لندن:عروس البلاد
اس دنیا میں جس شہر کو سب سے پہلے عروس البلاد کا نام دیا گیا، وہ لندن تھا۔ وہ سلطنت جس کا سارے جہاں میں لوطی بولتا تھا، جس کی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، اس سلطنت کی راجدھانی لندن ہی تھا۔ برطانیہ کے حکمرانوں نے لندن میں بیٹھ کر شرق و غرب کے ممالک پر حکمرانی کی۔ اسی وجہ سے لندن شہر تاج و تخت کے وارثوں کا میزبان بنا بلکہ یہ میزبانی کسی نہ کسی صورت اب بھی لندن کے حصہ میں آئی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کی حکومتیں جب کبھی ڈگمگانے لگتی ہیں تو ان کے حکمرانوں کو لندن ہی پناہ دیتا آ رہا ہے۔ اس لحاظ سے لندن کا دامن بہت وسیع ہے۔ شکست خوردہ حکمرانوں کو دنیا میں اگر کہیں ''آغوش مادر‘‘ ملتی ہے تو وہ لندن ہی کا شہر ہے۔
دریائے ٹیمز کے کنارے واقع لندن ہر صورت اپنی خوبصورتی میں بے مثال ہے۔ اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو لندن شہر کی خوبصورتی میں دریائے ٹیمز کا بہت بڑا کردار ہے۔ بکنگھم پیلس ہو یا ہائوس آف پارلیمنٹ، بگ بن ہو یا لندن برج، موجودہ دور میں تعمیر کئے گئے میلینیم ڈوم ہو یا لندن آئی اور کیبل کار یہ سب ٹیمز کے کنارے واقع ہیں۔ ایک طرح سے ٹیمز لندن شہر کے گلے کا ہار ہے جو طرح طرح کے خوبصورت اور چمکدار موتیوں سے مزین ہے۔ قوسِ قزح کے سارے رنگ ٹیمز میں اتر آئے ہیں اور جب انہی رنگوں کا عکس لندن شہر پر پڑتا ہے تو شہر اور نکھر جاتا ہے۔ ہر ایک کے چہرے پر تروتازگی اور مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ ٹیمز کے موتیوں کی چکا چوند نہ صرف لندن کے باسیوں بلکہ ساری دنیا سے آئے ہوئے لاکھوں سیاحوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ نہ جانے لندن شہر میں کیا کشش ہے کہ ہر ایک دل اس کو دیکھنے کیلئے بے تاب رہتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ لندن کی یہ کشش اور مقناطیسیت دریائے ٹیمز ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
تاریخ کے ماخذ سے پتہ چلتا ہے کہ لندن شہر کی بنیاد رومی سلطنت نے 47ء میں رکھی تھی۔ اس لحاظ سے لندن شہر کی ابتدا آج سے دو ہزار برس قبل ہوئی۔ پہلے پہلے اس بستی کو لندی نیام کا نام دیا گیا، بعد میں لندن اس نئے شہر کی پہچان بن گیا۔ رومی سب سے پہلے جولس سیزر کی قیادت میں برطانیہ آئے۔
دنیا جہاں کے مکیں لندن شہر کے مرہون منت ہیں کہ اس شہر میں وہ مایہ ناز سائنس دان پیدا ہوئے، جنہوں نے دنیا کو روشن کیا، وہ شاعر اور ادیب پیدا ہوئے جنہوں نے ادب کے خفیہ دبستانوں کو رونق بخشی، وہ سنگ تراش پیدا ہوئے، جنہوں نے پتھروں کو زباں دی، وہ مسیحا پیدا ہوئے جنہوں نے زندگی سے مایوس لوگوں کو آس کی کرن دکھائی، وہ دانشورپیدا ہوئے جنہوں نے علم و حکمت کے دریا بہا دیئے۔ دنیا کے لڑ کھڑائے ہوئے لوگوں کیلئے آغوش لندن ہی آغوش مادر ثابت ہوئی۔المختصر لندن گزشتہ کئی صدیوں سے علم و ہنر، تعلیم، طبیعات، کیمیا، انجینئرنگ، ادب و ثقافت، قانون اور فنون کا گہوارہ چلا آ رہا ہے۔
لندن شہر کا رقبہ صرف 1.12مربع میل اور صدیوں سے اس کا رقبہ نہ کم ہوا ہے اور نہ بڑھا ہے۔ اس لئے صرف عام میں اس کو مربع میل بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس شہر کا 'نک نیم‘ بھی ہے۔ لندن سطح سمندر سے 69فٹ بلند ہے۔ اس شہر کا انتظام ایک سٹی کونسل چلاتی ہے، اس کا سربراہ ایک میئر ہوتا ہے۔
گزشتہ مردم شماری کے مطابق لندن کی آبادی تقریباً 90لاکھ ہے۔ لندن شہر میں سفید فام 78فیصد، انڈین3فیصد، پاکستانی 0.2 فیصد، بنگلہ دیشی 3فیصد، چائینز4فیصد اور دنیا سے آئے ہوئے دوسری اقوام کے باشندے تقریباً 12 فیصد ہیں۔ اس شہر میں 300 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
لندن فن اور ثقافت کا بہت بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں متعارف ہونے والے نت نئے فیشن اور ڈیزائن اسی شہر میں جنم لیتے ہیں۔ گو اس شہر میں دوسرے ممالک اور براعظموں سے ہجرت کرکے کئی لوگ آ بسے ہیں لیکن اس کے باوجود لندن شہر کی اپنی ثقافت، اپنا کلچر اور اپنی تہذیب ہے جو آج تک نہیں بدلی اور یہی اس شہر کی پہچان ہے۔
لندن شہر ہریالی کے لحاظ سے یورپ میں پہلا اور دنیا میں تیسرا بڑا شہر ہے۔ اس کے پارکوں کا کل رقبہ 3500ایکڑ ہے۔لندن دنیا کا واحد شہر ہے جسے اولمپک گیمز کی تین دفعہ 1906، 1940ء، 2012ء میں میزبانی کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔لندن دنیا کا بہت بڑا تجارتی اور مالیاتی مرکز ہے۔ بینک آف انگلینڈ اور لندن سٹاک ایکسچینج کے مرکزی دفاتر یہاں پر موجود ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے بڑی آبادی والے شہر میں دس لاکھ لوگ ملازمت کرتے ہیں۔ برطانیہ کی کل آبادی کا 16فیصد عوام صرف لندن میں رہائش پذیر ہیں۔
لندن میں چار مقامات ایسے ہیں جن کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا ہے۔(1)ٹاور آف لندن، (2) کیو گارڈن(بوٹانیکل گارڈن)، (3)ویسٹ منسٹر ایبے، (4)سینٹ پال کیتھڈرل چرچ۔ لندن کے کسی کونے میں چلے جائیں، خواہ وہ کوئی عظیم الشان عمارت ہو یا پل، میوزیم ہو یا گارڈن ، ہائوس آف پارلیمنٹ ہو یا پیلس بات صدیوں تک پہنچے گی۔ دراصل لندن کا بیج بھی سلطنت روم کے قدیم حکمرانوں نے بویا تھا۔ روم کے متعلق خالق کائنات نے قرآن پاک میں واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے اور اس سورہ مبارکہ کا نام بھی'الروم‘ ہے۔
1665ء میں لندن میں شہر میں پلیگ (طاعون) کی وبا پھیلی، جس سے ایک لاکھ لوگ لقمۂ ال بنے۔ ابھی لندن کے شہری طاعون کی وحشت سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ1666ء میں لندن شہر میں آگ بھڑک اٹھی جس سے 80فیصد لندن خاکستر ہو گیا۔ مسلسل چار روز تک آگ کے شعلے بھڑکتے رہے۔ آگ اس قدر شدید تھی کہ 13000گھر، 80چرچ اور ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ اس کو لندن کی تاریخ میں ''گریٹ فائر‘‘ کہا جاتا ہے۔
جنگ عظیم دوم میں اس شہر پر مسلسل 57 روز بمباری ہوتی رہی، جس کے نتیجے میں 30ہزار لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔50ہزار زخمی ہوئے۔لندن شہر میں تباہی کی داستان رقم ہوئی۔
انڈر گرائونڈ میں واٹر لوکا سٹیشن مصروف ترین ہے۔ اس میں 95ملین لوگ ہر سال سفر کرتے ہیں، اس کے بعد آکسفورڈ، پکاڈلی سرکس وکٹوریہ اور کنگ کراس سٹیشن مصروف انڈر گرائونڈ ریلوے سسٹم کے 270سٹیشن ہیں اور مجموعی فاصلہ 408کلو میٹر ہے۔ شہر کی بسوں میں روزانہ سات ملین لوگ سفر کرتے ہیں اور یہ بسیں ہر سال مجموعی طور پر30کروڑ میل سفر طے کرتی ہیں۔
لندن کی جتنی آبادی ہے اس سے دوگنی تعداد میں دوسرے ممالک سے لوگ (ایک کروڑ 60 لاکھ) ہر سال بطور سیاح آتے ہیں۔ دریائے ٹیمز بہتا تو جنوب کی طرف ہے لیکن گرتا بحیرہ ٔشمال میں ہے۔ سارا کا سارا لندن ایک طرح کا کھلا میوزیم ہے، ہر جگہ مظاہر قدرت، مناظر قدرت کی صورت آشکار ہیں۔لندن کے شہر کو دنیا کے تہذیبی و ثقافتی مرکز کا درجہ حاصل ہے۔(ورلڈ کلچر کیپٹل) لندن میں 170سے زائد میوزیم ہیں۔ لندن کا شہر بے شمار مشہور لوگوں کا مسکن رہا ہے۔ ان میں کارل مارکس، چارلس ڈارون، چارلس ڈکنز، فلورنس اور جونسٹن چرچل اسی شہر کے باسی تھے۔