نیلی وہیل : دنیا کا سب سے بڑا جانور

نیلی وہیل : دنیا کا سب سے بڑا جانور

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


اگر اچانک کسی سے سوال کیا جائے کہ دنیا کا سب سے بڑا جانور کونسا ہے؟ تو لوگوں کی اکثریت کا جواب ہاتھی یا ڈائنوسار ہوگا۔ زمین پر پائے جانے والے جانوروں میں تو شاید یہ جواب درست ہو لیکن اس کرہ ارض پر زمین کے ساتھ ساتھ دریا اور سمندر بھی ان گنت آبی مخلوقات سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک ایک سمندری مخلوق کی سیکڑوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ گویا سمندر جو کرہ ارض کے 70 فیصد حصے پر قابض ہیں ہماری زمین سے کئی گنا زیادہ مخلوق کو سموئے ہوئے ہیں۔ سمندری علوم کے ماہرین کے مطابق ابھی تک سمندر میں چھپی صرف 5 فیصد مخلوق کے بارے ہی معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکی ہے۔ تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق سمندری مخلوق ''نیلی وہیل‘‘ دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے قدیم جانور ہے۔
نیلی وہیل بنیادی طور پر دوسرے سمندری میمل کی طرح مچھلی نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک پستان دار جانور ہے۔ اگرچہ اس کی بیرونی مماثلت مچھلی جیسی ہے لیکن یہ مماثلت محض اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مماثلت عارضی ارتقا کا نتیجہ ہے جو اس طرح کے ماحول اور حالات میں رہنے والے حیات میں اگرچہ پہلے مختلف ہوتی ہے لیکن رفتہ رفتہ ان میں مماثلت اور مشابہت انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے۔
دوسرے جدید جانوروں میں وہیل کی مشابہت مچھلی سے نہیں بلکہ ''ہیپوز‘‘ سے ہے۔ سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ پانچ کروڑ سال پہلے ''ہیپوز‘‘ کے آبائو اجداد کرہ ارض پر رہتے تھے۔ تب ان میں سے کچھ ''ہیپوز‘‘ نے سمندر کا رخ کیا اور یوں سمندری میمل نسل وجود میں آئی۔ ''ہیپوز‘‘ جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا جانور ہے بنیادی طور پر زمین کا جانور ہے۔
دیو ہیکل نیلی وہیل جس کا وزن 5300 من اور اس کی لمبائی 33میٹر تک ہو سکتی ہے۔ یہ جانور اب تک کی تحقیقات کے مطابق سب سے زیادہ وزن رکھنے والا جانور سمجھا جاتا ہے۔ سرمئی مائل نیلی رنگت کے ساتھ یہ جانور سمندر کی بھی سب سے بڑی مخلوق ہے۔ جس کی خوراک شرمپ کی شکل سے مشابہت رکھنے والے چھوٹے چھوٹے ''کرل‘‘(Krill) ہوتے ہیں۔ کرل دراصل سمندروں کی نسبتاً ایک چھوٹی سی مخلوق ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہونے کے باوجود بھی کسی بڑے جانور کے شکار سے کتراتی ہے اسی لئے ''کرل‘‘ اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ہی اس کی مرغوب غذا ہیں۔ نیلی وہیل اپنا شکار غوطہ لگا کر حاصل کرتی ہے۔ یہ خوراک کی تلاش میں 500میٹر گہرائی تک بھی غوطہ لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
نیلی وہیل مچھلی کا جسم دیگر مچھلیوں کے مقابلے میں لمبا اور سڈول ہوتا ہے۔ اس کا سر دوسری مچھلی کی اقسام سے قدرے مختلف یعنی چپٹا سا ہوتا ہے۔ اس جانور کے منہ کا سامنے والا حصہ موٹا سا ہوتا ہے جس میں 300سے لیکر 400 تک بالینی پلیٹیں ہوتی ہیں۔ بالین دراصل بالوں کی شکل کی ایک ریشے دار جھالر ہوتی ہے جو وہیل کے جبڑے کے اوپر والے حصے کے ساتھ لٹکی ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر جبڑے کے اندر اس جھالر کا مقصد بالینی پلیٹوں کے ساتھ مل کر فلٹر کا کام کرنا ہوتا ہے۔ جب وہیل منہ کھول کر اس میں پانی بھرتی ہے تو اس میں لاتعداد کرل بھی ہوتی ہیں۔ یہ پلیٹیں فلٹر کا کام کرتے ہوئے پانی کو خارج کردیتی ہیں اور منہ کے اندر صرف کرل ہی رہ جاتی ہیں جو اس وہیل کی اصل خوراک ہے۔ نیلی وہیل کا جبڑا اور حلق قدرت نے ایک مخصوص ڈیزائن میں تخلیق کیا ہوا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے حلق میں کئی تہیں بنی ہوتی ہیں جن میں بیک وقت کافی مقدار میں پانی اور کرل جمع کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ایک بالغ وہیل ایک دن میں لگ بھگ 3500سے لیکر 3800 کلو گرام کرل کھا جاتی ہے۔ جس کا ایک نوالہ کرل سمیت مختلف مچھلیوں کی صورت میں 500کلو گرام تک ہوتا ہے۔ ایک وہیل 4کروڑ کرل کھا سکتی ہے۔ اس کے بارے ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ نیلی وہیل کو جب افزائش نسل کے لئے مناسب علاقوں میں جانا ہوتا ہے تو یہ وہاں پر چھ ماہ تک بغیر کچھ کھائے بھی زندہ رہ سکتی ہے۔
یہ اپنے دیو ہیکل حجم کی مانند بہت بڑے پھیپھڑوں کی مالک ہوتی ہے جس کے باعث یہ 40منٹ تک گہرائی میں بغیر ہوا کے رہ سکتی ہے۔
ایک وہیل کا دل ایک زندہ گائے کے سائز کے برابر ہوتا ہے۔ وہیل میں سننے کی حس حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ اس روئے زمین پر سب سے زیادہ شور مچانے والا جانور ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک وہیل مچھلی دوسری وہیل مچھلی کی آواز 1600کلومیٹر دور سے بھی سن سکتی ہے۔
زندہ وہیل کا وزن ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ اس کو ٹکڑوں کی صورت میں تولا جا سکتا ہے۔ وہیل مچھلی کی زبان ایک ہاتھی کے وزن کے برابر یعنی اوسطاً 80من تک ہوتی ہے۔ نیلی وہیل کے بچے کا قد پیدائش کے وقت 20 سے 25 فٹ کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ روئے زمین پر پیدا ہونے والا سب سے بڑا نومولود ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق وہیل کا نومولود اپنی پیدائش کے چھ ماہ تک روزانہ 400 لٹر تک دودھ پی جاتا ہے۔ اس کا وزن 90کلو روزانہ کے حساب سے بڑھتا رہتا ہے۔
عام حالات میں ایک وہیل 20کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے، کسی غیر معمولی صورت حال میں اس کی رفتار 50 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی دیکھی گئی ہے۔ اس کی عمر اوسطاً 80سال سے 90سال تک ہوتی ہے۔
خاورنیازی لاہور میں مقیم ایک سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
عباس ابن فرناس دنیا کا پہلا ہواباز

