شاردہ یونیورسٹی جس کے اب صرف کھنڈر ات باقی ہیں
اسپیشل فیچر
آزاد کشمیر کے ضلع نیلم میں واقع پہلی صدی عیسوی میں قائم ہونیوالی شاردہ یونیورسٹی کے بارے میں جاننے سے پہلے '' شاردہ ‘‘شہر بارے جاننا ضروری ہو گا۔ شاردہ آزاد کشمیر کے ضلع نیلم کی ایک تحصیل ہے جو مظفر آباد سے شمال مغرب کی جانب لگ بھگ 136 کلو میٹر کی دوری پر واقع دریائے نیلم کے کنارے آباد ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اس شہر کی شناخت بارے جو مستند حوالے دستیاب ہیں وہ وسطی ایشیائی قبائل کے بارے میں ہیں جو 3100 قبل مسیح کے آس پاس اس وادی میں آنا شروع ہوئے تھے۔ان قبائل کی اکثریت بدھ مت اور ہندو مت کے پیرو کاروں پر مشتمل تھی۔ان قبائل کا ایک متحرک قبیلہ جو کشن کہلاتا تھا کے ایک سربراہ نے جب یہ اعلان کیا کہ اس نے خواب میں ایک نئی دیوی کو دیکھا ہے یوں ایک نئی دیوی کا وجود عمل میں آیا جسے '' شاردہ ‘‘ کا نام دیا گیا۔شاردہ بنیادی طور پر سنسکرت کے لفظ '' شردھا ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے لفظی معنی '' خزاں کے موسم سے پیار کرنیوالی دیوی ‘‘ کے ہیں ۔ بلکہ پرانے زمانے میں شاردہ کے قریب اس دیوی کا مجسمہ بھی تھا جسے قدیم نام '' سرسوتی دیوی ‘‘ سے یاد کیا جاتا تھا آج کل بھی شاردہ میں ایک مندر موجود ہے جسے''شاردہ پتھ‘‘بھی کہتے ہیں۔ '' پتھ‘‘کے لفظی معنی کسی مقدس ہستی کے بیٹھنے کی جگہ کے ہیں۔ یوں یہ شہر '' شاردہ ‘‘ کے نام کی شہرت اختیار کر گیا۔
شاردہ یونیورسٹی:شاردہ یونیورسٹی 2 پہاڑوں شاردی اور ناردی کے دامن میں واقع ہے۔ مشہور مسلمان مؤرخ البیرونی اپنی کتاب'' الہند‘‘ میں شاردہ کے بارے میں ان الفاظ میں اس کا احاطہ کرتا ہے '' سری نگر کے جنوب مغرب میں شاردہ کا شہر واقع ہے۔اہل ہند اس مقام کو انتہائی مقدس سمجھتے تھے۔بیساکھی کے موقع پر ہندوستان بھر سے لوگ یہاں یاترا کیلئے آتے تھے۔ کنشک اول (نیپال کا شہزادہ) کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء کی سب سے بڑی تعلیمی درسگاہ تھی۔ جہاں بدھ مت کی تعلیم کیساتھ ساتھ تاریخ ، جغرافیہ ، منطق اور فلسفہ سمیت متعدد دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس درسگاہ کی عمارت کی تعمیر کا سہرا سن 24 اور 27 کے درمیان کنشک اول کو جاتا ہے۔ اس درسگاہ کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس درسگاہ نے اپناایک الگ رسم الخط متعارف کرایا تھا۔اور یہ رسم الخط ''شاردہ ‘‘ کے نام ہی سے شہرت پا گیا تھا۔
زمانۂ قدیم میں جنوبی ایشیاء وسطی ایشیاء اور چین سمیت دیگر علاقوں سے حصول علم کے متلاشی یہاں کا رُخ کرتے تھے کیونکہ یہ یونیورسٹی اپنے دور میں مذہبی تعلیم ، سنسکرت کے عالموں کشمیری پنڈتوں اور بدھ پیشواؤں کی مذہبی تعلیم کے علاوہ فلسفہ منطق اور دیگر علوم میں اپنا ایک مقام رکھتی تھی۔
اپنے دور میں اس یونیورسٹی کے معیار اور مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے بقول نامور مؤرخ ذون راج گجرات کی حدود میں واقع ریاست میں ہیما چندرا نامی ایک شخص جو علم و فضل اور ذہانت میں اپنا ثانی نہ رکھتاتھا اس کی شہرت کے چرچے دور دور تک پھیلنے لگے تو گجرات کے راجہ جیا سمہا نے اسے اپنے دربار میں علم و ادب کی ترویج کیلئے شامل کر لیا۔ ایک موقع پر جب اس عالم نے راجہ سے ایک ایسے انسائیکلو پیڈیا کی تیاری کی اجازت چاہی جو مختلف موضوعات کا احاطہ کر سکے جس پر راجہ نے اجازت دے دی ۔ ایک اورموقع پر جب اس نے راجہ سے یہ درخواست کی کہ اس کام کی تکمیل کیلئے اسے 8 قدیم زبانوں کی چند ایسی کتب درکار ہیں جو صرف ''شاردہ یونیورسٹی ‘‘کے کتب خانے سے ہی دستیاب ہو سکتی ہیں ۔ چنانچہ اس علم دوست راجہ نے ایک اعلیٰ سرکاری وفد کشمیر کی راجدھانی پری وار پورا روانہ کیا۔ جہاں سے مطلوبہ کتب شاردہ سے گجرات پہنچائی گئیں جنکی مدد سے ہیما چند را نے ایک ضخیم کتاب جو علم و ادب کے خزانے سے بھرپور تھی تخلیق کی۔
اس درسگاہ کی عمارت جو اگرچہ اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہے لیکن اس کی تعمیر آج بھی ماہرین تعمیرات کو حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ کئی صدیاں قبل بھی اس عہد کا فن تعمیر کس قدر اعلیٰ ہوتا تھا ۔شاردہ یونیورسٹی کی عمارت جسکی اونچائی لگ بھگ 100 فٹ تھی اس کے درمیان بنایا گیا چبوترا فن تعمیر کا ایک ایسا شاہکار تھا جسے دیکھنے والے داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔ یہاں پر لگا بھاری بھر کم پتھر دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے کہ جب ٹیکنالوجی ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی تب اتنے بھاری بھر کم پتھر ایک دوسرے کے اوپر انتہائی ترتیب سے18 سے30 فٹ کی بلندی پر کیسے چڑھائے گئے ہونگے؟ ماہرین تعمیرات کہتے ہیں کہ یہ کام بظاہر انسانی طاقت سے تو ممکن نظر نہیں آتا یقینااس دور میں انہیں اوپر چڑھانے کیلئے کوئی ٹیکنالوجی ہی ایجاد کی گئی ہو گی ۔اس کے چاروں اطراف دیواروں کو خوبصورت نقش و نگار سے مزین کیا گیا ہے۔جنوبی جانب داخلی دروازہ ہے لیکن چھت مکمل طور پر حادثاتِ زمانہ کی نذر ہو چکی ہے۔ البتہ مغرب کی جانب عمارت میں داخل ہونے کیلئے 63 سیڑھیاں اب بھی باقی ہیں۔ان سیڑھیوں کی خاص بات انکی منفرد تعمیر تھی جنہیں پتھروں سے نہایت سلیقے سے تراش کر تخلیق کیا گیا تھا۔ چونکہ ان کی اونچائی قدرے زیادہ ہے اس لیے ان سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط رسے کو سہارے کیلئے لگایا گیا ہے تاکہ چڑھنے اور اترنے میں دشواری نہ ہو۔
ان سیڑھیوں کے بارے میں ایک روایت یہ بھی چلی آ رہی ہے کہ سیڑھیوں کی 63 کی تعداد رکھنے کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما تھا کہ صدیوں سے جنوبی ایشیاء کے بیشتر مذاہب بالخصوص بدھ مت کے قبائل کے ہاں 63 کے ہندسے کو مقدس جانا جاتا تھا۔اسی لیے صدیاں گزر جانے کے باوجودآج بھی بدھ مت کے بعض قبائل میں 63 زیورات پر مشتمل ہار ہاتھیوں کو پہنا کر انکی پوجا کی جاتی ہے اور بعض قبائل تو اس موقع پر اپنی مرادیں پانے کیلئے منتیں بھی مانتے ہیں ۔اس وسیع و عریض عمارت میں ایک قدیم تالاب کے آثار بھی ملے ہیں اگرچہ اب اس کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے تاہم قدیم روایات کے مطابق اس تالاب سے لوگ جلدی امراض سے شفا پانے کیلئے دور دراز سے آتے تھے کیونکہ اس تالاب کا پانی 2 کلو میٹر دور سے پہاڑوں سے اپنے ساتھ سلفر ملا پانی لاتا تھا جو جلدی امراض کیلئے ا کثیر کی حیثیت رکھتا تھا۔
بعض اور مقامی روایات کے مطابق یہاں سے کچھ ہی دور پہاڑوں کے دامن میں '' شردھ ‘‘ نامی لکڑی سے بنا ایک بہت بڑا مجسمہ بھی یہاں کے مذہبی عقائد میں مقبول ہوا کرتا تھا جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس مجسمے کو چھوتے ہی انسان کا ماتھا پسینے سے شرابور ہو جاتا تھا۔ جو اس بات کی علامت سمجھا جاتا تھا کہ دیوتا نے اسکی حاضری کو قبول کر لیا ہے۔