تخت بھائی کے کھنڈرات
اسپیشل فیچر
تخت بھائی کے لغوی معنی پہاڑی پر کسی قدرتی چشمے کے ہیں۔ بدھ دور کی ایک تاریخی عبادت گاہ کے دامن میں ایک قدرتی چشمہ اب بھی موجود ہے جو سارے علاقے کو پانی فراہم کرتا ہے۔ یہ آثار سطح زمین سے 150میٹر کی بلندی پر واقع ہیں۔ بدھ مذہب کی چھوٹی بڑی عبادت گاہیں، خانقاہوں اور تہہ خانوں پر مشتمل ہیں۔ یہ آثار پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک محیط ہیں۔
کنشک نے پشاور میں ایک بہت بڑا اور خوبصورت محل بھی تعمیر کروایا جو صدیوں تک قائم رہا جس کے اب کوئی آثار باقی نہیں۔ کنشک نے بدھ مت کا پیرو کار ہونے کی وجہ سے بے شمار بدھ خانقاہیں اور عبادت گاہیں بھی بنوائیں۔ تخت بھائی کے بدھ کھنڈرات بھی ان عبادت گاہوں میں ایک ایسا تجربہ ہے جو صدیوں سے قائم ہیں اور اس وقت کی یاد تازہ کرتا ہے۔ وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا لیکن تاریخ دانوں کا خیال یہی ہے کہ تخت بھائی کی عظیم الشان عبادت گاہ کنشک نے بنوائی۔ جہاں مذہب کے پرچار کیلئے محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ یونیورسٹی قائم تھی طول و عرض سے طلبہ یہاں بدھ مت کی تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ تین میل کے رقبے میں پھیلی ہوئی یہ عظیم الشان عبادت گاہ ماضی کی تمام تر کہانیوں اور روایتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ابھی بھی مردان کے قریب خیبر پختونخواہ کے سنگلاخ پہاڑوں میں انسانی ہاتھوں نے اتنی خوبصورت، مضبوط اور منفرد عمارتیں بنائیں۔ ذرائع آمدو رفت اتنے کٹھن تھے، مشینوں کا نام و نشان تک نہیں تھا، آنے جانے میں مشکلات حائل تھیں۔ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور کا انسان موجودہ دور کے انسان سے زیادہ محنتی، جفا کش اور صاحب دماغ تھا۔
تخت بھائی، صدیوں تک مٹی کے تودوں کے نیچے دبا رہا یہاں کا علاقہ چاروں طرف پھیلی پہاڑیوں پر محیط ہے۔ سوات کی طرف جانے والی سڑک کے دور دور تک پہاڑی پتھریلی راہوں اور غیر ہموار پگڈنڈیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو صدیوں سے قائم ہے چونکہ ایک اونچی پہاڑی کو تلاش کر کے یہ عبادت گاہ بنائی گئی اس لئے اب بھی اس کے ہر طرف پہاڑوں کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ بیچ میں گہری کھائیاں بھی ہیں جو قدیم دور میں اور بھی گہری ہوں گی۔ شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہاں بدھ مت کی اتنی شاندار یادگار موجود ہے۔ صدیاں گزر گئیں حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ ان ہی راہوں سے لوگ گزرتے رہے لیکن سنگلاخ پہاڑیوں میں واقع یہ وسیع عبادت گاہ عہد رفتہ کی تمام یادیں سمیٹے مٹی کے نیچے دفن رہی۔
تاریخ کے طالب علم جانتے تھے کہ اس زمین میں پرانی تہذیبوں نے جنم لیا اور شاندار حکومتیں قائم رہیں۔ لیکن یہ شاید کسی کے بس کا روگ نہیں تھا کہ ان پہاڑوں کو کاٹ کر نیچے کچھ تلاش کیا جائے ۔یہ تو بڑا اچھا ہوا کہ چند مزدوروں نے مٹی کھود کر اس جگہ گھر بنائے تو انہیں کچھ پرانے سکے پرانی اینٹیں نظر آئیں۔ چھوٹے نالوں میں محکمہ آبپاشی والوں کو بدھا کی مورتیاں، کچھ ٹوٹے ہوئے اعضاء اور پرانے دور کی چند اشیاء دستیاب ہوئیں چنانچہ حکومت نے ریسرچ پارٹیاں بنائیں کچھ جگہوں کو کھودا گیا اور چند ہفتوں کے بعد پتہ چلا کہ یہاں دور گم گشتہ کا ایک عظیم عہد مدفن ہے۔
اس مہم کا سہرا برطانوی دور کے ایک قابل ماہر آثار قدیمہ سرجان مارشل کے سر ہے جس نے اس سلسلے میں ٹیکسلا اور موہنجوداڑو میں بہت سی معلومات فراہم کیں اور اپنی پارٹی کے افراد کے ساتھ کام کیا۔دنیا کے سامنے پہلے پہل یہاں پہنچنے کیلئے پہاڑی راستوں اور پتھروں سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ اب حکومت نے عبادت گاہ کے ایک طرف ایک باقاعدہ راستہ بنا دیا ہے جس کے ساتھ لوہے کا مضبوط جنگلا موجود ہے۔ نیچے سے کھڑے ہو کر عبادت گاہ کے کھنڈرات کسی افسانوی داستان کے کردار معلوم ہوتے ہیں۔ چڑھائی پر آہستہ آہستہ جانا پڑتا ہے۔ کھنڈرات کے قریب سیڑھیاں بنا دی گئی ہیں جو ایک سو کے لگ بھگ ہیں۔ اوپر پہنچ کر سارے علاقے کا نظارہ بڑا محسور کن لگتا ہے۔ آکاش کی وسعتوں کو چھوتے ہوئے یہ تاریخی کھنڈرات الف لیلیٰ کی داستان معلوم ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا صدیاں پلک جھپکتے گزر گئی ہوں۔ اس میلوں میں پھیلی ہوئی عبادت گاہ جو یونیورسٹی بھی تھی اب ایک اجڑا ہوا مقام، کھنڈروں اور بوسیدہ عمارتوں کا مسکن ہے۔ جہاں مذہبی کانفرنسز ہوتی تھیں، زائرین اور شمالی ہندوستان کے مختلف علاقوں سے طلباء تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔
راجہ کنشک اور کشن خاندان کی بے شمار یادگاریں ان پتھر کے ٹیلوں اور تودوں میں موجود ہیں۔ چینی سیاح 400قبل از مسیح میں بدھ مت کی مقدس زیارتوں کیلئے برصغیر آیا تو اس نے اپنی تحریروں میں شمال مغربی سرحدی صوبہ اور ٹیکسلا کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے اس سرزمین میں بدھ مت کی نایاب چیزیں ہیں مقدس عبادت گاہیں ہیں۔ تخت بھائی کی یونیورسٹی جہاں طلباء کی ایک کثیر تعداد بدھ مت کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے آیا کرتی تھی کا بھی ذکر کرتا ہے۔ پھر دو صدیوں کے بعد ایک اور سیاح ہیون سانگ برصغیر آیا اس وقت شمالی ہندوستان میں راجہ ہرش کی حکومت تھی۔ ہیون سانگ نے پندرہ برس یہاں گزارے جس میں چھ برس راجہ کے دربار میں رہا وہ بدھ مت کا پیرو کار تھا اور تخت بھائی کی عبادت گاہ میں بھی آیا۔
خیبر پختونخواہ، جہاں سے حملہ آور برصغیر پر حملہ آورہوتے، بدھ مت کے فروغ کا ایک ایسا خطہ رہا ہے جس کے آثار صدیاں گزر جانے کے بعد بھی قائم ہیں۔ تخت بھائی کے ساتھ ہی چار سدہ اور شہباز گڑھ میں بھی بدھ دور کے اسٹوپا اور یادگاریں موجود ہیں۔