عباس ابن فرناس دنیا کا پہلا ہواباز

852ھ، خلیفہ عبدالرحمان دوئم کا دور تھا۔ جب خلیفہ عبدالرحمان نے اپنی سلطنت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے باصلاحیت اور ہنر مند افراد کو اپنی سلطنت میں بہترین جوہر دکھانے کی دعوت دی۔ ان گراں قدر افراد میں عباس ابن فرناس بھی شامل تھے۔ اسی مجمعے میں ایک شخص ارمن فرمن کا بڑا ذکر تھا جس نے دعویٰ کر رکھا تھا کہ اس نے پرندوں کی مانند اڑنے کی صلاحیت حاصل کررکھی ہے۔ارمن نے اپنے دعوے کی تصدیق کیلئے ایک بھرے مجمعے کے سامنے اڑنے کا دعویٰ کیا اور یوں ایک دن کپڑے سے بنے چیل کے پروں سے مشابہ پروں کے ساتھ اس نے ایک بلند عمارت سے اڑنے کی کوشش کی۔ وہ بہت پراعتماد تھا لیکن پہلی ہی کوشش کے دوران وہ زمین پر آن گرا۔ابتدائی طور پر اسے زخم آئے لیکن کچھ عرصہ بعد یہ کم از کم چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا۔ حاضرین محفل میں ایک شخص عباس ابن فرناس بھی تھے جو بڑے انہماک سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ان کے اندر پرندوں کی مانند اڑان بھرنے کی ایک نئی خواہش نے جنم لیا تو انہوں نے اٹھتے بیٹھتے پرندوں کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا۔کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا جب یہ پرندوں کی حرکات و سکنات پر نظریں جمائے نہ ہوتے۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ عباس ابن فرناس کی یہ تحقیق 23 برس تک جاری رہی۔ اس دوران انہوں نے پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ''ایرو ڈائنا میکس‘‘ کا بغور مطالعہ کیا۔ عباس ابن فرناس کون تھے ؟عباس ابن فرناس، اندلس (مسلم سپین) کے شہر اذن رند اوندا میں 810 ء میں پیدا ہوئے۔ بنیادی طور یہ بربر نژاد تھے اور ان کا تعلق جنوبی سپین کے ضلع رونڈا سے تھاجبکہ بعدازاں یہ قرطبہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے عمر کا زیادہ حصہ بسر کیا۔ یوں تو ابن فرناس کی شناخت ایک موجد ، مہندس، طبیب، ماہر فلکیات، ماہر طبیعیات، کیمیا دان، ریاضی دان اور ایک شاعر کے طور پر ہوتی ہے لیکن یہ علم ریاضی ، طبیعیات ، پراسرار علوم اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں یکتا تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں ان سے ایک واقعہ منقول ہے۔ ایک دفعہ ایک تاجر بلاد مشرق سے واپسی پر مشہور مسلمان عالم خلیل ابن احمد کی ایک کتاب ہمراہ لایا۔ یاد رہے کہ خلیل ابن احمد ، بغداد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ایک عالم ، شاعر اور ماہر لسانیات ہو گزرے ہیں جن کے کارہائے نمایاں میں عربی زبان کی پہلی لغت تیار کرنا بھی شامل تھا۔یہ کتاب سپین میں بالکل نئی تھی اور لوگوں کی سمجھ سے بالاتر تھی۔چنانچہ لوگوں نے اسے ابن فرناس کے سپرد کیا۔ ابن فرناس اسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئے اور چند ساعتوں میں اس کی ریاضیاتی ترکیب اور مطالب انتہائی مہارت سے حاضرین کو بیان کئے، جسے سن کر لوگ ان کی ذہانت اور قابلیت پر ششدر رہ گئے۔انہوں نے پانی کی گھڑی ایجاد کی ،کرسٹل بنانے کا فارمولا انہی کی ایجاد ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی تجربہ گاہ میں شیشے اور مشینوں کی مدد سے ایک ایسا پلانیٹیریم بنا ڈالا جس میں لوگ بیٹھ کر ستاروں اور بادلوں کی حرکات اوران کی گرج چمک کا مظاہرہ بھی دیکھ سکتے تھے۔علم ہئیت اور فلکیات کے حوالے سے اندلسی مسلمان سائنس دانوں میں علی بن خلاق اندلسی اور مظفر الدین طوسی کی خدمات لائق تحسین ہیں لیکن مورخین کے مطابق ان کامیابیوں میں عباس ابن فرناس کا حصہ کلیدی حیثیت یوں رکھتا ہے کہ فرناس نے اپنے گھر میں ایک کمرہ علم ہئیت اور فلکیات کی تجربہ گاہ کے طور پر وقف کر رکھا تھا جو دور جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium ) کی بنیاد بنا۔