آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


بائیسکل کی ایجاد کے جملہ حقوق حاصل کئے گئے
26جون 1819ء کو جرمن موجد بارون کارل فان ڈرائس نے بائیسکل کی ایجاد کے جملہ حقوق حاصل کئے۔ کارل فان ڈرائس نے ایک ایسی مشین بنائی تھی جو آگے چل کر آج کی بائیسکل کی بنیاد بنی۔ انہوں نے لکڑی کے ایک فریم اور لوہے کے دو پہیوں کو آپس میں جوڑا، بغیر پیڈل کے اس مشین کو ''ڈرائسینے‘‘ کا نام دیا گیا،جس کا وزن 25 کلوگرام تھا۔1816ء میں ڈرائسںنے جب اپنی ایجاد کی ہوئی یہ سائیکل، جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے لے کر جرمنی کی سڑکوں پر نکلے تو وہاں کے لوگ انہیں بڑے تعجب سے دیکھ رہے تھے۔آج یہ ایجاد دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
جون بغاوت کا خاتمہ
26جون1848ء کو فرانسیسی کارکنوں کی جانب سے ملک گیر بغاوت کا خاتمہ ہوا۔ اس بغاوت کی ابتداء22جون کو ہوئی جب حکومت کی جانب سے قومی کارخانوں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ فرانس کے نیشنل گارڈز کو اس بغاوت کو کچلنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان کی قیادت جنرل لوئس کر رہے تھے ۔ بغاوت کو روکنے کیلئے نیشنل گارڈز نے کھلے عام طاقت کا استعمال کیا اور اس آپریشن میں تقریباً10ہزار افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔4ہزار افراد کو ملک بدر کر کے فرانسیسی جزائر منتقل کر دیا گیا۔حکومت نے طاقت کے استعمال سے بغاوت کو تو روک لیا لیکن اس دوران ملک کے نظام کو بہت نقصان پہنچا۔
جنگ فلورس
26جون1794ء کو لڑی جانے والی جنگ فلورس، فرانس اور پہلی مرتبہ اتحاد کے نتیجے میں تشکیل پانے والی اتحادی افواج کے درمیان پہلی جنگ تھی۔ دونوں افواج تقریباً 80 ہزار افراد پر مشتمل تھیں۔اس جنگ میں فرانس اپنی افواج کو منظم کرنے اور اتحادی افواج کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ اتحادیوں کی شکست آسٹریا اورہالینڈ کے مستقل نقصان اور ڈچ جمہوریہ کی تباہی کا باعث بنی۔ یہ جنگ فرانسیسی فوج کیلئے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی اور ان کا مورال بلند ہوتا چلا گیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا اور بقیہ جنگ میں بھی اتحادیوں کی نسبت فرانسیسی افواج کا پلڑا بھاری رہا۔
کرمہ دھماکہ
عراق کے علاقے الکرمہ میں 26جون 2008ء میں قبائلی شیوخ کا ایک اجلاس جاری تھا کہ اچانک وہاں ایک خودکش حملہ ہوا۔عراقی افواج کی دوسری بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر سمیت بیس عراقی شیخ اور کرمہ کے مئیر بھی اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔حملہ آور نے عراقی پولیس کا لباس پہن رکھا تھا اس لئے وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اجلاس تک پہنچے میں کامیاب رہا۔ دھماکے میں دو ترجمان بھی ہلاک ہوئے۔ بم دھماکے سے منسلک دو باغیوں کو بعد میں تماریہ میں پکڑا گیا۔اس دھماکے کے بعد پورے ملک کی سکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
فضائی آلودگی بچوں کی دشمن

فضائی آلودگی بچوں کی دشمن

دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو آلودگی کے باعث صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور طبی نظام، معیشت اور معاشرے ان مسائل سے خطرات سے دوچار ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (UNICEF) کے تعاون سے تیار کی گئی غیرسرکاری ادارے State of Global Air ( SOGA) کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 ء میں دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے نتیجے میں 81 لاکھ اموات ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوں کو فضائی آلودگی سے زیادہ خطرات درہیش ہیں، جو 2021ء میں اس عمر کے سات لاکھ بچوں کی اموات کا سبب بنی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی سے بیشتر اموات ہوا میں پائے جانے والے باریک ذرات (پی ایم 2.5) سانس کے ذریعے حلق میں جانے سے ہوتی ہیں۔ یہ ذرات فوسل فیول کے جلنے اور رہائشی عمارتوں اور جنگلوں میں آگ کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور انہیں دنیا بھر میں خرابی صحت کا متواتر اور واضح سبب گردانا جاتا ہے۔ گھریلو سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی، اوزون (O3) اور گاڑیوں کے دھوئیں سے نکلنے والی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO2) کا بھی دنیا بھر میں انسانی صحت کی خرابی میں نمایاں کردار ہے۔غیرسرکاری ادارے Health Effects Institute کی صدر ایلینا کرافٹ کا ماننا ہے کہ یہ رپورٹ اس معاملے میں تبدیلی کا محرک ثابت ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی سے انسانی صحت بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہی ہے۔ تاہم فضائی معیار اور عالمی سطح پر صحت عامہ کو بہتر بنانا ممکن ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فضائی آلودگی سے بچوں کو خاص طور پر خطرات لاحق ہیں اور یہ ماں کے پیٹ میں بھی بچے کی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ دنیا میں چھوٹے بچوں کی 20 فیصد اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہیں۔ کم آمدنی والے ممالک میں بچوں کو نمونیے اور دمے جیسی سانس کی بیماریوں سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ یونیسف کی نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹرKitty van der Heijden نے کہا ہے کہ روزانہ پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 2000 بچے فضائی آلودگی کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں عالمی سطح پر فوری اقدامات ضروی ہیں۔ حکومتوں اور کاروباروں کو لازمی طور سے چاہیے کہ وہ ان اندازوں اور مقامی سطح پر دستیاب معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں آگاہی پر مبنی بامعنی اقدامات کے لیے کام میں لائیں جن میں بچوں کی صحت کو ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دی جائے۔ The Lancetنامی میڈیکل جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میںبھی بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے انسانی صحت پر برے اثرات پڑ رہے ہیں جبکہ بیماریوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ موسم کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ فضائی آلودگی سے انسانوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لیے اب بھی کچھ نہ کیا گیا تو اس کے اثرات پوری انسانی نسل کو بیماریوں کی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ بچوں کو خطرات لاحق ہیں۔یہ رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کے ایک رکن نک واٹسن کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی سے بچوں کی جسمانی نشو و نما اور قوت مدافعت کا نظام پوری طرح متاثر ہو رہا ہے۔لندن میں ایک بریفنگ کے دوران انہوں نے بتایا کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کرنے کے لیے تمام ممالک کی جانب سے فوری اقدام کیے بغیر صحت مند دنیا کی تشکیل ناممکن ہے۔ان کے بقول، عوامی صحت میں بہتری نہ لائی گئی تو پوری نسل بیمار ہو جائے گی۔ لہذا، اس مسئلے پر کسی سمجھوتے کی ضرورت نہیں۔تحقیقی ٹیموں کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤسز گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے اور عالمی سطح پر بڑھتی حرارت کو روکنے کے لیے صرف پالیسیاں ہی متعارف ہوتی رہیں تو اس کا نتیجہ حیران کن ہوگا۔رپورٹ کے مطابق اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کو حقیقی طور پر قابو کر لیا گیا تو آج پیدا ہونے والا بچہ برطانیہ میں کوئلے کے استعمال کو ختم ہوتا دیکھ سکے گا۔The Lancet کی جانب سے کیے گئے مطالعے میں 35 اداروں کے 120 ماہرین کی تحقیق شامل ہے۔ان ماہرین کا تعلق عالمی ادارہ صحت، ورلڈ بینک، یونیورسٹی کالج لندن اور چین کی سنگھوا یونیورسٹی سے ہے۔نک واٹسن نے مزید خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بچپن میں صحت کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات تاحیات رہتے ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہHealth Effects Institute میں عالمی صحت کے شعبہ کی سربراہ ڈاکٹر پلاوی پنت نے کہا ہے کہ نئی رپورٹ اس بات کی واضح یاد دہانی ہے کہ فضائی آلودگی سے انسانی صحت پر سنگین منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ چھوٹے بچوں، معمر افراد اور کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کو اس سے خاص طور پر خطرات لاحق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہروں اور ممالک کو اپنی طبی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت فضائی معیار اور فضائی آلودگی کو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک عوامل کے طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسی طرح غیرمتعدی بیماریوں کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کے پروگراموں میں بھی فضائی آلودگی کے مسئلے کو زیرغور لانا ضروری ہے۔ پی ایم 2.5 جیسے آلودہ ذرات لوگوں کی صحت پر اثرانداز ہونے کے ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار میں بھی اضافہ کرتے ہیں جو کرہ ارض کو گرم کر رہی ہیں۔ جب زمین گرم ہوتی ہے تو جن علاقوں میں این او 2 کی مقدار زیادہ ہو وہاں اوزون گیس بھی بڑی سطح پر محسوس کی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ خرابی صحت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ State of Global Air کی رپورٹ میں انسانی صحت پر فضائی آلودگی کے مضر اثرات کی تفصیلات کے ساتھ یہ دعوے بھی موجود ہیں کہ اب لوگ گھریلو سرگرمیوں کے نتیجے میں پھیلنے والی فضائی آلودگی کے نقصانات سے بہتر طور پر آگاہ ہیں۔ کھانا بنانے کے لیے ماحول دوست توانائی تک رسائی میں اضافے کے نتیجے میں 2000 کے بعد پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات میں 53 فیصد تک کمی آئی ہے۔ دنیا کے جن علاقوں میں فضائی آلودگی زیادہ ہے وہاں اس کی نگرانی کے نیٹ ورک قائم کر کے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح فضائی معیار سے متعلق کڑی پالیسیوں کا نفاذ بھی عمل میں لایا جا رہا ہے اور ایسے اقدامات افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا میں خاص طور پر نمایاں ہیں۔ 

