یاد رفتگان مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف، شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں مولانا ظفر علی خان کو ایک عظیم سیاسی رہنما، ایک جیّد صحافی، ادیب، شعلہ بیاں مقرر، بے مثل نقاد اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے قلم کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ 27 نومبر 1956ء کو اردو زبان و ادب کی اس نامور شخصیت کی زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔ ان کی آج برسی ہے۔
بابائے صحافت کا لقب پانے والے مولانا ظفر علی خان 19جنوری 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول سے مکمل کی۔ علی گڑھ سے اس وقت گریجویشن کیا جب سرسیّد، شبلی، حالی جیسے کئی نہایت قابل اور فکر و نظر کے اعتبار سے زرخیز ذہن اس درس گاہ سے وابستہ تھے۔ اسی فضا نے ان کی فکر اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارا اور علمی و ادبی میدان میں متحرک ہونے پر آمادہ کیا۔علی گڑھ کی تعلیمی فضا سے نکلنے کے بعد انہوں نے کبھی شاعری اور صحافت کے میدان میں قدم جمائے اور کبھی سیاست کے میدان کے شہسوار بنے۔کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین احمد 1903ء میں جب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے اپنے آبائی گائوں کرم آباد سے اخبار ''زمیندار‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ شروع میں یہ ایک ہفت روزہ اخبار تھا اور اس کا مقصد زمینداروں اور کسانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ والد کی وفات کے بعد جب ''زمیندار‘‘ مولانا کی زیر ادارت آیا تو اس نے انگریز کے خِرمَن اقتدار میں آگ لگا دی۔ مولانا نے 1908ء میں ''زمیندار‘‘ کی اشاعت لاہور سے شروع کی تو لاہور سے شائع ہونے والے بڑے بڑے اردو اخبارات کے چراغ ٹمٹمانے لگے اور ''زمیندار‘‘ کی شہرت کا ستارہ آسمانِ صحافت پر جگمگانے لگا۔ مسلمانوں کے لیے بطور خاص نکالے گئے اخبار کو مختلف حلقوں میں کافی پذیرائی ملی۔ مو لانا اپنے زمانے کے چوٹی کے مسلمان صحافیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
انگریز دور میں سیاست کے میدان میں مختلف تحاریک، مزاحمتی سرگرمیوں کے علاوہ قلم کے ذریعے آزادی اور حقوق کی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری تھا اور اسی دوران مولانا ظفر علی خان بھی اپنے اداریوں اور مضامین کی وجہ سے معتوب ہوئے۔ انھیں اپنی تحریر و تقریر کی وجہ سے کئی مشکلات جھیلنا پڑیں اور ان کے اخبار زمیندار کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔
1934ء میں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو مولانا ظفر علی خان جو اپنی جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے نے حکومت پر مقدمہ کر دیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا۔اس پر انہوں نے ایک نظم بھی لکھی، جس کا ایک شعر یہ ہے!
یہ کل عرش اعظم سے تار آ گیا
زمیندار ہو گا نہ تا حشر بند
تری قدرت کاملہ کا یقیں
مجھے میرے پروردگار آ گیا
مولانا ظفر علی خان ترجمہ میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ مولانا نے لارڈ کرزن کے انگریزی سفر نامہ ایران کا ترجمہ ''خیابان فارس‘‘ کے نام سے شائع کیا تو لارڈ کرزن نے سونے کے دستے والی چھڑی تحفہ میں پیش کی۔ اس کے علاوہ ان کے تراجم میں ''فسانہ لندن‘‘،'' سیر ظلمات ‘‘اور'' معرکہ مذہب و سائنس‘‘ بہت معروف ہوئے۔ انہوں نے ایک ڈرامہ ''جنگ روس و جاپان‘‘ بھی لکھا۔ ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں جن میں نثری اور شعری مجموعے شامل ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں ''بہارستان‘‘،'' نگارستان‘‘ اور'' چمنستان ‘‘کی شکل میں چھپ چکی ہیں۔
مولانا ظفر علی خان کا اسلوب منفرد تھا، ان کی تحریریں نثری ہوں یا شعری دونوں ہی ملی امنگوں کی ترجمان ہیں۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ مولانا کی شاعری کی مختلف جہات ہیں۔ وہ فی البدیہہ شعر کہنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔اُن کی شاعری میں حمد، نعت گوئی، حالاتِ حاضرہ کے مطابق شعر کہنا، وطن کی محبت میں شعر، اور انقلابی اشعار شامل ہیں۔ اُن کی حمد کے چنداشعار ملاحظہ کیجئے۔
بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نے
دکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نے
تری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستی
سمویا اپنے ہاتھوں سے مزاحِ جسم و جاں تو نے
ایک اور مقام پر عرض گزار ہیں:
ہم اب سمجھے کہ شاہنشاہ مُلکِ لامکاں ہے تو
بنایا اک بشر کو سرورِ کون و مکاں تو نے
محمد مصطفیٰؐ کی رحمۃ اللعالمینی سے!
بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نے
وہ اسلام کے سچے شیدائی، محب رسولﷺ اور اپنی نعت گوئی کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی اس نعت سے کون واقف نہیں ہے۔
وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
مولانا ظفر علی خان کو دنیا سے رخصت ہوئے 65برس بیت چکے ہیں،ان کا نام صحافت، شاعری اورنعت گوئی میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔
ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں، ملک کے موقر جریدوں
میں ان کے سیکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں