حکمت کی باتیں
صاحب حکمت
اللہ صاحب حکمت ہے۔ دنیا میں ہونے والا ہر واقعہ اس کی دانائی، بصیرت اور اس کے حکیمانہ مقاصد کا حامل ہوتا ہے۔ ہماری نگاہ اس پر نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مصیبت کتنی بڑی ہے بلکہ اس پر ہونی چاہیے کہ یہ کیوں آئی ہے، اس لئے کہ اس حکیم و خبیر سے یہ توقع نہیں کہ وہ بلاوجہ ہمیں کسی ابتلا میں ڈال دے گا۔ وہ یقینا درج بالا مقاصد ہی کے لئے ہمیں آزماتا ہے۔ اس کے حکیم ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے ہر کام کو حکمت پر مبنی سمجھا جائے، اس لئے کہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ اس کی یہ صفات اس سے کسی حالت میں بھی الگ نہیں ہوتیؒ، اس لئے یہ جان لینا چاہیے کہ اگر وہ کسی کو سزا بھی دے رہا ہو تو وہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔ اس کو ہم ایک ادنیٰ درجے پر ماں کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں، جو اپنے بچے کو بدتمیزی کرنے یا محنت نہ کرنے پر صرف اس لئے سزا دیتی ہے کہ اس کی عادتوں کا بگاڑ اس سے دور ہو یا اس کا مستقبل تاریک نہ ہو۔ ماں کے ذہن کی یہ حکمت بعض اوقات بیٹے سے اوجھل ہوتی ہے اور وہ ماں سے باغی ہو جاتا ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔ اگر ماں اپنے بیٹے پر یہ ستم اس لئے توڑتی ہے کہ وہ سدھر جائے، اس کا مستقبل سنور جائے، وہ آنے والے دنوں میں پریشان نہ ہو تو کیا خدا ماں سے زیادہ حکیم نہیں ہے، اور وہ اس سے زیادہ مستقبل سے باخبر نہیں ہے؟ یہی اس کا علیم و حکیم ہونا ہے جو ہمارے لئے باعث اطمینان ہے۔اس حکمت کا ایک پہلو یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ بسا اوقات ہم یہ خیال کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا کاروبار چل جانا چاہیے، ہمیں ملازمت مل جانی چاہیے، ہمارے ہاں اولاد ہونی چاہیے لیکن معاملہ اس کے برعکس رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے اللہ کا علم یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے لئے مستقبل میں نقصان کا باعث ہوگا۔ وہ ہمیں اس نقصان سے بچانے کے لئے سب سب کچھ سے محروم رکھتا ہے۔
پست خیال انسان
پست خیال انسان آکاس بیل کی طرح خود پھیلتا ہے اور دوسروں کو پھیلنے سے روکتا ہے۔ وہ دوسروں کو اُن کے حقوق سے محروم کر کے اپنے نفس کی تسکین چاہتا ہے۔ بلند خیال انسان شمع کی طرح جلتا ہے اور روشنی دیتا ہے۔ جلتا ہے، روشن رہتا ہے۔ بلند خیالی روشنی ہے۔ وہ روشن رہتا ہے، روشن کرتا ہے اور پھر اپنے اصل کی طرف یعنی نور کی طرف رجوع کر جاتا ہے۔ اُس کی زندگی دوسروں کے لیے اور دوسروں کا دُکھ اپنے لیے۔ وہ بلند خیال ہے۔ پست خیال کو ہم خیال بنانا اُس کا دین ہے، اُس کا مذہب ہے، اُس کا منصب ہے۔
چیونٹی اور مکھی
ایک دن ایک چیونٹی اور مکھی دونوں اپنی فضیلت اور برتری پر لڑنے لگیں اور اپنی بحث وتکرار کرتے ہوئے مکھی نے کہا:
''میری بزرگی مشہور ہے، جب خدا کے لیے نذر یا قربانی کی غرض سے جو بھی جانور ذبح ہوتا ہے اس کے گوشت، ہڈیوں اور انتڑیوں کا مزہ سب سے پہلے میں چکھتی ہوں۔ مساجد اور خانقاہوں میں بھی اچھی جگہ پر بیٹھی ہوں۔ میں عمدہ سے عمدہ جگہوں پر بلاروک ٹوک جاتی ہوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت عورت جو میرے پاس سے ہو کر گزرتی ہے، میرا دل چاہتا ہے تو میں اس کے نازک ہونٹوں پر جا بیٹھتی ہوں۔ کھانے پینے کے لیے مجھے محنت نہیں کرنا پڑتی۔ اعلیٰ سے اعلیٰ نعمت مجھے میسر رہتی ہے تو بے چاری غریب مسکین میرے رُتبے پر کہاں پہنچ سکتی ہے اور میری برابری کہاں کر سکتی ہے‘‘۔
چیونٹی، مکھی کی یہ بات سُن کر بولی: ''خدا کی نذر یا قربانی میں جانا تو بہت باعث برکت ہے لیکن جب تک کوئی بلائے نہیں تیری طرح بن بلائے جانا تو بڑے بے شرمی کی بات ہے اور تو جو درباروں، بادشاہوں اور خوبصورت ہونٹوں پر بیٹھنے کا ذکر کرتی ہے تو یہ بھی بے جا ہے کیونکہ ایک دن گرمی کے موسم میں جبکہ میں دانہ لانے جا رہی تھی، میں نے ایک مکھی کو فصیل کی دیوار کے پاس ایسی غلیظ چیز پر بیٹھے دیکھا جس کا نام لینا بھی مناسب نہیں اور وہ اس غلاظت کو چپڑ چپڑ کھا رہی تھی اور تو نے مسجدوں اور خانقاہوں میں جانے کا کہا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تو سستی اور کوتاہی کی ماری ہوئی ہے اس لیے وہاں جا کر پڑی رہتی ہے تاکہ کوئی زحمت اُٹھانا نہ پڑے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے جو سست اور کاہل ہوتے ہیں ان کو کوئی اپنی محفل میں آنے نہیں دیتا۔ اس لیے ادھر ادھر گھستے پھرتے ہیں۔ تو نے یہ کہا کہ تجھے کوئی کام نہیں کرنا پڑتا اور مجھے سب کچھ بغیر محنت کے مل جاتا ہے، بات تو سچ ہے لیکن یہ بھی سوچ گرمیوں کے دنوں میں جب تو ادھر ادھر کھیل تماشے میں کھوئی رہتی ہے تو سردیوں میں بھوک سے مرتی ہے اور ہم اپنے گرم گھروں میں مزے سے کھاتے پیتے اپنی زندگی ہنسی خوشی بسر کرتے ہیں‘‘۔
عقل مند بیٹا
کسی بادشاہ نے ایک تیلی سے دریافت کیا کہ ایک من تلوں سے کتنا تیل نکلتا ہے؟ تیلی نے کہا: دس سیر۔ پھر پوچھا دس سیر میں سے؟ تیلی نے کہا: اڑھائی سیر۔ بادشاہ نے پوچھا: اڑھائی سیر میں سے؟ تیلی نے کہا: اڑھائی پائو۔ سلسلہ سوالات کے آخر میں بادشاہ نے پوچھا، ایک تل میں سے کتنا تیل نکل سکتا ہے؟ تیلی نے جواب دیا کہ جس سے ناخن کا سرا تر ہو سکے۔ کاروبار دنیوی میں تیلی کی اس ہوشیاری سے بادشاہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ علم دین سے بھی کچھ واقفیت ہے؟ تیلی نے کہا: نہیں۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر کہا کہ دُنیاوی کاروبار میں اس قدر ہوشیار اور علم دین سے بالکل بے خبری۔ اس کو قید خانہ میں لے جائو۔ جب تیلی کو قید خانے میں لے جانے لگے تو تیلی کا لڑکا خدمت میں عرض کرنے لگا کہ ''میرے باپ کے جرم سے مجھے مطلع فرمائیںتو کرم شاہانہ سے بعید نہ ہو گا‘‘۔
بادشاہ نے کہا: ''تیرا باپ اپنے کاروبار میں تو اس قدر ہوشیار ہے لیکن علم دین سے بالکل بے بہرہ ہے۔ اس لیے اس غفلت کی سزا میں اس کو قید خانے بھیجا جاتا ہے‘‘۔ تیلی کے لڑکے نے دست بستہ عرض کی: ''حضور! یہ قصور اس کے باپ کا ہے جس نے اس کو تعلیم سے بے بہرہ رکھا، نہ کہ میرے باپ کا؟ میرے باپ کا قصور اس حالت میں قابل مواخذہ ہوتا، اگر وہ مجھے تعلیم نہ دلاتا۔ لیکن میرا باپ مجھے تعلیم دلا رہا ہے۔ آئندہ حضور کا اختیار ہے‘‘۔ بادشاہ لڑکے کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور کہا: ''تمہاری تھوڑی سی تعلیم نے نہ صرف اپنے باپ کو مصیبت قید سے چھڑا لیا بلکہ تم کو بھی مستحق انعام ٹھہرایا‘‘۔ چنانچہ بادشاہ نے تیلی کو رہا کر دیا اور اس کے لڑکے کو معقول انعام دے کر رُخصت کیا۔
صبر
ہر طرح کی آزمائش میں صحیح رویے اور عمل کو اختیار کرنا صبر کہلاتا ہے۔ صبر کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ہر صورت میں صحیح موقف پر قائم رہے۔ اللہ اسے دے تو وہ شکر گزار رہے، فرعون وقارون نہ بنے اور اللہ چھینے تو وہ صابر رہے، کفر وشرک اختیار نہ کرے، اللہ کے دروازے سے مایوس نہ ہو۔ صحیح موقف سے مراد یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے اخلاق سے نہ گرے۔ اپنے عزیزوں اور اپنے ساتھ بُرائی کرنے والے لوگوں سے بالخصوص اپنا رویہ صحیح رکھے۔ ان کے حقوق پورے کرے، ان کی عزت قائم رکھے۔ ان سے اگرسہوونسیان ہوا ہے تو بالخصوص ان سے درگزر کا رویہ اختیار کرے اور اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی چیز سرزد ہوئی ہے تو سزا دینے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ یہاں بھی پسندیدہ یہی ہے کہ اگر ہو سکے تو انھیں معاف کر دے۔
خدا کی طرف سے آنے والی مشکلات میں بھی صبر ضروری ہے۔ ان چیزوں میں آدمی اگر صبر نہ کرے تو وہ مایوس ہو کر کفر وشرک تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کو ہم اپنے معاشرے کی مثال سے سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب کسی کے ہاں اولاد نہیں ہوتی اور وہ علاج معالجہ کراتا ہے، دُعائیں کرتا ہے لیکن پھر بھی جب اولاد نہیں ہوتی تو وہ مایوس ہو جاتا ہے تو پھر وہ لوگوں کے درباروں اور استھانوں کے چکر لگاتا ہے۔ ان کو خدا کی ایک صفت میں شریک وسہیم بنا دیتا ہے۔ چنانچہ اچھا خاصا آدمی محض اولاد سے محرومی کے دکھ میں شرک کر بیٹھتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ صبرو استقامت سے کام لیا جائے۔
کنکر نہیں ہیرے
ایک قافلہ ایک اندھیری سُرنگ سے گزر رہا تھا کہ اُن کے پائوں میں کنکریاں چبھیں۔ کچھ لوگوں نے اس خیال سے کہ یہ کسی اور مسافر کو نہ چبھ جائیں، نیکی کی خاطر اُٹھا کر جیب میں رکھ لیں۔ کچھ نے زیادہ کچھ نے کم۔
جب اندھیری سرنگ سے باہر آئے تو دیکھا وہ ہیرے جواہرات تھے۔ جنھوں نے کم اُٹھائے وہ پچھتائے کہ کم کیوں اُٹھائے۔ جنھوں نے زیادہ اُٹھائے اور بھی زیادہ پچھتائے۔
دُنیا کی زندگی کی مثال اُس اندھیری سُرنگ کی سی ہے۔ نیکیاں یہاں کنکریوں کی مانند ہیں۔ اس زندگی میں جو نیکی کی وہ آخرت میں ہیرے موتی جیسی قیمتی ہو گی اور انسان ترسے گا کہ اور زیادہ کیوں نہیں کیں۔