مینارِ پاکستان، تاریخ کے آئینے میں
اسپیشل فیچر
مینارِ پاکستان ایک قومی یادگار ہے اور یہ عین اسی جگہ واقع ہے جہاں 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قرار دادِ پاکستان منظورکی تھی جس میں واضح طور پر مسلمانانِ برِصغیر کے لئے ایک الگ اور آزاد و خودمختار ریاست کے قیام کی بات کی گئی۔ آخر کار مسلمانوں نے 14 اگست 1947ء کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست ''اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی صورت میں حاصل کرلی۔مینارِ پاکستان کو ڈیزائن کرنے والے مصور ایک روسی نژاد پاکستانی نصیر الدین مرات خان تھے،جنہوں نے کمال مہارت سے اس یادگار(مینارِ پاکستان) کے کام کو سر انجام دیا۔ مینارِ پاکستان کا سنگِ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو رکھا گیا اور یہ تقریباً 8 سال کے عرصہ میں 21 اکتوبر 1968ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔
مینارِ پاکستان اور اس سے ملحقہ پارک کا کل رقبہ تقریبا ً 328.9 ایکڑ ہے۔پھر یہ کام 25 مئی 1959ء کو نصیر الدین مرات خان کے سپرد کیا گیا (جو کہ آرکیٹیکٹ،سول انجینئر اور ٹائون پلانر بھی تھے)۔ کہا جاتا ہے کہ جب مرات خان صدر ایوب خان کو ملے تو صدر ایوب خان نے قلم کو میز پر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ''اس یادگار کا ایسا ڈھانچہ تیار کیا جائے کہ ایسا لگے کہ یہ قلم میز کے اوپر (بغیر کسی سہارے) سیدھا کھڑا ہے‘‘۔نصیرالدین مرات خان نے اس یادگار کے تین ماڈل تیار کیے جن میں سے تیسرا ماڈل پسند کیا گیا جو کہ آج گریٹر اقبال پارک،لاہور میں موجود ہے۔مرات خان نے اس مینارِ پاکستان کے تکمیل کے مراحل کے دوران ایک شاندار بات کہی کہ:''یہ یادگار اْس طاقت کی علامت ہے جس نے اِس پاکستان کی تشکیل کی تھی‘‘۔
مرات خان نے مینارِ پاکستان کی بنیاد پر چند چبوترے ڈیزائن کئے جن میں دو ہلال دکھائے گئے یہ دو ہلال دِکھنے میں ایسے لگتے ہیں جیسے یہ ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں اور دونوں ہلالوں کے درمیان قومی پرچم والا ستارہ بھی ایک چبوترے کی شکل میں واضح دکھائی دے رہا ہے جو کہ پاکستان کی عظمت کی علامت ہے، حقیقت میں یہ خیال مشرقی اور مغربی پاکستان کی عکاسی کرتاہے کہ کس طرح پاکستان مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے ہیں۔آرکیٹیکٹ اپنے ڈیزائن میں یہ بتانا چاہتا ہے کہ دونوں ہلالوں سے نکلتی ہوئی سیڑھیوں کے زینے لینڈنگ پوائنٹ (جہاں سیڑھی اپنے آخری زینے کے بعدچھت پر پہنچتی ہے) پر اکٹھے ہوجاتے ہیں حقیقت میں وہ یہ کام مشرقی اور مغربی پاکستان کے مساوی روحانی شراکت کی علامت کے طور پر دکھانا چاہتے تھے جس کی امید قائد اعظمؒ نے دلائی تھی،یہ تمام تصور آگے تصویر میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
مرات خان کی مینارِ پاکستان کی ڈیزائننگ کے دوران یہ سوچ تھی کہ یہ یادگار کوئی گنبد یا مسجد کی طرح نہ ہو،وہ اس یادگار کے حوالے سے روایتی طرزِ تعمیر سے متفق نہیں تھے بلکہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ''پاکستان عالمِ اسلام میں ایک جرأت مندانہ اور نیا تجربہ ہے‘‘ اسی لئے پاکستان کے قیام سے متعلق یادگار کا ڈیزائن بھی اسی انداز سے منفرد اور نیا ہونا چاہئے۔ ابتداء میں مینار پاکستان کے بلند ترین مقام پر کسی قسم کا گنبد نہیں تھا بلکہ مرات خان کا خیال تھا کہ پاکستان کے مقاصد کی طرح اس مینار کو بھی لامحدود دکھانا چاہییے۔ بعد ازاں اس مقصد کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے اس مینارِ پاکستان میں کسی اسلامی فنِ تعمیر کے جزو کی جھلک دکھانے کے لئے مینار کی چوٹی پر ایک دھاتی گنبد تیار کروا دیا جو کہ اب موجود ہے۔
مینار کی بنیادی چبوترے کی بلندی 8 میٹر ہے اور اس چبوترے سے اس بنیاد کے اوپر 62 میٹر تک بلند ہے جو کہ مجموعی طور پر 70 میٹر ( 230 فٹ) بلند ہے۔مینارِ پاکستان کے بنیادی حصہ جو کہ دیکھنے میں کھلتے ہوئے پھول کی پتیوں کی طرح نظر آتا ہے اس کی اونچائی 9 میٹر ہے۔
مینار کا قْطر تقریباً 9.75 میٹر (32 فٹ) اور مینار کے مرکزی دروازے کا رخ بادشاہی مسجد کی طرف ہے ۔مینار کی بنیاد پر 4 چبوترے بنائے گئے ہیں جن کی تفصیل انتہائی غور طلب ہے۔پہلا چبوترا جدو جہدِ آزادی کے عاجزانہ آغاز کی علامت کے طور پر ٹیکسلا کے بے دریغ پتھروں سے تیار کیا گیا ہے۔
مینارِ پاکستان کے داخلی دروازے کی ساتھ بیرونی دیوار پر قراردادِ پاکستان کو اردو،بنگالی،انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہے ۔اْن پتھروں کے کَتبوں پرقرآنی آیات،اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی ناموں کو عربی خوشخطی میں لکھا گیا ہے ۔انہیں کَتبوں پر قومی ترانے کو اردو اور بنگالی زبان میں بھی تحریر کیاگیا ہے۔مزید بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تقاریر کے اقتباسات کو اردو، بنگالی اور انگریزی میں کندہ بھی کیا گیا ہے۔ پتھروں سے مزین دیوار شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے اشعار کو بھی واضح تحریر کیا گیا ہے۔یہ مینار دکھنے میں جتنا سادہ ہے ڈیزائن اور تعمیر کے مراحل میں رموز سے اتنا ہی بھرپور ہے۔ یہ یادگار اسلامی اور قومی ثقافت کا مجموعہ ہے اس کی بنیاد کھلتے ہوئے پھول کی آئینہ دار ہے جو کہ پارکس کی صورت میں پھولوں سے گھرا ہوا ہے ۔اب یہ جگہ سیاسی مذہبی تقریبات کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے اسکو ''ٹاور آف لبرٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