’’وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا‘‘ فیض احمد فیضؔ 20نومبر 1984ء کو محبت اور انقلاب کا یہ پیامبر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا
اسپیشل فیچر
گزشتہ دو عشروں سے گلستان اُردو ادب میں جس بات کا سب سے زیادہ چرچا ہے، وہ ہے فیضؔ شناسی، میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے بعد جس شاعر کے فلسفۂ حیات اور فکر کی روشنی کو سب سے زیادہ سمجھنے کی ضرورت محسوس کی گئی وہ یقیناً فیضؔ ہے۔ 13فروری 1911ء کو سیالکوٹ کے گائوں کالا قادر میں پیدا ہونے والے اس رومان پرور انقلابی شاعر نے اُردو شاعری کو نئی جہتوں اور نئی فکر سے آشنا کیا۔1961ء میں فیضؔ کو ''لینن امن ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ انہیں یہ ایوارڈ عالمی امن کے پیامبر کی حیثیت سے ملا اور یہ ایوارڈ چلّی کے شہرہ آفاق شاعرپا بلو نیرودا نے انہیں اپنے ہاتھ سے دیا۔ فیضؔ، عمر بھر تحریک آزادی ٔ فلسطین کے پرجوش حامی رہے اور انہوں نے اس موضوع کے حوالے سے کئی نظمیں بھی تحریر کیں۔ فیضؔ نے اپنے ایک شعری مجموعے کو یاسر عرفات کے نام کیا ۔
فیضؔ کی شاعری کا سب سے بڑا وصف غم جاناں اور غم دوراں کا حیرت انگیز امتزاج ہے۔ انہیں محبت اور انقلاب کا شاعر کہا جاتا ہے۔ جس انقلاب کے وہ داعی ہیں، وہ رومانوی انقلابیت ہے۔ وہ رومانس میں انقلاب اور انقلاب میں رومانس تلاش کرنے کی کامیاب سعی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو شعری اسلوب اور طرز احساس انہوں نے دیا۔ اس کے نقوش بہت گہرے ہیں، اسی لئے تو انہوں نے کہا:
ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
فیضؔ نے اپنے کلام پر کسی بھی پیش رو شاعر کی چھاپ نہیں لگنے دی۔ کچھ نقادوں کے خیال میں فیضؔ کومعاشرے کے طبقاتی تضادات سے صحیح معنوں میں اس وقت آگاہی ہوئی جب وہ ایک دور میں بے روزگار ہوئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے طبقاتی تفریق کا گہرا جائزہ لیا اور معاشی و سماجی ناہمواریوں کو اپنی فکر کا حصہ بنایا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں پسے ہوئے طبقات کے دکھوں کو شعریت کا لباس پہنائے رکھا، لیکن اسے نعرے میں تبدیل نہیں کیا۔ اگرچہ ڈاکٹر وزیر آغا نے فیضؔ کو نعرے باز کہا تھا، لیکن یہ ان کی اپنی رائے تھی، جس سے ہر کسی کا متفق ہونا لازم نہیں۔
فیضؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ کلاسیکل ڈکشن کے ساتھ اپنا شعری فلسفہ بیان کرتے ہیں اور یہ کام اس قدر سلیقے اور عمدگی سے انجام دیتے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی نظمیں انسان دوستی کی غماز ہیں۔ سکہ بند نقادوں کی رائے میں فیض کی نظمیں ان کی غزلوں سے زیادہ طاقتور ہیں کیونکہ وہ نہ صرف اسلوب کے حوالے سے مل کر فکری توانائی سے اس قدر معمور ہیں کہ قاری ان کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ عمر بھر استبدادی قوتوں اورجبرو ستم کے سامنے عزم و ہمت کی چٹان بن کر کھڑے رہے اور اپنے نظریے کی پاس داری کی خاطر انہوں نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اپنی اسیری کے دوران انہوں نے خود یہ معرکتہ الآرا قطعہ تخلیق کیا تھا:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
فیضؔ طبقاتی تفریق پر کڑھتے ہیں، لیکن کبھی مایوسی اور ناامیدی کے اندھیرے نہیں پھیلاتے۔ وہ قدم قدم پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ مظلوم عوام کا مقدر اندھیرے نہیں بلکہ روشنی ہے۔ ان کے اس نظریئے کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک سچا رومانیت پسند (Romanticist) ہی سچا انقلابی (Revolutimary)ہو سکتا ہے۔
وہ رجائیت کے علمبردار ہیں اور وہ بھی حیات افروز رجائیت۔ انہیں اس چیز کا بھی غم نہیں کہ اگر انہوں نے اپنی زندگی میں انقلاب کا موسم نہیں دیکھا تو کیا ہوا۔ اس انقلاب کے ثمرات ایک دن مخلوق خدا تک ضرور پہنچیں گے!
بجا کہ ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم
فیضؔ کی چھوٹی بحر کی غزلیات بھی ایک اور داستان جہان بیان کر رہی ہیں۔ اس دور میں ان کے بعد جن شعرا کی چھوٹی بحر میں غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں اور جنہیں بجا طور پر سہل ممتنع (Deceptive Simplicityکہا جا سکتا ہے، ان میں ساغر صدیقی، عبدالحمید عدم اور سیف الدین سیف کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ فیض ؔ کی چھوٹی بحر کی غزلیں خیال کی ندرت اور منفرد اسلوب کی وجہ سے اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہیں:
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
.........
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
.........
ہجر کی شب تو کٹ ہی جائے گی
روز وصلِ صنم کی بات کرو
فیضؔ کی بہترین نظموں میں ''تنہائی‘‘، ''ملاقات‘‘، ''کتے‘‘، ''زنداں کی ایک صبح‘‘، ''نثار میں تری گلیوں کے‘‘، ''شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘‘، '' پاس رہو‘‘، '' ویرا کے نام ‘‘، ''دل من مسافر من‘‘ ، ''لہو کا سراغ‘‘ اور کئی دوسری نظمیں شامل ہیں۔
فیضؔ کو کوئی طاقت عصری صداقتوں کی شمع جلانے سے نہ روک سکی۔ دراصل وہ اپنے عہد کے جس فکر کو لے کر چلتے ہیں، وہ توانائی سے بھرپور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو اس قدر پذیرائی ملی۔
فیضؔ ایک عہد ساز شاعر تھے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں احمد فرازؔ اور ساحرؔ لدھیانوی جیسے شعرا کے ہاں بھی فکر فیض کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ فیض اشتراکیت سے بہت متاثر تھے اور ان کی شاعری میں اس فلسفے کے اسرار ورموز کو باآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف فیضؔ خود غالبؔ سے متاثر تھے، ان کے کئی شعری مجموعوں کے عنوانات غالبؔ کی وہ تراکیب ہیں، جو اُردو کی شعری زبان کی آبرو ہیں۔ ان کے کلیات کا مجموعہ '' نسخہ ہائے وفا‘‘ غالبؔ کے اس شعر میں استعمال کی گئی ترکیب ہے:
تالیف نسخۂ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
جبر و ستم کے خلاف وہ جس طرح میدان میں آتے ہیں، اس کا اندازہ ان کی نظم ''مرثیہ امام‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جبر کی قوتوں سے سمجھوتہ کرنے والوں کے بارے میں وہ گرجدار آواز میں کہتے ہیں:
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے
فیضؔ نے ''وستِ صبا‘‘،''نقش فریادی‘‘، ''دست تہ سنگ‘‘، ''زنداں نامہ‘‘، '' سروادیٔ سینا‘‘، '' شام شہر یاراں‘‘، ''مرے دل مرے مسافر‘‘ اور ''غبار ایام‘‘ جیسے شعری مجموعے تخلیق کرنے کے علاوہ پنجابی شاعری بھی کی اور اس میدان میں بھی اپنی فکر کے وہ چراغ جلائے جن کی روشنی سے اب تک قارئین ادب فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ''رباسچیا‘‘ ان کی شاندار پنجابی نظم ہے۔ اس کے علاوہ پنجابی کسان کیلئے جو ترانہ انہوں نے تخلیق کیا، وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ سادہ اور سلیس پنجابی زبان میں انہوں نے کسان کی عظمت و رفعت بیان کی ہے اور اسے یہ بتایا ہے کہ اس کا وجود باقی لوگوں کیلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔
فیضؔ نے کچھ فلموں کے گیت بھی لکھے، جن میں ''جاگو ہوا سویرا‘‘، ''قسم اس وقت کی‘‘ اور ''سکھ کا سپنا‘‘ شامل ہیں۔ ''جاگو ہوا سویرا‘‘ کے ایک گیت کے بول ملاحظہ فرمائیں:
اب کیا دیکھیں راہ تمہاری
بیت چلی ہے رات
چھوڑو، چھوڑو غم کی بات
تھم گئے آنسو
تھک گئی اکھّیاں
گزر گئی برسات
بیت چلی ہے رات
فیضؔ عالم انسانیت کے شاعر تھے۔ اپنی ذاتی زندگی میں بھی وہ انسانیت نواز روایات قائم کرتے رہے۔
20نومبر 1984ء کو محبت اور انقلاب کا یہ پیامبر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔73برس کی عمر تک یہ مرد طرحدار، جس طرح اپنے اصولوں اور نظریات پر عمل پیرا رہا، وہ ہر نظریاتی شخص کے لئے ایک مثال ہے۔ موت کے سفر پر جانے سے پہلے بھی وہ اپنے دشمنوں کو خبر دے رہے ہیں اور چارہ گر کو خوشخبری سنا رہے ہیں کہ انہوں نے بالآخر جان کا قرض چکا دیا۔
(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ ''دنیا‘‘ سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں)