فلمی صنعت کا پہلا سپر سٹار وحید مراد چاکلیٹی ہیرو کی آج 38ویں برسی ہے
60ء اور 70ء کی دہائی میں پاکستان کے جس اداکار نے اپنی فنی عظمت کا سکہ جمایا اور فلمی صنعت کے پہلے سپر سٹار کا خطاب حاصل کیا وہ یقیناً وحید مراد تھے۔ یہ وہ اداکار تھے جنہیں''چاکلیٹی ہیرو‘‘ بھی کہا جاتا تھا اور''شنہشاہ رومانس‘‘ بھی۔ اُن کے بالوں کا سٹائل بھی بہت مقبول ہوا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ برصغیر پاک وہند میںدلیپ کمار کے بعد جس اداکار کے بالوں کا سٹائل سب سے زیادہ مقبول ہوا وہ وحید مراد تھے۔
2اکتوبر1938ء کوسیالکوٹ میں پیدا ہونے والے وحید مراد اداکار، فلمساز اور سکرپٹ رائٹر تھے۔ انہوں نے کراچی کے ایس ایم آرٹس کالج سے گریجویشن کی۔ اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔1959ء میں انہوں نے فلم ''ساتھی‘‘ میں مہمان اداکار کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کے والد نثار مراد فلم ڈسٹری بیوٹر تھے۔وہ 1961ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''انسان بدلتا ہے‘‘کے پروڈیوسر تھے۔ اس کے بعد انہوں نے ''جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بنائی۔ 1962ء میں وحید مراد نے اپنی پہلی فلم ''اُولاد‘‘ میں کام کیا۔ اس میں نیئر سلطانہ اور حبیب نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد وحید مراد نے فلم ''دامن‘‘ میں صبیحہ اور سنتوش کے ساتھ کام کیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نیلو تھیں۔''ہیرا اور پتھر‘‘ میں انہوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس کے ہدایت کار پرویز ملک تھے۔ فلم سپرہٹ ہوئی تو وحید مراد اور زیبا کی جوڑی بھی سپرہٹ ہو گئی، پھر وحید مراد نے ''ارمان‘‘ بنائی۔ اس فلم نے ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی۔ یہ پاکستان کی پہلی پلاٹینئم جوبلی فلم ثابت ہوئی۔ اس کے گیتوں نے بھی ہر طرف دُھوم مچا دی۔ خاص طور پر کلب سانگ''میرے خیالوں میں چھائی ہے، اک صورت متوالی سی، کوکو کور نیا‘‘بہت مشہور ہوا۔ اس سے پہلے جس کلب سانگ نے ملک گیر شہرت حاصل کی تھی وہ فلم ''کوئل‘‘ میں نیلو پر عکس بند کیا گیا گیت ''دِل جلا نہ دِل والے‘‘ تھا۔
پھر انہوں نے ''احسان‘‘ بنائی لیکن یہ فلم خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ لیکن وحید مراد کی شہرت کا آفتاب چمک رہا تھا۔ انہوں نے بعد میں ''کنیز، دیور بھابھی، انجمن ، سالگرہ، خلش، ملاقات، پھول میرے گلشن کا، تم سلامت رہو، دل میرا دھڑکن تیری، بہارو پھول برسائو، ناگ منی، دولت اور دنیا، شمع، شبانہ، نذرانہ اور ثریا بھوپالی‘‘ جیسی کامیاب فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی ہیروئنوں میں زیبا، دیبا، شمیم آراء، رانی، شبنم، عالیہ اور روزینہ‘‘ شامل تھیں۔ ''انجمن‘‘ اور'' دیور بھابھی‘‘ میں انہوں نے صبیحہ خانم کے دیور کا کردار ادا کیا جسے بہت پسند کیا گیا۔
1970ء میں وحید مراد نے اپنی ذاتی پنجابی فلم ''مستانہ ماہی‘‘ بنائی جو بہت کامیاب ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے ڈبل رول ادا کیا تھا۔ وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ یہ وہ پنجابی فلم تھی جس میں گھوڑا نہیں تھا۔ بعد میں انہوں نے کچھ اور پنجابی فلموں میں اداکاری کی جس میں ''عشق میرا ناں‘ جوگی، پرواہ نہیں‘‘ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
پھر ایسا ہوا کہ ان کی شہرت کے سورج کو گرہن لگ گیا۔ ایکشن فلموں کا دور شروع ہو گیا اور پنجابی فلمیں کثرت سے بننے لگیں۔ یہ وہ دور تھا جب پنجابی فلموں میں سلطان راہی اور مصطفی قریشی راج کر رہے تھے، جبکہ دوسری طرف علی اعجاز اور ننھا کا طوطی بول رہا تھا۔وحید مراد زوال کے اندھیروں میں گم ہونے لگے۔ ایک وقت ایسا آیا جب انہوں نے ناصر ادیب سے کہا کہ جناب اپنی کسی فلم میں ایک کردار میرے لئے بھی لکھ دیں۔ اداکار بدر منیر ان کے ڈرائیور رہ چکے تھے۔ انہوں نے بھی وحید مراد سے ایک بار کہا کہ وہ ان کو فلموں میں کام دلوائیں گے۔ یہ سن کر وحید مراد کو بہت قلق ہوا۔ وہ مایوسی اورتنہائی کا شکار ہوتے گئے۔ کہاں وہ وحید مراد جو لبرٹی مارکیٹ لاہور میں آئس کریم کھانے آتا تھا تو اس کی گاڑی کے گرد لڑکیوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا تھا اور کہاں اب یہ عالم کہ وہ تنہا ہو گیا۔ دراصل وحید مراد کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہ ہو سکا کہ عروج کے بعد زوال بھی ہے اور یہ ایک فطری حقیقت ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔
وحید مراد کو گانا عکس بند کرانے میں جو مہارت حاصل تھی وہ پاکستان کے اور کسی اداکار کو نہیں تھی۔ البتہ بھارت کے راجیش کھنہ اس فن کے بادشاہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی اداکار جتیندر گانا عکس بند کراتے ہوئے وحید مراد کو کاپی کرتے تھے۔ وحید مراد کے بیٹے عادل مراد نے بھی ایک فلم میں کام کیا لیکن ناکام رہے۔ ضروری نہیں کہ ایک بڑے اداکار کا بیٹا بھی اپنے باپ جیسا ہو۔
شروع شروع میں وحید مراد نے جو ٹیم بنائی تھی اس میں وہ خود ، سہیل رعنا اور مسرور انور شامل تھے۔ ان تینوں نے یادگار فلمیں بنائیں۔ انہوں نے زیادہ تر محمد علی، ندیم، شاہد، غلام محی الدین اور اسلم پرویز کے ساتھ کام کیا۔ یقیناً وہ اپنا زوال برداشت نہ کر سکے۔23نومبر1983ء کو یہ چاکلیٹی ہیرو صرف 46برس کی عمر میں دِل کا دورہ پڑنے سے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ 32نگار ایوارڈ حاصل کرنے والے اور ستارہِ امتیاز پانے والے اس بے بدل فنکار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ ''دنیا‘‘ سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں)