آگرہ کے تاریخی مقامات
آگرہ ایک عظیم تاریخ کا حامل شہر ہے۔ آگرہ بذات خود ایک خوبصورت لفظ ہے جو اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ یہ شہر ان شہروں میں سے ہیں جسے مغلوں سے پہلے افغانوں نے آباد کیا۔ ستیا چندرا مکھر جی کی کتاب جو 1882ء میں شائع ہوئی میں درج ہے کہ ابراہیم لودھی کے والد سکندر لودھی نے 1504ء میں اپنا پایہ تخت دلی سے یہاں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے کی تاریخ کا کسی کو صحیح علم نہیں ہے۔ مکھر جی نے لکھا ہے ایک یونانی سیاح جو دوسری صدی میں یہاں پر آیا اس نے شہر کا تذکرہ آگرہ کے نام سے کیا ہے۔ مہا بھارت میں بھی اس کا ذکر ''آگراوانہ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر دو ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔
محمود غزنوی کے حملوں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے جس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ یہ ایک غیر آباد گائوں تھا اور اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی۔ مکھر جی کے مطابق محمود غزنوی کے وقت یہ ایک بہت چھوٹا سا گائوں تھا اور اس کے پانچ سو سال بعد ابراہیم لودھی نے اسے آباد کرنا شروع کیا اور جب مغلوں نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو آگرہ کی حیثیت میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔اس تاریخی شہر میں سیاحوں کیلئے کئی یادگاریں موجود ہیں۔ پڑھئے آگرہ کے چند تاریخی مقامات کے بارے میں۔
آگرہ کا قلعہ
جب بابر نے پانی پت میں لودھی کو شکست دی تو اس نے دلی میں رہنے کی بجائے آگرہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت یہاں پر بہت زیادہ عمارتیں موجود نہیں تھیں۔ بابر نے اپنی ضرورت کے مطابق کچھ عمارات تعمیر کیں لیکن انھیں قلعے کی بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ قلعے کی شکل و صورت اکبر کے دور میں بنی۔ بابر کے بعد ہمایوں کو جم کر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کی وفات کے بعد جب اکبر کو بادشاہت ملی تو اس نے آگرہ میں اس قلعے کی بنیاد رکھی۔1638ء تک یہ قلعہ مغلیہ سلطنت کی رہائش گاہ تھا۔ اس کے بعد دارالحکومت کو آگرہ سے دہلی منتقل کردیا گیا۔ آگرہ کے قلعے کا شماریونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں ہوتا ہے۔ یہ تاج محل سے 5 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس قلعہ میں جہانگیری محل اور موتی مسجد بھی واقع ہے۔ آگرہ قلعے کے سامنے آگرہ کی جامع مسجد بھی ہے۔ سیاحوں کے درمیان یہ کافی مقبول ہے۔
تاج محل
1632ء میں تاج محل کو مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے تعمیر کرنے میں 22 سال لگے تھے۔ تاج محل کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ ہندوستان کا سب سے مشہور تاریخی مقام ہے۔ پوری عمارت کو سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ بیرون ممالک میں ہندوستان کو تاج محل کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اتنا مقبول ہے کہ دبئی میں تاج محل کی طرز کا شاپنگ کمپلیکس اور ہوٹل بنایا جا رہا ہے۔ یہ ہوٹل اصل تاج محل سے4 گنا بڑا ہوگا۔
ہمایوں کا مقبرہ
ہندوستانی اور ایرانی طرز تعمیر کا شاہکار ہمایوں کا مقبرہ ملک کی اہم تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ایک لحاظ سے ہمایوں کا مقبرہ وہ پہلی بڑی عمارت تھی جو مغلوں نے ہندوستان میں بنائی۔ اس عمارت کی تعمیر میں پہلی بار سرخ پتھر کا استعمال کیا گیا۔ یہ مقبرہ اور اس سے ملحقہ باغات، ہمایوں کی بیوی حاجن بیگہ بیگم نے اپنے شوہر کی یاد میں بنوائی تھی۔ پھر اس کے بعد بہت ساری بیگمات نے اپنے شوہروں اور بہت سارے شوہروں نے اپنی بیگمات کے مزارات بنوائے، جیسے لاہور میں جہانگیر کا مقبرہ اس کی بیگم نے بنوایا۔ اسی طرح سے تاج محل، ممتاز محل کے خاوند شاہجہاں نے بنوایا اور یوں مغلوں میں یہ رواج عام ہو گیا۔مغلوں نے مقبرے کو صرف مقبرہ ہی نہیں رہنے دیا بلکہ اس کے اردگرد اتنے خوبصورت باغات بنوائے کہ وہ باقاعدہ تفریحی مقامات بن گئے۔
اعتمادالدولہ کا مقبرہ
آگرہ کے قلعے سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر اعتمادالدولہ کا مقبرہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کی دیگر عمارتوں سے اس کا طرز تعمیر منفرد ہے۔ اسے جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں نے اپنے والدغیاث الدین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن تاج محل کی طرز پر بنایا گیا ہے۔
اکبر کا مقبرہ
یہ عمارت آگرہ کے مضافات سکندر میں ہے۔ یہ آگرہ شہر سے8 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں تیسرے مغل شہنشاہ اکبر کی مزار ہے۔ اسے شہنشاہ اکبر ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ پہلے زمانے میں بادشاہ اپنی زندگی ہی میں اپنا مقبرہ تعمیر کروالیتے تھے۔ تاہم، اکبر کے بیٹے جہانگیر نے والد کی موت کے بعد اس کا تعمیراتی کام مکمل کروایا تھا۔ یہ عمارت ایک بڑے پتھر پر استادہ ہے۔