دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اسپیشل فیچر
دوست ہم عمر ،ہم خیال،ہم مزاج ،ہم مشغلہ ہوتا ہے۔ دوست عقل مند ، خوش مزاج ہونا چاہیے، خوددار ہو، زندگی کی کشمکش اور مشکلات میں ساتھ دینے والا ہو سب سے بڑی خوبی سچا ہو۔ دوست چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض بھی ہوتے رہے ،مناتے رہتے ہیں ،شکوے شکایت میں زندگی ضائع کرتے رہتے ہیں ،کبھی روٹھ گئے کبھی مان گئے ۔حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت دوست نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا تمہیں ایسے دوست کی تلاش ہے جو تمہاری خدمت و غم خواری کرے یا ایسا دوست چاہتے ہو جس کی تم خدمت وغم خواری کرو۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے دوست کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں جو کہ غلط سوچ ہے، یہ سوچیں کہ آپ کسی کیلئے کتنے فائدہ مند ہیں اور فائدہ مند بننے کی کوشش کریں۔
دوستی انسان کے عزیز ترین رشتوں میں سے ایک ہے اور دنیا میں وہ انسان غریب ہے جس کے پاس ایک بھی مخلص دوست نہ ہو۔ادب میں سب سے زیاہ محبوبہ پر لکھا گیا، اس کے بعد دوستی ہی وہ رشتہ ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے ۔اب تو دوستی بھی الیکٹرانک ہوگئی ہے ۔اس لیے دوستوں میں پہلے سی محبت کہاں رہی ہے ،اب فرینڈز صرف فیس بک،انسٹاگرام،وٹس ایپ،ٹوئٹر پر ہی ملتے ہیں، الیکٹرانک دوستی میں بھی یہ شکوے شکایت ہیں کہ کسی کے پاس لائیک وکمنٹ کرنے کا وقت نہیں ہوتا ۔اس لیے بھی کہ سوشل میڈیا پر دوست بنانا اور کسی دوست کو ان فرینڈ کرنا بہت آسان ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ دوستی اللہ کا تحفہ ہے ،اسے خود غرض لوگوں پر برباد مت کریں ۔ میرے اب تک بہت سے دوست رہے مگر دوست کون رہا ؟کون ہے؟ اس بابت سوچتا ہوں تو تنہائی سے گھبرا جاتا ہوں اب سب اپنے اپنے مفادات کے دوست ہیں، جس کے کام آتے رہیں وہ دوست ہے، جس کے کام نہ آئیں وہ فوراََ کہہ دیتا ہے '' اچھی دوستی ہے‘‘ یعنی اب تو مطلب کی دوستی ہے ۔ کام کی دوستی ہے،مال کی دوستی ہے،مفادات کی دوستی ہے ۔شاید ہم سے بھی وہی غلطی ہوتی رہی جو فراز سے ہوئی تھی کہ ۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اس کے علاوہ ایک بات اور بھی شاید اچھے دوست ملے ہوں ان کی قدر نہ ہوئی ہو ۔حضرت ابو موسی اشعری ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے اچھے دوست اور برے دوست کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا''اچھے دوست اور برے دوست کی مثال کستوری اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی مانند ہے ،کستوری اٹھانے والا یا تو آپ کو ہدیہ میں دے دیگا،یا آپ اس سے خرید لیں گے یا کم از کم اچھی خوشبو تو پائیں گے ،جبکہ بھٹی جھونکنے والا آپ کے کپڑوں کو جلا دے گا یا کم از کم آپ اس سے بدبوپائیں گے ۔‘‘حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ان سات افراد کا تذکرہ ہے جن کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جن میں سے دو افرادوہ بھی ہیں''جو فقط اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اسی محبت پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر ہی علیحدہ ہوتے ہیں'' اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اگر دوستی ہو تو وہ پائیدار ہوتی ہے ،اللہ کی خوشنودی کے لیے ہی کسی سے دوستی یا دشمنی کرنی چاہیے۔ یہ دوستی ہی کامیاب و پائیدار ہوتی ہے اس میں دھوکہ نہیں ملتا انسان مایوس نہیں ہوتا دوست کے کام آ کر احسان نہیں جتاتاوہ سمجھتا ہے میں اللہ کی خوشنودی کے لیے اس کے کام آیا ہوں اسی طرح ذاتی مفادات کی سطح سے اٹھ کر جب دوستی کی جاتی ہے تو اس سے قیامت کے دن چہرے پر نور ہوگا ۔(مفہوم حدیث)