیب دیئے۔ اس السرطان اور راس الجدی پر سورج کے پہنچنے کے دن نصف النہار کے وقت سورج کا ارتفاع دریافت کرنے کا قدیم طریقہ استعمال کرتے ہوئے البیرونی نے جھکائو کے زاویے کی مقدار 23درجے 35منٹ نکالی۔ اس کے علاوہ البیرونی کے علم میں محمد بن الصباح کے تجربات آئے جن میں اس نے سورج کے مقام، حیطہ شرقیہ اور نصف النہار سے بعد اقل دریافت کرنے کا طریقہ بیان کیا تھا۔ البیرونی کو اس کے تجربات کی جو نقل وصول ہوئی وہ غلاط سے پر تھی۔ اس نے یہ نقل ابن عراق کو دکھائی اور اس سے درخواست کی کہ اس کی اغلاط کو درست بھی کرے اور ابن الصباح کے طریق کار کا تنقیدی جائزہ بھی لے۔ابن عراق نے ''رسالتہ فی البراہین علیٰ عمل محمد بن الصباح‘‘ لکھا جس میں اس نے ابن الصباح کے طریقہ کا تفصیلی ذکر کیا اور یہ ثابت کیا کہ اس میں ایک حد تک غلطی در آنے کا امکان ہے کیونکہ اس میں طریق الشمس پر سورج کی حرکت کی یکسانی کے نظریہ پر اعتماد کیا گیا ہے۔ ابن الصباح کے نقطہ نظر کے مطابق سال کے ایک موسم کے دوران میں تیس تیس دن کے وقفہ سے سورج کے حیطہ شرقیہ کے تین مشاہدات کی مدد سے انقلابِ شمس کے وقت حیطہ دریافت کیا جا سکتا ہے۔ البیرونی نے ابن عراق کی ابن الصباح کے کام کے بارے میں ان توضیحات کو اپنی کتابوں ''القانون المسعودی‘‘ اور ''تحدید اللساکن‘‘ میں بیان کیا ہے۔ لیکن اس کی اصل دلچسپی سورج کے جھکائو کا زاویہ معلوم کرنے تک رہی اور اس مقصد کیلئے اس نے ابن الصباح کے طریقہ کار کو آسان بنایا۔ چنانچہ اس نے انہی دو فارمولوں کے اندر حیطہ شرقیہ کی تین اور دو قیمتیں لگانے کی جگہ بالترتیب تین یا دو قیمتیں بعد اقل کی لگائیں۔ اس کے بعد البیرونی نے ابن عراق کی تحقیق کی طرف رجوع کیا اور فرق کی وضاحت یوں کی کہ ابن الصباح نے طریق الشمس پر سورج کی حرکت کی یکسانی کے مفروضہ پر عمل کیا۔ نیز اس نے مسلسل Sineاور جذر کا استعمال کیا۔تکونیات کیلئے ابن عراق کی خدمات بالکل راست ہیں۔ طوسی نے قانون حبیب زاویہ کی دریافت تین اشخاص سے منسوب کی ہے۔ یہ تین شخص ابن عراق، ابو الوفاء اور ابو محمود الخجندی ہیں۔یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکا کہ ان تینوں ریاضی دانوں میں سے کون تھا جس نے سب سے پہلے یہ قانون دریافت کیا۔ لو کے نے الخجندی کے خلاف قابل یقین دلیل یہ دی ہے کہ اصلاً وہ ایک عملی ہیئت دان تھا جسے نظری مسائل سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ابن عراق اور ابوالوفاء دونوں اس قانون کی دریافت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگرچہ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کون اس دعویٰ میں حق بجانب ہے۔ تاہم دو باتیں ابن عراق کے حق میں جاتی ہیں۔ اولاً یہ کہ اس نے اس قانون کو ہندسہ اور ہیئت کی بابت اپنی تحریروں میں متعدد بار استعمال کیا ہے۔ یہ قانون اس کی اپنی دریافت ہو یا نہ ہو، لیکن اس نے اس کے استعمال میں بڑی جدت دکھائی ہے۔ ثانیاً ابن عراق نے اس قانون کا اثبات اپنی دو اہم ترین تصانیف ''المجطی الشاہی‘‘ اور ''کتاب فی السموت‘‘ اور دو کم اہم تصانیف ''رسالتہ فی معرفتہ القسی الفلکیتہ‘‘ اور ''رسالتہ فی الجواب عن مسائل ہندسیتہ مسئلہ عنہا‘‘ میں بھی کیا ہے۔

