عظیم مسلم سائنسدان ابن عراق
![عظیم مسلم سائنسدان ابن عراق](https://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/27666_84173078.jpg)
اسپیشل فیچر
ابن عراق غالباًفارس کے شہر گیلانی کا باشندہ تھا۔ ممکن ہے، اس کا تعلق بنو عراق کے شاہی خاندان سے ہو جو محمود غزنوی کی فتح سے پہلے خوارزم پر حکمران تھا۔ ابو نصر کے نام کے ساتھ ''الامیر‘‘ اور ''مولاامیر المومنین‘‘ جیسے القابات اس کے شاہی خاندان سے تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ ابوالوفا البوزجانی کے شاگرد خاص اور البیرونی کے استاد تھے۔
ابن عراق نے زندگی کا بیشترحصہ بادشاہوں کے درباروں میں گزارا۔ علی بن مامون اور ابو العباس مامون علم پرور حکمران تھے اور وہ مسلمان سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے۔ جن سائنس دانوں کی انہوں نے سرپرستی کی ان میں ابن عراق کے علاوہ البیرونی اور ابن سینا بھی شامل ہیں۔1016ء کے لگ بھگ ابوالعباس مامون کی وفات ہوئی تو ابن عراق اور البیرونی خوارزم چھوڑ کر غزنی چلے گئے اور سلطان محمود غزنوی کے دربار سے منسلک ہو گئے،جہاں ابن عراق نے اپنی ساری زندگی گزار دی۔ اس کا سنہ وفات حتمی طور پر معلوم نہیں، لیکن اندازاً اس نے 1036ء میں غزنی میں انتقال کیا۔
ابن عراق کو زیادہ شہرت البیرونی کی معاونت کے باعث حاصل ہوئی۔ اگرچہ عام خیال یہ ہے کہ یہ معاونت 1008ء کے قریب اس وقت شروع ہوئی جب البیرونی جرجان(موجودہ قونیہ ارگنج۔ روسی ترکمانستان) کے دربار سے علیحدہ ہو کر خوارزم آیا۔ اس ضمن میں 1008ء سے پہلے کی کوئی تاریخ بھی قرین قیاس ہے اور اس کے واضح ثبوت موجود ہیں، مثلاً البیرونی نے اپنی کتاب ''الآثار الباقیہ‘‘ کی تکمیل 1000ء میں کی، اس میں وہ ابن عراق کو ''استاذی‘‘ (میرے استاد) لکھتا ہے۔ اسی طرح ابن عراق نے سمت الراس کے موضوع پر اپنی کتاب کو 998ء سے قبل لکھا اور اس کو اپنے شاگرد کے نام معنون کیا ہے۔
ابن عراق اور البیرونی کی معاونت کے نتیجہ میں بعض کتابوں کے اصل مصنف کی تعیین میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔ مثال کے طور پر البیرونی نے بارہ کتابوں کی ایک فہرست دی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ''باسمی‘‘ (میرے نام سے) لکھی گئیں۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کی روشنی میں علماء نے ان کتابوں کو اس کی اپنی تصنیف قرار دیا ہے۔ لیکن اطالوی مستشرق نلینو کے خیال میں ''باسمی‘‘ کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ کتابیں میرے نام معنون کی گئیں یا ان میں مجھے خطاب کیا گیا۔ ہو سکتا ہے ابن عراق نے یہ کتابیں معنون کی ہوں۔ نلینو کی اس رائے کی تائید میں بعض نظائر پیش کئے جا سکتے ہیں مثلاً ان الفاظ میں اس مفہوم کو قدیم اور جدید دونوں قسم کی کتابوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ قدیم کتب میں اس کی مثال کتاب''مفاتیح العلوم‘‘ (مصنفہ محمد بن احمد الخوارزی، سنہ تالیف977ء) ہے۔ ان سب کتابوں کے اصل مصنفین کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جہاں تک البیرونی کا ان کتابوں سے تعلق ہے تو ان کے ابتدائیہ اور نفس مضمون دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہیں ابن عراق نے البیرونی کی اس درخواست پر لکھا کہ وہ ان متعین مسائل کا حل بتائیں جو البیرونی کی سائنسی تحقیقات کے دوران پیدا ہوئے۔
خود البیرونی نے اپنی کتابوں میں ابن عراق کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ بعض ایسی تحقیقات کے نتائج اس نے اپنی کتابوں میں شامل کئے جو اس کے کہنے پر اس شیخ کبیر نے شروع کیں۔ البیرونی نے ان دریافتوں پر ابن عراق کی بڑی تحسین کی ہے۔ دوسرے معاونین کے بارے میں بھی البیرونی کا رویہ یہی ہے اور اس نے ابو سہل المسیحی ، ابو علی الحسن بن الجیلی (جو ایک غیر معروف نام ہے) اور ابن سینا وغیرہ کا نہایت عزت و احترام سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس کے پیش کردہ فلسفیانہ سوالوں کے جوابات فراہم کئے۔
البیرونی اور ابن عراق کی معاونت کا اندازہ اوّل الذکر کے اس کام سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے طریق الشمس کے جھکائو کی مقدار کے تعین کے سلسلہ میں کیا ہے۔ اس نے اپنے مشاہدات خوارزم میں 997ء میں اور غزنی میں 1016ء،1019ء اور 1020ء میں ترتیب دیئے۔ اس السرطان اور راس الجدی پر سورج کے پہنچنے کے دن نصف النہار کے وقت سورج کا ارتفاع دریافت کرنے کا قدیم طریقہ استعمال کرتے ہوئے البیرونی نے جھکائو کے زاویے کی مقدار 23درجے 35منٹ نکالی۔
اس کے علاوہ البیرونی کے علم میں محمد بن الصباح کے تجربات آئے جن میں اس نے سورج کے مقام، حیطہ شرقیہ اور نصف النہار سے بعد اقل دریافت کرنے کا طریقہ بیان کیا تھا۔ البیرونی کو اس کے تجربات کی جو نقل وصول ہوئی وہ غلاط سے پر تھی۔ اس نے یہ نقل ابن عراق کو دکھائی اور اس سے درخواست کی کہ اس کی اغلاط کو درست بھی کرے اور ابن الصباح کے طریق کار کا تنقیدی جائزہ بھی لے۔
ابن عراق نے ''رسالتہ فی البراہین علیٰ عمل محمد بن الصباح‘‘ لکھا جس میں اس نے ابن الصباح کے طریقہ کا تفصیلی ذکر کیا اور یہ ثابت کیا کہ اس میں ایک حد تک غلطی در آنے کا امکان ہے کیونکہ اس میں طریق الشمس پر سورج کی حرکت کی یکسانی کے نظریہ پر اعتماد کیا گیا ہے۔ ابن الصباح کے نقطہ نظر کے مطابق سال کے ایک موسم کے دوران میں تیس تیس دن کے وقفہ سے سورج کے حیطہ شرقیہ کے تین مشاہدات کی مدد سے انقلابِ شمس کے وقت حیطہ دریافت کیا جا سکتا ہے۔
البیرونی نے ابن عراق کی ابن الصباح کے کام کے بارے میں ان توضیحات کو اپنی کتابوں ''القانون المسعودی‘‘ اور ''تحدید اللساکن‘‘ میں بیان کیا ہے۔ لیکن اس کی اصل دلچسپی سورج کے جھکائو کا زاویہ معلوم کرنے تک رہی اور اس مقصد کیلئے اس نے ابن الصباح کے طریقہ کار کو آسان بنایا۔ چنانچہ اس نے انہی دو فارمولوں کے اندر حیطہ شرقیہ کی تین اور دو قیمتیں لگانے کی جگہ بالترتیب تین یا دو قیمتیں بعد اقل کی لگائیں۔ اس کے بعد البیرونی نے ابن عراق کی تحقیق کی طرف رجوع کیا اور فرق کی وضاحت یوں کی کہ ابن الصباح نے طریق الشمس پر سورج کی حرکت کی یکسانی کے مفروضہ پر عمل کیا۔ نیز اس نے مسلسل Sineاور جذر کا استعمال کیا۔
تکونیات کیلئے ابن عراق کی خدمات بالکل راست ہیں۔ طوسی نے قانون حبیب زاویہ کی دریافت تین اشخاص سے منسوب کی ہے۔ یہ تین شخص ابن عراق، ابو الوفاء اور ابو محمود الخجندی ہیں۔یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکا کہ ان تینوں ریاضی دانوں میں سے کون تھا جس نے سب سے پہلے یہ قانون دریافت کیا۔ لو کے نے الخجندی کے خلاف قابل یقین دلیل یہ دی ہے کہ اصلاً وہ ایک عملی ہیئت دان تھا جسے نظری مسائل سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ابن عراق اور ابوالوفاء دونوں اس قانون کی دریافت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگرچہ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کون اس دعویٰ میں حق بجانب ہے۔ تاہم دو باتیں ابن عراق کے حق میں جاتی ہیں۔ اولاً یہ کہ اس نے اس قانون کو ہندسہ اور ہیئت کی بابت اپنی تحریروں میں متعدد بار استعمال کیا ہے۔ یہ قانون اس کی اپنی دریافت ہو یا نہ ہو، لیکن اس نے اس کے استعمال میں بڑی جدت دکھائی ہے۔ ثانیاً ابن عراق نے اس قانون کا اثبات اپنی دو اہم ترین تصانیف ''المجطی الشاہی‘‘ اور ''کتاب فی السموت‘‘ اور دو کم اہم تصانیف ''رسالتہ فی معرفتہ القسی الفلکیتہ‘‘ اور ''رسالتہ فی الجواب عن مسائل ہندسیتہ مسئلہ عنہا‘‘ میں بھی کیا ہے۔