دی مال: لندن کی ہر دلعزیزسڑک

دی مال: لندن کی ہر دلعزیزسڑک

دی مال وسطی لندن کے شہر ویسٹ منٹر میں واقع ایک مشہور و معروف سڑک کا نام ہے۔ یہ ایک طرح کی وی آئی پی سڑک ہے۔ یہ سڑک شاہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ بکنگھم پیلس کے سامنے وکٹوریہ میموریل سے شروع ہو کر ٹرافالگرا سکوائر تک جاتی ہے۔ یہ ہے تو ایک چھوٹی سی سڑک لیکن سارے لندن شہر میں اس کی اپنی شان اور خاص پہچان ہے۔ یہ سڑک عام سڑکوں جیسی نہیں بلکہ اس کا فرش ریڈ کارپٹ کی طرح سرخ رنگ کا ہے۔ کیونکہ یہی سڑک نہ صرف شاہوں بلکہ ملکہ عالیہ اور دوسرے ممالک کے سربراہان کو جب بکنگھم پیلس میں اعزاز کے ساتھ مدعو کیا جاتا ہے تو اسی مال پر شاہی بگھی میں بیٹھ کر شاہی محل میں داخل ہوتے ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف جب برطانیہ کے یونین جیک اورآنے والے سربراہ کے ملک کے جھنڈے لہراتے ہیں تو بہت خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ دی مال کے دائیں بائیں ایستادہ درخت عجب بہار دکھاتے ہیں۔یہ سڑک کسی نہ کسی صورت سترہویں اٹھارویں صدی میں یہاں موجود تھی۔ اسی سڑک پرپال مال نام کی مشہور کھیل کھیلی جاتی تھی۔ مشہورآر کیٹیکٹ آسٹن ویب نے 1911ء میں اس کو نئے انداز سے ڈیزائن کیا اور موجودہ صورت میں اس کو تعمیر کیا گیا۔ دی مال کی لمبائی 3062فٹ ہے۔ اس کے ایک طرف سینٹ جیمز پارک اور دوسری سمت گرین پارک ہے۔ پرانے زمانے میں بھی لوگ اس سڑک پر گھنے درختوں کی چھائوں میں چہل قدمی کیا کرتے تھے اور یہ روایت اب بھی قائم ہے۔ دی مال اتوار اور اس دن جب یہاں پر سرکاری تقریبات منعقد کی جا رہی ہوں اور جس دن کسی غیر ملکی سربراہ کی آمد ہو، بند رہتی ہے۔ سرکاری تقریبات اور مخصوص مہمانوں کی آمد کے موقع پر اس سڑک کو دلہن کی طرح آراستہ کیا جاتا ہے۔ اس دن تو یہ سڑک :آمد سنی جوآپ کی اللہ رے اشتیاقآنکھیں بچھا دی میں نے جہاں تک نظر گئیکا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔8مئی 1945ء کے دن جنگ عظیم دوم کے خاتمہ پر برطانیہ میں بہت بڑا جشن منایا گیا۔ بکنگھم پیلس اس وکٹری ڈے کی تقریبات کا مرکز تھا۔ اس دن بادشاہ سلامت، ملکہ عالیہ شہزادی الزبتھ دوم اور شہزادی مارگریٹ محل کی گیلری پر موجود تھے۔ ان کے سامنے ایک لاکھ کی تعداد میں آئے ہوئے شہری موجود تھے جو شاہی خاندان کی ایک جھلک دیکھنے اور مبارکباد دینے کیلئے اْمنڈ آئے تھے۔ یہ منظر بھی بڑا دیدنی تھا۔6سال کے ایک طویل عرصہ پر محیط سارا لندن ایک مکمل بلیک آئوٹ کی لپیٹ میں رہا۔ جب جنگ کے بادل چھٹے تو اس دن وکٹری ڈے منانے کا اعلان کیا گیا۔ وکٹری ڈے کا اعلان سنتے ہی سارا شہر بادشاہ اور ملکہ کو مبارکباد دینے بکنگھم پیلس چلا آیا۔ ساری مال کی سڑک عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کا منظر پیش کر رہی تھی۔2002ء میں جب ملکہ عالیہ الزبتھ دوم کے تخت نشین ہونے یک گولڈن جوبلی منائی گئی تو یہی منظر مال روڈ نے پھر دیکھا۔ ایک میزبان کی حیثیت سے ہر آنے والے مہمان کے پائوں تلے تلیاں بچھائی جا رہی تھیں۔ اسی مناسبت سے لندن کی سب سڑکوں میں دی مال کو ایک دلہن کا درجہ حاصل ہے اور اس میں مبالغہ بھی نہیں۔لندن کی مشہور مارتھون ریس کا خاتمہ بھی مال روڈ پر ہی ہوتا ہے۔2012ء کے اولمپک کھیلوں میں مال ہی کو مارتھون ریس کے مقابلوں کے لئے استعمال کیا گیا۔2019ء میں کرکٹ ورلڈ کپ کی خصوصی تقریب کا انعقاد بھی اسی مال روڈ پر ہی ہوا تھا۔ آج کل اسی مال روڈ کی طرز پر دنیا کے کئی ممالک میں سڑکیں موجود ہیں۔ اس سے دی مال لندن کی ہر دلعزیزی کا پتہ چلتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ٹرین حادثہ29جون1864ء کو سینٹ ہیلیر کے قریب ایک خوفناک ٹرین حادثہ پیش آیا۔ ایک مسافر ٹرین پل سے گزرتے ہوئے دریا میں گر گئی۔ٹرین کو رکنے کا سگنل بھی دیا گیا تھا لیکن عملہ اس پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا۔ اس حادثے میں تقریباً99افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔اسے کینیڈا کی تاریخ کا بدترین ریلوے حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ٹرین میں تقریباً500افراد سوار تھے۔تحقیقات کے مطابق حادثے کا ذمہ دار ٹرین کے ڈرائیور کو ٹھہرایا گیا کیونکہ بریک لگانے کا سگنل ملنے کے باوجود وہ ٹرین روکنے میں ناکام رہے۔حادثے کے بعد فوراً امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا جس کی وجہ سے سیکڑوں افراد کو محفوظ حالت میں باہر نکال لیا گیا۔سمارٹ فون کی ابتداایپل کارپوریشن نے29 جون 2007ء کو دنیا کے سامنے آئی فون کے نام سے پہلا سمارٹ فون پیش کیا۔یہ آئی فون کی پہلی جنریشن تھی جسے صارفین کے استعمال کیلئے مارکیٹ میں رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد ایپل کارپوریشن نے ہر سال نئے موبائل فون متعارف کروائے اور2024ء تک دنیا بھر میں 2.2ارب سے زائد آئی فون فروخت ہو چکے تھے۔یہ دنیا کے چند موبائل فونز میں سے ایک تھا جس میں جدید دور کی تمام سہولیات موجود تھیں۔ آئی فون نے موبائل فون بنانے کا ایسا رجحان پیدا کیا کہ آج یہ صنعت کھربوں ڈالر سالانہ کما رہی ہے۔آئی فون کو آج بھی تمام موبائل فونز سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔گلوب تھیٹر میں آتشزدگیشیکسپیر کی ڈرامہ کمپنی کی جانب سے بنائے جانے والے گلوب تھیٹر میں 20جون1613ء میںآگ لگ گئی جس کی وجہ سے تھیٹر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ یہ تھیٹر اداکاروں کے ایک گروہ کی جانب سے تعمیر کیا گیا تھا اور اس میں کئی نئے اداکاروں کو اپنی صلاحتیں دکھانے کا موقع ملتا تھا۔ شیکسپیر کے لکھے گئے کئی ڈراموں کو یہیں پر حقیقت کاروپ دیا گیا۔ تھیٹر میں آگ لگنے کی وجہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکی لیکن اس کے کئی سال بعد تک تھیٹر کا تعمیری کام چلتا رہا۔اداکاروں کے جس گروہ کی جانب سے اسے تعمیر کیا گیا تھا انہیں فنی نقصان کے ساتھ ساتھ معاشی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔کرپریڈی کی لڑائیپہلی انگریز خانہ جنگی کے دوران کوبینبری،آکسفورڈ شائر کے قریب ایک لڑائی لڑی گئی۔ اس لڑائی کو کرپریڈی کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔جنگ کے دوران سرولیم والر اور پارلیمنٹیرین فوج کنگ چارلس کو پکڑنے میں کامیاب رہے۔یہ برطانیہ کی تاریخی لڑائیوں میں سے ایک تھی۔ اس لڑائی کے نتیجے میں اوربہت سی جھڑپیں ہوئیں لیکن کسی بھی لڑائی میں پارلیمنٹیرین افواج کو قابل ذکر فتح حاصل نہ ہو سکی۔اس جنگ کو برطانیہ کی تاریخ میں یادگار کے طور پر بھی درج کیا جاتا ہے۔ 

کیلاش شادی سے مہنگی موت

کیلاش شادی سے مہنگی موت

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادیٔ کیلاش کے باسی لمحہ لمحہ جدید ہوتی دنیا میں بھی دو ہزار سال پرانی رسوم نبھائے جا رہے ہیں اور وہ اپنے قبیلے کی روایات کو بوجھ بھی نہیں سمجھتے، چاہے اس کیلئے انہیں کتنی ہی مشکل کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ہم پانچویں بار کیلاش جا رہے تھے۔ دیر بالا کی سنسان راہوں سے ہوتے ہوئے لواری کے قریب پہنچے تو ساڑھے دس کلومیٹر طویل لواری سرنگ ہماری منتظر تھی۔ اس سے قبل لواری ٹاپ کی برفیلی بلندیاں اہالیان چترال کیلئے عذاب تھیں، انہیں پشاور یا اسلام آباد جانے کیلئے بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑتا تھا۔ سال بھر میں صرف تین ماہ کیلئے لواری ٹاپ کی برف پگھلتی تو زمینی راستہ کھلتا۔ اب کی بار سرنگ نے دس گھنٹے کا سفر دس منٹ میں بدل کر آسان کر دیا۔ 1971ء کا یہ منصوبہ 2017ء میں مکمل ہوا تھا۔دریائے چترال ہماری بائیں سمت بہتا تھا اور ہم پانی کی روانی کی مخالف سمت میں بڑھتے چلے جاتے تھے۔ نگر کا قصبہ آیا اور فوجی چیک پوسٹ سے گزر کر ہم تحصیل دروش جا پہنچے۔ صرف 31 کلومیٹر کے فاصلے پر افغانستان کی حدود کا آغاز تھا، مگر ہم چترال کی طرف مڑ گئے۔ دروش چار گھنٹوں کی مسافت کے بعد یہ پہلا شہر تھا جہاں زندگی رواں تھی۔دروش کے بعد دریائے چترال کے کنارے ایون کا بس سٹاپ ہمارا دوسرا پڑاؤ تھا۔ الیگزینڈرا ہوٹل کیلاش کے مالک سراج نے ہمارے لیے وادیِ بمبوریت جانے والی جیپ بک کروا رکھی تھی۔ ہم نے اپنی کار پیٹرول پمپ پر پارک کی اور جیپ پر سوار ہو کر دریا پار کرگئے۔ زرخیز اور شاداب باغات کے بعد سنگلاخ چٹانوں اور کچھ ندیوں نے بارہا ہمارا رستہ مشکل بنایا مگر تین گھنٹے کی دشوار گزاری کے بعد ہم خوابوں کی سرزمین کیلاش میں داخل ہوگئے۔یہ وادیِ بمبوریت کا گاؤں کراکال تھا۔ کھیتوں میں کام کرتی خواتین سیاہ رنگ روایتی لباس پہنے کسی فلم کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ سروں پر بیش رنگ ٹوپیاں اور سیاہ رنگ فراکوں پر سرخ و سبز دھاریاں ان کا روایتی لباس تھا۔کیلاش کی تین وادیاں بمبوریت، رمبور اور برون کافرستان کہلاتی ہیں، مگر کیلاش کے لوگ یہ نام پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک کافرستان کہنے والے دراصل نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم الیگزینڈرا ہوٹل کے مہمان تھے اور شام کے کھانے میں اپنے کیلاشی دوست میاں گل سے چکن کڑاہی کی فرمائش کرتے ہوئے بھول گئے تھے کہ ان کے نزدیک مرغی ممنوع ہے، جیسے شراب ہمارے ہاں حرام ہے۔اخروٹ کے درختوں کے حصار میں ایستادہ لکڑی کے کمرے میں رات بسر ہوئی اور صبح ہم بشالی کی طرف گئے جہاں عورتیں اپنے مخصوص ایام گزارتی ہیں۔ کراکال گاؤں کے آخر میں کھلے عام رکھے تابوت دو ہزار سال قدیم روایات کے تسلسل کی شہادت دے رہے تھے۔ کیلاشی قبرستان کے سامنے تہہ در تہہ بنے گھروندے تھے اور ہم تنگ گلی سے گزر کر زائنہ کے گھر پہنچ گئے۔سیاسیات میں ایم فل کرنے والی زائنہ اپنے کمرے کی سیاہ دیواروں کو ثقافت کا نام دے رہی تھی۔ میرے سوال پر وہ چونک اٹھی اور کہا کہ ہاں بالکل میں روایات کی پابند ہوں۔ گھر میں نہانے کے بجائے بمبوریت ندی پر بنی مخصوص جگہ پر نہاتی ہوں، گھر میں بال نہیں سنوارتی کیونکہ کنگھی میں پھنسے بال نحوست پھیلاتے ہیں۔میرے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کہ چترال یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی جدید دور کی لڑکی ذرا برابر اپنی ثقافت سے منحرف نہیں تھی۔ زائنہ کیا تم بھی گھر سے بھاگ کر شادی کرو گی؟‘ میں نے ایک مشکل سوال کر دیا۔جی بالکل، ہماری روایت میں محبت کی شادی ہوتی ہے اور ہمیشہ بھاگ کر ہی ہوتی ہے، زائنہ نے تسلی سے جواب دیا۔دیکھو، ہمارے کلچر میں زنا یا جسم فروشی نہیں ہے، ہم پسند اور محبت کی شادی کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے خفیہ تعلقات کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، یہاں پر جبری شادیاں بھی نہیں ہوتیں۔مگر کیلاش سے منفی کہانیاں کیوں جڑی ہوئی ہیں؟ میں نے وہ سوال کر دیا جو شاید بنتا نہیں تھا۔ کیلاشی اقلیت ہیں، اس لیے ایسی خود ساختہ کہانیاں اقلیتوں کا مقدر ہوتی ہیں حالانکہ ان سب چیزوں کیلئے کیلاش نو گو ایریا ہے،زائنہ کے جواب میں اعتماد تھا۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کیلاش میں لڑکیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، سچ بات تو یہ ہے کیلاشی لڑکیاں ہی نہیں دنیا بھر کی عورتیں بھی محبت کے نام پر دھوکہ کھا جاتی ہیں اور یہی کیلاش کی کچھ لڑکیوں کے ساتھ ہوا جو محبت کے نام پر خواب سجائے، تبدیلی مذہب کے عمل سے گزریں اور انہیں بیوی بنا کر لے جانے والے خاندان کے سامنے اپنی محبت کا دفاع نہ کرسکے اور کیلاشی لڑکیاں دربدر ہو گئیں۔زائنہ اپنی روایات، ثقافت اور رسوم کے متعلق بتاتے ہوئے بارہا آبدیدہ ہوئیں۔ غربت کے باوجود مہنگی رسومات پر عمل کرنا ان کی مجبوری ہے۔ شادی اور موت، دونوں بہت مہنگے ہیں۔ سال بھر کے تین تہوار صرف موسم کی تبدیلی کا جشن ہیں۔''چلم جوش‘‘ کیلاشوں کی عید ہے جو ہر سال 13 مئی سے 16 مئی تک منائی جاتی ہے۔ اس تہوار پر لڑکیاں ڈھول کی تھاپ پر دائروں میں گھومتی ہیں اور گیت گاتی ہیں، یہی ان کی عبادت ہے۔ یہ سردی کے بعد بہار کی آمد کا جشن ہے۔ کیلاشوں کا ایک ہجوم پھول ہاتھ میں لیے امڈ آتا ہے۔ انگوروں کے گچھے بیلوں سے اتارے جاتے ہیں۔ دائروں میں ہونے والا رقص صرف ذاتی سرشاری کیلئے ہوتا ہے۔ یہ جشن عیدین، دیوالی، بیساکھی اور ہولی سے زیادہ جذباتی تھا اور اس روز ہم بھی اس جشن کا حصہ تھے۔ چلم جوش کے رقص میں ایک دوسرے کو پسند کرنے والے جوڑے ''اوچال‘‘ کے تہوار پر شادیاں کرتے ہیں۔ اوچال کا جشن 18 اگست سے شروع ہو کر 21 اگست تک منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار''چاو موس‘‘ آٹھ دسمبر سے 22 دسمبر تک رہتا ہے جس میں صحت و سلامتی کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ دسمبر میں ہونے والا جشن ''چاو موس‘‘ نئے سورج کے پیدا ہونے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ اگر کوئی غیر کیلاشی لڑکا کیلاشی لڑکی کو پسند کرلے اور لڑکی بھی شادی پر رضا مند ہو جائے تو لڑکی اپنے والدین کو مطلع کر دیتی ہے کہ وہ رات کو بھاگ جائے گی۔ گھر چھوڑنے سے پہلے لڑکی اپنے محبوب کا نام اور گھر کا پتہ والدین کو بتا دیتی ہے۔پیشگی اطلاع کے باوجود غیرت کے نام پر خون خرابا ہوتا ہے اور نہ ہی پہرے بٹھائے جاتے ہیں۔ کیلاش رواج کے مطابق گھر سے بھاگ جانے والی لڑکی اپنے والدین کا انتظار کرتی ہے اور کسی طرح کا جسمانی تعلق قائم نہیں کرتی۔ باقاعدہ رسم ہونے تک لڑکی لڑکے کی ماں یا بہن کے کمرے میں سوتی ہے۔لڑکی والے کیلاش بزرگ ایک بار بیٹی کو واپس گھر لے جاتے ہیں اور شادی کی تاریخ طے کرکے بارات کو کیلاش بلایا جاتا ہے اور پھر روایات کے مطابق رخصتی ہوتی ہے۔ مہمانوں کی تواضع بکرے کے گوشت اور پنیر سے کی جاتی ہے۔ بکرے کو ذبح کرتے ہوئے جو خون نکلتا ہے وہی نکاح کا اعلان ہوتا ہے۔بکرا کیلاش والوں کا ہو تو میاں بیوی میں سے صرف ایک کھاتا ہے اور اگر باہر سے خرید کر لایا گیا ہو تو پھر دونوں کھاتے ہیں۔ شادی کے بعد کیلاشی لڑکی جب اپنے شوہر کو میکے لاتی ہے تو دلہن کے ہر رشتہ دار کو دولہا 20، 20 ہزار روپے ادا کرتا ہے اور ایک نئی دیگ تحفے میں دیتا ہے۔ کیلاشی لڑکی سے شادی کرنے والا دولہا اگر مسلمان ہو تو وہ لڑکی کو کلمہ پڑھا کر سبھی رسوم و روایات سے منحرف ہو کر بہت سے کیلاشی اخراجات سے بچ جاتا ہے۔دولہا کیلاشی ہو تو سارا قبیلہ لڑکے کے گھر جمع ہوتا ہے اور ساری برادری تحائف دیتی ہے جسے جہیز کے طور پر دلہن کے سپرد کیا جاتا ہے۔ لڑکی کو میکے سے کم از کم 30 بکریاں اور ایک گائے جہیز کے طور پر ملتی ہے۔ لڑکی کے ماموں کو دولہا ایک بیل یا پھر 50 ہزار روپے دیتا ہے۔کیلاش میں شادی شدہ مرد یا عورت کا کسی دوسرے سے ناجائز تعلق ثابت ہو جائے تو جوڑے میں طلاق ہو جاتی ہے اور سابق شوہر کو ملزم مرد وہ تمام اخراجات ادا کرتا ہے جو اس کی شادی پر خرچ ہوئے تھے۔کیلاش اپنی روایات نبھاتے ہوئے زمینیں سستے داموں بیچ بیٹھے ہیں۔ جدید دور میں بھی روایات سے انحراف گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اسی لیے زائنہ تعلیم یافتہ ہو کر بھی اپنی روایات نباہ رہی ہے۔ زائنہ نے ہمارے لیے گھر میں چائے صرف اس ڈر سے نہ بنائی کہ ہم کافر چائے پینے سے انکار نہ کر دیں، بازار سے بوتلیں منگوائی گئیں۔

