قرضوں کے موسم
یہ موسم سدابہار موسم ہے اس اقلیم ریاست کے منصئہ شہود میں آتے ہی قرضوں کا موسم بھی چل نکلا۔ سال میں کسی بھی وقت یہ موسم بر پا ہوسکتا ہے۔ اس موسم کے آتے ہی ارباب اختیار سکھ کا سانس لیتے ہیں اور عوام کوڈ نگ ٹپاؤ پروگراموں اور سبز باغات میں الجھا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ کچھ نو آورد اس موسم کو نا پسند کرتے ہیں اسے ریاست سے ختم کرنے کے دعوے بھی کرتے ہیں مگر واعظ کی یہ سب باتیں نہ تجربہ کاری پہ مبنی ہوتی ہیں اور بالآخر منتیں مان کر ان کے روٹھے موسموں کو منایا جا تا ہے۔ پہلی باراس موسم نے ہمارا دروازہ ساٹھ کی دہائی میں کھٹکھٹایا۔ بادی النظریہ خاصاً خوشگوار موسم ہوتاہے مگر یہ قوموں کے ہاتھوں میں کشکول تھما جاتا ہے۔ ریاستوں کی کوری کوری چنر یا پہ معاشی داغ لگ جاتے ہیں اور وہ داغ چھپائے نہیں چھپتے۔ مستزاد قرضوں سے بھری جھولی کیا سنبھلے کہ سو سو چھید لئے ہے اور پھر رفو گری کی صورت بھی ناپید ہو۔جس سے ریاستوں کی ننگے پاؤں والی ماؤں کے ہر بلاول کامقروض ہو جانا مقدر ٹھہر جاتا ہے۔ان موسموں میں اڑتی پرچیوں پہ ''Beggars are not choosers‘‘لکھا ملتا ہے۔تاہم کبھی کبھار''فرینڈز، ناٹ ماسٹر ‘‘کی سرگوشیاں سنتے کو ملتی رہیں۔ اس موسم کی دل پذیر و ہوشربا سوغات قرض کی مئے ہے جسے پی کر اپنی فاقہ مستیوں میں رنگ بھرنے کی سعی لا حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح قرضوں کی واپسی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ ریاست کے تھنک ٹینک کے مطابق سلطنت وسیاست کے قرض کی ادائیگی تو گدھے کی آنکھ پر جوتے کے برابریعنی انتہائی آسان کام ہے۔ تجویز عام ہے کہ آئی ایم ایف کی مائی سے قرض کی بھیک لینے کی بجائے اپنے گزیٹڈ افسران،ججز،ضلعی افسران ، وکیل، ڈاکٹر ، پٹواری ، بیوروکریٹس، فوجی افسران ، فیکٹری مالکان، وزیر مشیر اور پچیس ایکڑ سے زائد زمین کے حال زمینداروں سے بیس بیس ہزار قرض لیا جائے۔ مذکورہ بالا حضرات دو کروڑ کے لگ بھگ ہیں اور ان سے کشید کی گئی رقم تقریبا چار کھرب بنتی ہے۔ اسی طرح نان گزیٹڈ سرکاری ملازمین سے دو دو ہزار لئے جائیں۔ اور یہاں پانچ کروڑ سے زائد افراد بیس ہزار ماہانہ کماتے ہیں ان سے صرف پانچ پانچ سو وصولا جائے تو قرض کا آسیب ٹالا جاسکتا ہے۔ ایک عالم بے بدل نے تو قرض اتارنے کا کمال بے مثال نسخہ دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر قرض کی رقم کی ادائیگی کی صورت نہ نکل پائے تو قرض خواہ ممالک کو ٹھوٹھا دکھا دیا جائے۔ اس طرح ان ممالک کے قرض کی واپسی کا تقاضہ جاتا رہے گا۔ قرض لیتے وقت بھی ہماری خودداری قائم ہے۔ اس بات پہ ایک خوددار شاعر کا شعر یاد آ گیا :
قرض جو مانگو تومانگواتنی خود داری کے ساتھ
قرض دینے والا دے کے تجھ سے شرمندہ رہے
مگراس موسم میں ارباب گشت و بساد اقبال کی خودی کی بجائے امریکہ کے ڈالر کو بلند کرنے میں جان لگاتے ہیں اور ڈالر کا اقبال اس قدر بلند ہو جا تا ہے کہ اقبال کے شا ہین کی پرواز ہیچ نظر آنے لگتی ہے۔ قرض کے موسم میں مختلف سائز کے کشکولوں کے لحاظ سے سلطنت خود کفیل ہو جاتی ہے۔کبھی کشکول اعلی تو بھی کشکول اعظم ڈالر، لیرے،یو آن ، ین ، پونڈ، درہم اوردینار سے لیس دکھائی دیتے ہیں۔