مہاشیر:پاکستان کی قومی مچھلی ,نایاب ہوتی نسل کو بچانے کیلئے 80ایکڑ رقبہ مختص
جس طرح پاکستان کا قومی کھیل, قومی زبان , قومی پھول , قومی جانور اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے قومی کرداروں کی درجہ بندیاں کی گئی ہیں اسی طرح سمندری مخلوق کی سب سے اہم مخلوق یعنی مچھلیوں کی بھی درجہ بندی کرتے ہوئے ''مہاشیر مچھلی‘‘ کو پاکستان کی قومی مچھلی قرار دیا گیا ہے۔
ابھی حال ہی میں جب سیکرٹری جنگلات و فشریز کا یہ تشویش ناک بیان پڑھا کہ پاکستان کی قومی مچھلی مہاشیر نہ صرف کم ہوتی جارہی ہے بلکہ ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ بیان باعث تشویش تھا وہیں یک گونہ تسلی کا باعث بھی۔ وہ یوں کہ مذکورہ سیکرٹری صاحب نے ساتھ ہی یہ حوصلہ افزا خبر بھی سنائی تھی کہ مہاشیر کی نسل میں اضافے، تحفظ اور ذخیرہ کے لئے اٹک میں حاجی شاہ ڈیم کے 80 ایکڑ رقبے کو مختص کر دیا گیا ہے جہاں 2500 مہاشیر نسل کی مچھلیاں ڈالی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے یہ خبر بھی حوصلہ کا باعث تھی کہ مہاشیر کی نسل میں اضافے اور تحفظ کی خاطر دیگر آبی ذخائر کو بھی مختص کرنے کے پروگرام پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک معروف غیر ملکی نشریاتی ادارے نے پاکستان کی آبی حیات بلخصوص مچھلیوں کی تیزی سے کم ہوتی نسل بارے ایک معلوماتی پروگرام میں جب مختلف اقسام کی مچھلیوں کی نشاندہی کی تو وہیں اس ادارے نے بطور خاص ''مہاشیر مچھلی‘‘ کا ذکر بھی کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ ادارے نے اس مچھلی کی کم ہوتی نسل بارے یہ افسوس ناک انکشاف بھی کیا کہ کے پی کے اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں سردیوں میں مچھلیاں پکڑنے کے لئے نالوں میں بارودی مواد کے دھماکے کئے جاتے ہیں جس سے مچھلیوں کے ساتھ ساتھ ان کے بچے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں جو اس نایاب نسل کی معدومیت کے لئے خطرے کی بہت بڑی گھنٹی ہے۔ چنانچہ اسی لمحے مجھے اس نایاب اور قیمتی مچھلی بارے جاننے کا تجسس ہوا۔ ذیل میں میں اس نایاب مچھلی بارے کچھ معلومات شیئر کرنے کی کوشش کروں گا۔
مہاشیر مچھلی پاکستان کے صوبہ کے پی کے اور بلوچستان میں پائی گئی ہے جبکہ پاکستان میں عام طور پر مہاشیر مچھلیوں کی دو بڑی اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ پائی جانے والی نسل ''گولڈن مہا شیر‘‘ ہے۔ جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ صرف ہمالیہ کے پہاڑی سلسلہ میں پائی جاتی ہے اور اس کے علاوہ دنیا کے کسی اور حصے میں اس کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے۔ یہ بنیادی طور پر میٹھے پانیوں کی مچھلی ہے۔ کھانے میں یہ اس قدر لذیذ ہے کہ بہت کم دوسری مچھلیاں اس کی لذت کے معیار کو چھوتی ہونگی۔ یہ اپنے نام کی مناسبت سے سنہرے رنگوں میں پائی جاتی ہے۔ اب سندھ کے ماہی گیر اس بارے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ جس تیز رفتاری سے دریا خشک ہوتے جا رہے ہیں اس قدر تیزی سے مہاشیر کی نسل بھی معدومیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کی دوسری قسم بلوچستان میں پائی جاتی ہے جو کے پی کے کی نسل سے قدرے مختلف ہے۔ اس کا اور گولڈن مہاشیر کا واضح فرق یہ ہے کہ اس کی بڑی بڑی موچھیں ہیں جبکہ اس کا سر قدرے چپٹا ہے یہ چونکہ بلوچستان کے علاقے ژوب میں پائی جاتی ہے اس لئے اس کی شناخت ''ژوبی مہاشیر ‘‘ کے نام سے کی جاتی ہے۔ ژوبی مہاشیر کی موجودگی دریائے کابل، دریائے گومل اور دریائے کرم میں بھی پائی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق مہاشیر مچھلی پاپلیٹ یا سرمئی پاپلیٹ مچھلی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی خوراک کا زیادہ تر دارومدار چھوٹی مچھلیوں پر ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ کچھ عرصہ پہلے بلوچستان کے ضلع خضدار کے مقام ''نال‘‘ میں جب محکمہ آثار قدیمہ نے کھدائی کا کام شروع کیا تو وہاں انہیں کثرت سے مٹی کے برتن نظر آئے۔ ان برتنوں میں جو بات مشترک تھی وہ ان برتنوں پر ''مہاشیر مچھلی‘‘ کی بنائی گئی تصاویر تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ اس دریافت سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ مہاشیر مچھلی صدیوں سے بلوچستان کے خطے کی ''باسی‘‘ چلی آ رہی ہے۔ لیکن اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برتنوں پر اس کی تصاویر اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ سکھوں اور ہندوؤں کے نزدیک متبرک جنس تصور کی جاتی تھی۔