انہوں نے اپنی ساری زندگی سائنس کی ترویج اور ترقی کیلئے وقف کئے رکھی۔اسی لئے انہیں اپنے دور کا عظیم ترین عالم اور سائنسدان کہا جاتا تھا ۔ ا ن کی ایجادات اور اختراعات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ابن فرناس ایک ذہین اور ذرخیز ذہن کے مالک انجینئر تھے۔ اگرچہ قدیم یونانیوں اور مصریوں نے بھی بہت پہلے اڑنے والی مشین بنانے کی بارہا کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔اس لحاظ سے ابن فرناس دنیا کے وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اڑایا۔بعض ازاں البیرونی اور ازر قوئیل وغیرہ نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ابن فرناس کی اڑان بھرنے کی کوشش کن کن مراحل سے گزر کر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ابن فرناس نے اپنی ہر اڑان کے بعد کچھ نیا سیکھا اور ہر بار وہ اس میں تبدیلیاں کر کے اپنی غلطیاں دور کرتے رہے۔ تاریخی کتابوں میں پندھرویں صدی کے ، لیو نارڈو ڈاونچی کے طیارے کو عام طور پر دنیا کا پہلا طیارہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ابن فرناس نویں صدی عیسوی میں اپنے طیاروں کے ساتھ کامیاب پرواز کر چکے تھے۔ البتہ لیو نارڈو دا ونچی کے طیاروں کو دور جدید کے طیاروں کی ابتدائی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔ہوا بازی کی شروعات عباس ابن فرناس نے اپنی زندگی کی پہلی باقاعدہ اڑان کا آغاز 852 عیسوی میں ایک بھرے مجمعے کے سامنے کیا تھا۔اپنی پہلی پرواز میں انہوں نے خود کو ایک لمبے کوٹ میں لپیٹ کر لکڑی سے بنائے گئے ایک تابوت نما ڈھانچے میں بند کر لیا۔ باہر کی جانب دونوں بازوں کو پھیلا کر اس نے ان سے پروں کا کام لیا کیونکہ اس کے مشاہدے کے مطابق پرندے بھی ایسے ہی اڑان بھرا کرتے ہیں۔یہ بہت پر اعتماد اور پر امید تھے۔ انہوں نے قرطبہ کی سب سے بڑی مسجد کے مینار پر چڑھ کر ہوا میں اڑنے کیلئے چھلانگ لگائی۔ اپنے پہلے تجربے میں وہ ناکام رہے لیکن خوش قسمتی سے چونکہ وہ نچلی سطح پر پرواز کر رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں معمولی چوٹیں آئیں ۔کچھ عرصہ بعد اپنے پہلے تجربے کی روشنی میں انہوں نے ایک نئے طیارے کی تیاری شروع کر دی۔ اس بار انہوں نے ریشم اور عقاب کے پروں کو استعمال کیا۔پرواز کیلئے اس مرتبہ ان کا انتخاب جبل العروس پہاڑ تھا جہاں ایک جم غفیر ان کی اڑان کا منظر دیکھنے کا منتظر تھا۔اس مرتبہ ابن فرناس نے اڑان بھرنے سے پہلے پروں کو اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ چند ہی لمحوں بعد وہ نیچے کی جانب کودگئے۔ انہوں نے دس منٹ تک فضا میں رہ کر اڑنے کا مظاہرہ کیا اور باآسانی ایک کھلے میدان میں اپنے طیارے کو اتار لیا۔ لیکن اس مرتبہ نیچے اترنے کی کوشش میں وہ کمر کے بل نیچے گر گئے ، جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ کچھ عرصہ تک صاحب فراش رہے۔ اس وقت ان کی عمر ایک اندازے کے مطابق68 سال تھی اور یوں ابن فرناس اس تجربے کے بعد باقاعدہ طور پر دنیا کے پہلے ہوا باز بن گئے۔ اس مرتبہ غور و خوض کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ پرندے نیچے اترتے وقت اپنی دم کی جڑ کا سہارا لے کر اترتے ہیں اس لئے انہیں اپنے طیارے میں دم کا اضافہ کرکے اسے محفوظ بنانا ہو گا۔ ن کی اگلی کاوش اپنے گھر تیار کردہ طیارے میں دم کا اضافہ تھا جسے سالوں بعد داونچی نے من وعن نقل کر کے طیاروں میں باقاعدہ دم کو شامل کرکے مستقبل کی لینڈ نگ کو محفوظ کر لیا۔

کیلے کے حیرت انگیز فوائد

کیلے کے حیرت انگیز فوائد

صحت کیلئے کیلے کے فوائد میں موٹاپے میں کمی، پیٹ کے خلل میں بہتری اور قبض سے آرام شامل ہیں۔ کیلے کے استعمال سے خون کی کمی، ٹی بی، ارتھرائٹس، گردے اور پیشاب کے مسائل میں فائدہ ہوتا ہے۔ حیض کے مسائل میں بھی یہ مفید ہے۔ اس سے فشار خون کم ہوتا ہے اور دل صحتمند رہتا ہے۔ یہ نظام انہضام اور السر کیلئے مفید ہے۔ اس سے آنکھوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ جسم میں فاسد مادوں کو کم کرتا ہے۔کیلے کے 126گرام میں 110 حرارے اور 30 گرام کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں۔ اس میں پروٹین، پوٹاشیم اور غذائی ریشے (فائبر) کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس میں چکنائی اور کولیسٹرل نہیں ہوتا، نیز سوڈیم کی مقدار معمولی ہوتی ہے۔ اس لیے پھلوں میں یہ ایک شاندار انتخاب ہے۔ کیلے میں موجود وٹامنز میں وٹامن سی، بی 6، ریبوفلاون، فولیٹ، پینٹوتھینک ایسڈ اور نیاسین و دیگر شامل ہیں۔ کیلے میں فاسفورس، کیلشیم، میگنیز، میگنیشیم اور تانبا ہوتا ہے۔ اس کے فوائد کی تفصیل درج ذیل ہے۔فشارِ خون میں کمی:پوٹاشیم کی اچھی خاصی مقدار ہونے کے باعث اس کے استعمال سے فشار خون (بلڈپریشر) کم ہوتا ہے۔ اس سے شریانوں پر دباؤ کم ہوتا ہے اور پورے جسم میں خون کا بہاؤ ہموار رہتا ہے جس سے جسم کے اعضا کو آکسیجن پوری طرح میسر آتی ہے اور ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ یوں دل کے دورے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ کیلے میں موجود غذائی ریشہ کولیسٹرل کی مقدار کو کم کرتا ہے جس سے شریانوں اور دل کی صحت اچھی رہتی ہے۔دمہ:کیلے کے استعمال سے دمہ دور رہتا ہے۔ جو بچے روزانہ ایک کیلا کھاتے ہیں ان میں دمے کا خطرہ 34 فیصد کم ہو جاتا ہے۔قبض:غذائی ریشے کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے کھانے سے قبض نہیں ہوتی اور آنتوں کے مسائل بھی کم ہوتے ہیں۔ اس سے کولوریکٹر کینسر کا خدشہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ذیابیطس: ایک کیلے میں تقریباً تین گرام غذائی ریشہ ہوتا ہے اس لیے ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو دونوں قسم کی ذیابیطس کیلئے یہ مفید ہے۔حافظے اور موڈ میں بہتری: کیلے میں پایا جانے والا امینو ایسڈ ٹرائی ٹوفان موڈ کو بہتر کرنے اور حافظہ تیز کرنے میں بہت مفید ہے۔ نیز میگنیشیم سے پٹھے کا کھچاؤ کم ہوتا ہے اور وٹامن بی 6 اچھی نیند کیلئے مفید ہے۔انیمیا: کیلے میں فولاد کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ انیمیا یا خون کی کمی میں بہت مفید ہے۔ فولاد خون کے سرخ خلیوں کا اہم حصہ ہے۔ اس میں موجود تانبا بھی سرخ خلیوں کے لیے مفید ہے۔ سرخ خلیوں میں اضافے سے جسم کے حصوں کو آکسیجن ملنے کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے جسمانی اعضا کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔وزن میں کمی: وزن کم کرنے کیلئے کیلا مفید ہے کیونکہ ایک کیلے میں صرف 90 کے قریب حرارے ہوتے ہیں۔ غذائی ریشے کی زیادتی اور چکنائی نہ ہونے کی وجہ سے موٹاپے کے شکار افراد کیلئے یہ مفید ہے۔وزن میں اضافہ:اگر کیلے کو دودھ کے ساتھ کھایا جائے تو اس سے وزن بڑھتا ہے۔ دودھ کی پروٹین اور کیلاکی شکر مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ چونکہ کیلے آسانی سے ہضم ہو جاتے ہیں اس لیے روزمرہ کے کھانے کے ساتھ پانچ چھ کیلے بآسانی کھائے جا سکتے ہیں اور یوں پانچ سے چھ سو حراروں کا اضافہ وزن بڑھا دیتا ہے۔ہڈیوں کی مضبوطی: کیلے کے استعمال سے جسم میں کیلشیم جذب کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کیلئے انتہائی اہم عنصر ہے۔نظر کی بہتری :کیلے میں اینٹی آکسیڈنٹ اور کیروٹینائیڈ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی معدنیات ہوتی ہیں جو آنکھوں کی صحت کیلئے مفید ہیں۔ یہ آنکھوں کے پٹھوں کی کمزوری، رات کا اندھا پن اور موتیا سے بچاؤ میں مدد گار ہے۔بواسیر :کیلے بواسیر کا فطری علاج سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے رفع حاجت کی تکلیف میں کمی آتی ہے۔السر : معدے کو راحت پہنچانے اور تیزابیت کم کرنے کیلئے کیلے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیلوں میں ایک ایسا عنصر پایا جاتا ہے جس سے وہ نقصان دہ بیکٹیریا جو السر کا سبب بنتے ہیں، کا خاتمہ ہوتا ہے۔گردے :کیلے میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹ اور پوٹاشیم گردوں پر دباؤ کم کرتے ہیں اور پیشاب آور ہیں۔ذیلی اثرات:کیلے کے کچھ ذیلی اثرات یا سائیڈ افیکٹ بھی ہیں۔ دل کے امراض اور بلند فشار خون کی کچھ ادویات ایسی ہیں جن سے جسم میں پوٹاشیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ایسی ادویات استعمال کرنے والوں کو کیلے خوراک کا حصہ بنانے سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کر لینا چاہیے۔ جس افراد کو دردشقیقہ کی زیادہ شکایت رہتی ہے، انہیں زیادہ سے زیادہ روزانہ آدھا کیلا کھانا چاہیے۔کچھ لوگوں کو کیلوں سے الرجی بھی ہوتی ہے جس سے انہیں چبھن اور سوجن جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ غذائی ریشے کی زیادہ مقدار کے سبب یہ پیٹ کے لیے مفید ہے لیکن بہت زیادہ کھانے سے معدے میں درد اور پیٹ میں گیس وغیرہ کی شکایت ہو سکتی ہے ۔٭...٭...٭ 

