آگرہ کے تاریخی مقامات

آگرہ کے تاریخی مقامات

اسپیشل فیچر

تحریر : اسد بخاری


آگرہ ایک عظیم تاریخ کا حامل شہر ہے۔ آگرہ بذات خود ایک خوبصورت لفظ ہے جو اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ یہ شہر ان شہروں میں سے ہیں جسے مغلوں سے پہلے افغانوں نے آباد کیا۔ ستیا چندرا مکھر جی کی کتاب جو 1882ء میں شائع ہوئی میں درج ہے کہ ابراہیم لودھی کے والد سکندر لودھی نے 1504ء میں اپنا پایہ تخت دلی سے یہاں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے کی تاریخ کا کسی کو صحیح علم نہیں ہے۔ مکھر جی نے لکھا ہے ایک یونانی سیاح جو دوسری صدی میں یہاں پر آیا اس نے شہر کا تذکرہ آگرہ کے نام سے کیا ہے۔ مہا بھارت میں بھی اس کا ذکر ''آگراوانہ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر دو ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔
محمود غزنوی کے حملوں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے جس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ یہ ایک غیر آباد گائوں تھا اور اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں تھی۔ مکھر جی کے مطابق محمود غزنوی کے وقت یہ ایک بہت چھوٹا سا گائوں تھا اور اس کے پانچ سو سال بعد ابراہیم لودھی نے اسے آباد کرنا شروع کیا اور جب مغلوں نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو آگرہ کی حیثیت میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔اس تاریخی شہر میں سیاحوں کیلئے کئی یادگاریں موجود ہیں۔ پڑھئے آگرہ کے چند تاریخی مقامات کے بارے میں۔
آگرہ کا قلعہ
جب بابر نے پانی پت میں لودھی کو شکست دی تو اس نے دلی میں رہنے کی بجائے آگرہ میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت یہاں پر بہت زیادہ عمارتیں موجود نہیں تھیں۔ بابر نے اپنی ضرورت کے مطابق کچھ عمارات تعمیر کیں لیکن انھیں قلعے کی بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ قلعے کی شکل و صورت اکبر کے دور میں بنی۔ بابر کے بعد ہمایوں کو جم کر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کی وفات کے بعد جب اکبر کو بادشاہت ملی تو اس نے آگرہ میں اس قلعے کی بنیاد رکھی۔1638ء تک یہ قلعہ مغلیہ سلطنت کی رہائش گاہ تھا۔ اس کے بعد دارالحکومت کو آگرہ سے دہلی منتقل کردیا گیا۔ آگرہ کے قلعے کا شماریونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں ہوتا ہے۔ یہ تاج محل سے 5 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس قلعہ میں جہانگیری محل اور موتی مسجد بھی واقع ہے۔ آگرہ قلعے کے سامنے آگرہ کی جامع مسجد بھی ہے۔ سیاحوں کے درمیان یہ کافی مقبول ہے۔
تاج محل
1632ء میں تاج محل کو مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے تعمیر کرنے میں 22 سال لگے تھے۔ تاج محل کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہ ہندوستان کا سب سے مشہور تاریخی مقام ہے۔ پوری عمارت کو سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ بیرون ممالک میں ہندوستان کو تاج محل کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں اتنا مقبول ہے کہ دبئی میں تاج محل کی طرز کا شاپنگ کمپلیکس اور ہوٹل بنایا جا رہا ہے۔ یہ ہوٹل اصل تاج محل سے4 گنا بڑا ہوگا۔
ہمایوں کا مقبرہ
ہندوستانی اور ایرانی طرز تعمیر کا شاہکار ہمایوں کا مقبرہ ملک کی اہم تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ایک لحاظ سے ہمایوں کا مقبرہ وہ پہلی بڑی عمارت تھی جو مغلوں نے ہندوستان میں بنائی۔ اس عمارت کی تعمیر میں پہلی بار سرخ پتھر کا استعمال کیا گیا۔ یہ مقبرہ اور اس سے ملحقہ باغات، ہمایوں کی بیوی حاجن بیگہ بیگم نے اپنے شوہر کی یاد میں بنوائی تھی۔ پھر اس کے بعد بہت ساری بیگمات نے اپنے شوہروں اور بہت سارے شوہروں نے اپنی بیگمات کے مزارات بنوائے، جیسے لاہور میں جہانگیر کا مقبرہ اس کی بیگم نے بنوایا۔ اسی طرح سے تاج محل، ممتاز محل کے خاوند شاہجہاں نے بنوایا اور یوں مغلوں میں یہ رواج عام ہو گیا۔مغلوں نے مقبرے کو صرف مقبرہ ہی نہیں رہنے دیا بلکہ اس کے اردگرد اتنے خوبصورت باغات بنوائے کہ وہ باقاعدہ تفریحی مقامات بن گئے۔
اعتمادالدولہ کا مقبرہ
آگرہ کے قلعے سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر اعتمادالدولہ کا مقبرہ ہے۔ مغلیہ سلطنت کی دیگر عمارتوں سے اس کا طرز تعمیر منفرد ہے۔ اسے جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں نے اپنے والدغیاث الدین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ اسے چھوٹا تاج محل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن تاج محل کی طرز پر بنایا گیا ہے۔
اکبر کا مقبرہ
یہ عمارت آگرہ کے مضافات سکندر میں ہے۔ یہ آگرہ شہر سے8 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں تیسرے مغل شہنشاہ اکبر کی مزار ہے۔ اسے شہنشاہ اکبر ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ پہلے زمانے میں بادشاہ اپنی زندگی ہی میں اپنا مقبرہ تعمیر کروالیتے تھے۔ تاہم، اکبر کے بیٹے جہانگیر نے والد کی موت کے بعد اس کا تعمیراتی کام مکمل کروایا تھا۔ یہ عمارت ایک بڑے پتھر پر استادہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
سمیرہ موسیٰ:مصر کی پہلی خاتون جوہری سائنسدان

