ڈرامہ و فلم کا تنقیدی جائزہ
اسپیشل فیچر
اشفاق احمد بہت چابک دست لکھاری تھے، مہارت کے حوالے سے ایک مکمل فلم ساز تھے۔ انہوں نے طویل دورانیہ کے ٹی وی ڈراموں کی صورت میں نہ صرف شارٹ فلمیں تخلیق کیں بلکہ بڑی سکرین کیلئے فلم ''نُور باف‘‘ بنائی، جو کمرشل طور پر اس قدر ناکام ٹھہری کہ کسی سینما نے نمائش کیلئے نہ اٹھائی اورپی ٹی وی پر چلانی پڑی۔ پاکستان میں ''آرٹ فلموں‘‘ کا آغاز 1981ء میں پی ٹی وی لاہور سنٹر کے جنرل مینجر محمد نثار حسین اور اشفاق احمد کے اشتراک سے ہوا، جب پی ٹی وی سے ''ڈرامہ81‘‘ کے نام سے 90منٹ دورانیہ کا ایک کھیل ہفتہ وار رات کو پیش کیا جانے لگا۔ چند ڈراموں کے سوا یہ تمام شارٹ فلمیں ایم این ایچ نے پروڈیوس کیں۔ دیگر پیش کاروں میں یاور حیات، نصرت ٹھاکر اور سلیم طاہر شامل ہیں۔ سلیم طاہر کے حصے میں صرف ایک ڈرامہ''نشیب اور فراز‘‘ آیا جو مرزا اطہر بیگ نے لکھا تھا۔ اسی طرح پی ٹی وی کی ان ''آرٹ فلموں‘‘ کے دیگر سکرپٹ رائٹرز میں بانو قدسیہ اور ڈاکٹر انور سجاد شامل ہیں۔
ڈیوڈلین کی طرح اشفاق احمد ایک کامل فلم میکر تھے۔ اعجاز رضوی کہا کرتے تھے کہ ایک اچھے فلم میکر کو ایک عمدہ لکھاری، موسیقی کے اچھے ذوق کا حامل یعنی ایک میوزک ڈائریکٹر، ایک ماہر کیمرہ مین اور ایک عمدہ تدوین کار بھی ہونا چاہئے۔ انہی دنوں پٹیالہ گھرانے کے استاد امانت علی خاں کے بڑے بیٹے کا ایک گیت بہت مقبول ہوا جو اسد امانت علی خاں کی شناخت اور شہرت کا آغاز ثابت ہوا۔ اسی گیت کے بعد انہیں فلموں کی پلے بیک گائیکی کی آفرز ملنا شروع ہوئیں، گیت کا مکھڑا تھا''عمراں لنگیاں پباں پار‘‘۔ اس کی تھیم اس صورتحال کا احاطہ کرتی تھی جب انسان اپنے مقصد کے حصول کیلئے اپنے جسم کے آخری حصے یعنی اپنے پنجوں پر پورے جسم کا وزن ڈال دے مگرآخری لمحے حالات اس کے خلاف ہو جائیں، ایک شہرہ آفاق شعر میں اسی کیفیت کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا
اشفاق صاحب نے ''ڈرامہ81‘‘ میں اس پر بھی شارٹ فلم بنا ڈالی جس میں اسد امانت علی کے شہرت کی بلندیوں کو چھوتے اس گیت کو استعمال کیا۔ اس ڈرامے میں گائوں کی ایک غریب عورت اپنی دیوار کی منڈیر تک اپنے بنچوں کے بل کھڑی ہو کر پہنچتی ہے کہ اسی لمحے یکا یک بارش ہونے لگتی ہے۔ مٹی اور بھوسے سے لپائی کرنے کیلئے یہ دیوار اٹھا کر اس نے سارا دن تج دیا تھا۔ یہ کردار بندیا یا عظمیٰ گیلانی نے نبھایا تھا جو گیت کی زبان سے برستے بادل کو کہتی ہے''ہالی نہ دس او کاہلیا‘‘ (اے جلد باز ابھی نہ برس کہ یہاں تک پہنچنے کیلئے میں نے ایک عمر پنجوں کے بل کاٹ دی ہے۔
اشفاق احمد ''اپنے ہر کھیل میں کسی ایک کردار کی زبانی اپنا تصوف کا ''بھاشن‘‘ دیتے رہے جس کی وجہ سے ''اور ڈرامے‘‘ کو‘‘ نقادوں کی طرف سے ''بور ڈرامے‘‘ کا ٹائٹل بھی ملا۔ بہرحال وہ کسی تنقید کو خاطر میں لائے بغیر اپنی ڈگر پر قائم رہے، بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان میں سب سے زیادہ کامیاب ''کمرشل آرٹ ‘‘ فلمیں تخلیق کرنے والے واحد فلم ڈائریکٹر نذر الاسلام ہالی ووڈ اور بالی وڈ کی سپرہٹ فلموں کے چربے بنا کرپیش کرتے رہے۔ بنگالی نذر الاسلام کو انڈسٹری میں ''نذر الاسلام دادا‘‘ کہا جاتا تھا جو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ''ذراہٹ کے‘‘ فلمیں بنانے والے واحد فلم ڈائریکٹر ہوئے ہیں۔ اگرچہ ''دادا‘‘ نے کوئی پنجابی فلم نہیں بنائی مگر ان کی فلم ''آئینہ‘‘ ریکارڈ ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شہرت کا نکتہ آغاز بھی ثابت ہوئی جو انڈین سپر ہٹ آرٹ کمرشل ''مووی''آندھی‘‘ کا چربہ تھی۔ گلزار کی ''آندھی‘‘ اندرا گاندھی کی زندگی پر بنائی گئی تھی، جس میں سچترا سین نے اندرا گاندھی کا کردار ادا کیا تھا۔ البتہ پاکستانی فلم ''آئینہ‘‘ اس قدر سپرہٹ ثابت ہوئی کہ بعد میں نذر الاسلام نے ''نہیں ابھی نہیں‘‘ بنائی جوانگریزی فلم ''سمر آف 42‘‘ کا چربہ تھی۔ البتہ نذر الاسلام اپنی چربہ فلموں کا مرکزی خیال مقامی ثقافت کے مطابق ڈھالتے رہے جیسے اشفاق احمد اپنے ہر ''اور ڈرامے‘‘ کو تصوف کا رنگ دیتے رہے۔
''ہٹ کے‘‘ اور ''آرٹ فلمیں‘‘ بنانے والے لگ بھگ تمام پاکستانی فلم سازوں نے مجموعی طور پر چند فلمیں ہی بنائیں جو کمرشل طور پر ناکام ثابت ہوئیں، ماسوائے مسعود پرویز کی ''ہیر رانجھا‘‘ اور ''مرزا جٹ‘‘ کے۔ ڈبلیو زیڈ احمد نے پاکستان بننے کے بعد صرف تین فلمیں تخلیق کیں۔ جن میں سے تیسری ویسے ہی مکمل نہ ہو سکی جبکہ باقی دو میں سے صرف ''وعدہ‘‘ باکس آفس پر کامیاب ہوئی جس کے گانے سیف الدین سیف نے لکھے اور موسیقی رشید عطرے کی تھی۔ پاکستان میں ان کی اولین فلم ''روحی‘‘ کی نمائش پر ویسے ہی پابندی لگ گئی تھی۔ اسی طرح سعید دہلوی کی ''بلڈ آف حسین‘‘ اور ہاشم گزدر کی وہ فلم بھی banہوئی جو کینز فلم فیسٹیول تک پہنچی۔''بلڈ آف حسین‘‘ کی نمائش پر تو آج تک پابندی عائد ہے۔ جاوید جبار کی اکلوتی ''کمرشل آرٹ‘‘ فلم بھی بری طرح فلاپ ہوئی جو ''بیونڈ دی لاسٹ مائونٹین‘‘کے نام سے بنائی گئی۔ اس فلم کا اردو ورژن بھی بری طرح فلاپ ہوا جو ''مسافر‘‘ کے نام سے بنایا گیا تھا۔ ایم لقمان نے بھی غالباً ''پتھر کے پھول‘‘ کے نام سے ایک آرٹ فلم بنائی تھی جوناکام ٹھہری۔ البتہ مسعود پرویز کی دونوں کلاسک ''ہیر رانجھا‘‘ اور ''مرزا جٹ‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئیں جبکہ اشفاق صاحب کی ''نور باف‘‘ کی سینما گھروں میں نمائش کی نوبت ہی نہیں آئی۔
علیم عثمان ایک بہترین لکھاری ہیں اور فن و ثقافت کا گہرا علم رکھتے ہیں