تنویر نقوی :لازوال گیتوں کے تخلیق کار، صاحب کمال و جمال شاعر نے نعتیں ،غزلیں ،قومی نغمے اور قطعات بھی لکھے
اسپیشل فیچر
1945ء کی بات ہے۔ ہندوستان کے عظیم ہدایت کار محبوب خان فلم ''انمول گھڑی‘‘ بنا رہے تھے۔ فلم میں نور جہاں، ثریا اور سریندر مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ فلم کے موسیقار نوشاد علی ایک نوجوان سے گیت لکھوا رہے تھے۔ انہوں نے جب ایک گیت محبوب خاں کو سنایا تو وہ حیران رہ گئے۔ گیت کے بول تھے ''آواز دے کہاں ہے، دنیا مری جواں ہے‘‘۔ محبوب خاں نے جب نوشاد سے استفسار کیا کہ یہ کس نے لکھا ہے تو انہوں نے فوری طور پر جواب دیا ''ایک 22،20 سال کا لڑکا ہے، نام ہے تنویر نقوی‘‘۔ محبوب خاں نے کہا اسے کل یہاں لائو۔ میں نہیں مانتا کہ اتنی چھوٹی عمر کا لڑکا اتنا شاندار نغمہ تخلیق کر سکتا ہے‘‘۔ نوشاد علی اگلے روز تنویر نقوی کو لے کر محبوب خاں کے دفتر پہنچ گئے۔ محبوب خاں نے بڑے غور سے اُس نوجوان کو دیکھا۔ پھر وہ بولے ''نوشاد میں تب مانوں گا جب ابھی یہ نوجوان ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر ''انمول گھڑی‘‘ کا ایک اور گیت لکھے گا،گانے کی سیچوایشن میں دیتا ہوں۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ لڑکا کتنی دیر میں یہ نغمہ تخلیق کرتا ہے‘‘ نوجوان تنویر نقوی کو ساتھ والے کمرے میں بٹھا دیا گیا اور اسے کاغذ پر سیچوایشن لکھ کر دے دی گئی۔ صرف آدھ گھنٹے کے بعد اِس نوجوان نے گیت لکھ کر محبوب خاں کے حوالے کر دیا۔ محبوب خاں نے گیت کو اچھی طرح پڑھا اور عش عش کر اُٹھے۔ ''کمال ہے بھئی۔ یہ لڑکا تو بلا کا ذہین ہے‘‘۔ محبوب خاں کے لبوں سے یہ الفاظ نکلے۔ اس گانے کے بول تھے ''جواں ہے محبت، حسیں ہے زمانہ‘‘ یہ نغمہ نور جہاں نے ریکارڈ کرایا۔ دونوں نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ فلم بھی ہٹ ہوئی، موسیقار کو بھی داد ملی اور گیت نگار بھی شہرت کے آسمان پر پہنچ گیا۔ 1948ء میں ''جگنو‘‘ ریلیز ہوئی۔ جس میں محمد رفیع نے نور جہاں کے ساتھ ایک دوگانا گایا جو کچھ یوں تھا ''یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سِوا کیا ہے‘‘۔ اس دو گانے نے محمد رفیع کو بھی شناخت دی۔ تنویر نقوی نے یہ شاندار گیت لکھ کر مزید شہرت سمیٹی۔ یہ سفر جاری رہا اور پھر تنویر نقوی نے کئی دہائیوں تک اپنے فن کا ڈنکہ بجایا۔
1920ء میں ایران میں پیدا ہونے والے تنویر نقوی کا اصل نام خورشید تھا۔ انہوں نے فلمی گیتوں کے علاوہ اعلیٰ درجے کی نعتیں، غزلیں اور قطعات بھی لکھے۔ تنویر کے قطعات کو احمد ندیم قاسمی نے مستقل گیت قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں ''تنویر کے قطعات اپنی جگہ مستقل گیتوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اتنے ہلکے پھلکے اور پیارے ہیں کہ وہ پنجاب کے دیہات کے ماہیے کی کلیاں معلوم ہوتے ہیں‘‘۔
اس مضمون میں ہم تنویر نقوی کے فلمی نغمات کا ذکر کر رہے ہیں۔ وہ نغمات جو امر ہیں۔ قتیل شفائی اور احمد راہی جیسے بڑے گیت نگاروں نے بھی تنویر نقوی کو سب سے ارفع گیت نگار قرار دیا تھا، یعنی انہوں نے خود ہی تنویر صاحب کو ''نغمہ نگاروں کا شہنشاہ‘‘ قرار دیدیا۔
تنویر نقوی ہندوستان میں ''انمول گھڑی‘‘ اور ''جگنو‘‘ کے گیت لکھ کر شہرت حاصل کر چکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کے آصف کی شہرہ آفاق فلم ''مغلِ اعظم‘‘ کے گیت بھی لکھ رہے تھے۔ لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ یہ کام شکیل بدایونی نے سنبھال لیا۔ اس حوالے سے اعزاز احمد آذر نے اس خاکسار کو بتایا تھا کہ انہوں نے بعد میں وہ گیت فلم ''شیریں فرہاد‘‘ کیلئے وقف کر دیئے تھے۔ محبوب خان والا واقعہ بھی اعزاز احمد آذر نے ہی سنایا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ انہیں تنویر نقوی نے ہی بتایا ہوگا کیونکہ اعزاز احمد آذر اُن کے بہت قریبی دوست تھے۔
