لاہور کے دروازے اور حقیقت،کشمیری دروازہ ’’کشمیریوں ‘‘ بھاٹی درواز’’بھاٹ قوم ‘‘کے نام سے منسوب ہے
چوتھا ... شاہ عالمی دروازہ:
یہ دروازہ شاہ عالم بادشاہ اورنگزیب کے بیٹے شاہ عالم کے نام سے موسوم ہے۔ جب بادشاہ عالمگیر لاہور آیا تو اس نے چاہا کہ اپنے جدِّاعلیٰ اکبر بادشاہ کی طرح اس شہر کا ایک دروازہ اپنے نام سے موسوم کرے اور اپنے رونق افزا ہونے کی یادگار لاہور میں چھوڑ جائے۔ اس نے یہ تجویز قائم کرکے منادی کرا دی کہ آئندہ یہ دروازہ شاہ عالمی کے نام سے پکارا جائے چنانچہ اس روز سے آج تک یہ شاہ عالمی دروازہ کہلاتا ہے۔ اس سے قبل اس دروازے کا نام کچھ اور تھا۔ انگریزوں کے عہد میں خستہ حال ہو گیا تھا جسے اسی طرز پر تعمیر کرایا گیا۔
پانچواں ... لوہاری دروازہ:
اصل نام لاہوری دروازہ ہے۔ غلط نام لوہاری دروازہ مشہور ہو چکا ہے۔ اس دروازے کو خاص لاہور کا دروازہ تصور کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سلطان محمود غزنوی نے راجہ جے پال کو لاہور سے بے دخل کرنے کے لیے اس پر حملہ کیا تو راجہ چندماہ تک شہر لاہور میں محصور ہو کر لڑتا رہا، بالآخر تاب نہ لا کر بھاگ نکلا۔ سلطان نے شہر کو آگ لگا دی، بہت سے لوگ مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے اور بہت سے بھاگ نکلے۔ اس طرح شہر بالکل ویران ہو گیا۔ چند سال یہ شہر اسی طرح غیرآباد رہا، آخر جب ملک ایاز پنجاب کے انتظام کے لیے مامور ہوا تو اس نے اس شہر لاہور کو دوبارہ آباد کرنا چاہا۔ اس طرح اس شہر کی پہلی آبادی اسی محلے سے شروع ہوئی جس کو لاہوری منڈی کہتے ہیں اور سب سے پہلے یہی دروازہ تعمیر ہوا، جس کا نام لاہوری دروازہ رکھا گیا۔ گر جانے اور خستہ حالی کے باعث انگریزوں نے دوبارہ اسے اسی طرز پر تعمیر کروایا جو آج بھی موجود ہے۔
چھٹا ... موری دروازہ:
یہ چھوٹا سا دروازہ لوہاری اور بھاٹی کے درمیان فصیل کے بُرج کے ایک گوشے میں بنا ہوا ہے۔ یہ قدیمی دروازہ بہت چھوٹا تھا جس میں سے گھوڑسوار کا گزر بھی بہ مشکل ہوتا تھا اور گزرتے وقت گھوڑسوار کو گھوڑے کی گردن تک جھکنا پڑتا تھا۔ انگریزوں کے دور میں یہ دروازہ کشادہ کر دیا گیا تاکہ گاڑی، گھوڑا یا اُونٹ وغیرہ بآسانی گزر سکے۔ یہ دروازہ موری دروازہ کے نام سے ملک ایاز کے دورِحکومت میں موسوم ہوا، اس لیے کہ جن دنوں راجہ جے پال نے خود کو شہر میں محصور کیا ہوا تھا اور سلطان محمود غزنوی نے شہر کو گھیر رکھا تھا مگر شہر میں داخلے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی، اس وقت یہاں سے شہر کی دیوار گرا کر اندر جانے کا راستہ بنایا گیا اور سلطانی فوج اندر داخل ہوئی اور جب ملک ایاز نے شہر کو دوبارہ آباد کیا تو یادگار کے طور پر اس جگہ ایک چھوٹا سا دروازہ بنا دیا گیا چونکہ فصیل میں موری یا سوراخ کیا گیا تھا، اس لیے اسے ''موری دروازہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ نام سکھ حکومت کے وقت موسوم کیا گیا کیونکہ پنجابی میں سوراخ کو ''موری‘‘ کہا جاتا ہے۔
