استاد : عظمت کا مینار ،استاد ایک انمول تحفہ، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے
انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر ماں اپنے جگر کا ٹکڑا استاد کے حوالے کر دیتی ہے اور استاد اس کے لئے پوری دنیا کو ایک درسگاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ باپ بچے کو زمین پر قدم قدم چلنا سکھاتا ہے، استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنا سکھا تاہے۔ استاد کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہے۔ ہر سال 5اکتوبر کو ''اساتذہ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 1994ء میں یہ دن منانے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ پاکستان میں 2007ء سے یہ دن ''سلام ٹیچرز‘‘ کے عنوان سے منایا جا رہا ہے۔
مُعَلّمی وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، ملائیشیا، اٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں جو عزت اور مرتبہ استاد کو حاصل ہے، وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتا کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد عظمت کا مینار ہے، جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے، جو ہمیں بلندی پر پہنچا دیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے، جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضورﷺ کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ''مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپؓ نے فرمایا کہ ''کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔
استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کہتے ہیں کہ ''استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کے سپرد ہے‘‘۔
معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔ معلم فروغ علم کا ذریعہ ہے لیکن اس کے علم سے فائدہ وہ نیک بخت اٹھاتے ہیں جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں، کیونکہ ''ادب ایک درخت ہے اور علم اس کا پھل۔ اگر درخت ہی نہ ہو تو پھل کیسے لگے گا؟‘۔‘ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزاری ہے۔
امیر المومنین حضرت علی ؓنے فرمایا! ''جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اسے اْستادکا درجہ دیتا ہوں۔ ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں کہ !''عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان کی تعظیم کیلئے کھڑا ہو جاتا۔ درباریوں نے کہا کہ اس سے سلطنت کا رُعب جاتا رہتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو جائے۔
ہارون الرشید نے اپنے بیٹے مامون کو علم و ادب کی تعظیم کے لئے امام اصمعیؒ کے سپرد کر دیا تھا ایک دن ہارون اتفاقاً ان کے پاس جا پہنچا۔ دیکھا کہ اصمعیؒ اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔ ہارون الرشید نے برہمی سے کہا میں نے تو اسے آپؒ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ آپؒ اس کو ادب سکھائیں گے۔ آپؒ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپؒ کے پاؤں دھوئے۔
عظیم عالمی شخصیات کی نظر میں
٭...استاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تخلیقی اظہار اور علم میں مسرت جگا دے۔ البرٹ آئن سٹائن
٭...تعلیم زندگی میں کامیابی کی بنیادی اکائی ہے اور استاد کا شاگردوں پر اثر آخر تک رہتا ہے۔ سولومن آرٹز
٭...میں زندگی کے لئے اپنے باپ کا مشکور ہوں اور میں اچھی زندگی کے لئے اپنے استاد کا مشکور ہوں۔ سکندر اعظم
٭...اچھا استاد امید جگاتا ہے اور سیکھنے کی لگن پیدا کرتا ہے۔ براڈ ہنری
٭...اچھا استاد جانتا ہے کہ شاگرد کے اندر کی صلاحیت کو باہر کیسے لانا ہے۔ چارلس کورالٹ
٭...تمام علم کی صرف ایک علامت تدریس کی طاقت ہے۔ ارسطو