غاروں سے زندگی شروع کرنے والے انسان نے کامیابی سمیٹتے سمیٹتے شاندار محلات بنا کر اپنی زندگی کو آسان بنادیا اور اسی طرح گھوڑے پر سفر کا آغاکرنے والے انسان نے سپر فاسٹ ٹرینیں جہاز اور خلائوں میں سفر کرنے کے لئے خلائی شٹل بنالئے۔ گو کہ انسان روزِ اول سے ہی جستجو میں لگا رہا اور کامیابی سمیٹتا رہا مگر ان کامیابیوں کے ساتھ انسان میں حسد اور رشک کی خصلت بھی پروان چڑھتی رہی۔ تاریخی اوراق کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ کامیابیاں سمیٹنے والے کو مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور یہی نہیں بعض اوقات کامیاب انسانوں کو مخالفت اور حسد کی آگ میںزندگی سے ہاتھ بھی دھونا پڑے۔ آج ہم ایک ایسی ہی کہانی بیان کرنے جارہے ہیں جس میں ایک مسلمان خاتون نے بہت کم عرصے میں سائنسی شعبے میںبہت بڑی کامیابی حاصل کیں مگر یہی کامیابیاں اس کی موت کا سبب بن گئیں۔ہم ذکر کر رہے ہیں سمیرہ موسیٰ کاجو 3 مارچ1917ء کو مصر کے شمالی علاقے غریبا میں پیدا ہوئیں۔ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے جبکہ سمیرہ موسیٰ کی والدہ ان کے بچپن میںہی سرطان کے باعث وفات پا گئی تھیں۔والدہ کی وفات کے بعد سمیرا موسیٰ کے والد خاندان کو لے کر مصرکے دارالحکومت قاہرہ چلے گئے جہاں انہوں نے ریسٹورنٹ کا کاروبار شروع کرلیا۔ سمیرہ موسیٰ کی ذہانت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سکینڈری سکول کے پہلے سال میں الجبراکی نصابی کتاب میں غلطیاں نکال کر ان کی درستی کی اور بعدا زاں اپنے والد کے خرچے پراس کرتاب کو دوبارہ چھپوایا اور اپنے ساتھیوں میں مفت تقسیم کیا۔سمیرا موسیٰ نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگے پڑھنے کے لئے قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔1939ء میں سمیرہ نے شاندار کامیابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ''ایکسرے کی تابکاری کے اثرات‘‘ کے موضوع پرتحقیق کاآغاز کیا۔ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس کے سربراہ مصطفی مشرفۃ کو سمیرہ موسیٰ جیسی ذہین طالبہ سے بہت امیدیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ سمیرا موسیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریس کے پیشہ کو اپنا کر شعبہ سائنس کی خدمت کریں گی۔اپنے استاد کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے سمیرا موسیٰ نے قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طورپڑھانا شروع کردیا۔وہ قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ سائنس میں پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر تھیں۔ اسی دوران سمیرا موسیٰ نے برطانیہ سے جوہری تابکاری کے مضمون پر پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے مصر کی پہلی خاتون سائنسدان کا اعزاز بھی حاصل کرلیا۔سمیرا موسیٰ کا خیال تھا کہ جوہری طاقت کو پرامن مقاصد کے لئے استعمال کیاجانا چاہئے اور انہوں نے اسی عزم کو اپنی زندگی کا حصہ بھی بنایا۔سمیرا موسیٰ بچپن میں اپنی والدہ سے بچھڑ جانے کا دکھ ابھی تک بھلا نہیں پائیں تھیں ۔ان کی والدہ کا انتقال سرطان کے باعث ہواتھا اس لئے انہوں نے اپنی سرطان کے جوہری علاج کے لئے تحقیق شروع کردی۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ سرطان کا علاج اتنا سستا ہونا چاہئے جیسے اسپرین کی گولی۔ سمیرا موسیٰ نے اپنی تحقیق کے دوران کئے گئے تجربات سے دنیا میں ہلچل مچا دی کیونکہ انہوں نے سستی دھاتوں کے ذریعے جوہری طاقت کو حاصل کرنے کے لئے کامیاب تجربات کرلئے۔ شاید سمیرا موسیٰ کی یہی تحقیق ان کے موت کا سبب بنی کیونکہ سستی دھاتوں کے ساتھ جوہری قوت حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک بھی ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں، جو عالمی طاقتوں کے کسی طورپر بھی قابل قبول نہ تھا۔سمیرا موسیٰ نے ''جوہری توانائی برائے امن کانفرنس‘‘کا انعقادکیا جس میں بہت سے ممتاز سائنس دانوں مدعو کئے گئے اس پلیٹ فارم پر انسانیت دوست سائنس دانوں نے عالمی طورپر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ جس میں سمیرا موسیٰ پیش پیش رہیں۔سمیرا موسیٰ کی تحقیق اور تجربات کی شہرت مصر سے باہر دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی اور جوہری سائنس میں بے مثال کامیابیوںکو دیکھتے ہوئے 1950 ء میں امریکہ کے شہرت یافتہ فلبرائٹ سکالر شب سے نوازا گیا اور اس کے ساتھ ہی انہیںامریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی۔ انہوں نے یہ پیشکش رد کردی۔امریکہ میں قیام کے دوران وطن واپسی سے پہلے سمیرا موسیٰ کو کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔سمیرا موسیٰ کو دی گئی اس دعوت پر امریکہ میں اختلافات دیکھنے میں آئے۔جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی مخالفت کے باوجود سمیرا موسٰی5 اگست 1952ء کو کیلیفورنیا کے لئے روانہ ہوئیںجہاں راستے میں ان کی کارحادثے کے شکار ہوکر چالیس فٹ گہری کھائی میں جا گری اور زندگی میں کئی شعبوں میں بازی جیتنے والی سمیرا موسیٰ اس حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔ اس حادثے میں کار کے ڈرائیور نے پہلے ہی چھلانگ لگا کر اپنی جان بچا لی اور رو پوش ہوگیا۔ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی خدشات ہیں کہ سمیرا موسیٰ کو صہیونی طاقتوں نے ہلاک کروایا کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ کہیں سستے جوہری تجربات کی کامیابی کے بعد تیسری دنیا کے ممالک بھی ایٹمی طاقت حاصل نہ کرلیں ۔