امریکہ کے ابتدائی باشندے

امریکہ کے ابتدائی باشندے

12 ہزار سال سے بھی پہلے انڈینز ہجرت کر کے براعظم امریکہ پر آباد ہونا شروع ہوئے اور مختلف تہذیبوں اور معاشروں کی تشکیل کرتے چلے گئے۔ برطانوی نوآبادیات نے 1607 ء میں ورجینیا میں تیرہ کالونیوں کی پہلی آباد کاری کی۔ ٹیکس اور سیاسی نمائندگی پر برطانوی ولی عہد کے ساتھ جھڑپوں نے امریکی انقلاب کو جنم دیا، دوسری کانٹی نینٹل کانگریس نے 4 جولائی 1776ء کو باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کیا۔ انقلابی جنگ پورے شمالی امریکہ میں پھیلتی چلی گئی۔جس نے دیگر امریکی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ غلامی پر سیکشنل تقسیم کے نتیجے میں کنفیڈریٹ ریاستوں کی علیحدگی ہوئی، جس نے امریکی خانہ جنگی کے دوران یونین کی باقی ریاستوں سے جنگ کی۔ یونین کی فتح اور تحفظ کے ساتھ، غلامی کو قومی سطح پر ختم کر دیا گیا۔ 1890ء تک امریکہ خود کو ایک عظیم طاقت کے طور پر قائم کر چکا تھا۔ دسمبر 1941ء میں پرل ہاربر پر جاپان کے حملے کے بعد، امریکہ دوسری جنگ عظیم کا حصہ بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین دنیا کے نقشے پر دو سپر پاور بن کر ابھریں۔ اس کے بعد دنیا میں سرد جنگ کا آغاز ہوا جس کے دوران دونوں ممالک نظریاتی غلبہ اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور 1991ء میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور رہ گئی۔اگر امریکہ میں آبادکاری کے ابتدا کی بات کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ میں آبادکاری ایشیائیوں نے کی۔ خیال یہ ہے کہ یہ لوگ سائبیریا سے ہوتے ہوئے آبنائے بیرگ کے راستے الاسکا میں داخل ہوئے ۔ پھر الاسکا کے مشہور دریا یوکان کے ساتھ ساتھ اندرون ملک کی طرف بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ کینیڈا کے اندر میکنزی پر پہنچ گئے۔ بعد ازاں اس کے ساتھ ساتھ نیچے کی طرف سفر شروع کیا۔ یہاں تک کہ وسطی اور جنوبی امریکہ میں سکونت اختیار کرلی۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کے بعض گروہ جنوبی ایشیایا اوشیانہ سے روانہ ہوئے اور آہستہ آہستہ امریکہ میں داخل ہوگئے۔ لیکن اس نظریے کیلئے اطمینان بخش شہادت نہیں ملتی اور اسے ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔امریکہ میں آبادی کب ہوئی؟امریکہ میں تارکین وطن کے پہلے پہل پہنچنے کی تاریخ کے متعلق اختلاف ہے۔ آثار قدیمہ کے اکثر امریکی ماہروں کا خیال یہ ہے کہ یہ واقعہ آری فرستانی دور کے ختم ہونے کے بعد کا ہے۔ مختلف حصوں میں ابتدائی سنگی دور کے کچھ اوزار بھی ملے ہیں لیکن ایسی کوئی صنعت نہیں ملی جس کا پرانی دنیا کے ابتدائی سنگی صنعت سے کوئی تعلق ہو اور ایسے ڈھانچے بھی نہیں ملے جو امریکہ کے اصل باشندوں کے ان ڈھانچوں سے مختلف سے ہوں جن کا تعلق موجودہ زمانے سے ہے۔ البتہ کیلی فورنیا سے ٹکساس تک جو کھدائی ہوئی اس میں بعض ایسے اوزار ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جس زمانے کے وہ اوزار ہیں اس وقت یہ خطے بہت سرد تھے اور وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی تھیں۔ بعض حالتوں میں ان اوزاروں کے ساتھ قدیم زمانے کے میمتھ ہاتھیوں، اونٹوں اور دوسرے معدوم جانوروں کے ڈھانچے بھی ملے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں آبادی اگر فرستانی دور میں نہیں تو اس کے فوراً بعد شروع ہوچکی تھی۔امریکہ کی نسلی خصوصیاتامریکہ میں جو انڈین آباد ہیں ان کی جسمانی خصوصیات میں منگولی نسل کی شہادتیں بالکل واضح ہیں۔ لیکن ان میں دوسری نسلوں کی آمیزش بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً اہل یورپ اور حبشیوں کی۔ شمالی و جنوبی امریکہ دونوں ملکوں میں لمبوترے سر والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو ابتدائی آباد کاروں کے خلاف ہیں۔ سولہویں سترھویں صدی میں اہل یورپ امریکہ پہنچے تو بعض مقامی باشندوں کا گزارا نباتاتی خوراک پر تھا اور وہ کھانے پینے کی چیزیں جمع کرلیتے تھے۔ گویا وہ ابتدائی سنگی دور سے باہر نکلے تھے۔ لیکن اکثریت نئے سنگی دور میں داخل ہوچکی تھی۔امریکہ کی تہذیب و ثقافت امریکہ میں خاصی ترقی یا فتہ ثقافت دو ہزار سال پیشتر نمودار ہوگئی تھی۔ اس کے خاص مقامات یہ تھے۔ جنوبی امریکہ میں کوہ انڈیز کا علاقہ، وسطی امریکہ اور میکسیکو میں پہاڑی علاقے۔ یہاں ایسی اونچی تہذیب نشوؤ نماپا چکی تھی جو پرانی دنیا کی تہذیبوں سے پہلو مارتی تھی۔ اگرچہ اس تہذیب سے بالکل الگ تھلگ ظہور پذیر ہوئی تھی۔ اعلیٰ درجے کے کپڑے بنے جاتے تھے، کھیتی باڑی ہوتی تھی، مٹی کے نہایت عمدہ برتن بنتے تھے۔ سونے چاندی اور تانبے کے شاندارزیور بنائے جاتے تھے۔ بڑے بڑے شہر آباد ہوگئے تھے۔ ان میں نہریں تھیں، باغ تھے، عالیشان مندر تھے جو اونچے مقامات پر بنائے جاتے تھے۔ ان کے مذہبی پیشوا سیاسی اختیارات کے مالک ہوتے تھے۔ ان کے پاس باقاعدہ فوجیں تھیں ، درس گاہیں جاری تھیں، عدالتیں قائم تھیں، علم ہیئت میں وہ بڑی ترقی کر چکے تھے اور وہ صحیح جنتریاں تیار کرلیتے تھے۔

آلو۔۔ جو دس لاکھ ہلاکتوں کا باعث بنا

آلو۔۔ جو دس لاکھ ہلاکتوں کا باعث بنا

کیا ایسا کبھی سوچا بھی جا سکتا ہے کہ ایک آلو کسی انسان کی ہلاکت کا باعث بنا ہو ؟ بادی النظر میں ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن تاریخ کے اوراق میںایسا ایک واقعہ درج ہے جس کے مطابق آئر لینڈ میں 1845ء سے 1849ء کے درمیان آلووں کے سبب دس لاکھ سے زائد انسانی ہلاکتوں کا ذکر ملتا ہے ( جبکہ بعض کتابوں میں ان ہلاکتوں کی تعداد بیس لاکھ بتائی جاتی ہے)۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان آلووں کی وجہ سے30 لاکھ سے زائد افراد آئر لینڈ سے مختلف ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور بھی ہو گئے تھے۔ یہ سن کر قدرتی طور پر ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اس سانحہ کا سبب آخر کیا تھا ؟۔جہاں تک وجوہات کا تعلق ہے ، مورخین کے بقول ''ہر سانحہ کے پیچھے اس کی ایک تاریخ ہوا کرتی ہے‘‘۔ چنانچہ اس سانحہ کی تہہ تک پہنچنے کیلئے ہم بھی ''آلو کی تاریخ‘‘ کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں۔آلو۔۔تاریخ کے آئینے میںایک امریکی مصنفہ ربیکا ارل اپنی ایک تصنیف ''فیڈنگ دا پیپل ‘‘ کے ایک باب '' دا پالیٹکس آف دا پوٹیٹو ( لوگوں کی خوراک:آلو کی سیاست ) میں کہتی ہیں '' اس سادہ سی شے یعنی آلو کا اصل وطن جنوبی امریکہ کا خطہ انڈیز ہے جبکہ اس کی دریافت کا سہرا ہسپانوی فاتحین کے سر ہے جنہوں نے 15 ویں صدی کے آخر میں ماونٹ انڈیز میں آلو دریافت کیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ آج سے لگ بھگ آٹھ ہزار سال پہلے انڈیز میں لیک ٹیٹی کاکا کے مقام پر گھریلو استعمال میں آچکا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت آلو صرف ایک جنگلی فصل ہوا کرتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیز میں آلو کیلئے انتہائی موزوں اور موافق جینیاتی تنوع پایا جاتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک آلو کو اپنی غذا کا اہم حصہ بنانے کیلئے بے قرار تو تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ سپین اور یورپ کے دیگر حصوں میں دن کی طوالت یعنی بارہ گھنٹے مسلسل دھوپ نے آلو کی کاشت کا ان علاقوں میں ساتھ نہ دیا۔ مختلف تجربات کے بعد جب انہوں نے خزاں میں یعنی موسم سرما کے آغاز سے قبل اسے کاشت کیا تو یہ خوب پھلا پھولا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع شروع میں یورپ میں آلو کو ایک جنگلی فصل کا طعنہ دے کر کبھی زہریلا اور کبھی اسے مرگی کا ذمہ دار ٹھہرا کر نظر انداز کیا جاتا رہا، لیکن رفتہ رفتہ دنیا کے دیگر خطوں کی مانند یہ یورپ میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔سپین کے دیکھا دیکھی 1580ء میں آئر لینڈ نے بھی اس فصل کو خزاں کے ٹھنڈے موسم یعنی کہر کے موسم سے پہلے پہلے کاشت کرنا شروع کیا تو یہاں بھی اس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ جبکہ آئر لینڈ سے 1600ء میں آلو برطانیہ اور پھر شمالی یورپ جا پہنچا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں یورپ سے آلو برصغیر پہنچا ، اس کے کچھ ہی عرصہ بعد بھارت سے چین پہنچا۔ 1650ء میں یہ جرمنی ، یروشیا اور پھر 1740ء میں پولینڈ میں بھی کاشت ہونا شروع ہوا۔ اس کے ایک صدی بعد یعنی لگ بھگ 1840ء میں آلو روس میں بھی پنجے گاڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں اکثر ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ایک سادہ سا اناج آلو جو انڈیز سے اپنی شروعات کرتا ہے ،محض چند صدیوں میں پوری دنیا کی مقبول ترین غذا کیسے بنا ؟ آلو کی مقبولیت کا سبب کیا تھا ؟آلو شاید ان چند فصلوں میں شامل ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ ملکوں کی مقبول ترین غذا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انڈیز کی اس فصل نے محض چند صدیوں میں دنیا کے کونے کونے میں اپنی جگہ بنا لی۔ بادی النظر میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کی مقبولیت کی وجہ اس کی بے پناہ غذائیت ہے ، دیگر زرعی اجناس کے مقابلے میں اس کی اوسط پیداوار بہتر ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر زیر زمین اگنے کی صلاحیت اسے دوسری اجناس سے اس لئے ممتاز کرتی تھی کہ گئے دنوں کی جنگوں میں یہ لگان وصول کرنے والوں کی نظروں سے اوجھل رہتی تھی۔اس کے علاوہ آلو کسانوں کیلئے ایک قیمتی فصل کا درجہ اختیار کر گئی کیونکہ باقی فصلوں کے مقابلے میں اس کی فی ایکڑ پیداواری آمدن کئی گنا زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے کاشت کرنا اور ذخیرہ کرنا بھی نسبتاً آسان تھا۔ آلو بارے ماہرین غذائیت اور معالجین کہتے ہیں ''آلو میں وٹامن اے اور وٹامن ڈی سمیت تمام غذائی اجزاء بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زندگی کیلئے ضروری غذائی عوامل کی وجہ سے کوئی دوسری غذا اس جنس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے‘‘۔معروف عالمی جریدہ ''کوارٹرلی جرنل آف اکنامکس‘‘ ، اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں آلو کے خواص پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے ''آلو کھانے والوں کے قد میں ڈیڑھ انچ تک کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ایک معاشی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 1700 کے بعد پیدا ہونے والے فرانسیسی فوجی جو آلو کھاتے تھے وہ دوسروں کے مقابلے میں دراز قد کے مالک تھے‘‘۔بعض محققین کے مطابق1700ء اور 1900ء کے درمیان دنیا کی آبادی میں ایک چوتھائی اضافہ آلو کی وجہ سے ہوا تھا۔محققہ ارل کہتی ہیں ، انڈیز میں اس کے جنم کے باوجود یہ ایک زبردست کامیاب عالمی غذا ہے۔ اب یہ دنیا کے ہر خطے میں پیدا ہوتا ہے اور دنیا کے ہر حصے کے لوگ اسے اپنی خوراک سمجھتے ہیں۔ایک جگہ ارل اس کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں ، آلو ، گندم، چاول اور مکئی کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا اناج ہے ، جبکہ غیر اناج میں یہ دنیا کی سب سے بڑی فصل ہے۔ آلو پر مکمل انحصار آئر لینڈ کو لے ڈوبا 16 ویں صدی سے ہی آئر لینڈ وہ واحد ملک تھا جس نے زرعی اجناس کی دنیا میں آلو کی کاشت پر اپنا انحصار حد سے زیادہ بڑھا لیا تھا ۔ اس کی ایک تو سب سے بڑی وجہ آلو کو زیادہ سازگار موسم کا میسر آنا تھا جبکہ اس کے علاوہ یہ مقامی طور پر ایک مقبول ترین غذا بھی بن چکا تھا۔ جس کی وجہ سے آئر لینڈ نے رفتہ رفتہ باقی اجناس پر انحصار ا تنہائی کم کردیا تھا۔ آلو پر آئرلینڈ کا انحصار اس وقت تک جاری رہا جب تک آئرلینڈ میں 1845ء اور1849ء کے درمیان شمالی امریکہ سے آئے ایک وائرس نے آئر لینڈ کی آلو کی فصل کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔چند عشروں پر محیط فاقہ کشی نے جہاں دس لاکھ سے زیادہ جانیں لے لیں اور تیس لاکھ افراد کو دوسرے ممالک میں ہجرت پر مجبور کر دیا وہیں آئر لینڈ کی سماجی اور معاشی زندگی پرانمٹ نقوش بھی چھوڑے۔ بعض ماہرین کے بقول آلو جو آئرلینڈ کے لوگوں کی زندگیوں کا ضامن تھا اب وہی ان کی موت کا سبب بنا‘‘۔اس قحط کے بعد لوگوں میں کم از کم یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ حکومتی غلط منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک کی 80 فیصد غذائی ضروریات کا انحصار آلو جبکہ صرف 20 فیصد دیگر اجناس پر کیا جاتا تھا، جو بالآخر آئرلینڈ کی تباہی کا سبب بنا ‘‘۔آئرر لینڈ کی آبادی میں آلو کی بدولت سو سال میں 60 لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا تھا جبکہ آلو کی فصل تباہ ہونے کی وجہ سے آئر لینڈ کی آبادی میں چھ سال میں 20 لاکھ کی کمی واقع ہوئی تھی۔