مرزا اسد اللہ غالب, شاعری ہی نہیں، ان پر بنی فلمیں اور ڈرامے بھی مقبول ہوئے
اسپیشل فیچر
مرزا اسد اللہ غالب، اُردو شاعری کا اہم ترین نام۔ اتنا بڑا شاعر شاید ہی اب پیدا ہو۔ اس شاعر پر ہندوستان اور پاکستان میں فلمیں بھی بنائی گئیں اور ٹی وی ڈرامے بھی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ فلمیں اور ڈرامے عوام میں بے حد مقبول ہوئے اور جن فنکاروں نے مرزا غالب کا کردار کیا ان کی اداکاری کو بھی بہت سراہا گیا۔
پاکستان میں مرزا غالب پر جو فلم بنائی گئی اس میں لالہ سدھیر نے غالب کا کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ فلم میں نورجہاں بھی تھیں۔ اس فلم کی سب سے بڑی خاصیت نور جہاں کی گائیکی تھی۔ نور جہاں نے غالبؔ کی غزلیں اس شاندار طریقے سے گائیں کہ لوگ ششدر رہ گئے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ غزل گائیکی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ غزل سن کر تو ایسا لگتا ہے کہ نور جہاں اوجِ کمال کو پہنچ گئی ہیں۔
'' مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے‘‘
جہاں تک سدھیر کی اداکاری کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اوسط درجے کی تھی۔ 1964ء میں سرکاری ٹی وی کا آغاز ہوا تو اس کے ذریعے ہمیں بے شمار فنکار میسر آئے جن میں قوی خان، افضال احمد، علی اعجاز، ننھا، کمال احمد رضوی، طلعت حسین، روحی بانو، فاروق ضمیر، راحت کاظمی،ذہین طاہرہ، ظہور احمد، فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، محبوب عالم، شجاعت ہاشمی، ایوب خاں، عظمی گیلانی، خالدہ ریاست، شہناز شیخ، قمر چودھری، طاہرہ نقوی، خورشید شاہد، ثمینہ احمد، مرینہ خان، نیلوفر علیم، قاضی واجد، سبحانی با یونس، محمد یوسف، جمشید انصاری، بشریٰ انصاری، خیام سرحدی اور کئی دوسرے فنکار شامل ہیں۔ غالبؔ پر دو ٹیلی ڈرامے بنائے گئے ایک میں غالب ؔ بنے تھے قوی خان اور دوسرے میں مرزا نوشہ کا کردار نبھایا تھا سبحانی بایونس نے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ان دونوں فنکاروں نے بہت اعلیٰ درجے کی اداکاری کی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دونوں ٹیلی ڈراموں کے سکرپٹ پر بھی بڑی محنت کی گئی تھی۔ سرکاری ٹی وی جب شروع ہوا تو بلاشبہ اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اداکاروں اور پروڈیوسروں کی خدمات حاصل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس ٹی وی نے ڈرامے کے میدان میں بھارتی ٹی وی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
اب ذرا بھارت کی طرف چلتے ہیں۔ غالب کے نام پر بنائی گئی بلیک اینڈ وائٹ فلم میں بھارت بھوشن نے مرکزی کردار ادا کیا اور ان کی اداکاری کو پسند کیا گیا۔ اس کے علاوہ ثریا نے بھی خوبصورت اداکاری کی۔ ثریا اپنے زمانے کی بہت مشہور ہیروئن تھیں۔ انہوں نے ''انمول گھڑی‘‘ میں میڈم نور جہاں کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اداکارہ کے ساتھ ساتھ گلوکارہ بھی تھیں۔ اس فلم میں انہوں نے طلعت محمود کے ساتھ غالبؔ کی غزلیں بڑے خوبصورت انداز میں گائیں۔ اس فلم کو مجموعی طور پر پسند کیا گیا۔