ساتواں ... بھاٹی دروازہ:
یہ دروازہ بھاٹ کی قوم سے منسوب ہے جو ملک ایاز کے آباد کرنے کے بعد اس دروازے کے اندر آکر آباد ہوئی تھی اور کئی صدیوں تک آباد رہی۔ اس لیے یہ دروازہ اس قوم کے نام سے منسوب ہو گیا۔ اب اگرچہ اس محلے میں بھاٹ قوم کا کوئی فرد بھی موجود نہیں مگر بھاٹی دروازے نے ان کی یادوں کو ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔
آٹھواں ... ٹیکسالی دروازہ:
شہر لاہور کی غربی فصیل میں صرف یہی دروازہ ہے جس کو ٹیکسالی کہتے ہیں۔ اس لیے کہ شاہانِ سلف کے عہد میں اس دروازے کے اندرونی شمالی میدان میں ''دارالغربِ شاہی‘‘ ایک عالی شان مکان بنا ہوا تھا اور اسی جگہ پر ہر سکہ مسکوک ومضروب ہوتا تھا۔ (یعنی سرکاری سکے معہ مہر کے ڈھالے جاتے تھے) اس ٹیکسال کے سبب سے اس کا نام ٹیکسالی دروازہ مشہور ہوا۔ اب اگرچہ انقلابِ زمانہ نے اس ٹیکسال کی بیخ وبنیاد باقی نہیں چھوڑی مگر مسجد ٹیکسالی بطورِنمونہ باقی ہے جسے دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی زمانے میں کانسی کا عمدہ کام ہوتا رہا ہے۔
نواں ... روشنائی دروازہ:
یہ دروازہ بادشاہی مسجد اور لاہور قلعہ کے درمیان ہے، چونکہ شاہی مسجد اور غربی دروازہ قلعۂ لاہور میں شاہی ملازمین کی آمدورفت کیلئے تھا۔ اس دروازے کے اندرونی میدان اور بیرونی طرف شمعیں جلا کر روشنی کر دی جاتی تھی جس کے سبب یہ دروازہ روشنائی دروازہ کہلاتا تھا حالانکہ یہ دروازہ قلعے کی غربی دیوار کے باہر اور فصیلِ شہر کی دیوار کے اندر ہے، پھر بھی شہر کا دروازہ ہی گنا جاتا ہے۔
دسواں ... مستی دروازہ:
یہ دروازہ بھی ایک شاہی ملازم کے نام سے مشہور ہے، جس کا نام مستی بلوچ تھا اور بادشاہ کے حکم سے اس دروازے کی حفاظت اس کے ذمہ تھی اور تمام عمر اس دروازے کی خدمت پر معمور رہا۔ اس کی قدامت اور وفاوخدمت کے نتیجے میں شاہی حکم سے یہ دروازہ اس کے نام سے ہمنام کیا گیا تاکہ اس کا نام تاقیامِ دروازہ زندہ رہے۔ انگریز دور میں یہ دروازہ نہایت خستہ حالت میں ہونے کے باعث اسے گرا کر اس کی جگہ پر ایک مختصر سا پھاٹک لگا دیا گیا مگر آج بھی اسے مستی دروازے کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔
گیارہواں ... کشمیری دروازہ:
یہ دروازہ کشمیریوں کے نام سے منسوب ہے، اس لیے کہ اس کا رُخ کشمیر کی جانب ہے۔ جیسا کہ دہلی دروازے کا رُخ دہلی کی جانب ہونے کے باعث اسے دہلی دروازہ کہا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قوم بھاٹ کی طرح اس دروازے میں بھی کشمیری قوم آکر آباد ہوئی، اس لیے اس کا نام بھی کشمیری دروازہ پکارا جانے لگا ہو لیکن بہرحال اس دروازے کا رُخ کشمیر کی جانب ہے۔ خستہ حالی کے باعث انگریزوں نے اسے بھی اپنی اصل پر دوبارہ تعمیر کیا۔
بارہواں ... خضری دروازہ:
وجۂ تسمیہ اس دروازے کی یہ ہے کہ زمانۂ سلف میں دریائے راوی شہر کے بالکل ساتھ بہتا تھا اور بالخصوص اس دروازے کے بالکل سامنے کشتی پڑتی تھی، اب چونکہ حضرت خضر علیہ السلام کو دریائوں کے ساتھ کمال نسبت ہے اور میرالبحار ان کا خطاب ہے لہٰذا اسی کے سبب یعنی قربِ دریا کے سبب اس دروازے کا نام خضری دروازہ رکھا گیا، مگر اب لوگ اسے شیرانوالہ دروازہ کہتے ہیں، اس لیے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہمیشہ شیروں کے دو پنجرے اس دروازے کے دائیں بائیں اندر کی طرف رکھے جاتے تھے۔ انگریزوں کے دور میں یہ پنجرے اُٹھا دیئے گئے مگر ان شیروں کی وجہ سے اس دروازے کا نام شیرانوالہ دروازہ ہی پکارا جانے لگا جبکہ اس کا اصل نام خضری دروازہ ہے۔
تیرہواں ... یکی دروازہ:
اس دروازے کا اصل نام ''ذکی دروازہ‘‘ ہے۔ یہ دروازہ ''پیرذکی شہید‘‘ کے نام سے منسوب ہے، جن کے سر کی قبر عین دروازے کے اندر ہے اور باقی جسم شہر کے اندر ایک احاطے میں مدفون ہے، جو اس دروازے کے قریب ہی ہے۔ دونوں جگہوں پر قبریں بنی ہوئی ہیں۔ روایت ہے کہ یہ بزرگ مغل محاصرے کے وقت اس دروازے کے محافظ تھے۔ جب شہر فتح ہوا اور رعایا قتل ہوئی تو ان بزرگ نے کمال دلیری وجوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مقابلے کے دوران پیرذکیؒ کا سر تن سے جدا ہو کر دروازے کی دہلیز پر گر گیا مگر بے سر کے جسم دُشمنوں سے لڑتا ہوا اس مقام تک پہنچ گیا جہاں پر آج ان کی قبر ہے۔ دونوں قبریں اب زیارت گاہ ہر خاص وعام ہیں اور عقیدت مند آکر فاتحہ پڑھتے اور دُعا کرتے ہیں۔ اس لیے یہ دروازہ ذکی دروازہ کہلایا مگر زبان کی تلخی نے اسے یکی دروازہ کے نام میں بدل دیا۔
لاہور کے بارہ دروازے ہی گنے جاتے ہیں، جن کے ذریعے شہر لاہور میں آمدورفت جاری رہی۔ روشنائی دروازہ چونکہ فصیل کے اندر تعمیر کیا گیا جو کہ شاہی مسجد اور شاہی قلعہ کو ملاتا ہے لہٰذا یہ ان بارہ دروازوں میں شامل نہیں مگر پھر بھی اسے دروازہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دورِحکومت میں فصیل کی مضبوطی اور دروازوں کی مرمت کا کام جاری رہتا تھا۔ شہر کے چاروں اطراف اس نے نہایت گہری پختہ خندق بنوا دی تھی اور ہر ایک دروازے کے آگے خندق پر پختہ پُل بنا کر دوہرا مضبوط دروازہ تعمیر کر دیا تھا۔ دوہرے دوہرے دروازوں اور خندق، دھول کوٹ وپختہ مدموں سے شہر اس قدر مستحکم ہو گیا تھا کہ دُشمن اس پر آسانی سے قابض نہ ہو سکتا تھا مگر اندرونی خلفشار نے انگریزوں کے تمام راستے آسان بنادیئے۔
٭...٭...٭