آج کا دن

آج کا دن

''لڈ لو‘‘ قتل عاملڈلو قتل عام کولوراڈو کول فیلڈ جنگ کے دوران اینٹی اسٹرائیکر ملیشیا کے ذریعہ کیا گیا۔ یہ اجتماعی قتل عام تھا۔ کولوراڈو نیشنل گارڈ کے سپاہیوں اور کولوراڈو فیول اینڈ آئرن کمپنی کے گارڈز نے 20 اپریل 1914ء کو کولوراڈو میں تقریباً 1200 سے زائد ہڑتال پر بیٹھے کوئلے کی کان میںکام کرنے والے مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی ایک خیمہ کالونی پر حملہ کر دیا۔ تقریباً 21 افراد، بشمول کان کن، عورتیں اور بچے مارے گئے۔ کولوراڈو فیول اینڈ آئرن کمپنی کے ایک حصہ کے مالک جان ڈی راکفیلر جونیئر جو کہ حملوں کے متعلق ریاستہائے متحدہ کی کانگریس کی سماعت میں بھی پیش ہوئے تھے،ان پر بڑے پیمانے پر اس قتل عام کو منظم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔''ائیر فرانس‘‘ کوحادثہ1998ء میں آج کے دن ''ایئر فرانس‘‘ کی ''فلائٹ 422‘‘ حادثہ کا شکار ہوئی۔ یہ فلائٹ بوگوٹا، کولمبیا سے کوئٹو، ایکواڈور جانے کے لئے شیڈول پرواز تھی۔یہ جہاز ایک نجی کمپنی کے زیر انتظام چلایا جا رہا تھا۔جہاز نے بوگوٹا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے ایل ڈور اڈو سے پرواز بھری موسم خراب تھا او ر دھند کی وجہ سے حد نگاہ بھی بہت محدود تھی ۔ موسم کی وجہ سے ہوائی جہاز بوگوٹا کی مشرقی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں جہاز میں موجود53افراد ہلاک ہوئے۔اس سانحہ کو فرانس کے بدترین ہوائی حادثات میں شمار کیا جاتا ہے۔سیپٹنسولر جمہوریہ1800ء میں آج کے دن سیپٹنسولر جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اس وقت ہوا جب روس اور عثمانی سلطنت کے بحری بیڑے نے ان جزائر پر قبضہ کر لیا اور فرانسیسی جمہوریہ کی دو سالہ حکمرانی ختم کر دی گئی۔ اگرچہ جزیرے کے باشندوں نے امید کی تھی کہ انہیں مکمل آزادی حاصل ہو جائے گی لیکن نئی ریاست کو صرف خود مختاری دی گئی اور ساتھ ہی اسے عثمانی سر پرستی میں بھی دے دیا گیا۔ 15ویں صدی کے وسط میں عثمانیوں کی جانب سے بازنطینی سلطنت کی آخری باقیات کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب یونانیوں کو خود مختار حکومت دی گئی تھی۔ 1807 میں، اسے فرانسیسی سلطنت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ جانسن اسپیس سینٹر ر فائرنگجانسن اسپیس سینٹر میں فائرنگ کا واقعہ20 اپریل 2007ء میں پیش آیا۔ یہ واقعہ ہوسٹن ٹیکساس میں موجود امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے کے جانسن اسپیس سینٹر کی کمیونیکیشن اینڈ ٹریکنگ ڈویلپمنٹ لیبارٹری کی عمارت 44 میں پیش آیا۔انجینئرنگ کا ملازم ولیم فلپس بلڈنگ نمبر44میں کام کرتا تھا۔اس نے اپنے ایک ساتھی کو گولی مار کردوسرے کو تیں گھنٹے سے زائد یرغمال بنائے رکھا۔اس کے بعدولیم نے خودکشی کر لی۔ پولیس کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں سامنے آیا کہ ولیم کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ادارہ اس سے خوش نہیں تھا اور اسے نوکری سے نکالے جانے کا ڈر تھا۔  

گیدڑ سنگھی

گیدڑ سنگھی

آخر وہ کون سی 'گیدڑ سنگھی‘ تھی جس کی بدولت کوئٹہ جیت گیا؟یہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کی سرخی ہے جومارچ 2021ء کے پاکستان سپر لیگ کے ایک میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے اپنا پہلا میچ جیت لیا، اور وہ بھی ہدف کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے۔ اس واقعے کی حیرت کو دو آتشہ کرنے کے لیے ویب سائٹ نے ''گیدڑ سنگھی‘‘ کی اصطلاح کا تڑکا لگایا۔مگر ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ یہ گیدڑ سنگھی کس بلا کا نام ہے اور اس کی طلسماتی خوبیوں کا کیا راز ہے؟ کچھ ہے بھی یا نہیں؟ لوک داستانوں کے مطابق گیدڑ سنگھی یا ''جیکال ہارن‘‘ ایک پراسرار شے ہے اور جنوبی ایشیا میں لوگ اس کے بارے بہت سے ا نوکھے تصورات رکھتے ہیںمثلاً یہ سمجھا جاتا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک طلسماتی قوت ہے اور خوش قسمت لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایک خیال جو سائنسی اعتبار سے بے بنیاد ہے، یہ ہے کہ گیدڑ جب سو سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے سر پر سامنے کی طرف بالوں میں ایک دائرہ سا نمودار ہو جاتا ہے جسے گیدڑ سنگھی کا نام دیا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد سندور میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔مگرگیدڑ کی سو سالہ زندگی کے اس تصور ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گیدڑ سنگھی کی حقیقت کیا ہو گی، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا واضح ہونے کے باوجود ہمارے جیسے معاشروں میں اس قسم کے تصورات موجود رہتے ہیں اور لوگوں کے ذہن سے ان کو دور کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ سوچنا چاہیے کہ گیدڑ سنگھی میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ یہ ہمارے ہاں کا عام محاورہ بن چکا ہے جو طلسماتی اور کرشماتی قوت کے ہم معنی ہے؟آپ جب کسی کی خلاف توقع کامیابی کو دیکھتے ہیں تو فوراً آپ کے ذہن میں بھی اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ''اس کے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے؟‘‘ہمارا ماننا ہے کہ حقیقت میں گیدڑ سنگھی کی ایسی طلسمی صلاحیت کا کوئی وجود نہیں ، مگر سماجی تصور اور محاورے نے اسے باقی رکھا ہے اور لوگ واقعی گیدڑ سنگھی کو کوئی حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں اور جب کوئی کسی شے کو حقیقت سمجھ بیٹھے تو پھر اس کی تلاش بھی شروع ہو جاتی ہے ، یہیں سے شعبدے بازوں کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔چونکہ گیدڑ سنگھی کے ساتھ ایسا طلسماتی تصور باندھ دیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ یہ آ جائے اسے پھر کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں،جو چاہے گا بیٹھے بٹھائے حاصل کر لے گا؛چنانچہ کام چوراور راتوں رات چھپڑ پھاڑ دولت کے خواہاں گیدڑ سنگھی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ بس ایک بار کہیں سے گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ اس لالچ میں اکثر لوگ ایسے شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر انہیں بھاری قیمت پر ''گیدڑ سنگھی ‘‘فروخت کر دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ان شاطروں نے گیدڑ سنگھیاں بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔ کہیں گیدڑ کا سر کاٹ کر اس کے سر کی کچھ کھال اتار کر اس کے ماتھے کی ہڈی میں نقلی چھوٹے سینگ جیسا ابھار بنا کر کھال کو دوبارہ سر کے ساتھ چپکا دیا جاتا ہے اور اب اس کھال سے ابھرا ہوا نقلی سینگ بالکل اصلی معلوم ہوتا ہے اور لالچی نظروں کو گیڈر سنگھی دکھائی دیتا ہے۔ کہیں بالوں کے گچھے کی گیند سی بنا کر گیدڑ سنگھی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے۔اگر کسی نے اصلی گیدڑ سنگھی دیکھی ہو تو چلو اس سے مقابلہ کر کے اصل نقل کی پہچان کر لے، جب ایک تصور ہے ہی بے بنیاد اور کوئی اس کے اصل سے واقف نہیں تو پہچان کیسے ہو؟ اس لئے لالچی لوگ با آسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کبھی کبھار جوگی اور سپیروں نے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اُن کے پاس'' گیدڑ سنگھی‘‘ ہوتی تو وہ خود ہی خوشحال نہ ہوجاتے؟اس طرح عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں، کچھ لوگ اسے سرکے بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں، کچھ جوگی اس کو گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے جس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے گھنے بال اُگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے۔ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں یہ جعل سازی ہے۔مگرگیدڑ سنگھی اور اس جیسی دیگر طلسمی چیزوں کو عقلِ سلیم نہیں مانتی اور اسلام میں بھی ایسی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذاعلما ء کرام کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اختراعی عقائد رکھنا یعنی رزق میں برکت اور اپنی خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف العقیدہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ 

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس مائیکروسافٹ کمپنی کے چیئر مین اور دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ان کا پورا نام ولیم ہنری گیٹس ہے۔ بل گیٹس 1955ء میں واشنگٹن،امریکہ کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔اس دور میں آج کی طرح کمپیوٹر نہ اتنے ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی کمپیوٹروں کی دنیا۔ محض 13برس کی عمر میں وہ پروگرامنگ کا ہنر سیکھ چکے تھے۔ آج بل گیٹس کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں سننا لوگ پسند کرتے ہیں اور جن کی کہی باتیں دنیا پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ اس وقت دنیا کے امیر ترین انسان ہونے کا اعزاز مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے پاس ہے۔ عام طور پر انہیں بہت ذہین، زیرک اور دانشمند سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اربوں ڈالرز بھی آپ کی بات کو غلط ثابت کرنے سے نہیں روک سکتے۔ آپ نے گیٹس کے اقوال زریں تو بہت پڑھے ہوں گے، آئیے آپ کو ان کی وہ باتیں بھی بتاتے ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں اور ظاہر کیا کہ دنیا کا امیر ترین شخص بھی غلط بات کر سکتا ہے۔بل گیٹس نے 1994ء میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طور پر ایک بات کہی تھی کہ ''مجھے اگلے 10 سالوں تک انٹرنیٹ میں کوئی کمرشل صلاحیت نظر نہیں آتی‘‘۔ اس کا ذکر 2005ء کی ایک کتاب میں کیا گیا ہے۔آج دیکھ لیں انٹرنیٹ کیا اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کوئی بھی شخص اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کمرشل کے ساتھ ساتھ گھریلو طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔''جدید سافٹ ویئر میکنٹوش پر آئیں گے، آئی بی ایم پی سی پر نہیں‘‘ بل گیٹس نے یہ بات 1984ء میں بزنس ویک کیلئے ایک مضمون میں لکھی تھی۔اس وقت بل گیٹس اور ایپل کے اسٹیو جابز کے درمیان بڑی یاری تھی، لیکن جیسے ہی مائیکروسافٹ نے آئی بی ایم پی سی کیلئے ونڈوز جاری کی، اس تعلق کا خاتمہ ہو گیا۔ونڈوز کے مشہور ہونے سے پہلے مائیکرو سافٹ نے آئی بی ایم کے ساتھ مل کر ایک آپریٹنگ سسٹم او ایس2 تخلیق کیا تھا۔ اس وقت، یعنی 1987ء میں، گیٹس نے کہا تھا کہ ‘‘میرے خیال میں او ایس2 سب سے اہم آپریٹنگ سسٹم ہوگا اور تاریخ کا سب سے شاندار پروگرام بھی‘‘۔لیکن یہ آپریٹنگ سسٹم نہ چلا۔ جب 1990ء میں ونڈوز 3.0 نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تو مائیکروسافٹ کو آئی بی ایم کی ضرورت بھی نہیں رہی اور وہ او ایس2 کو یتیم چھوڑ گیا۔ آئی بی ایم اس آپریٹنگ سسٹم کو استعمال کرتا رہا یہاں تک کہ 2006ء میں اس کی باضابطہ ''موت‘‘ کا اعلان کردیا گیا۔''ہمارے جاری کردہ سافٹ ویئر میں کوئی بگز نہیں، کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد کو انہیں فکس کرنے کی ضرورت پڑے‘‘۔ گیٹس نے یہ بات 1995ء میں فوکس میگزین میں کہی تھی۔اپنی 1995ء کی کتاب ''دی روڈ اہیڈ‘‘ میں بل گیٹس نے اپنی سب سے مشہور غلطیاں کیں: انہوں نے لکھا انٹرنیٹ ایک انوکھی چیز تھا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ بہتر سے بہترین کی جانب ہماری رہنمائی کرے گا ''آج کا انٹرنیٹ میرے تصور والی انفارمیشن ہائی وے نہیں ہے، البتہ آپ اسے کسی ہائی وے کا آغاز سمجھتے رہیں‘‘۔ کچھ ہی عرصے میں گیٹس کواندازہ ہوگیا کہ یہ بات غلط ثابت ہو رہی ہے، اس لیے انہوں نے مائیکرو سافٹ کی مشہور ''دی انٹرنیٹ ٹائیڈل ویو‘‘ یادداشت جاری کیے اور ادارے کو اس سمت میں چلایا۔ 1996ء میں انہوں نے اپنی کتاب کا نظرثانی شدہ ایڈیشن جاری کیا جس میں انٹرنیٹ کے بارے میں کافی باتیں شامل کی گئیں۔2004ء میں گیٹس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ''ای میل سپیم دو سالوں میں ماضی کی چیز بن جائے گی‘‘۔آج 20 سال بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ سکیورٹی کمپنی سیمنٹیک کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں بھیجی گئی تمام ای میلز کی نصف سپیم پر مشتمل تھی۔گیٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1981ء میں کہا تھاکہ ''640 کے کمپیوٹر میموری کسی بھی شخص کیلئے کافی ہوگی‘‘۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر یہ بات واقعی وہ چھپانا چاہتے ہوں گے کیونکہ اب عام صارف سینکڑوں گیگابائٹس تک پہنچ گیا ہے۔ 1996ء میں ایک انٹرویو میں گیٹس نے کہا تھا کہ میں نے بہت ساری بے وقوفانہ اور غلط باتیں کی ہوں گی لیکن یہ بات مکمل طور پر غلط منسوب کی گئی ہے، کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ کبھی کوئی شخص یہ بات نہیں کہے گا کہ ایک مخصوص میموری مقدار ہمیشہ کیلئے کافی ہوگی‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

