دی مال: لندن کی ہر دلعزیزسڑک

دی مال: لندن کی ہر دلعزیزسڑک

اسپیشل فیچر

تحریر : فقیر اللہ خاں


دی مال وسطی لندن کے شہر ویسٹ منٹر میں واقع ایک مشہور و معروف سڑک کا نام ہے۔ یہ ایک طرح کی وی آئی پی سڑک ہے۔ یہ سڑک شاہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ بکنگھم پیلس کے سامنے وکٹوریہ میموریل سے شروع ہو کر ٹرافالگرا سکوائر تک جاتی ہے۔ یہ ہے تو ایک چھوٹی سی سڑک لیکن سارے لندن شہر میں اس کی اپنی شان اور خاص پہچان ہے۔ یہ سڑک عام سڑکوں جیسی نہیں بلکہ اس کا فرش ریڈ کارپٹ کی طرح سرخ رنگ کا ہے۔ کیونکہ یہی سڑک نہ صرف شاہوں بلکہ ملکہ عالیہ اور دوسرے ممالک کے سربراہان کو جب بکنگھم پیلس میں اعزاز کے ساتھ مدعو کیا جاتا ہے تو اسی مال پر شاہی بگھی میں بیٹھ کر شاہی محل میں داخل ہوتے ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف جب برطانیہ کے یونین جیک اورآنے والے سربراہ کے ملک کے جھنڈے لہراتے ہیں تو بہت خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ دی مال کے دائیں بائیں ایستادہ درخت عجب بہار دکھاتے ہیں۔
یہ سڑک کسی نہ کسی صورت سترہویں اٹھارویں صدی میں یہاں موجود تھی۔ اسی سڑک پرپال مال نام کی مشہور کھیل کھیلی جاتی تھی۔ مشہورآر کیٹیکٹ آسٹن ویب نے 1911ء میں اس کو نئے انداز سے ڈیزائن کیا اور موجودہ صورت میں اس کو تعمیر کیا گیا۔ دی مال کی لمبائی 3062فٹ ہے۔
اس کے ایک طرف سینٹ جیمز پارک اور دوسری سمت گرین پارک ہے۔ پرانے زمانے میں بھی لوگ اس سڑک پر گھنے درختوں کی چھائوں میں چہل قدمی کیا کرتے تھے اور یہ روایت اب بھی قائم ہے۔ دی مال اتوار اور اس دن جب یہاں پر سرکاری تقریبات منعقد کی جا رہی ہوں اور جس دن کسی غیر ملکی سربراہ کی آمد ہو، بند رہتی ہے۔ سرکاری تقریبات اور مخصوص مہمانوں کی آمد کے موقع پر اس سڑک کو دلہن کی طرح آراستہ کیا جاتا ہے۔ اس دن تو یہ سڑک :
آمد سنی جوآپ کی اللہ رے اشتیاق
آنکھیں بچھا دی میں نے جہاں تک نظر گئی
کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔
8مئی 1945ء کے دن جنگ عظیم دوم کے خاتمہ پر برطانیہ میں بہت بڑا جشن منایا گیا۔ بکنگھم پیلس اس وکٹری ڈے کی تقریبات کا مرکز تھا۔ اس دن بادشاہ سلامت، ملکہ عالیہ شہزادی الزبتھ دوم اور شہزادی مارگریٹ محل کی گیلری پر موجود تھے۔ ان کے سامنے ایک لاکھ کی تعداد میں آئے ہوئے شہری موجود تھے جو شاہی خاندان کی ایک جھلک دیکھنے اور مبارکباد دینے کیلئے اْمنڈ آئے تھے۔ یہ منظر بھی بڑا دیدنی تھا۔
6سال کے ایک طویل عرصہ پر محیط سارا لندن ایک مکمل بلیک آئوٹ کی لپیٹ میں رہا۔ جب جنگ کے بادل چھٹے تو اس دن وکٹری ڈے منانے کا اعلان کیا گیا۔ وکٹری ڈے کا اعلان سنتے ہی سارا شہر بادشاہ اور ملکہ کو مبارکباد دینے بکنگھم پیلس چلا آیا۔ ساری مال کی سڑک عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کا منظر پیش کر رہی تھی۔
2002ء میں جب ملکہ عالیہ الزبتھ دوم کے تخت نشین ہونے یک گولڈن جوبلی منائی گئی تو یہی منظر مال روڈ نے پھر دیکھا۔ ایک میزبان کی حیثیت سے ہر آنے والے مہمان کے پائوں تلے تلیاں بچھائی جا رہی تھیں۔ اسی مناسبت سے لندن کی سب سڑکوں میں دی مال کو ایک دلہن کا درجہ حاصل ہے اور اس میں مبالغہ بھی نہیں۔
لندن کی مشہور مارتھون ریس کا خاتمہ بھی مال روڈ پر ہی ہوتا ہے۔2012ء کے اولمپک کھیلوں میں مال ہی کو مارتھون ریس کے مقابلوں کے لئے استعمال کیا گیا۔2019ء میں کرکٹ ورلڈ کپ کی خصوصی تقریب کا انعقاد بھی اسی مال روڈ پر ہی ہوا تھا۔ آج کل اسی مال روڈ کی طرز پر دنیا کے کئی ممالک میں سڑکیں موجود ہیں۔ اس سے دی مال لندن کی ہر دلعزیزی کا پتہ چلتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
پتھر کا زمانہ:لوگ کیا کھاتے تھے؟