دہلی کے تاریخی مقامات

دہلی کے تاریخی مقامات

ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں کئی ایسے مقامات ہیں جن کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔یہ مقامات آج بھی زائرین کو حیران کردیتے ہیں۔ پڑھئے دہلی کے چند تاریخی مقامات کے بارے میں۔ جامع مسجد ہندوستان کی بڑی مسجدوں میں جامع مسجد کا بھی شمار ہوتا ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے 1644ء سے 1656ء کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ شاہجہاں کے دور حکومت میں کئی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ اسے سفید سنگ مرمر اور لال پتھروں سے تعمیر کیا گیاتھا۔ مسجد کی تعمیر میں 5 ہزار سے زیادہ مزدوروں نے حصہ لیا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر پر اس وقت دس لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔ جامع مسجد کا افتتاح بخارا (ازبکستان) کے ایک امام نے کیا تھا۔ مسجد میں بیک وقت25 ہزار مصلیان نماز ادا کر سکتے ہیں۔لال قلعہلال قلعہ کی تعمیر10 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی تھی۔ یہ اس وقت تعمیر کیا گیا تھا جب شاہجہاں نے ہندوستان کا دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا تھا۔ اسے اس وقت قلعہ مبارک کہا جاتا تھا۔ دراصل اسے لال اور سفید پتھروں سے بنایا گیا تھا۔ تاہم، بعد میں جب پتھروں کا چونا اترنے لگا تو برطانوی حکمرانوں نے اس پر لال رنگ لگا دیا۔قطب مینارہندوستان کے مشہور تاریخی مقامات میں سے ایک قطب مینار ہے جو 73 میٹر بلند ہے۔ مینار میں 379 سیڑھیاں ہیں۔ آپ جیسے جیسے نیچے سے اوپر کی جانب جائیں گے مینار کا قطر کم ہوتا جائے گا۔ دہلی سلطنت کے بانی قطب الدین ایبک نے اس کی تعمیر 1192ء میں شروع کی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے داماد التمش ایبک نے اسے مکمل کروایا۔ قطب مینار کے نیچے قوت الاسلام مسجد بھی واقع ہے۔انڈیا گیٹ دہلی میں دیکھنے کیلئے سب سے مشہور جگہ ہے۔ یہ تاریخی دروازہ راج پتھ پر واقع ہے۔ اس کے آس پاس بہت سے شاندار مقامات ہیں جیسے راشٹرپتی بھون اور وار میموریل۔ انڈیا گیٹ پر صبح سے شام تک لوگوں کا ہجوم دیکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ویک اینڈ پر یہاں آتے ہیں۔ تہواروں کے دوران بھی انڈیا گیٹ پر بہت سارے سیاح آتے ہیں۔ اگرسین کی باولی ایک محفوظ آثار قدیمہ کی جگہ ہے، جو نئی دہلی میں کناٹ پیلس (سی پی)کے قریب واقع ہے۔ یہ جگہ ایک ڈرائونی جگہ کے طور پر مشہور ہے۔ اس اسٹیپ ویل میں تقریباً105 سیڑھیاں ہیں۔ یہ جگہ دیکھنے میں بہت ہی حیرت انگیز ہے اور یہاں آپ کو دہلی کی ہلچل سے دور سکون دیکھنے کو ملے گا۔ یہاں جانے کیلئے ٹکٹ کی ضرورت نہیں ہے۔