پاکستان اور بھارت میں مرزا غالب پر ایک ایک فلم بنائی گئی جبکہ سرکاری ٹی وی کے ڈرامے کا ذکر ہو چکا ہے۔ اب ذرا گلزار صاحب کی بات ہو جائے جنہوں نے غالباً 80ء کی دہائی میں غالب پر ایک ٹیلی فلم بنائی جسے بے حد شہرت حاصل ہوئی۔ گلزارؔ ویسے بھی غالب کے بہت بڑے مداح ہیں اور انہوں نے بڑی عرق ریزی سے اس ٹیلی فلم کا سکرپٹ لکھا۔ یہ ٹیلی فلم دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ گلزار نے اس پر کتنی محنت کی ہے۔ گلزار کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں نصیر الدین شاہ جیسا بے بدل اداکار مل گیا جو ان کی مشہور زمانہ فلم ''اجازت‘‘ میں بھی کام کر چکے تھے۔ نصیر الدین شاہ کی فقید المثال اداکاری نے اس ٹیلی فلم کو چار چاند لگا دیئے۔ اس ٹیلی فلم کے باقی اداکاروں نے بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
شفیع انعامدار اور نینا گپتا کی اداکاری کو تو خاص طور پر سراہا گیا۔ اس فلم میں نصیر الدین شاہ کا گیٹ اپ بھی انتہائی منفرد تھا۔ ویسے تو محمد قوی خان اور سبحانی بایونس کا گیٹ اپ بھی قابل تحسین تھا اور اس پر بھی بہت محنت کی گئی تھی۔ اس ٹیلی فلم کو بنانے کیلئے کتنی تحقیق کی گئی اس کا کوئی حساب نہیں۔ اردو ادب کے قارئین یہ تو جانتے ہیں کہ ابراہیم ذوق آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے جبکہ غالبؔ خود ذوقؔ کا استاد بننے کے آرزو مند تھے۔ ٹیلی فلم کے ایک منظر میں استاد ابراہیم ذوقؔ بگھی میں بیٹھ کر بادشاہ کے ہاں مشاعرے میں شرکت کی غرض سے جا رہے ہوتے ہیں کہ راستے میں غالبؔ کی نظر ان پر پڑ جاتی ہے۔ غالبؔ فی البدیہہ ایک مصرعہ پڑھتے ہیں۔
'' سنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا‘‘
استاد ذوقؔ نے اسے اپنی توہین سمجھا اور مشاعرے کے دوران بادشاہ سے مرزا نوشہ کی شکایت کی۔ اس پر آخری مغل بادشاہ نے غالبؔ سے وضاحت مانگی۔ غالب نے اس موقع پر کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہادر شاہ ظفرؔ سے کہا کہ استاد ذوق غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور انہوں نے میرا پورا شعر سنا ہی نہیں۔ پھر غالبؔ نے پورا شعر سنایا:
سنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
اس پر ابراہیم ذوقؔ خاموش ہو گئے۔ اس قسم کے کئی اور مناظر ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اس ٹیلی فلم کو بنانے کیلئے غالب کی زندگی اور فن کا کتنا عمیق مطالعہ کیا گیا۔ اس کا کریڈٹ بہرحال گلزار صاحب کو ہی جاتا ہے۔ غالبؔ زمانے کی ناقدری کا بھی بہت شکوہ کیا کرتے ہیں۔ ٹیلی فلم کے مطابق ایک دفعہ غالب سے ایک رقاصہ (نینا گپتا) پوچھتی ہے کہ وہ کون ہیں۔ اس پر غالبؔ خاموش ہو جاتے ہیں اور پھر شکایت آمیز لہجے میں کہتے ہیں:
پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا
مرزا غالبؔ پر بننے والی فلمیں اور ٹی وی ڈرامے لوگوں کو ہمیشہ یاد رہیں گے اور جن فنکاروں نے غالبؔ کا کردار ادا کرنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا، ان کا نام بھی زندہ رہے گا۔ راقم کو کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ غالبؔ کا کردار ادا کرنے والے فنکار اگر اپنے اپنے گیٹ اپ میں ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں اور لوگ ان سے پوچھیں کہ آپ میں سے غالب کون ہے تو یہ فنکار یقیناً یہی کہیں گے کہ غالب تو ایک ہی تھا ہم نے البتہ اس عظیم شاعر کا کردار ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ آپ یہ فرمایئے کہ آپ کو کس کی اداکاری سب سے زیادہ پسند آئی؟۔
عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ ''دنیا‘‘
سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں