پتھر کا زمانہ:لوگ کیا کھاتے تھے؟
آج کے مشینی دور میں جہاں انسان نے پیدل چلنا، سادہ غذا کھانا، وقت پر سونا،جاگنا اور کھانا تقریباً ترک کر دیا ہے ۔وہیں اس کی صحت کے مسائل بھی دن بدن اس کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔جہاں تک نوجوان نسل کی ایک جماعت کا تعلق ہے وہ بیک وقت دو کشتیوں میں پیر پھنسائے نظر آتے ہیں ۔ ایک طرف تو وہ سمارٹ ہونے کیلئے بے تاب ہیں جبکہ دوسری طرف وہ مرغن غذائوں اور فاسٹ فوڈ کو چھوڑنے پر بھی آمادہ نہیں۔دراصل آج کے نوجوانوں کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ایک طرف وہ سمارٹ اور خوبصورت نظر آنے کے چکر میں جم بھی باقاعدگی سے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف مضحکہ خیز طور پر وہ جم سے سیدھا فاسٹ فوڈکھانے چل پڑتے ہیں ۔
عام طور پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک سنجیدہ اور دوسرے غیر سنجیدہ۔ بدقسمتی سے دور حاضر میں خوراک کے استعمال میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے جو صرف زندہ رہنے کیلئے کھاتے ہیں وہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں جبکہ دوسرا طبقہ جو زندہ ہی صرف کھانے کیلئے ہے ان کی گواہی گلی گلی کھلے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس ہیں۔
کھانے کے معاملے میں جہاں تک غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے طبقے کا تعلق ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے صحت کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی۔جہاں تک اس کے برعکس دوسرے طبقے کا تعلق ہے ، اگرچہ وہ کل ملکی آبادی کا بمشکل ایک یا دو فیصد ہو گا لیکن اس طبقے کو ہر وقت اپنی صحت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ چنانچہ یہ اپنی استطاعت کے مطابق حکیموں اور ڈاکٹروں سے رابطے میں رہتا ہے جبکہ صاحب ثروت حضرات اپنی خوراک بارے ماہر غذائیات (نیوٹریشنسٹ ) سے باقاعدہ طور پر ڈائیٹ چارٹ بنوا کر اپنی خوراک کا صحیح تعین کرتے رہتے ہیں۔
آج سے دو تین عشرے قبل یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ مارکیٹ میں دستیاب سبزیاں ، پھل اور دیگر اشیائے خور و نوش غیر نامیاتی ہوتی ہیں کیونکہ ان کی تیاری میں مصنوعی کھاد سے لے کر کیڑے مار مصنوعی ادویات استعمال کی جاتی ہیں ، جو انسانی صحت کیلئے مضر ہیں جبکہ نامیاتی (آرگینک) اجناس چونکہ قدرتی طریقوں سے پروان چڑھتی ہیں اس لئے یہ انسانی صحت کیلئے مفید اور بے ضرر ہوتی ہیں۔ ایک طرف نامیاتی اجناس کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا تو دوسری طرف ان کی قیمتیں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ نتیجتاً غیر نامیاتی اشیاء کو بھی نامیاتی ظاہر کر کے بیچا جانے لگا تو لوگوں کا رفتہ رفتہ نامیاتی اور غیر نامیاتی اجناس سے بھی اعتقاد اٹھ گیا۔
کچھ عرصہ پہلے انسان کو جب تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلا کہ پتھر کے زمانے یعنی ''پیلیو لتھک‘‘ ( Paleolithic )دورکا انسان صحت مند ، انتھک اور زیادہ محنت کرنے والا تھا۔ تو اسے تجسس ہوا کہ آخر اس کی صحت مندی کا راز کیا تھا ؟۔ خوراک کے بارے محتاط افراد کے تجسس میں جب اضافہ بڑھا تو ذرخیز ذہنوں نے اس کا سبب اس دور کے انسانوں کی خوراک کو بتایا۔ اپنی خوراک بارے محتاط رویہ رکھنے والوں نے یہ کھوج لگانا شروع کیا کہ '' پیلیو غذائیں‘‘ یعنی ''پیلیولتھک‘‘ دور میں ہمارے آبائو اجداد کی خوراک آخر کن کن اشیا پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ (ماہرین اور تاریخ دان 25 لاکھ سال سے لے کر آج سے 10 ہزار سال پہلے تک کے دور کو ''پیلیو لتھک‘‘ دور شمار کرتے ہیں)
بادی النظر میں اگرچہ یہ تحقیق مشکل تھی کیونکہ یہ دور، تاریخ نویسی سے بھی پہلے کا دور تھا۔ لیکن معلوم تاریخی حوالوں اوربعض روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس دور کا انسان پہلے پہل جڑی بوٹیوں اور درختوں سے اپنی غذا حاصل کرتا رہا اور پھر جب اس نے اپنی حفاظت کیلئے جنگلی جانوروں کا شکار کرنا شروع کیا تو اسے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ شکار کی شکل میں اسے ایک نئی خوراک کا ذریعہ مل چکا تھا۔