پتھر کا زمانہ:لوگ کیا کھاتے تھے؟

آج کے مشینی دور میں جہاں انسان نے پیدل چلنا، سادہ غذا کھانا، وقت پر سونا،جاگنا اور کھانا تقریباً ترک کر دیا ہے ۔وہیں اس کی صحت کے مسائل بھی دن بدن اس کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔جہاں تک نوجوان نسل کی ایک جماعت کا تعلق ہے وہ بیک وقت دو کشتیوں میں پیر پھنسائے نظر آتے ہیں ۔ ایک طرف تو وہ سمارٹ ہونے کیلئے بے تاب ہیں جبکہ دوسری طرف وہ مرغن غذائوں اور فاسٹ فوڈ کو چھوڑنے پر بھی آمادہ نہیں۔دراصل آج کے نوجوانوں کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ایک طرف وہ سمارٹ اور خوبصورت نظر آنے کے چکر میں جم بھی باقاعدگی سے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف مضحکہ خیز طور پر وہ جم سے سیدھا فاسٹ فوڈکھانے چل پڑتے ہیں ۔ عام طور پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک سنجیدہ اور دوسرے غیر سنجیدہ۔ بدقسمتی سے دور حاضر میں خوراک کے استعمال میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے جو صرف زندہ رہنے کیلئے کھاتے ہیں وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں جبکہ دوسرا طبقہ جو زندہ ہی صرف کھانے کیلئے ہے ان کی گواہی گلی گلی کھلے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس ہیں۔ کھانے کے معاملے میں جہاں تک غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے طبقے کا تعلق ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے صحت کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی۔جہاں تک اس کے برعکس دوسرے طبقے کا تعلق ہے ، اگرچہ وہ کل ملکی آبادی کا بمشکل ایک یا دو فیصد ہو گا لیکن اس طبقے کو ہر وقت اپنی صحت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ چنانچہ یہ اپنی استطاعت کے مطابق حکیموں اور ڈاکٹروں سے رابطے میں رہتا ہے جبکہ صاحب ثروت حضرات اپنی خوراک بارے ماہر غذائیات (نیوٹریشنسٹ ) سے باقاعدہ طور پر ڈائیٹ چارٹ بنوا کر اپنی خوراک کا صحیح تعین کرتے رہتے ہیں۔ آج سے دو تین عشرے قبل یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ مارکیٹ میں دستیاب سبزیاں ، پھل اور دیگر اشیائے خور و نوش غیر نامیاتی ہوتی ہیں کیونکہ ان کی تیاری میں مصنوعی کھاد سے لے کر کیڑے مار مصنوعی ادویات استعمال کی جاتی ہیں ، جو انسانی صحت کیلئے مضر ہیں جبکہ نامیاتی (آرگینک) اجناس چونکہ قدرتی طریقوں سے پروان چڑھتی ہیں اس لئے یہ انسانی صحت کیلئے مفید اور بے ضرر ہوتی ہیں۔ ایک طرف نامیاتی اجناس کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا تو دوسری طرف ان کی قیمتیں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ نتیجتاً غیر نامیاتی اشیاء کو بھی نامیاتی ظاہر کر کے بیچا جانے لگا تو لوگوں کا رفتہ رفتہ نامیاتی اور غیر نامیاتی اجناس سے بھی اعتقاد اٹھ گیا۔کچھ عرصہ پہلے انسان کو جب تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلا کہ پتھر کے زمانے یعنی ''پیلیو لتھک‘‘ ( Paleolithic )دورکا انسان صحت مند ، انتھک اور زیادہ محنت کرنے والا تھا۔ تو اسے تجسس ہوا کہ آخر اس کی صحت مندی کا راز کیا تھا ؟۔ خوراک کے بارے محتاط افراد کے تجسس میں جب اضافہ بڑھا تو ذرخیز ذہنوں نے اس کا سبب اس دور کے انسانوں کی خوراک کو بتایا۔ اپنی خوراک بارے محتاط رویہ رکھنے والوں نے یہ کھوج لگانا شروع کیا کہ '' پیلیو غذائیں‘‘ یعنی ''پیلیولتھک‘‘ دور میں ہمارے آبائو اجداد کی خوراک آخر کن کن اشیا پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ (ماہرین اور تاریخ دان 25 لاکھ سال سے لے کر آج سے 10 ہزار سال پہلے تک کے دور کو ''پیلیو لتھک‘‘ دور شمار کرتے ہیں)بادی النظر میں اگرچہ یہ تحقیق مشکل تھی کیونکہ یہ دور، تاریخ نویسی سے بھی پہلے کا دور تھا۔ لیکن معلوم تاریخی حوالوں اوربعض روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس دور کا انسان پہلے پہل جڑی بوٹیوں اور درختوں سے اپنی غذا حاصل کرتا رہا اور پھر جب اس نے اپنی حفاظت کیلئے جنگلی جانوروں کا شکار کرنا شروع کیا تو اسے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ شکار کی شکل میں اسے ایک نئی خوراک کا ذریعہ مل چکا تھا۔پیلیو خوراک کی جانکاری کے تجسس نے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو شکاریوں کے اور قریب کر دیا تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ آخر شکاری قبائل کیا کھاتے تھے؟۔ ان ہی سائنس دانوں میں امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے شعبہ بشریات و عالمی صحت کے ایک پروفیسر ڈیوک پونٹرز بھی تھے جنہوں نے تنزانیہ کے ایک قدیم ترین شکاری قبیلے '' ہڈ زابی‘‘ کے لوگوں کے ساتھ دس سال کا طویل عرصہ گزارا ۔ایک ہزار نفوس پر مشتمل ''ہڈزابی‘‘ (Hadzabe) نامی قبیلہ دور حاضر میں شاید واحد قبیلہ ہے جس نے ابھی تک غاروں کو اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔مورخین اس قبیلے کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ قبیلہ ممکنہ طور پر پتھر کے زمانے کا تسلسل ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ صدیاں بیت گئیں لیکن اس شکاری قبیلے نے نہ تو اپنا طرز زندگی بدلا اور نہ ہی اپنی خوراک۔ پروفیسر پونٹرز کہتے ہیں ''ہڈ زابی‘‘ قبیلے کے لوگ فصلیں اُگانے یا جانور پالنے کی بجائے عمومی طور پر حالت سفر میں رہتے ہیں۔ وہ دن میں اوسطاً دس کلومیٹر کا پیدل، ننگے پائوں سفر کرتے ہیں، جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں،جڑوں والی سبزیاں کھاتے ہیں، شہد اکٹھا کرتے ہیں، بیر اور پانی جمع کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے ٹھکانوں پر آ جاتے ہیں۔''پیلیو غذا ‘‘اصل میں ہے کیا ؟ ''پیلیو غذا‘‘ بنیادی طور پر پتھر کے زمانے کے ہمارے آبائواجداد کی خوراک کو کہتے ہیں۔ اس دور کے لوگوں کو شکار کر کے یا جنگلی جڑی بوٹیاں اکٹھی کر کے اپنی خوراک جمع کرنا پڑتی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روایات اور دستیاب شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ''پیلیو غذا‘‘ گوشت ، مچھلی، پھل، شہد اور گری دار میوے پرمشتمل ہواکرتی تھی۔ چونکہ یہ دور زراعت کی ترقی سے پہلے کا دور تھا اس لیے اس میں مختلف اجناس، پھلیاں اور ڈیری شامل نہیں ہواکرتا تھا۔دور جدید میں اس خوراک کے پس پردہ دراصل یہ سوچ کارفرما ہے کہ غار میں رہنے والے انسان کی طرح کھائیں اور اپنا وزن گھٹائیں۔ وہ لوگ جو پتھر کے زمانے کی طرح خوراک کھاتے ہیں ان کا یہ پختہ یقین ہے کہ یہ خوراک انہیں صحت مند بناتی ہے۔یہاں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ پیلیو خوراک لیتے کیسے ہیں ؟ کیونکہ اس خوراک میں پھل، سبزیاں، بغیر چربی گوشت، مچھلی، انڈے، میوے اور اجناس شامل ہیں۔ اس خوراک کے حامی، تمام اجناس، ڈیری مصنوعات اور مصنوعی شکر سے اجتناب برتنے کی تلقین کرتے ہیں۔''پیلیو غذا ‘‘بارے عالمی رد عملماضی قریب میں تیزی سے مقبول ہونے والی ''پیلیو ڈائٹ‘‘ بارے اب بھی لوگوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ ماضی کے برعکس انہیں دور جدید میں استعمال کرنا سود مند ہے یا نہیں ؟۔ پیلیو غذا اور روائتی امریکی غذا بارے سان فرانسسکو میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں اس غذا کے کچھ فوائد بھی ہیں مثلاً تیزی سے وزن کم کرنے، بلڈ پریشر اوربلڈ شوگر کی سطح کو معمول پر لانے میں یہ غذا مدد گار ثابت ہوئی ہے۔سویڈن کے سائنس دانوں نے ایک تحقیق میں روائتی ہائی کاربوہائیڈریٹ اسکنڈ ینیوین غذا کے مقابلے میں پیلیو غذا کو بہتر پایا، بالخصوض ٹرائی گلیسٹرائیڈز اور لپڈس کی خون کی سطح میں یہ تیزی سے کمی کا باعث بنتی ہیں۔ سویڈن ہی کی یونیورسٹی آف اومی کی پروفیسر، کیرولین میلبرگ کا کہنا ہے کہ ہاں پیلیو خوراک کی یہ بات اچھی ہے کہ یہ تمام غیر صحت مند غذائوں کی نفی کرتی ہے ، خاص طور پر زیادہ کیلوریز والے ''جنک فوڈز‘‘ کی جبکہ کچھ ماہر غذائیات کے مطابق ڈیری مصنوعات، پھلیاں اور اناج سے پرہیز کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کے صحت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔جبکہ سویڈن میںکینسر سینٹر کی کلینکل نیوٹریشنسٹ سٹیفنی میکسن کہتی ہیں ، ان غذائوں میں (اجناس اور ڈیری مصنوعات ) اہم غذائی اجزا شامل ہوتے ہیں جو کئی بار ثابت ہو چکے ہیں۔

