واجد علی شاہ کا ’’پری خانہ‘‘
اسپیشل فیچر
واجد علی شاہ ریاست لکھنؤ کے حکمران گزرے ہیں۔ وہ ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار، راگ اور رقص کے ماہر بادشاہ تھے۔ انہوں نے اپنے راگ اور رقص کے شوق کے پیش نظر لکھنؤ میں انتہائی خوبصورت قیصر باغ تعمیر کروایا ۔ اس قیصر باغ کی خاصیت یہ تھی کہ اس میں انہوں نے اپنی ریاست سے خوب صورت دوشیزائوں کیلئے ایک عالشان محل تعمیر کروایا جس کا نام '' پری خانہ ‘‘ رکھ دیا۔ اس محل میں 200 سے زائد حسینائیں قیام پذیر تھیں۔ ان حسیناؤں کو مختلف خطابات سے نوازا جاتا تھا۔ ان بیگمات میں خوب صورت طوائفیں بھی شامل تھیں جن میں قیصر بیگم، گلزار بیگم ، سکندر بیگم اور اچھے صاحب بیبا والی قابل ذکر ہیں۔ کئی حسینائوں کو'' محل ‘‘کا خطاب بھی دیا گیا ۔ سلطنت کے قومی خزانے کا زیادہ تر بجٹ ''پری خانہ‘‘ پر خرچ ہوتا جس کے بارے میں خود ان کا ایک شعر ہے
نہیں صرف میں کچھ کفایت کا حرف
کہ ہر ماہ میں لاکھ ہوتے ہیں صرف
یعنی اس دور میں پری خانہ پر روزانہ لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے تھے جو آج کے حساب سے روزانہ کروڑوں روپے بنتے ہیں اور واجد علی شاہ انہیں بلا دریغ خرچ کیا کرتے تھے۔پری خانہ میں شامل ایک رقاصہ افتخار النساء جب ماں بننے لگیں تو ان کو'' بیگم‘‘ کا درجہ ملا اور جب افتخار النساء کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو واجد علی شاہ نے افتخار النساء کو ملکہ کا درجہ دے کر ''حضرت محل ‘‘ کا خطاب دے دیا۔ آگے چل کر یہ بیگم حضرت محل ایک بہادر، جنگجو اور آزادی پسند ملکہ ثابت ہوئیں جن کو ہندوستان کی تاریخ میں قابل فخرہستی قرار دیا جاتا ہے۔
بیگم حضرت محل نے ہندوستان پر برطانوی راج کے خلاف بھرپور مزاحمتی تحریک چلائی اس کے لیے انہوں نے خواتین کی ایک منظم فوج بنائی۔ اس فوج کی خصوصی تربیت کی گئی اور انہیں جنگ لڑنے کے تمام گر سکھائے گئے ۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ حضرت محل کی اس خواتین فوج نے اپنی ملکہ کی قیادت میں انگریزی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اور بڑے بڑے سورمائوں کو دھول چٹا دی ۔
واجد علی شاہ 30 جولائی 1822 ء میں پیدا ہوئے وہ 13 فروری 1847 میں ریاست لکھنؤ کے نواب( حکمران ) مقرر ہوئے لیکن ان کا زیادہ تر وقت '' پری خانہ‘‘میں گزرتا تھا چونکہ موسیقی کے بہت دلدادہ تھے اور راگ و سروں سے بہت واقفیت رکھتے تھے اس لئے وہ زیادہ تر پری خانہ میں ہی رہتے اور شعرو شاعری میں وقت گزارتے۔ انہوں نے کئی راگ اور راگنیاں بھی ایجاد کیں۔جو وقت بچتا تھا وہ اس میں کتابیں اور ڈرامے لکھتے۔ حکمران اور منتظم کی حیثیت سے وہ بری طرح ناکام ثابت ہوئے یہی وجہ ہے کہ انگریز سرکار نے 11 فروری 1856 ء میں واجد علی شاہ کو برطرف کر کے انکے کمسن بیٹے برجیس قدر کو تخت پر بٹھایا لیکن واجد علی شاہ کی ملکہ اور برجیس قدر کی والدہ بیگم حضرت محل نے تمام انتظامات خود سنبھال کر انگریز سرکار کے خلاف بھرپور تحریک شروع کر دی۔ واجد علی شاہ کو انگریز سرکار نے کلکتہ میں قید کر لیا تھا21 ستمبر 1887 ء میں قید خانے میں ہی ان کا انتقال ہو گیا ۔ واجد علی شاہ کا نام حروف کے اعتبار سے دنیا بھر کے حکمرانوں میں سے طویل ترین نام تھا۔ ان کا مکمل نام یہ تھا ۔۔ابوالمنصور سکندر شاہ بادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم مرزا محمد واجد علی شاہ اختر۔ واجد علی شاہ اردو اور فارسی زبان میں شاعری کرتے تھے جبکہ وہ ڈرامے لکھتے اور اسٹیج بھی کرتے تھے۔ان کے مختلف موضوعات پر 100 سے زائد کتابچے شائع ہو چکے ہیں۔ واجد علی شاہ کو اردو کا پہلا ڈرامہ نگار ہونے کا تاریخی اعزاز حاصل ہے۔ ان کے پہلے ڈرامے کا نام'' رادھا کنہیا کا قصہ ‘‘ ہے جبکہ سید امتیاز علی تاج کا کہنا ہے کہ واجد علی شاہ کی مثنوی '' فسانۂ عشق‘‘ کو سب سے پہلے ڈرامے کی شکل دی گئی ۔ نواب واجد علی شاہ اختر کی شاعری سے چند منتخب اشعار
در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم سفر کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
دریا کا نہ جنگل کا سماں کا نہ زمیں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی تشویش شب و روز ہے بنگالے میں
لکھنؤ پھر کبھی دکھلائے مقدر میرا