سمیرہ موسیٰ:مصر کی پہلی خاتون جوہری سائنسدان

غاروں سے زندگی شروع کرنے والے انسان نے کامیابی سمیٹتے سمیٹتے شاندار محلات بنا کر اپنی زندگی کو آسان بنادیا اور اسی طرح گھوڑے پر سفر کا آغاکرنے والے انسان نے سپر فاسٹ ٹرینیں جہاز اور خلائوں میں سفر کرنے کے لئے خلائی شٹل بنالئے۔ گو کہ انسان روزِ اول سے ہی جستجو میں لگا رہا اور کامیابی سمیٹتا رہا مگر ان کامیابیوں کے ساتھ انسان میں حسد اور رشک کی خصلت بھی پروان چڑھتی رہی۔ تاریخی اوراق کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کامیابیاں سمیٹنے والے کو مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہی نہیں بعض اوقات کامیاب انسانوں کو مخالفت اور حسد کی آگ میںزندگی سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔ آج ہم ایک ایسی ہی کہانی بیان کرنے جارہے ہیں جس میں ایک مسلمان خاتون نے بہت کم عرصے میں سائنسی شعبے میںبہت بڑی کامیابی حاصل کیں مگر یہی کامیابیاں اس کی موت کا سبب بن گئیں۔ہم ذکر کر رہے ہیں سمیرہ موسیٰ کاجو 3 مارچ1917ء کو مصر کے شمالی علاقے غریبا میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے جبکہ سمیرہ موسیٰ کی والدہ ان کے بچپن میںہی سرطان کے باعث وفات پا گئی تھیں۔والدہ کی وفات کے بعد سمیرا موسیٰ کے والد خاندان کو لے کر مصرکے دارالحکومت قاہرہ چلے گئے جہاں انہوں نے ریسٹورنٹ کا کاروبار شروع کرلیا۔ سمیرہ موسیٰ کی ذہانت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سکینڈری سکول کے پہلے سال میں الجبراکی نصابی کتاب میں غلطیاں نکال کر ان کی درستی کی اور بعدا زاں اپنے والد کے خرچے پراس کرتاب کو دوبارہ چھپوایا اور اپنے ساتھیوں میں مفت تقسیم کیا۔سمیرا موسیٰ نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگے پڑھنے کے لئے قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔1939ء میں سمیرہ نے شاندار کامیابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ''ایکسرے کی تابکاری کے اثرات‘‘ کے موضوع پرتحقیق کاآغاز کیا۔ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس کے سربراہ مصطفی مشرفۃ کو سمیرہ موسیٰ جیسی ذہین طالبہ سے بہت امیدیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ سمیرا موسیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریس کے پیشہ کو اپنا کر شعبہ سائنس کی خدمت کریں گی۔اپنے استاد کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے سمیرا موسیٰ نے قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طورپڑھانا شروع کردیا۔وہ قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر تھیں۔ اسی دوران سمیرا موسیٰ نے برطانیہ سے جوہری تابکاری کے مضمون پر پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے مصر کی پہلی خاتون سائنسدان کا اعزاز بھی حاصل کرلیا۔سمیرا موسیٰ کا خیال تھا کہ جوہری طاقت کو پرامن مقاصد کے لئے استعمال کیاجانا چاہئے اور انہوں نے اسی عزم کو اپنی زندگی کا حصہ بھی بنایا۔سمیرا موسیٰ بچپن میں اپنی والدہ سے بچھڑ جانے کا دکھ ابھی تک بھلا نہیں پائیں تھیں ۔ان کی والدہ کا انتقال سرطان کے باعث ہواتھا اس لئے انہوں نے اپنی سرطان کے جوہری علاج کے لئے تحقیق شروع کردی۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ سرطان کا علاج اتنا سستا ہونا چاہئے جیسے اسپرین کی گولی۔ سمیرا موسیٰ نے اپنی تحقیق کے دوران کئے گئے تجربات سے دنیا میں ہلچل مچا دی کیونکہ انہوں نے سستی دھاتوں کے ذریعے جوہری طاقت کو حاصل کرنے کے لئے کامیاب تجربات کرلئے۔ شاید سمیرا موسیٰ کی یہی تحقیق ان کے موت کا سبب بنی کیونکہ سستی دھاتوں کے ساتھ جوہری قوت حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک بھی ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں، جو عالمی طاقتوں کے کسی طورپر بھی قابل قبول نہ تھا۔سمیرا موسیٰ نے ''جوہری توانائی برائے امن کانفرنس‘‘کا انعقادکیا جس میں بہت سے ممتاز سائنس دانوں مدعو کئے گئے اس پلیٹ فارم پر انسانیت دوست سائنس دانوں نے عالمی طورپر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ جس میں سمیرا موسیٰ پیش پیش رہیں۔سمیرا موسیٰ کی تحقیق اور تجربات کی شہرت مصر سے باہر دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی اور جوہری سائنس میں بے مثال کامیابیوںکو دیکھتے ہوئے 1950 ء میں امریکہ کے شہرت یافتہ فلبرائٹ سکالر شب سے نوازا گیا اور اس کے ساتھ ہی انہیںامریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی۔ انہوں نے یہ پیشکش رد کردی۔امریکہ میں قیام کے دوران وطن واپسی سے پہلے سمیرا موسیٰ کو کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔سمیرا موسیٰ کو دی گئی اس دعوت پر امریکہ میں اختلافات دیکھنے میں آئے۔جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی مخالفت کے باوجود سمیرا موسٰی5 اگست 1952ء کو کیلیفورنیا کے لئے روانہ ہوئیںجہاں راستے میں ان کی کارحادثے کے شکار ہوکر چالیس فٹ گہری کھائی میں جا گری اور زندگی میں کئی شعبوں میں بازی جیتنے والی سمیرا موسیٰ اس حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔ اس حادثے میں کار کے ڈرائیور نے پہلے ہی چھلانگ لگا کر اپنی جان بچا لی اور رو پوش ہوگیا۔ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی خدشات ہیں کہ سمیرا موسیٰ کو صہیونی طاقتوں نے ہلاک کروایا کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ کہیں سستے جوہری تجربات کی کامیابی کے بعد تیسری دنیا کے ممالک بھی ایٹمی طاقت حاصل نہ کرلیں ۔ 

دنیا کی خوبصورت آبشاریں

دنیا کی خوبصورت آبشاریں

ایگوازو فالس (Iguazu Falls): یہ ارجنٹینا میں ہے۔ اس آبشار سے ایک سیکنڈ میں ایک ہزار کیوبک لیٹر پانی گرتا ہے۔ یہاں کا موسم عام طور پر گرم ہوتا ہے۔ ایگوازو آبشار تقریباً 275 چھوٹے جھرنوں کا مجموعہ ہے۔ یہ 82 میٹر بلند ہے۔ آبشار کا پانی ایگوازو دریا میں جاکر ملتا ہے جو برازیل، پراگ اور ارجنٹائنا سے ہوکر گزرتا ہے۔وکٹوریہ فالس زمبابوے اور زمبیا کی سرحد پر واقع یہ آبشار108 میٹر بلند ہے۔ 1855ء میں ڈیوڈ لیونگ اسٹون نے اس آبشار کو دریافت کرنے کے بعد اسے برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ سے موسوم کیا تھا۔ اس آبشار سے ایک سیکنڈ میں ایک ملین کیوبک لیٹر پانی گرتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے سات قدرتی عجائبات میں ہوتا ہے۔ مقامی افراد اسے ''موسی اوآتونیا‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ایسا دھواں جس سے بجلیوں کی سی آواز آتی ہے۔ نیاگرا فالزشمالی امریکہ میں واقع یہ دنیا کی سب سے مشہور اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی آبشار ہے۔ 51 میٹر اونچے اس آبشار سے ایک سیکنڈ میںسات ہزار کیوبک لیٹر پانی گرتا ہے۔ اس آبشار کی خاص بات یہ ہے کہ اسے کسی بھی زاویے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تینآبشاروں، ہورس شو فالس، دی امریکن فالس اور برائڈل ویل فالس کا مجموعہ ہے۔ نیاگرا فالس امریکہ اور کنیڈا کی سرحد پر ہے۔اینجل فالز دنیا کی بلند ترین آبشار ہے۔ وینزویلا میں واقع یہ آبشار 979 میٹر بلند ہے۔ 1935ء میں امریکی ہوا باز جیمز کرافورڈ اینجل نے پرواز کے دوران اسے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔آبشار انہی سے موسوم ہے۔کائتور آبشار گیانا میں واقع ہے اس آبشار کی بلندی 226میٹر ہے۔ یہ امیزون کے بارانی جنگلات میں واقع ہے۔ اس سے ایک سیکنڈ میں663 کیوبک میٹر پانی گرتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے طاقتور ترین آبشاروں میں ہوتا ہے۔ اسے 1870ء میں چارلس برنگٹن برائون نے دریافت کیا تھا۔ یہ آبشار ایک معمر شخص سے موسوم ہے جسے اس کے رشتہ داروں نے اسے ایک کشتی میں بٹھا کر آبشار سے نیچے گرادیا تھا۔ اس لئے اس کا نام ''کائتور‘‘ یعنی 'بوڑھے آدمی کی آبشار‘پڑ گیا۔ یوسومیٹ فالز یہ یوسومیٹ نیشنل پارک، کیلیفورنیا میں ہے جس کی اونچائی 739 میٹر ہے۔ اس آبشار کے نیچے ایک قبیلہ آباد ہے جسے 'شولوک‘ کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ آبشار کے نیچے جادوگرنیوں کی روحیں بھٹکتی ہیں۔گلفوس فالز یہ آئس لینڈ میں واقع ہے جس کی بلندی 32 میٹر ہے۔ موسم گرما میں گلفوس آبشار سے ایک سیکنڈ میں 140 کیوبک میٹر پانی گرتا ہے۔اس آبشار کی خاص بات یہ ہے کہ اوپر سے دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پانی نیچے جا کر زمین میں کہیں غائب ہورہا ہے۔ اسے ہالی ووڈ کی متعدد فلموں میں بھی دکھایا گیا ہے۔ ڈیٹیفوس فالز یہ شمال مشرقی آئس لینڈ میں ہے۔ اس آبشار میں پانی وتنجکل نامی برف کے تودے سے آتا ہے۔ اس کی بلندی 44 میٹر ہے۔ اسے یورپ کی سب سے طاقتور آبشار خیال کیا جاتا ہے۔ ڈیٹیفوس فالس کے پانی کے بہائو کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ اس کے اطراف کی چٹانوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔سورج کی روشنی میں آبشار کی بوچھاڑ سے180 ڈگری کی قوس قزح بن جاتی ہے۔پلیٹویزے فالزیہ پلیٹویزے نیشنل پارک، کروشیا میں ہے۔یہ چھوٹے چھوٹے کئی آبشاروں کا مجموعہ ہے۔ اس آبشار کو مکمل طور پر دیکھنے کیلئے چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ 78 میٹر بلند ہے۔ یہ آبشار 2حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں دریا ہے جہاں پانی جمع ہوتا ہے جبکہ دوسرے حصہ آبشار ہے۔ سدرلینڈ آبشار یہ نیوزی لینڈ میں ہے جس کی بلندی581 میٹرہے۔ چونکہ یہ عمودی ہے اس لئے نیچے سے دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آبشار آسمان سے گر رہی ہو۔ اس کی دریافت سکاٹ لینڈ کے شکاری ڈونالڈ سدرلینڈ نے کی تھی۔ جوگ آبشار ہندوستان کی دوسرا بلند ترین آبشار ہے جو کرناٹک میں ہے۔ دنیا کے بہترین آبشاروں میں یہ13 ویں نمبر پر ہے۔ یہ253 میٹر بلند ہے۔ ڈیٹیئن آبشار یہ ویتنام اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ دونوں ممالک کے افراد اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ یہ آبشار 30 میٹر بلند ہے۔ یہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑا آبشار ہے جو دو ممالک کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کے اطراف میں پودوں کی کم یاب اقسام پائی جاتی ہیں۔ آبشار کے اطراف میں چونے کے پتھروں کی بہتات ہے۔ سیلا لینڈ فوس فالزیہ آئس لینڈ کے جنوبی حصے میں ہے جس کی بلندی 60 میٹر ہے۔ یہ آبشار سیلا لینڈ دریا کا حصہ ہے۔ اس آبشار کو ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں دکھایا گیا ہے۔ جسٹن بیبر کے مشہور البم 'آئی ول شو یو‘ کے چند مناظربھی اسی آبشار کے کنارے شوٹ کئے گئے ہیں۔رائن فالز یہ سوئزر لینڈ اور یورپ کا سب سے بڑا آٰبشار ہے۔ یہ آبشار شمالی سوئزر لینڈ کے شہر زیورخ اور کینٹن شافہ زن کی سرحد پر واقع ہے۔ رائن 23 میٹر بلند ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آبشار 14 ہزار سے17 ہزار سال پہلے جاری ہوا تھا۔اسکوگافوس فالزیہ جنوبی آئس لینڈ کے مشہور دریا اسکوگا پر واقع ہے۔ اس کی بلندی 60 میٹر ہے۔ سورج کی روشنی میں اس آبشار کے قریب دو قو س قزح بنتی ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ برسوں پہلے ایک جنگجو نے آبشار کے عقب میں واقع غار میں خزانوں کے صندوق چھپائے تھے، جن کی تلاش اب بھی جاری ہے ۔

آج کا دن

آج کا دن

ایرانی جہاز پر امریکی حملہ''ایران ایئر فلائٹ 655‘‘ تہران سے بندر عباس کے راستے دبئی جانے والی ایک طے شدہ مسافر پرواز تھی جسے 3 جولائی 1988 ء کو امریکی بحریہ کے گائیڈڈ کروز میزائل سے مار گرایا گیا ۔ ہوائی جہاز ایئربس A300 میزائل حملے کے بعد تباہ ہو گیا اور اس میں سوار تمام 290 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ طیارہ بندر عباس بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد خلیج فارس میں ایران کے علاقائی پانیوں پر پرواز کے معمول کے راستے پر تباہ ہوا۔ یہ واقعہ ایران عراق جنگ کے دوران پیش آیا،جو تقریباً آٹھ سال سے جاری تھی۔راکٹ دھماکہسوویت یونین کا ''N1 راکٹ‘‘ 3جولائی 1969ء میں اپنے لانچنگ پیڈ پر ہی تباہ ہو گیا تھا۔ اسے سیپس راکٹ کی تاریخ کا بدترین حادثہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب دو عالمی طاقتوں، روس اور امریکہ کے درمیان خلا کو تسخیر کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ''N1‘‘کو امریکی اپالو پروگرام کا مقابلہ کرنے کیلئے بنا یاگیا تھا۔ اس پروگرام پر1959ء سے تحقیق کی جارہی تھی اور یقینی بنایا جا رہا تھا کہ اس میں کوئی کمی باقی نہ رہے۔لانچنگ کے وقت اس میں فنی خرابیاں سامنے آئیں اور جامد فائرنگ ٹیسٹ کی خرابی کی وجہ سے اس کا30انجنوں پر مشتمل کلسٹر میں پلمبنگ کے مسائل سامنے آنے لگے، جس کی وجہ سے یہ حادثے کا شکار ہوا۔فالس کرفیو''فالس کرفیو‘‘ جسے ''فالس کی جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ3جولائی 1970ء کے دوران شمالی آئرلینڈ کے بیلفاسٹ کے فالس ڈسٹرکٹ میں برطانوی افواج کا ایک آپریشن تھا۔یہ آپریشن قوم پرستوں کے ہتھیاروں کی تلاش میں کیا گیا تھا۔تلاشی ختم ہوتے ہی مقامی نوجوانوں نے برطانوی افواج پر پتھروں اور پٹرول بموں سے حملہ کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ جھگڑا برطانوی افواج اور آئرش ریپبلکن آرمی کے درمیان ایک بڑی لڑائی میں بدل گیا۔چار گھنٹے کی مسلسل لڑائی کے بعد برطانوی کمانڈر نے3ہزار گھروں پر مشتمل علاقے کو سیل کر دیا اور کرفیو نافذ کر دیا جو 36گھنٹے جاری رہا۔اسی دوران برطانوی افواج نے دوبارہ تلاشی شروع کی جبکہ آئرش ریپبلکن آرمی کے وقفے وقفے سے حملے جاری رہے۔فضائی حادثہڈین ائیر کی فلائٹ 3 جولائی 1970ء کو سپین کے صوبہ کاتالونیا کے گیرونا میں جنگلاتی ڈھلوانوں سے ٹکرا گئی۔ پرواز مانچسٹر سے بارسلونا کیلئے ایک غیر طے شدہ بین الاقوامی مسافر سروس پر تھی۔اس جہاز میں برطانوی ٹور آپریٹر کا سوار تھا جو چھٹیاں منانے کیلئے جا رہا تھا۔ حادثے کے نتیجے میں طیارہ تباہ ہو گیا اور اس میں سوار تمام 112 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ 1970ء میں ہوابازی کا سب سے مہلک حادثہ تھا۔یہ حادثہ ڈیین ائیر کا پہلا حادثہ تھا۔

جڑواں شہر

جڑواں شہر

9 صدی عیسوی میں جڑواں شہروں یا سسٹر سٹی کا تصور موجود تھا ۔ تاریخی حوالوں میں بھی اس بین الاقوامی رابطوں کیلئے جڑواں شہروں کا ذکر ملتا ہے ۔'' ٹوئن سٹی‘‘ کے معاہدے کے تحت دوشہروں کی میونسپل کمیٹیوں کے درمیان تجارتی، ثقافتی اور وسائل کو باہمی طور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کیا جاتا ہے،دیگر انتظامی معاملات اور تعلقات بڑھانے کیلئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جاتا ہے۔ ایک ہی ملک کے دوشہروں کے درمیان بھی جڑواں شہروں کے معاہدے موجود ہیں جن میں جیسے کہ آسٹریلیا کے دو شہر البری اور ووٹوڈنگا کو بھی جڑواں شہروںکی حیثیت حاصل ہے حالانکہ یہ دونوں شہروں کا آپسی فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں اسلام آباد اور روالپنڈی بھی جڑواں شہر کہلاتے ہیں ان دونوں شہروں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے جبکہ راولپنڈی صوبہ پنجاب کا شہر ہے۔اسی طرح دو ایسے شہرجو مختلف ممالک میں موجود ہیں ان کے درمیان بھی جڑواں شہروں کے معاہدے کئے گئے ہیں، جیسے کہ سویڈن کے شہر ہاپرنڈافن لینڈ کے شہر ٹورنیو ، کولمپیا کے شہر لیٹیشیااور برازیل کے شہور تبتینگا، ایسوٹنیا کے شہر یا والگا اور لٹویا کے شہرو والکا کے درمیان بھی جڑواںشہروں کا معاہدہ ہے۔برطانیہ میں''جڑواں شہر‘‘کی اصطلاح سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ''سسٹر سٹیز‘‘ کی اصطلاح عام طور پر امریکہ کے قصبوں اور شہروں کے ساتھ معاہدوں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔مین لینڈ یورپ میں، سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاحات ''جڑواں شہر‘‘،''شراکت دار شہر‘‘، ''پارٹنر ٹاؤنز‘‘ اور ''فرینڈشپ ٹاؤنز‘‘ ہیں۔ یورپی کمیشن ''جڑواں شہر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور اس عمل کو''ٹاؤن ٹوئننگ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں کے دیگر ممالک کے شہروں کے ساتھ جڑواں شہروں کا معاہدہ کیا گیا ۔ شہر لاہور کا سب سے جڑواں شہروں کے ساتھ معاہدے موجود ہیں۔ شہر لاہو ر چین کے پانچ شہروں کا جڑواں شہر ہے جن میں ژیان، ینتھوئی، چینگڈو، جیانگ اور ہیکو شامل ہیں۔ ازبکستان کے دو شہر وں ثمرقند اور نامنگان، ایران کے دوشہروں اسفہان اور مشہاد، کوریا کے سریوون، تاجکستان کے شہر دوشنبے،امریکہ کے شہر شکاگو ، برطانیہ کے شہر گلاسکو ، ترکی کے شہر استنبول، موراکوکے شہر فیز، بیلجئم کے شہر کورترجک ، سپین کے شہر کورڈوبا اور بیلاروس کے موگیلیو شہر کے ساتھ جڑواں شہر ہے۔پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دیگر ممالک کے16 شہروں کا جڑواں شہر ہے۔ ان شہروں میں چار شہر چین کے جن میں شنگھائی ،شنیانگ، تینجن،ارومکی ،لبنان کا شہر بیروت ، بنگلہ دیش کا شہر ڈھاکہ ، ترکی کا شہر ازمٹ ، سعودی عرب کا شہر جدہ، ملائشیا کا شہر کولالمپور ، بحرین کا شہر منانما ، ایران کے دو شہر ماشاد اور قوم، مارشیئس کا شہر پورٹ لوئس ، کوسوو کا شہر پرسٹینا اور ازبکستان کا شہر تاشقند شامل ہیں۔پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد 8 شہروں کے ساتھ جڑواں شہر ہے جن میں چائنہ کے بیجنگ ، ہائیکوو اور تنجان، اردن کا شہر اومان ، ترکی کا شہر انقرہ، قازکستان کا شہر آسٹانا، انڈونیشیا کاشہر جکارتہ ، بیلا روس کا شہر منسک شامل ہیں۔ملتان چار ممالک کے شہروں کا جڑواں شہر ہے جن میں چین کے دوشہرو شہزوئیاور ژیان، ترکی کے شہر ٹنائے، ایران کے شہر راشٹ شامل ہیں۔پاکستان کے دیگر شہرپشاور انڈونیشیا کے شہر ماکاسارا اور چین کے شہر ارومکی ، ایبٹ آباد چین کے شہر کاشگاراور پیراگوئے کے شہر پورتو ویرس، فیصل آباد چین کے شہر قنگدوئی، گوجر خان برطانیہ کے شہر ریڈیچ ، گوادر چین کے شہر پیئنگ،حیدر آباد امریکی شہر ٹولیڈ، ساہیوال برطانیہ کے شہر روچڈیلے،سیالکوٹ امریکہ کے شہر بلنگ بروک اور سکردو اٹلی کے شہر کورٹینا ڈی امپوزے کا جڑواں شہر ہے۔ اسپین میںجڑواں شہروں کیلئے استعمال ہونے والی اصطلاح کا لفظی مطلب ''سسٹر سٹی‘‘ ہے۔ جرمنی، پولینڈ اور چیک ریپبلک میں جڑواں شہروں کی اصطلاح کیلئے پارٹنر سٹادٹ،جرمنی میں میاسٹو پارٹنرشی، جس کا لفظی مطلب ''پارٹنر ٹاؤن‘‘یا ''پارٹنر سٹی‘‘ ہوتا ہے۔  

تاریخی حادثہ طوفانی رات میں کیپٹن پر کیا گزری؟

تاریخی حادثہ طوفانی رات میں کیپٹن پر کیا گزری؟

یہ انیسویں صدی کی ساتویں دہائی کا واقعہ ہے۔ لوہے کے بحری جہاز نئے نئے بننے شروع ہوئے تھے۔ پہلے بحری جہازوں کی تعمیر میںصرف لکڑی استعمال کی جاتی تھی۔ برطانوی ڈیزائنرکیپٹن کوپرکولز( captain Cowper Phipps Coles) نے بالکل نئی طرز کا بحری جہاز ڈیزائن کیا جسیایک برطانوی فرم نے بنایا۔ اس جہاز میں خاص بات یہ تھی کہ اس کے اوپر توپوں کا عرشہ متحرک بنایا گیا تھا جس پر توپیں چونکہ چاروں طرف حرکت کرسکتی تھیں۔ اس لئے نشانہ لینے میں آسانی رہتی تھی۔ کوپر کولز نے اس جہاز کو دیکھ کر اس کی بناوٹ میں بہت سی خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔ ان خامیوں کے فرق کو ظاہر کرنے کیلئے اس نے خود ایک جہاز بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس جہاز کا نام ''کیپٹن‘‘ رکھا۔ اس پر بھی متحرک توپوں کا عرشہ بنایا گیا۔ اس کے فری بورڈ کی چوڑائی صرف 9 فٹ تھی۔ اس کے علاوہ اس کی بیرونی دیواروں کی اونچائی بھی خاصی کم تھی۔ کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ یہ جہاز طوفانی سمندر میں سفر کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جہاز پر موجودہ فالتو بادبان نصب تھے۔ کوپر کولز کے کہنے کے مطابق ان بادبانوں کا مقصد جہاز کے توازن کو برقرار رکھنا تھا لیکن ماہرین نے ان بادبانوں کو جہاز پر خطرناک بوجھ قرار دیا۔مکمل ہونے کے بعد'' کیپٹن‘‘ کو اس کے مد مقابل جہاز کے ساتھ ایک آزمائشی سفر پر روانہ کیا گیا۔ آزمائش کے دوران ''کیپٹن‘‘ نے دوسرے جہاز کے مقابلے میں اس قدر بہتر کارکردگی دکھائی کہ جہاز کی مخالف میں اٹھنے والی تمام آوازیں دب کر رہ گئیں۔ آخر کار اعلیٰ حکام نے مطمئن ہونے کے بعد ''کیپٹن‘‘ کو میڈی ٹرینین کے بحری بیڑے میں شامل کر دیا۔ اس بحری بیڑے کے ہمراہ کیپٹن 6 ستمبر1870ء کو سپین کے ساحل سے فوجی مشقوں کیلئے روانہ ہوا۔ ان فوجی مشقوں کا بنیادی مقصد لوہے کے بنے ہوئے جہازوں کی کارکردگی کا کھلے سمندر میں جائزہ لینا تھا۔پہلے ہی سفر میں طوفان، بارش اور سرکش موجوں نے بدقسمت جہاز پر یلغارکی اور حالات نہایت سنگین ہوگئے تو کپتان برجائن نے فوراً بادبان کھولنے کا حکم دیا لیکن اس سے بیشتر کہ باد بان کھولے جاتے ''کیپٹن‘‘ نے بھپرے ہوئے سمندر کے آگے سپر ڈال دی۔ ایک دیو قامت لہر آئی اور اس نے جہاز کو الٹا دیا۔ کپتان برجائن اور ڈیوٹی پر موجود دوسرے اہلکاروںنے چند لمحوں بعد خود کو کمر تک پانی میں ڈوبے ہوئے پایا۔ جہاز ایک طرف کو جھک گیا تھا لیکن ابھی پوری طرح الٹا نہیں تھا۔ اس بات کی تھوڑی امید تھی کہ شاید جہاز دوبارہ سیدھا ہوجائے لیکن طوفانی لہروں کے پے درپے ضربوں نے جہاز کو سیدھا ہونے کا موقع نہیں دیا۔کچھ دیر بعد جہاز پوری طرح الٹ گیا۔ سرکش لہریں جہاز کے اوپر چڑھ دوڑیں جہاز کی خالی جگہوں میں سمندر کا پانی تیز رفتاری سے داخل ہونے لگا اور ہرطرف چیخ و پکار بلند ہونے لگیں۔ جہاز کے نچلے حصوں میں موجود تمام افراد جہاز الٹنے کے صرف بیس سیکنڈ بعد ختم ہوگئے۔ زندہ بچ جانے والوں میں سے رابرٹ ہرسٹ نامی ایک ملاح کا کہنا ہے جہاز الٹنے سے چند لمحے بیشتر ہی میںایک ستون کو تھامے کھڑا تھا۔ میری کوشش تھی کہ حتی الامکان اپنے حواس کو قابو میں رکھوں۔ جب جہاز سمندر میں الٹ گیا تو میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح سمندر میں گر پڑا۔ پھر میں جہاز کے ساتھ ہی سمندر کی تہہ میں بیٹھتا چلا گیا۔ کافی نیچے جانے کے بعد میں نے اپنی قوت جمع کی اور سطح پر آنے کیلئے ہاتھ پائوں مانے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں سطح سمندر پر تھا، مجھے قریب ہی ایک لکڑی تیرتی ہوئی نظر آئی میں نے کئی دفعہ لکڑی پر اپنی گرفت مضبوط کرنی چاہی لیکن بپھری ہوئی لہروں نے میری یہ کوشش ناکام بنادی۔ اتنی دیر میں مجھے ایک لانچ نظر آئی۔ یہ لانچ اوپر سے کینوس کے ساتھ ڈھکی ہوئی تھی اور آہستہ آہستہ ہوا کے رخ پر کھسک رہی تھی۔ طوفان اور تاریک سمندر میں یہ امید کی واحد روشن کرن تھی۔ میں نے اپنی رہی سہی طاقت کو جمع کیا اور تیرتا ہوا لانچ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ لانچ کے ساتھ اور بھی کئی افراد چمٹے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں جہاز کی وہ کشتی نظر آئی جو جہاز کے الٹتے وقت اس کے عرشے سے جدا ہوکر سمندر میں گر گئی تھی۔ یہ کشتی اس وقت سمندر میں اوندھے منہ ہوچکی تھی لیکن تیر رہی تھی۔ کپتان برجائن سمیت چھ افراد اس کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے ان میں سے چار نے کشتی کو چھوڑ دیا اور تیرتے ہوئے لانچ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب کپتان برجائن اور مے نامی ایک ملاح کشتی کے ساتھ رہ گئے تھے۔ اتنے میں ایک بلند لہر آئی اور اس نے لانچ اور کشتی کو ایک دوسرے سے دور ہٹا دیا ۔ تھوڑی دیر بعد مے نے بھی کشتی کو چھوڑ دیا اور بڑی ہمت سے تیرتا ہوا لانچ تک پہنچ گیا۔ کچھ افراد نے کپتان کی طرف چپو پھینکنے کی کوشش کی لیکن کپتان برجائن نے زبردست ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں چپو پھینکنے سے منع کردیا۔ اس نے چلا کر کہا خدا کیلئے میری خاطر اپنی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالو۔ تمہیں چپوئوں کی سخت ضرورت ہے۔ اس نے اپنے طورپر تیر کر لانچ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن جونہی اس نے کشتی کو چھوڑا کشتی ایک جھٹکے کے ساتھ اس کے سر سے ٹکرائی ایک لمحے میں کپتان برجائن کی جدوجہد ختم ہوگئی اور اس نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیئے اور گہرے پانیوں میں اتر گیا۔ لانچ پرموجود افراد نے تھوڑی دیر بعد ایک بڑے جہاز کی روشنیاں دیکھیں یہ ان کا سٹینٹ نامی جہاز تھا۔ بہت چیخ و پکار کی لیکن جہاز تک ان کی آواز نہ پہنچ سکی۔ لانچ پر صرف 18 چپو موجود تھے جوصبح تک بپھری ہوئی لہروں کا مقابلہ کرتے رہے اور آخر کار کیوبن کی بندرگاہ کی روشنیاں دکھائی دیں۔ موت کے سمندر میں گھرے ہوئے قافلے نے زندگی کی دریافت کرلی۔ دوبارہ زندگی پانے کی خوش صرف اٹھارہ افراد کے حصے میں آئی تھی جبک '' کیپٹن ‘‘کے پانچ سو آفیسر اور جوان سمندر کی گہرائیوں میں کھو گئے تھے۔ جب اس حادثے کی خبر انگلینڈ پہنچی تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔ گھر گھر صف ماتم بچھ گئی۔

آج کا دن

آج کا دن

انڈونیشیا میں شدید زلزلہ2جولائی 2013ء کو انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں شدید زلزلہ آیا۔ زلزلے کی شدت6.1ریکارڈ کی گئی۔ تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق اس حادثے میں تقریباً35افراد ہلاک جبکہ276زخمی ہوئے۔ جزیرے پر موجود تقریباً4ہزار300گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔ زلزلے کے بعد آفٹر شاکس نے بھی کافی گھروں کو نقصان پہنچایا۔ مرکزی زلزلے کے بعد جو گھر تباہ نہیں ہوئے وہ آفٹر شاکس برداشت نہیں کر سکے اور زمیں بوس ہو گئے۔حالیہ تاریخ میں یہ انڈونیشیا میں آنے والا بدترین زلزلہ تھا جس نے سماٹرا جزیرے کو شدیدنقصان پہنچایا۔مسافربحری جہاز پر حملہایس ایس ایرونڈورا سٹار اصل میں بلیو سٹار لائن کا ایک برطانوی مسافر بحری جہاز تھا۔اسے1927ء میں ایک سمندری لائنر کارگو جہاز کے طور پر بنایا گیا تھا۔1929ء میں اس جہاز کو کروز جہاز میں تبدیل کر دیا گیا اور دوسری عالمی جنگ کے دوران اسے بطور فوجی دستہ بھی استعمال کیا گیا۔ جون1940ء کے آخر میں اسے اطالوی اور جرمن شہریوں کو جنگی قیدیوں کے ساتھ کینیڈا لے جانے کا کام سونپا گیا ۔ 2جولائی 1940ء کو آئر لینڈ کے ساحل پر ایک جرمن بوٹ نے اس پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میںیہ سمندر میںڈوب گیا۔ حادثے میں تقریباً800افراد ہلاک ہوئے ۔مارسٹن مور کی جنگمارسٹن مور کی جنگ 2 جولائی 1644ء کو تین ریاستوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران لڑی گئی تھی۔ یہ انگلستان میں ہونے والی خانہ جنگی کا دور تھا۔ لیون نے رائن کے پرنس روپرٹ اور نیو کیسل کے مارکیس کے زیر قیادت رائلسٹوں کو شکست دی۔موسم گرما کے دوران یارک کا گھیراؤ کیا گیا جس کے بعد اتحادی افواج نے شہر کو قبضے سے چھڑوانے کیلئے مخالف افواج کا مقابلہ کیا اور شہر کو آزادکروانے میں کامیاب ہو گئے۔