فرٹیلائزر کمپنی میں دھماکہ17 اپریل، 2013 کو امریکہ کی ریاست ویسٹ، ٹیکساس میں ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی کے اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن کی سہولت میں ایک امونیم نائٹریٹ دھماکہ ہوا ۔دھماکے کے فوراً بعدریسکیو کیلئے اقدامات شروع کر دئیے گے لیکن اسی دوران پندرہ افراد ہلاک، 160 سے زائد زخمی اور 150 سے زائد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔حادثے کے بعد تحقیقاتی ٹیموں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکہ اسٹوریج میں موجود امونیم نائٹریٹ کہ وجہ سے ہی ہوا۔ اس کے بعد 11 مئی 2016 کو، بیورو آف الکحل، ٹوبیکو، آتشیں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد نے کہا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔کمبوڈیا میں خانہ جنگیکمبوڈیا کی خانہ جنگی کمیونسٹ اور حمیر روج کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔اس جنگ کو محققین نے کمبوڈین قتل عام بھی کہا ہے،اکثر مورخین کا ماننا ہے کہ یہ ہٹلر کے کئے گئے قتل عام سے زیادہ بھیانک اور خطرناک تھا۔ خمیر روج کو شمالی ویتنام اور ویت کانگ کی بھی حمایت حاصل تھی۔یہ جنگ دونوں گروہوں کے درمیان لڑی گئی جس میں لاکھوں بے گناہ افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ اکتوبر 1970ء کے بعد اس میں شدت آتی گئی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد آخر کا ر آ ج کے دن 1975ء میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔لینا قتل عاملینا قتل عام یا لینا پھانسی سے مراد 17 اپریل 1912ء میں شمالی سائبیریا میں دریائے لینا کے قریب ہڑتال پر بیٹھے گولڈ فیلڈ کے کارکنوں پر فائرنگ ہے۔گولڈ فیلڈ کے کارکنان اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج تھے جب حکومتی حکام کی جانب سے ان پر گولیوں کی برسات کر دی گئی۔اس کے قبل ہڑتالی کارکنان کو کہا گیا کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں لیکن ہڑتالی کمیٹی نے حکام کی بات ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں ہڑتالی کمیٹی کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی وجہ سے بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا،حالات کو بے قابو ہوتا دیکھ کر امپیریل روسی فوج کے سپاہیوں نے ہجوم پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں سیکٹروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقع نے روس میں انقلابی آگ کو بہت ہوا دی۔فرانسیسی افواج کاشام سے انخلاء17اپریل کو شام میں بطور قومی دن منایا جاتا ہے۔اسے انخلا کا دن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 1941ء میں شام کی مکمل آزادی کے بعد17اپریل1946ء کو شام سے آخری فرانسیسی فوجی کے انخلاء اور فرانسیسی مینڈیت کے خاتمے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ کو کئی نئی قوموں میں تقسیم کیا گیا، جس سے جدید عرب دنیا اور جمہوریہ ترکی وجود میں آئے۔ 1916 میں فرانس، برطانیہ اور روس کے درمیان سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد، لیگ آف نیشنز نے 1923 میں فرانس کو موجودہ شام اور لبنان پر مینڈیٹ دیا۔