خام تیل سپلائی کی عالمی شہ رگ آبنائے ہرمز
آبنائے ہرمز اپنے جغرآفیائی محل وقوع اور سٹریٹجک نقطہء نظر سے بحری راستوں کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک مصروف آبی گزر گاہ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ عرب خطے میں تیل کی دولت سے مالا مال ریاستوں کے بیچوں بیچ واقع ایک بڑی آبی گزرگاہ ہے۔جس کا تنگ ترین حصہ 33کلومیٹر چوڑا اور اس کے دونوں اطراف آنے جانے والے جہازوں کیلئے تین تین کلومیٹر کے سمندری راستے دیئے گئے ہیں۔
تاریخی پس منظر:تاریخ میں ایسے شواہد ملے ہیں جن کے تحت اس آبنائے کے ذریعے تین ہزار سال قبل مسیح میں بھی مختلف ممالک کے درمیان سامان کی ترسیل ہوتی رہی ہے۔ روایات کے مطابق زمانہء قدیم میں سلطنت ''ہر مز‘‘ کے درمیان واقع ہونے کے باعث اس سمندری گزرگاہ کو آبنائے ہرمز کا نام دیا گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق اس آبنائے کا نام قدیم زمانے میں فارس کے ایک بادشاہ ہرمز کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ اس گزرگاہ کا نام ایران کے زیر اثر ساحل مکران پر واقع ''ہرمز‘‘ نامی ایک چھوٹے سے جزیرے کی مناسبت سے شہرت اختیار کر گیا تھا۔
محل وقوع:آبنائے ہرمز خلیج فارس اور خلیج اومان کے درمیان واقع ہے۔ اس کے شمال میں ایران جبکہ جنوب کی جانب متحدہ عرب امارات اور اومان واقع ہیں۔ بنیادی طور پر آبنائے ہرمز چھوٹے چھوٹے غیر آباد جزیروں پر مشتمل ہے۔ ایران کا جزیرہ کشمالہ ان سب جزیروں سے بڑا ہے جبکہ لارک اور ہرمز نامی دو جزیرے بھی اسی آبنائے کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ طنب الکبری، طنب الصغرہ اور ابو موسیٰ جزیرے بھی اسی آبنائے کا حصہ ہیں لیکن ان تینوں جزیروں کی ملکیت کے دعویدار ایران اور متحدہ عرب امارات ہیں اور ان دونوں ریاستوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بھی یہی جزیرے ہیں۔
اہمیت: آبنائے ہرمز کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ دنیا کی 120 قابل ذکر آبی گزر گاہوں میں پہلی دس غیر معمولی آبی گزرگاہوں میں آبنائے ہرمز سرفہرست شمار کی جاتی ہے۔ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ دنیا کے تیل کی کل پیداور کی ترسیل کا 20 فیصد اور ایشیائی ممالک کو تیل کی 85فیصد ترسیل آبنائے ہرمز سے ہو کر جاتی ہے۔
سعودی عرب، ایران، بحرین، کویت، قطر، عراق اور متحدہ عرب امارات کے خام تیل کی ترسیل آبنائے ہرمز کے سمندری راستوں کے ذریعے بحیرہ عرب میں داخل ہوتی ہوئی دنیا بھر کی بندر گاہوں میں جا پہنچتی ہے۔ عراق، بحرین، کویت اور قطر کے لئے یہ یوں اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ان ممالک کی واحد بحری بندر گاہ ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ تین ہزار سال قبل مسیح میں آبنائے ہرمز کو بطور آبی بندرگاہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔مشرق قریب اور بحیرہ ہند کے تاجر مختلف علاقوں کے ساتھ سامان کی ترسیل اس آبنائے کے ذریعے کرتے رہے ہیں۔
آبنائے ہرمز کشیدگیوں کی زد میں: آبنائے ہرمز کی بین الاقوامی ممالک کے درمیان کشیدگی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ماضی میں برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ بھی اس بندگاہ پر اپنا حق جتلاتے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں سویت یونین بھی اس کی ملکیت کی جنگ میں پیش پیش رہا۔ امریکہ بھی ایک عرصے سے اس پر اپنا قبضہ حاصل کرنے کا خواہاں رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے اور ایران کے درمیان اکثر و بیشتر کشیدگی جاری رہتی ہے۔