پیلیو خوراک کی جانکاری کے تجسس نے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو شکاریوں کے اور قریب کر دیا تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ آخر شکاری قبائل کیا کھاتے تھے؟۔ ان ہی سائنس دانوں میں امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے شعبہ بشریات و عالمی صحت کے ایک پروفیسر ڈیوک پونٹرز بھی تھے جنہوں نے تنزانیہ کے ایک قدیم ترین شکاری قبیلے '' ہڈ زابی‘‘ کے لوگوں کے ساتھ دس سال کا طویل عرصہ گزارا ۔ایک ہزار نفوس پر مشتمل ''ہڈزابی‘‘ (Hadzabe) نامی قبیلہ دور حاضر میں شاید واحد قبیلہ ہے جس نے ابھی تک غاروں کو اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔مورخین اس قبیلے کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ قبیلہ ممکنہ طور پر پتھر کے زمانے کا تسلسل ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ صدیاں بیت گئیں لیکن اس شکاری قبیلے نے نہ تو اپنا طرز زندگی بدلا اور نہ ہی اپنی خوراک۔
پروفیسر پونٹرز کہتے ہیں ''ہڈ زابی‘‘ قبیلے کے لوگ فصلیں اُگانے یا جانور پالنے کی بجائے عمومی طور پر حالت سفر میں رہتے ہیں۔ وہ دن میں اوسطاً دس کلومیٹر کا پیدل، ننگے پائوں سفر کرتے ہیں، جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں،جڑوں والی سبزیاں کھاتے ہیں، شہد اکٹھا کرتے ہیں، بیر اور پانی جمع کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے ٹھکانوں پر آ جاتے ہیں۔
''پیلیو غذا ‘‘اصل میں ہے کیا ؟
''پیلیو غذا‘‘ بنیادی طور پر پتھر کے زمانے کے ہمارے آبائواجداد کی خوراک کو کہتے ہیں۔ اس دور کے لوگوں کو شکار کر کے یا جنگلی جڑی بوٹیاں اکٹھی کر کے اپنی خوراک جمع کرنا پڑتی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روایات اور دستیاب شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ''پیلیو غذا‘‘ گوشت ، مچھلی، پھل، شہد اور گری دار میوے پرمشتمل ہواکرتی تھی۔ چونکہ یہ دور زراعت کی ترقی سے پہلے کا دور تھا اس لیے اس میں مختلف اجناس، پھلیاں اور ڈیری شامل نہیں ہواکرتا تھا۔
دور جدید میں اس خوراک کے پس پردہ دراصل یہ سوچ کارفرما ہے کہ غار میں رہنے والے انسان کی طرح کھائیں اور اپنا وزن گھٹائیں۔ وہ لوگ جو پتھر کے زمانے کی طرح خوراک کھاتے ہیں ان کا یہ پختہ یقین ہے کہ یہ خوراک انہیں صحت مند بناتی ہے۔یہاں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ پیلیو خوراک لیتے کیسے ہیں ؟ کیونکہ اس خوراک میں پھل، سبزیاں، بغیر چربی گوشت، مچھلی، انڈے، میوے اور اجناس شامل ہیں۔ اس خوراک کے حامی، تمام اجناس، ڈیری مصنوعات اور مصنوعی شکر سے اجتناب برتنے کی تلقین کرتے ہیں۔
''پیلیو غذا ‘‘بارے عالمی رد عمل
ماضی قریب میں تیزی سے مقبول ہونے والی ''پیلیو ڈائٹ‘‘ بارے اب بھی لوگوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ ماضی کے برعکس انہیں دور جدید میں استعمال کرنا سود مند ہے یا نہیں ؟۔ پیلیو غذا اور روائتی امریکی غذا بارے سان فرانسسکو میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں اس غذا کے کچھ فوائد بھی ہیں مثلاً تیزی سے وزن کم کرنے، بلڈ پریشر اوربلڈ شوگر کی سطح کو معمول پر لانے میں یہ غذا مدد گار ثابت ہوئی ہے۔
سویڈن کے سائنس دانوں نے ایک تحقیق میں روائتی ہائی کاربوہائیڈریٹ اسکنڈ ینیوین غذا کے مقابلے میں پیلیو غذا کو بہتر پایا، بالخصوض ٹرائی گلیسٹرائیڈز اور لپڈس کی خون کی سطح میں یہ تیزی سے کمی کا باعث بنتی ہیں۔ سویڈن ہی کی یونیورسٹی آف اومی کی پروفیسر، کیرولین میلبرگ کا کہنا ہے کہ ہاں پیلیو خوراک کی یہ بات اچھی ہے کہ یہ تمام غیر صحت مند غذائوں کی نفی کرتی ہے ، خاص طور پر زیادہ کیلوریز والے ''جنک فوڈز‘‘ کی جبکہ کچھ ماہر غذائیات کے مطابق ڈیری مصنوعات، پھلیاں اور اناج سے پرہیز کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کے صحت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔جبکہ سویڈن میںکینسر سینٹر کی کلینکل نیوٹریشنسٹ سٹیفنی میکسن کہتی ہیں ، ان غذائوں میں (اجناس اور ڈیری مصنوعات ) اہم غذائی اجزا شامل ہوتے ہیں جو کئی بار ثابت ہو چکے ہیں۔