آگرہ کے تاریخی مقامات

آگرہ کے تاریخی مقامات

آگرہ ایک عظیم تاریخ کا حامل شہر ہے۔ آگرہ بذات خود ایک خوبصورت لفظ ہے جو اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ یہ شہر ان شہروں میں سے ہیں جسے مغلوں سے پہلے افغانوں نے آباد کیا۔ ستیا چندرا مکھر جی کی کتاب جو 1882ء میں شائع ہوئی میں درج ہے کہ ابراہیم لودھی کے والد سکندر لودھی نے 1504ء میں اپنا پایہ تخت دلی سے یہاں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے کی تاریخ کا کسی کو صحیح علم نہیں ہے۔ مکھر جی نے لکھا ہے ایک یونانی سیاح جو دوسری صدی میں یہاں پر آیا اس نے شہر کا تذکرہ آگرہ کے نام سے کیا ہے۔ مہا بھارت میں بھی اس کا ذکر ''آگراوانہ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر دو ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔محمود غزنوی کے حملوں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے جس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ یہ ایک غیر آباد گائوں تھا اور اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی۔ مکھر جی کے مطابق محمود غزنوی کے وقت یہ ایک بہت چھوٹا سا گائوں تھا اور اس کے پانچ سو سال بعد ابراہیم لودھی نے اسے آباد کرنا شروع کیا اور جب مغلوں نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو آگرہ کی حیثیت میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔اس تاریخی شہر میں سیاحوں کیلئے کئی یادگاریں موجود ہیں۔ پڑھئے آگرہ کے چند تاریخی مقامات کے بارے میں۔آگرہ کا قلعہجب بابر نے پانی پت میں لودھی کو شکست دی تو اس نے دلی میں رہنے کی بجائے آگرہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت یہاں پر بہت زیادہ عمارتیں موجود نہیں تھیں۔ بابر نے اپنی ضرورت کے مطابق کچھ عمارات تعمیر کیں لیکن انھیں قلعے کی بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ قلعے کی شکل و صورت اکبر کے دور میں بنی۔ بابر کے بعد ہمایوں کو جم کر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کی وفات کے بعد جب اکبر کو بادشاہت ملی تو اس نے آگرہ میں اس قلعے کی بنیاد رکھی۔1638ء تک یہ قلعہ مغلیہ سلطنت کی رہائش گاہ تھا۔ اس کے بعد دارالحکومت کو آگرہ سے دہلی منتقل کردیا گیا۔ آگرہ کے قلعے کا شماریونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں ہوتا ہے۔ یہ تاج محل سے 5 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس قلعہ میں جہانگیری محل اور موتی مسجد بھی واقع ہے۔ آگرہ قلعے کے سامنے آگرہ کی جامع مسجد بھی ہے۔ سیاحوں کے درمیان یہ کافی مقبول ہے۔تاج محل1632ء میں تاج محل کو مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے تعمیر کرنے میں 22 سال لگے تھے۔ تاج محل کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ ہندوستان کا سب سے مشہور تاریخی مقام ہے۔ پوری عمارت کو سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ بیرون ممالک میں ہندوستان کو تاج محل کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اتنا مقبول ہے کہ دبئی میں تاج محل کی طرز کا شاپنگ کمپلیکس اور ہوٹل بنایا جا رہا ہے۔ یہ ہوٹل اصل تاج محل سے4 گنا بڑا ہوگا۔ہمایوں کا مقبرہ ہندوستانی اور ایرانی طرز تعمیر کا شاہکار ہمایوں کا مقبرہ ملک کی اہم تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ایک لحاظ سے ہمایوں کا مقبرہ وہ پہلی بڑی عمارت تھی جو مغلوں نے ہندوستان میں بنائی۔ اس عمارت کی تعمیر میں پہلی بار سرخ پتھر کا استعمال کیا گیا۔ یہ مقبرہ اور اس سے ملحقہ باغات، ہمایوں کی بیوی حاجن بیگہ بیگم نے اپنے شوہر کی یاد میں بنوائی تھی۔ پھر اس کے بعد بہت ساری بیگمات نے اپنے شوہروں اور بہت سارے شوہروں نے اپنی بیگمات کے مزارات بنوائے، جیسے لاہور میں جہانگیر کا مقبرہ اس کی بیگم نے بنوایا۔ اسی طرح سے تاج محل، ممتاز محل کے خاوند شاہجہاں نے بنوایا اور یوں مغلوں میں یہ رواج عام ہو گیا۔مغلوں نے مقبرے کو صرف مقبرہ ہی نہیں رہنے دیا بلکہ اس کے اردگرد اتنے خوبصورت باغات بنوائے کہ وہ باقاعدہ تفریحی مقامات بن گئے۔اعتمادالدولہ کا مقبرہآگرہ کے قلعے سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر اعتمادالدولہ کا مقبرہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کی دیگر عمارتوں سے اس کا طرز تعمیر منفرد ہے۔ اسے جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں نے اپنے والدغیاث الدین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن تاج محل کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ اکبر کا مقبرہ یہ عمارت آگرہ کے مضافات سکندر میں ہے۔ یہ آگرہ شہر سے8 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں تیسرے مغل شہنشاہ اکبر کی مزار ہے۔ اسے شہنشاہ اکبر ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ پہلے زمانے میں بادشاہ اپنی زندگی ہی میں اپنا مقبرہ تعمیر کروالیتے تھے۔ تاہم، اکبر کے بیٹے جہانگیر نے والد کی موت کے بعد اس کا تعمیراتی کام مکمل کروایا تھا۔ یہ عمارت ایک بڑے پتھر پر استادہ ہے۔