دوسری طرف امریکہ آبنائے ہرمز پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خاطر خطے کے بیشتر ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی، کاروباری اور عسکری تعلقات کو مضبوط بناتا آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران اور متحدہ عرب امارات کی ملکیت کا تنازع بھی برسوں سے کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس آبنائے کا سب سے بڑا جزیرہ کشمالہ جو ایران کی ملکیت ہے وہ اس کا اہم حصہ ہے۔ طنب الکبری، طنب الصغرہ اور ابو موسیٰ نامی جزیرے جو اس آبنائے کا حصہ ہیں، متحدہ عرب امارات اور ایران دونوں اپنے اپنے طور ان جزیروں کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔
ایران جو اپنے آپ کو آبنائے ہرمز کا سب سے بڑا دعویدار کہلاتا ہے، 1988ء سے یہ دھمکیاں دیتا آ رہا ہے کہ اگر اس کے مفادات کو نقصان پہچانے کی کوشش کی گئی تو وہ آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔ اگرچہ ایران نے 2012ء اور پھر 2019ء میں بھی ان دھمکیوں کا اعادہ کیا تھا لیکن عملی طور پر اس نے بین الاقوامی بالخصوص امریکی دباؤ کے پیش نظر کسی قسم کے عملی قدم سے گریز کیا تھا۔
بین الاقوامی قوانین کیا کہتے ہیں؟:ایران اگرچہ ایک طویل عرصہ سے آبنائے ہرمز پر اپنا قانونی حق جتلانے کا دعوے دار چلا آرہا تھا، جس کیلئے اس نے جنیوا میں 1958ء میں منعقدہ سمندری قوانین کی بین الاقوامی کانفرنس میں آبنائے ہرمز کی نگرانی کا مطالبہ کیا تھا جسے کانفرنس کے شرکاء نے مسترد کر دیا تھا اس کے بعد ایسی ہی ایک کانفرنس منعقدہ 1960ء میں بھی کانفرنس کے تمام شرکاء نے اسے مسترد کر دیا۔ 30اپریل 1980ء میں ایک مرتبہ پھر سمندری قوانین کی ایک ایسی ہی کانفرنس میں ایران کی استدعا کو تیسری مرتبہ بھی رد کر دیا گیا تھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد دنیا بھر کے بیشتر ممالک کے دباؤ اور مطالبے پر بین الاقوامی طور پر آبناؤں کے تحفظ کو مضبوط اور فعال بنانے کیلئے 30 اپریل 1982ء کو مشترکہ طور پر اکثریت کے ساتھ ایک قانون منظور کیا گیا جس کے تحت کوئی بھی آبنائے بین الاقوامی قانون کے تحت عالمی سمندر کا حصہ ہے خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں واقع ہو۔ساحلی ممالک کی سلامتی اور ان کے امن و امان کو نقصان پہنچائے بغیر ہر جہاز کو آبنائے سے گزرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اس قانون کی دفعہ 38 کے مطابق''تمام جہازوں کو دنیا کے کسی بھی خطہ سے کسی بھی آبنائے سے گزرنے کا مکمل حق حاصل ہو گا اور کسی بھی ملک کو اس میں بلاوجہ رخنہ ڈالنے کی اجازت نہ ہو گی۔ جس کے سبب یہاں سے ہر قسم کے تجارتی اور فوجی جہاز بلا رکاوٹ آزادی سے گزر سکیں گے‘‘۔
اس کے ساتھ ساتھ اس کانفرنس میں یہ وضاحت بھی کر دی گئی کہ اگرچہ ایران اور اومان کو اپنے اپنے سمندری پانیوں تک رسائی کے حقوق حاصل ہیں تاہم ''ہرمز ایک بین الاقوامی آبنائے ہونے کے ناطے بین الاقوامی قوانین کے تحت تمام ممالک کے بحری جہازوں کو یہاں سے گزرنے کے حقوق حاصل ہیں۔ کیونکہ ویسے بھی آبنائے ہرمز خلیج فارس سے کھلے سمندر تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
خاورنیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں