یکم جولائی:مزاح کا عالمی دن
مزاح ایک ایسا عنصر ہے جو ہماری زندگیوں میں خوشی اور تفریح لاتا ہے۔ یہ انسان کو ہنساتا ہے، دل بہلاتا ہے اور مشکلات کے درمیان بھی مسکراہٹ پیدا کرتا ہے۔مزاح الفاظ، اعمال، اور صورتحال کے ذریعے پیدا کیا جاتا ہے۔ مزاح کبھی کبھار سادہ ہوتا ہے اور کبھی کبھار گہری معنویت رکھتا ہے۔مزاح کے ہماری زندگیوں پر بہت سے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مزاح دل کو ہلکا کرتا ہے اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے سبب بنتا ہے۔ ہنسنے سے جسم میں خوشی کے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں جو ذہنی سکون کا باعث بنتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں مزاح کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ہمارا اردو ادب نہایت زرخیز ہے جس میں ہر موضوع کے مصنف و شاعر موجود ہیں۔ اسی طرح اردو ادب میں مزاح کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اردو زبان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک بے شمار مصنفوں و شاعروں نے مزاح لکھا جنہیں پڑھنے کیلئے آج کے دن سے بہتر موقع اور کوئی نہیں۔تو پھر آئیں مزاح کے عالمی دن پر اردو میں لکھے گئے مزاح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی
مشتاق احمد یوسفی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ معروف مصنف ابن انشا نے، جو بذات خود ایک بڑے مزاح نگار ہیں، ان کے بارے میں کہا تھا''ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘‘۔ یوں تو یوسفی صاحب کا لکھا گیا ہر جملہ ہی باغ و بہار ہے، ان میں سے کچھ ہم نے آپ کیلئے منتخب کیے ہیں۔
٭...انسان کتنا ہی ہفت زبان کیوں نہ ہو جائے، گالی، گنتی، گانا اور لطیفہ اپنی زبان میں ہی لطف دیتا ہے۔
٭...بڑھیا سگریٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کر دینے کو جی چاہتا ہے۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔
٭...دنیا میں جتنی لذیذ چیزیں ہیں ان میں سے آدھی تو مولوی حضرات نے حرام کردی ہیں، اور بقیہ آدھی ڈاکٹر صاحبان نے۔
٭...مونگ پھلی اور آوارگی میں یہ خرابی ہے کہ آدمی ایک دفعہ شرع کرے تو سمجھ نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے۔
پطرس بخاری
پطرس بخاری اپنے مضمون ''سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ میں اپنے پڑوسی کیلئے، جنہیں خود پطرس نے خود کو جگانے کے کام پر معمور کر رکھا ہے، لکھتے ہیں۔یہ سوتوں کو جگا رہے ہیں یا مردوں کو اٹھا رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی تو واجبی طور پر ہلکی سی قم کہہ دیا کرتے ہوں گے۔ زندہ ہوگیا تو ہوگیا نہیں تو چھوڑ دیا، کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کر تھوڑی پڑجایا کرتے تھے، توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے۔
ابن انشا
اردو مزاح نگاری میں ایک اہم نام ابن انشا کا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور ان سفر ناموں کو نہایت پر مزاح انداز سے تحریر کیا۔ان کی مشہور زمانہ کتاب ''اردو کی آخری کتاب‘‘ ہے جس میں ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''کوئی پوچھتا ہے، الگ ملک کیوں بنایا تھا؟ ہم کہتے ہیں، غلطی ہوئی معاف کیجیئے گا، آئندہ نہیں بنائیں گے۔ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔بھینس دودھ دیتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا۔ لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔
مزاحیہ اردو شاعری
میر تقی میر اور غالب سے لے کر جدید شاعروں نے متفرق معاشرتی موضوعات پر لطیف پیرائے میں چوٹ کرتے ہوئے اپنی شاعری کو مزاح کا رنگ دیا تاہم اردو مزاحیہ شاعری میں سب سے بڑا نام اکبر الہٰ آبادی کا ہے۔سرسید کی ترقی پسند تحریک اور ہندوستان میں تبدیلی کی ہواؤں سے بیزار اکبر الہٰ آبادی جا بجا اپنی شاعری کے ذریعے نئے رجحانات پر چوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
سید ضمیر جعفری
سید ضمیر جعفری کو اردو مزاحیہ شاعری کا سالار کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں۔
اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے نجد
قیس ہے دراصل اک مشہور پٹواری کا نام
دلاور فگار
دلاور فگار جدید اردو کے مزاحیہ شاعر ہیں۔ فگار خاصے خود پسند شاعر تھے اور اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں گردانتے تھے۔
وہ کون ہیں کہ شاعر اعظم کہیں جسے
میں نے کہا 'جگر‘ تو کہا ڈیڈ ہو چکے
میں نے کہا کہ 'جوش‘ کہا، قدر کھو چکے