ریڈ بیچ: مہاجر پرندوں کی آماجگاہ

ریڈ بیچ: مہاجر پرندوں کی آماجگاہ

ہر خزاں میں چین میں خلیج بوہائی کے شمال مشرق میں واقع پانجن ریڈ بیچ ہجرت کرنے والے پرندوں سے بھر جاتا ہے۔ تقریباً 100 طرح کے نایاب پرندے، بشمول سرخ تاج والی کونجیں، سفید کونجیں، مشرقی سفید سارس، جنگلی ہنس اور بطخیں، دلدلی علاقے میں قیام، آرام اورسرما میں اپنے سفر جنوب کیلئے طاقت بحال کرتے ہیں۔مقامی ماحولیات میں بہتری کے ساتھ، کہیں زیادہ پرندے سردیاں گزارنے کیلئے اسے منتخب کر چکے ہیں، جس سے یہ علاقہ پرندوں کی جنت بن چکا ہے۔ یہ شمال میں سب سے دور مقام ہے جہاں جنگلی سرخ تاج والی کونجیں موسم سرما گزارتی ہیں۔ یہ اپنے نام کی طرح ریتیلا ساحل نہیں ہے، ریڈ بیچ دنیا میں سب سے زیادہ عمدگی سے محفوظ کیا گیا دلدلی علاقہ ہے اور حیاتی تنوّع اور مرطوب مقام کے تحفظ پر تحقیق میں ایک عمدہ مقام رکھتا ہے۔ تقریباً 287 قسم کے پرندے، بشمول سفید ہنس، ایگرٹ، ہیرون، گرگانے اور سوان گوس جیسے بگلوں اور بطخوں پر مشتمل نایاب سمندری پرندوں کی درجنوں اقسام، اس زمین پر سکونت اختیار کرتی ہیں۔ یہ سانڈرز کی مرغابیوں اور فوکا لارگھا پلاس کی افزائش نسل کا مقام بھی ہے۔چین کے سیاحتی اداروں کی جانب سے کی گئی درجہ بندی میں پانجن ریڈ بیچ کو مرطوب مقامات کی سیاحت کے لیے مثالی مقامات کی پہلی فہرست میں درج کیا گیا ہے۔ 3,149 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا یہ دنیا کا سب سے بڑا مرطوب مقام ہے۔قرمزی سرخ رنگ کی گھاس جو سالانہ 50 میٹر سمندر کی طرح پھیلتی ہے، یہ مرطوب علاقہ مثالی خوبصورتی کا حامل ہے، کیونکہ دنیا بھر میں ساحلی علاقوں کی گھاس عموماً سبز ہوتی ہے۔ مقامی افراد اس زمین کو فطرت کا خزانہ سمجھتے ہیں۔خزاں کے اواخر میں اس کے ساحلوں پر بننے والی سخت دلدل شوخ سرخ رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ ریڈ بیچ کے سفر کا بہترین وقت مئی سے اکتوبر کے درمیان کے مہینے ہے۔ مختلف رنگوں کا یہ منظر آنکھوں کیلئے بہت پرلطف ہوتا ہے۔ سرخ دلدلی علاقے کے علاوہ سبز سرکنڈے، سیاہ خام تیل، نیلا سمندر، دھان کے سنہرے دانے، سرمئی کیکڑے اور سفید سمندری بگلے ہیں۔ آکسیجن سے بھرپور شفاف ہوا تازہ دم کر دینے والی ہے۔پانجن شہر نے سیاحت کیلئے اس مقام پر کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان سہولیات میں گرم چشمے، مہمان خانے، عجائب گھر اور ریستوران ہیں جن تک رسائی بہت آسان ہے۔

لندن:عروس البلاد

لندن:عروس البلاد

اس دنیا میں جس شہر کو سب سے پہلے عروس البلاد کا نام دیا گیا، وہ لندن تھا۔ وہ سلطنت جس کا سارے جہاں میں لوطی بولتا تھا، جس کی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، اس سلطنت کی راجدھانی لندن ہی تھا۔ برطانیہ کے حکمرانوں نے لندن میں بیٹھ کر شرق و غرب کے ممالک پر حکمرانی کی۔ اسی وجہ سے لندن شہر تاج و تخت کے وارثوں کا میزبان بنا بلکہ یہ میزبانی کسی نہ کسی صورت اب بھی لندن کے حصہ میں آئی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کی حکومتیں جب کبھی ڈگمگانے لگتی ہیں تو ان کے حکمرانوں کو لندن ہی پناہ دیتا آ رہا ہے۔ اس لحاظ سے لندن کا دامن بہت وسیع ہے۔ شکست خوردہ حکمرانوں کو دنیا میں اگر کہیں ''آغوش مادر‘‘ ملتی ہے تو وہ لندن ہی کا شہر ہے۔دریائے ٹیمز کے کنارے واقع لندن ہر صورت اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہے۔ اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو لندن شہر کی خوبصورتی میں دریائے ٹیمز کا بہت بڑا کردار ہے۔ بکنگھم پیلس ہو یا ہائوس آف پارلیمنٹ، بگ بن ہو یا لندن برج، موجودہ دور میں تعمیر کئے گئے میلینیم ڈوم ہو یا لندن آئی اور کیبل کار یہ سب ٹیمز کے کنارے واقع ہیں۔ ایک طرح سے ٹیمز لندن شہر کے گلے کا ہار ہے جو طرح طرح کے خوبصورت اور چمکدار موتیوں سے مزین ہے۔ قوسِ قزح کے سارے رنگ ٹیمز میں اتر آئے ہیں اور جب انہی رنگوں کا عکس لندن شہر پر پڑتا ہے تو شہر اور نکھر جاتا ہے۔ ہر ایک کے چہرے پر تروتازگی اور مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ ٹیمز کے موتیوں کی چکا چوند نہ صرف لندن کے باسیوں بلکہ ساری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں سیاحوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ نہ جانے لندن شہر میں کیا کشش ہے کہ ہر ایک دل اس کو دیکھنے کیلئے بے تاب رہتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ لندن کی یہ کشش اور مقناطیسیت دریائے ٹیمز ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔تاریخ کے ماخذ سے پتہ چلتا ہے کہ لندن شہر کی بنیاد رومی سلطنت نے 47ء میں رکھی تھی۔ اس لحاظ سے لندن شہر کی ابتدا آج سے دو ہزار برس قبل ہوئی۔ پہلے پہلے اس بستی کو لندی نیام کا نام دیا گیا، بعد میں لندن اس نئے شہر کی پہچان بن گیا۔ رومی سب سے پہلے جولس سیزر کی قیادت میں برطانیہ آئے۔دنیا جہاں کے مکیں لندن شہر کے مرہون منت ہیں کہ اس شہر میں وہ مایہ ناز سائنس دان پیدا ہوئے، جنہوں نے دنیا کو روشن کیا، وہ شاعر اور ادیب پیدا ہوئے جنہوں نے ادب کے خفیہ دبستانوں کو رونق بخشی، وہ سنگ تراش پیدا ہوئے، جنہوں نے پتھروں کو زباں دی، وہ مسیحا پیدا ہوئے جنہوں نے زندگی سے مایوس لوگوں کو آس کی کرن دکھائی، وہ دانشورپیدا ہوئے جنہوں نے علم و حکمت کے دریا بہا دیئے۔ دنیا کے لڑ کھڑائے ہوئے لوگوں کیلئے آغوش لندن ہی آغوش مادر ثابت ہوئی۔المختصر لندن گزشتہ کئی صدیوں سے علم و ہنر، تعلیم، طبیعات، کیمیا، انجینئرنگ، ادب و ثقافت، قانون اور فنون کا گہوارہ چلا آ رہا ہے۔لندن شہر کا رقبہ صرف 1.12مربع میل اور صدیوں سے اس کا رقبہ نہ کم ہوا ہے اور نہ بڑھا ہے۔ اس لئے صرف عام میں اس کو مربع میل بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس شہر کا 'نک نیم‘ بھی ہے۔ لندن سطح سمندر سے 69فٹ بلند ہے۔ اس شہر کا انتظام ایک سٹی کونسل چلاتی ہے، اس کا سربراہ ایک میئر ہوتا ہے۔گزشتہ مردم شماری کے مطابق لندن کی آبادی تقریباً 90لاکھ ہے۔ لندن شہر میں سفید فام 78فیصد، انڈین3فیصد، پاکستانی 0.2 فیصد، بنگلہ دیشی 3فیصد، چائینز4فیصد اور دنیا سے آئے ہوئے دوسری اقوام کے باشندے تقریباً 12 فیصد ہیں۔ اس شہر میں 300 زبانیں بولی جاتی ہیں۔لندن فن اور ثقافت کا بہت بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں متعارف ہونے والے نت نئے فیشن اور ڈیزائن اسی شہر میں جنم لیتے ہیں۔ گو اس شہر میں دوسرے ممالک اور براعظموں سے ہجرت کرکے کئی لوگ آ بسے ہیں لیکن اس کے باوجود لندن شہر کی اپنی ثقافت، اپنا کلچر اور اپنی تہذیب ہے جو آج تک نہیں بدلی اور یہی اس شہر کی پہچان ہے۔لندن شہر ہریالی کے لحاظ سے یورپ میں پہلا اور دنیا میں تیسرا بڑا شہر ہے۔ اس کے پارکوں کا کل رقبہ 3500ایکڑ ہے۔لندن دنیا کا واحد شہر ہے جسے اولمپک گیمز کی تین دفعہ 1906، 1940ء، 2012ء میں میزبانی کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔لندن دنیا کا بہت بڑا تجارتی اور مالیاتی مرکز ہے۔ بینک آف انگلینڈ اور لندن سٹاک ایکسچینج کے مرکزی دفاتر یہاں پر موجود ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے بڑی آبادی والے شہر میں دس لاکھ لوگ ملازمت کرتے ہیں۔ برطانیہ کی کل آبادی کا 16فیصد عوام صرف لندن میں رہائش پذیر ہیں۔لندن میں چار مقامات ایسے ہیں جن کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا ہے۔(1)ٹاور آف لندن، (2) کیو گارڈن(بوٹانیکل گارڈن)، (3)ویسٹ منسٹر ایبے، (4)سینٹ پال کیتھڈرل چرچ۔ لندن کے کسی کونے میں چلے جائیں، خواہ وہ کوئی عظیم الشان عمارت ہو یا پل، میوزیم ہو یا گارڈن ، ہائوس آف پارلیمنٹ ہو یا پیلس بات صدیوں تک پہنچے گی۔ دراصل لندن کا بیج بھی سلطنت روم کے قدیم حکمرانوں نے بویا تھا۔ روم کے متعلق خالق کائنات نے قرآن پاک میں واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے اور اس سورہ مبارکہ کا نام بھی'الروم‘ ہے۔1665ء میں لندن میں شہر میں پلیگ (طاعون) کی وبا پھیلی، جس سے ایک لاکھ لوگ لقمۂ ال بنے۔ ابھی لندن کے شہری طاعون کی وحشت سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ1666ء میں لندن شہر میں آگ بھڑک اٹھی جس سے 80فیصد لندن خاکستر ہو گیا۔ مسلسل چار روز تک آگ کے شعلے بھڑکتے رہے۔ آگ اس قدر شدید تھی کہ 13000گھر، 80چرچ اور ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ اس کو لندن کی تاریخ میں ''گریٹ فائر‘‘ کہا جاتا ہے۔جنگ عظیم دوم میں اس شہر پر مسلسل 57 روز بمباری ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں 30ہزار لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔50ہزار زخمی ہوئے۔لندن شہر میں تباہی کی داستان رقم ہوئی۔انڈر گرائونڈ میں واٹر لوکا سٹیشن مصروف ترین ہے۔ اس میں 95ملین لوگ ہر سال سفر کرتے ہیں، اس کے بعد آکسفورڈ، پکاڈلی سرکس وکٹوریہ اور کنگ کراس سٹیشن مصروف انڈر گرائونڈ ریلوے سسٹم کے 270سٹیشن ہیں اور مجموعی فاصلہ 408کلو میٹر ہے۔ شہر کی بسوں میں روزانہ سات ملین لوگ سفر کرتے ہیں اور یہ بسیں ہر سال مجموعی طور پر30کروڑ میل سفر طے کرتی ہیں۔ لندن کی جتنی آبادی ہے اس سے دوگنی تعداد میں دوسرے ممالک سے لوگ (ایک کروڑ 60 لاکھ) ہر سال بطور سیاح آتے ہیں۔ دریائے ٹیمز بہتا تو جنوب کی طرف ہے لیکن گرتا بحیرہ ٔشمال میں ہے۔ سارا کا سارا لندن ایک طرح کا کھلا میوزیم ہے، ہر جگہ مظاہر قدرت، مناظر قدرت کی صورت آشکار ہیں۔لندن کے شہر کو دنیا کے تہذیبی و ثقافتی مرکز کا درجہ حاصل ہے۔(ورلڈ کلچر کیپٹل) لندن میں 170سے زائد میوزیم ہیں۔ لندن کا شہر بے شمار مشہور لوگوں کا مسکن رہا ہے۔ ان میں کارل مارکس، چارلس ڈارون، چارلس ڈکنز، فلورنس اور جونسٹن چرچل اسی شہر کے باسی تھے۔ 

یکم جولائی:مزاح کا عالمی دن

یکم جولائی:مزاح کا عالمی دن

مزاح ایک ایسا عنصر ہے جو ہماری زندگیوں میں خوشی اور تفریح لاتا ہے۔ یہ انسان کو ہنساتا ہے، دل بہلاتا ہے اور مشکلات کے درمیان بھی مسکراہٹ پیدا کرتا ہے۔مزاح الفاظ، اعمال، اور صورتحال کے ذریعے پیدا کیا جاتا ہے۔ مزاح کبھی کبھار سادہ ہوتا ہے اور کبھی کبھار گہری معنویت رکھتا ہے۔مزاح کے ہماری زندگیوں پر بہت سے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مزاح دل کو ہلکا کرتا ہے اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے سبب بنتا ہے۔ ہنسنے سے جسم میں خوشی کے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں جو ذہنی سکون کا باعث بنتے ہیں۔آج دنیا بھر میں مزاح کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ہمارا اردو ادب نہایت زرخیز ہے جس میں ہر موضوع کے مصنف و شاعر موجود ہیں۔ اسی طرح اردو ادب میں مزاح کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اردو زبان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک بے شمار مصنفوں و شاعروں نے مزاح لکھا جنہیں پڑھنے کیلئے آج کے دن سے بہتر موقع اور کوئی نہیں۔تو پھر آئیں مزاح کے عالمی دن پر اردو میں لکھے گئے مزاح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔مشتاق احمد یوسفیمشتاق احمد یوسفی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ معروف مصنف ابن انشا نے، جو بذات خود ایک بڑے مزاح نگار ہیں، ان کے بارے میں کہا تھا''ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘‘۔ یوں تو یوسفی صاحب کا لکھا گیا ہر جملہ ہی باغ و بہار ہے، ان میں سے کچھ ہم نے آپ کیلئے منتخب کیے ہیں۔٭...انسان کتنا ہی ہفت زبان کیوں نہ ہو جائے، گالی، گنتی، گانا اور لطیفہ اپنی زبان میں ہی لطف دیتا ہے۔٭...بڑھیا سگریٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کر دینے کو جی چاہتا ہے۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔٭...دنیا میں جتنی لذیذ چیزیں ہیں ان میں سے آدھی تو مولوی حضرات نے حرام کردی ہیں، اور بقیہ آدھی ڈاکٹر صاحبان نے۔٭...مونگ پھلی اور آوارگی میں یہ خرابی ہے کہ آدمی ایک دفعہ شرع کرے تو سمجھ نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے۔پطرس بخاریپطرس بخاری اپنے مضمون ''سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ میں اپنے پڑوسی کیلئے، جنہیں خود پطرس نے خود کو جگانے کے کام پر معمور کر رکھا ہے، لکھتے ہیں۔یہ سوتوں کو جگا رہے ہیں یا مردوں کو اٹھا رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی تو واجبی طور پر ہلکی سی قم کہہ دیا کرتے ہوں گے۔ زندہ ہوگیا تو ہوگیا نہیں تو چھوڑ دیا، کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کر تھوڑی پڑجایا کرتے تھے، توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے۔ابن انشااردو مزاح نگاری میں ایک اہم نام ابن انشا کا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور ان سفر ناموں کو نہایت پر مزاح انداز سے تحریر کیا۔ان کی مشہور زمانہ کتاب ''اردو کی آخری کتاب‘‘ ہے جس میں ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''کوئی پوچھتا ہے، الگ ملک کیوں بنایا تھا؟ ہم کہتے ہیں، غلطی ہوئی معاف کیجیئے گا، آئندہ نہیں بنائیں گے۔ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔بھینس دودھ دیتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا۔ لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔مزاحیہ اردو شاعریمیر تقی میر اور غالب سے لے کر جدید شاعروں نے متفرق معاشرتی موضوعات پر لطیف پیرائے میں چوٹ کرتے ہوئے اپنی شاعری کو مزاح کا رنگ دیا تاہم اردو مزاحیہ شاعری میں سب سے بڑا نام اکبر الہٰ آبادی کا ہے۔سرسید کی ترقی پسند تحریک اور ہندوستان میں تبدیلی کی ہواؤں سے بیزار اکبر الہٰ آبادی جا بجا اپنی شاعری کے ذریعے نئے رجحانات پر چوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاںاکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیاپوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہواکہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیاسید ضمیر جعفریسید ضمیر جعفری کو اردو مزاحیہ شاعری کا سالار کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں۔اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے نجدقیس ہے دراصل اک مشہور پٹواری کا نامدلاور فگاردلاور فگار جدید اردو کے مزاحیہ شاعر ہیں۔ فگار خاصے خود پسند شاعر تھے اور اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں گردانتے تھے۔وہ کون ہیں کہ شاعر اعظم کہیں جسےمیں نے کہا 'جگر‘ تو کہا ڈیڈ ہو چکےمیں نے کہا کہ 'جوش‘ کہا، قدر کھو چکے  

حکایت:عجمی طبیب

حکایت:عجمی طبیب

روایت ہے، عجم کے ایک عیسائی بادشاہ نے عقیدت ظاہر کرنے کے خیال سے اپنے ملک کے ایک نامور طبیب کو حضرت رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں اس خیال سے بھیجا کہ وہ مدینہ شریف میں رہ کر بیمار مسلمانوں کا علاج معالجہ کر سکے۔ اس طبیب کو مدینہ شریف میں رہنے کی اجازت مل گئی اور وہ مطب کھول کر وہاں رہنے لگا لیکن کتنے ہی دن گزر گئے، ایک مسلمان بھی علاج کرانے کے خیال سے اس کے مطب میں نہ آیا۔ طبیب نے اپنے طور پر خیال کیا کہ شاید یہ لوگ میرے عیسائی ہونے کی وجہ سے مجھ سے علاج نہیں کراتے۔ چنانچہ وہ حضرت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بات کی شکایت کی کہ مسلمان مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور اس وجہ سے علاج نہیں کراتے کہ وہ عیسائی ہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ایسی بات ہر گز نہیں بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ یہاںلوگ بیماری ہی نہیں ہوتے۔ ان کے تندرست رہنے کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب تک خوب بھو ک نہ لگے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے اور جب کچھ بھوک باقی ہوتی ہے تو د ستر خوان سے اٹھ جاتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد مبارک سن کر طبیب مطمئن ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ مدینہ شریف کے مسلمان علاج کی غرض سے اس کے مطب میں کیوں نہیں آتے۔ بولنے میں اور کھانے میں اگر اعتدال ہو تو انسان کئی نقصانات سے بچ سکتا ہے ۔معتبر بنتا ہے انساں، محترم رہتی ہے جانمشکل میں پھنستے ہیں ہم بے اعتدالی کے سببہو اگر محتاط تو گھٹتی نہیں انساں کی شانوضاحتاس حکایت میں با عزت اور تندرست رہنے کا زریں گر بتا یا گیا ہے۔ دنیا کے تمام دانشمند اس بات پر متفق ہیں کہ کم کھانے، کم بولنے اور کم سفر کرنے والے لوگ فائدے میں رہتے ہیں۔ یہ سب باتیں یقیناً ضروری ہیں لیکن ان کا اصل فائدہ اس وقت پہنچتا ہے جب اعتدال اور احتیاط کا راستہ اختیار کیا جائے۔