پاکستان آنے کے بعد انہوں نے بڑے معیاری فلمی نغمات لکھے۔ سیف ا لدین سیف کی طرح تنویر نقوی نے پنجابی فلموں کیلئے بھی شاندار گیت تحریر کئے جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ سب سے پہلے فلم ''کوئل‘‘ کیلئے لکھے گئے اُن کے نغمات بہت مقبول ہوئے جن میں یہ گیت شامل ہیں۔''دل کا دیا جلایا‘‘، ''رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘‘، ''ساگر روئے‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس فلم کیلئے لکھا گیا اُن کا ایک کورس بھی آج تک بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول تھے ''مہکی ہوائیں، مہکے نظارے‘‘۔ یہ اتنا شاندار کورس تھا کہ نوشاد صاحب نے کہا تھا کہ برصغیر کے عظیم الشان کورسوں میں ایک یہ بھی ہے، اس کورس کو یادگار بنانے میں میڈم نور جہاں اور خواجہ خورشید انور نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
مذکورہ بالا گیتوں کے علاوہ تنویر نقوی کے کچھ اور اردو گیتوں کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے۔ آجا میری برباد محبت کے سہارے (انمول گھڑی)، جواں ہے محبت (انمول گھڑی) زندگی ہے یا کسی کا نشہ (سلمیٰ)، اے روشنیوں کے شہر بتا (چنگاری)، گائے گی دنیا گیت میرے (موسیقار)، کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائوں (انار کلی)، میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا (کوئل)، یہ میری منزل نہیں (چنگاری)، مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے (گھونگٹ)،جان جاں تو جو کہے (آنسو)، جان بہاراں، رشک چمن (عذرا)،گزرا ہوا زمانہ (شیریں فرہاد)، زندگی میں ایک پل بھی (ہمسفر)، میری نظر میں ہیں تلوار (شہید)، چھن چھن چھن (گھونگٹ)، کچھ بھی نہ کہا (عذرا)، یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم (افسانہ)، محبت کی قسم تم کو (پرائی آگ)، کس نام سے پکاروں (غرناطہ)، چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے (دوستی)، بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا (لاکھوں میں ایک)، زندگی جا چھوڑ پیچھا میرا، چلی رے چلی رہے (جھومر)، کلی کلی منڈلاٹے بھنورا (چنگاری) یہ میری منزل نہیں (سرحد)۔ان نغمات کے علاوہ تنویر نقوی نے بے شمار ایسے نغمات ضبط تحریر کئے جن کی تحسین کیلئے الفاظ نہیں ملتے۔ یہ بھی تنویر نقوی کا اعزاز ہے کہ ان کے ایک گیت ''جان بہاراں، رشک چمن‘‘ کو عظیم ترین رومانوی گیت قرار دیا گیا۔ اس لافانی گیت کی موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے مرتب کی تھی اور اسے سلیم رضا نے گایا تھا۔ اپنے محبوب کے حسن کی تعریف میں تنویر نقوی نے جوالفاظ استعمال کیے ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
مطلب ہم اپنے قارئین کو تنویر نقوی کے پنجابی نغمات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حزیں قادری، احمد راہی اور وارث لدھیانوی نے اعلیٰ درجے کے فلمی گیت تخلیق کئے لیکن تنویر نقوی کا اسلوب ہی الگ تھا۔ انہوں نے اس میدان میں بھی اپنی فن کا سکہ جمایا۔ ان کے پنجابی گیت بھی ہیں جو بے حد پسند کئے گئے۔ ان میں سے کچھ نغمات کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
جدوں ہولی جئی لینا میرا ناں (فلم:ات خدا دا ویر)، چل چلیے دنیا دی اوس نکرے (فلم:دنیا پیسے دی)، جان والیا، تینوں میں سنانہ سکی (فلم: جیٹ د اقول)،چنی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں (فلم:ماں پتر) ، ایہہ نگری، د اتا دی (فلم:نگری داتا دی)، مک گئے نیں ہنجو نئیں مکدی (فلم:آسو بلا)، تکھے تکھے ہو گئے تیرے ساہ اڑیئے، کانوں کیتا پیار تیرے نال دے، جھوٹے جگ دا جھوٹا پیار، میری چنی ڈگ ڈگ پیندی، گندلاں دا ساگ تے (فلم:ات خدا دا ویر)، ایس دنیا وچ، دولت والے، آوے گاتے پچھاں گی میں، سونہہ تیری روپ تیرا، ساڈے گھر آئی بھر جائی (فلم:ماں پتر) ان کے علاوہ کئی اور پنجابی فلمی گیت ایسے ہیں جن کو سن کر منہ سے واہ نکلتی ہے۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران تنویر نقوی نے اپنے فلم کو تلوار بنا لیا اور ایسے ایسے ملی اور قومی نغمے لکھ دیئے جو امر ہو گئے اور اب تک افواجِ پاکستان کے حوصلے بڑھانے کے لئے سلوگن بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ''رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو‘‘ بھی ہے۔
تنویر نقوی 1970ء میں بیماریوں کا شکار ہوئے اور 1972ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اور روزنامہ ''دنیا‘‘ سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں)