خوبصورتی ، اپنے کردار کو مستقل ارتقائی سلسلے میں رکھیں
اسپیشل فیچر
خوب وہ حرف ایجاب ہے جس کا مرکز فارسی ہے۔ اس کے مترادف اچھا، چنگا، صواب، فاخر، عمدہ، نفیس، نیک وغیرہ ہیں۔ خوبصورتی مرکب توصیفی ہے۔ اس طرح کے مرکبات اور بھی ہیں جن کا آغاز لفظ خوب سے ہوتا ہے جیسے خوب رو، خوباں، خوب طبع، خوب سا، خوب خوب وغیرہ۔ کسی بھی تحریر میں جن الفاظ کی سب سے زیادہ مرکزی حیثیت ہو ان الفاظ کے لفظی معانی، جو کہ ایک کتابی علم ہے دینا ضروری ہے۔ اس سے معاشرے میں اچھی معلومات جاتی ہے اور یہ بھی زبان کی ایک خدمت ہے۔ تو خوبصورتی کی کتابی شکل یہ ہے کہ اچھی شکل صورت والی چیز۔ اب اچھی شکل صورت کہنا دراصل خود ایک معانی خیز بات ہے۔ خوبصورتی کے کتابی، معاشرتی اور فلسفہ کی رو سے بھی معانی ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ تحریر ان کا منطقی مطالعہ کرے گی اور آپ کی آرا کی منتظر رہے گی۔
ایک خوبصورتی وہ ہے جس کا معاشرتی معانی بھی ہے جو اس کے لفظی معانی سے قدرے مختلف ہے۔ میں عدیم ہاشمی صاحب سے گفتگو کا آغاز کروں گا۔
کیوں سوالوں کو جوابوں سے پرکھتے ہو عدیم
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
کیا خوبصورت شعر ہے، کیا خوبصورت نقشہ لیا ہے ہونٹوں کا اور کیا قیمت گرائی ہے سوالوں کی۔ معاشرے میں ہمیں کوئی چیز خوبصورت لگتی ہے اور ہمارے پاس نہ ہو تو ہمیں غم ہوتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہماری دسترس میں آ جائے۔ اگر وہ آ جائے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ یہاں سے پتا چلا کہ خوبصورتی اور خوشی دو مختلف کیفیات ہیں۔ خوبصورتی کا تعلق چاہت سے اور خوشی کا تعلق نصیب اور کوشش سے ہے۔ انسان کو جو چیز خوبصورت لگتی ہے وہ اس کیلئے خواہش کرتا ہے، پھر اس کے لئے کوشش کرتا ہے، اور جب اسے حاصل کر لیتا ہے تو خوش ہو جاتا ہے۔اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کیلئے اس نے کوشش کی ہے اور جس کا حصول آج اسے خوشی دے رہا ہے وہ ایک غیر معینہ مدت کے بعد اتنی خوبصورت نہیں رہتی۔ اس سے اتنی خوشی بھی میسر نہیں ہوتی پھر انسان اٹھتا ہے اور ایک اور خوشی کی تلاش کرنے لگتا ہے۔ کسی اور خوبصورتی کی طرف مائل ہو کر جستجو کرنے لگتا ہے۔ دوسری شکل معاشرتی خوبصورتی کی وہ ہے جسے انسان پانے کی کوشش یا نیت سے خوبصورت نہیں کہتا بلکہ حسن لطافت کی وجہ سے کہتا ہے جیسے خوبصورت تصویر، خوبصورت سیاہی مقام وغیرہ۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان آغاز میں خوبصورت لگنے والی چیزوں کو ایک مدت بعد اتنا خوبصورت نہیں کہتا۔ اس کی کیفیت بالکل ایسے ہوتی ہے جیسے کچھ دیر پہلے جس کھانے کی سجائوٹ کی تعریف کر رہے ہوں، تو وہی کھانا بد مزا نکل آئے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ معاشرتی طرز کی خوبصورتی انسانی رویہ سے زیادہ کچھ نہیں جو وقت، ماحول، حالات اور واقعات کی بنا پر بدل سکتی ہے۔ دراصل معاشرتی خوبصورتی کی اپنی کوئی خوبصورتی نہیں ہوتی۔ قیمت لگانے والا جس وقت زیادہ بولی لگائے گا تو دنیا کی نظر میں وہ چیز اتنی خوبصورت ہو جائے گی۔ مونالیزا بنانے والے کی اس تصویر کی اپنی قیمت، اسے تسخیر کرنیوالے کی اپنی اور خریدار کی لطافت کی اپنی قیمت، سب اس کی خوبصورتی کے گواہ ہیں۔
ایک خوبصورتی کردار کی ہے۔ اچھا کردار یہ نہیں کہ آپ اچھا کام کریں بلکہ اچھا کردار یہ ہے کہ آپ اپنی اچھائیاں بڑھاتے رہیں اور برائیاں دور کرتے جائیں۔دوسروں کے رویے سے اپنا کردار مت بدلیں۔ میری پسند اور ناپسند کے مطابق پسند اور ناپسند کرنے والا پسند ہو اور ناپسند کرنے والا پسند نہ ہو یہ کوئی کردار نہیں۔ دوسرے کا رویہ اگر آپ کا کردار ہے تو آپ کا کوئی کردار نہیں۔ اپنے کردار کو مستقل ارتقائی سلسلے میں رکھیں اور اگر کوئی بتائے کہ کیا کیا خامیاں ہیں ان پہ غور کریں اور اگر پائیں کہ وہ خامیاں ہیں تو ان کو دور کریں۔ کردار آپ کے الفاظ، لہجے اور اس پہ عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ انسان کی یہ خوبصورتی معاشرتی خوبصورتی سے زیادہ اہم ہے لیکن مکمل نہیں۔ اگر خوبصورتی کی تکمیل چاہیے تو ان بستیوں سے متمسک ہونا پڑے گا جو تکمیل اور تسکین کے قانون پر تخلیق ہوئی ہیں۔
اصل اور حتمی خوبصورتی دین اسلام ہے۔ مذاہبِ تو بہت ہیں لیکن اللہ کے نزدیک دین تو صرف اسلام ہی ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں ہوں لیکن اس بارے میں اپنا نظریہ رکھتا ہوں۔ علماء تو لائق تحسین ہیں میں ان کی خاک بھی نہیں۔ دین اسلام کو میں پیروی کا دین کہتا ہوں۔ اتباع کرنا، مان لینا، حکم بجا لانا، من و عن تسلیم کرنا، ایمان لانا۔ ہمارے نبی کریم ﷺنے جس چیز کو قرآن کہا ہم نے کہا یہ قرآن ہے۔ جو ان سے سنا وہ حق اور جو انہوں نے روکا وہ باطل۔ انسان کی اصل خوبصورتی اور خوبصورتی کی تکمیل انبیاؑ کی تعلیمات کی پیروی ہے۔ اپنی مرضی اور ان کی پیروی میں فرق کرنا سیکھنا ہو گا۔ ان کی مرضی پہ چلنا ہو گا۔ پھر سکون اور خوبصورتی کا وہ سمندر پائیں گے جس سے زیادہ خوبصورت اور کچھ نہیں ہو سکے گا۔ وہ خوبصورتی کی تکمیل ہو گی۔
ہمیں ہر روز اس فکر میں رہنا ہو گا کہ آج کیا مزاج یار کے بر خلاف ہوا ہے اور اسے کس طرح درست کرنا ہے۔کسی سزا کے خوف سے نہیں بلکہ اس کی خوشی اور اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے۔ میرے نزدیک اس خوبصورتی سے دوری کی وجہ سے ہی سیالکوٹ جیسے واقعات جنم لیتے ہیں۔ اللہ ہمیں سچا اور اچھا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
مزاج یار کو بھائے تو پھر ہمیں بھائے
ڈاکٹر منتظم عباس یو ای ٹی خواجہ فرید کیمپس میںشعبہ ریاضیات کے سربراہ ہیں، تحقیقی و ادبی موضوعات پر گہری نظر رکھتے ہیں،موقرملکی جریدوں میں ان کی تحریریں شائع ہو چکی ہیں