کوہ نور منحوس ترین قیمتی پتھر
اسپیشل فیچر
اس کی تاریخ اور اس کی نحوست کی کہانی تاریخ نویسوں کے مطابق کچھ یوں ہے۔ یہ انتہائی قیمتی ہیرا کوہ نور بیجا پور (گولکنڈہ) کی کوئلے کی کان سے نکلا تھا۔ گولکنڈہ دکن میں ایک مشہور جگہ ہے۔ دنیا کا یہ قیمتی پتھر کسے ملا صحیح اندازہ نہیں۔ تاہم کچھ علماء کا خیال ہے کہ یہ عادل شاہی خاندان کے پایہ تخت بیجا پور کی کسی کان سے 1273ء میں نکالا گیا تھا ۔
بیجاپور جہاں سے یہ انمول پتھر ملا بڑا معروف اور تاریخی شہرت کا حامل ہے۔ یہاں متعدد قدیم آثار و باقیات ہیں۔ سلطان محمود عادل شاہ کا ''گول گنبد‘‘ دنیا کے عجائبات میں شامل ہوتا ہے۔ یہاں کے شاہی محلات، مسجدیں، مینار اور قلعوں کے علاوہ حکمرانوں کے مقبرے تاریخ دانوں کیلئے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ چاند بی بی جس نے مغل فوج کو ناکوں چنے چبوائے تھے یہاں کی حکمران تھی۔ یہاں کا اسلامی فن تعمیر ہر سیاح کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
علائو الدین خلجی نے 1309ء میں جب اوازنگل کو فتح کیا تو یہاں کے مال غنیمت میں اس کو مشہور عالم کوہ نور ہیرا بھی ملا۔ علائو الدین کے ایک سپہ سالار ملک کافور نے سلطان کو کہا کہ یہ ہیرا انتہائی منحوس ہے اور یہ جس کی بھی ملکیت میں جاتا ہے وہ ہمیشہ مصیبت میں مبتلا رہتا ہے۔ جتنا عرصہ یہ ہیرا سلطان کے پاس رہا اس کو ایک دن بھی سکون میسر نہ آیا۔ سلطان کے حقیقی بھتیجے آگت خان نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اس کے بھائی عمر خان نے بغاوت کی۔ حاکم دہلی حاجی مولا نے بغاوت کی۔ سلطان کے 20سالہ دور حکومت میں علائو الدین نیم پاگل ہو گیا ۔
اس وقت اس ہیرے کا کوئی نام نہ تھا اور یہ بالکل ناترا شیدہ تھا ۔ اس کے بعد یہ ہیرا خاندان تغلق اور لودھی میں پہنچا اور جب ابراہیم لودھی کو بابر نے شکست دی تو آگرہ میں اس کی ماں نے یہ ہیرا ہمایوں کی نذر کیا۔ یہی ہیرا تھا جسے ہمایوں کی بیماری کے وقت امراء نے صدقہ دینے کی صلاح دی تھی۔ اس زمانے میں اس ہیرے کا وزن پائو بھر کے قریب تھا۔ یہ جس طرح کان سے نکلا تھا اسی طرح ناتراشیدہ حالت میں پڑا تھا۔ صدیاں گزر گئیں کسی نے اس کو تراشنے یا ترشوانے کی طرف توجہ نہ دی۔
1628ء میں شہنشاہ شاہ جہاں نے تمام جواہرات نکلوا کر ان کی ترتیب کرائی اور ان کو کام میں لانے کی طرف متوجہ ہوا۔ چنانچہ اس ہیرے کو ترشوا کر تین ٹکڑے کئے گئے۔ ایک کا نام کوہ نور اور دوسرے کا نام کوہ طور جبکہ تیسرے ٹکڑے کا نام کسی جگہ نہیں ملتا۔ شاہ جہاں نے تخت طائوس کے گرد موتیوں اور سونے کے دو مور بنوائے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بیش قیمت موتی تھے لیکن چھاتیوں میں کوہ نور اور کوہ طور جڑوائے تھے۔ ان دونوں ہیروں کو فرانس کے جوہری ٹریوبز نے 1665ء میں دیکھا تھا۔ اس وقت کوہ نور کا وزن 280 گرین اور کوہ طور کا وزن 194گرین تھا۔
1839ء میں نادر شاہ نے ہندوستان پر چڑھائی کی اور تخت طائوس کو لے گیا۔ نادر شاہ کی وفات پر یہ ہیرا اس کے سپہ سالاراحمد شاہ ابدالی کے ہاتھ آیا اور وہ اسے لے کر کابل چلا گیا۔ جب کابل میں خانہ جنگیاں شروع ہوئیں اور شاہ شجاع شکست کھا کر 1809ء میں پنجاب چلا آیا تو یہ ہیرا بھی اس کے پاس تھا۔ اسی ہیرے کی خاطر رنجیت سنگھ نے اس کی بہت خاطر تواضع کی اور چند روز بعد رنجیت سنگھ نے ہیرا طلب کیا لیکن شاہ شجاع ٹالتا رہا۔ اسے معلوم ہو گیا کہ ہیرا شاہ شجاع کی پگڑی میں ہے تو اس نے بھائی بندی کا بہانہ کرکے پگڑیاں بدلوانے کے بہانے اس سے پگڑی سمیت ہیرا لے لیا۔
1850ء میں انگریزوں نے راجہ رنجیت سنگھ کے جانشین دلیپ سنگھ کو معزول کرکے پنجاب کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کا کل مال و اسباب ضبط کر لیا۔ اس ضبطی میں کوہ نور بھی ان کے ہاتھ لگ گیا اور گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی نے اسے ملکہ وکٹوریہ کو تحفتاً بھیج دیا۔1851ء کی نمائش میں یہ ہیرا پبلک کو دکھانے کی غرض سے رکھا گیا۔
اس کے ساتھ کا ٹکڑا جو کوہ طور کہلاتا تھا گم ہو گیا تھا اور بڑے عجیب طریقے سے ملا۔ جب کوہ نور انگلستان میں پہنچا تو اس کی ایک سطح بالکل سپاٹ تھی۔ روس میں بھی ایک ہیرا ایک صدی پہلے آ چکا تھا جس کی سطح سپاٹ تھی۔ سطح کا ہموار ہونا قدرتی حالات میں ناممکن تھا اور یہ عمل تراش کر ہی کیا جا سکتا تھا۔ پس جو ہریوں نے اس خیال سے دونوں ہیروں کو ملا کر دیکھاتو دونوں ایک دوسرے پر ہموار بیٹھ گئے۔ ان کو ملانے پر ایک کونہ خالی رہتا تھا۔ اس لئے اس تیسرے ٹکڑے کی تلاش شروع ہوئی۔ بالآخر دنیا بھر کے خزانوں کی تلاش کے بعد یہ ٹکڑا شاہ ایران کے خزانے میں مل گیا۔ تحقیقات پر معلوم ہوا کہ یہ ہیرا بھی نادر شاہ کے ساتھ ہی دہلی سے آیا تھا۔ ان تینوں ہیروں کی آب و رنگ اور دوسرے طریقوں سے پہچان کر لی گئی تو ایک جنس ہی نکلی اور مجموعی وزن اس ہیرے کے برابر نکلا جو ملک کا فور دکن سے لایا تھا۔
کوہ طور:یہ مشہور کوہ نور ہیرے کا ایک ٹکڑا تھا۔ جب شاہ جہاں نے کوہ نور کے تین ٹکڑے کرائے تو ایک کا نام کوہ نور اور دوسرے کا نام کوہ طور رکھا گیا۔ تیسرے کا نام معلوم نہ ہو سکا۔ان سب میں کوہ نور بہت مشہور ہے۔ یہ دونوں ہیرے ایک ہی وقت میں دہلی سے نکلے۔ جب نادر شاہ نے دہلی کو لوٹا تو وہ کوہ نور کو تخت طائوس سمیت ایران لے گیا۔ نادر شاہی ہنگامے میں ایک فرانسیسی سپاہی نے جو مغل فوج میں شامل تھا کوہ نور پر قبضہ کر لیا اور اس کو لے کر مدراس بھاگ گیا اور ایک جہاز کے کپتان کے پاس اسے 30ہزار روپے میں بیچ دیا۔ کپتان نے اسے ایک لاکھ 80ہزار میں ایک انگلستانی یہودی کے ہاتھ بیچ دیا۔ جب یہ خبر خواجہ رافیل اصفہانی کو پہنچی جو ایک ارمنی سوداگر تھا تو وہ اس کو انگلستان سے خرید لایا اور اسے ایمسٹرڈیم میں ایک گرانقدر نفع لے کر بیچ دیا۔
جنوری1778ء میں اسے امیر اورلاف نے روسی ملکہ کیتھرائن روم کیلئے خرید لیا۔ ملکہ اس سے ناراض تھی اور وہ اس کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ میر اور لاف نے خواجہ رافیل کو اس کی قیمت ساڑھے تیرہ لاکھ روپے نقد اور 5ہزار روپیہ ماہوار تاحیات پنشن ادا کی۔ ملکہ اس ہیرے کو پا کر بہت خوش ہوئی اور عصائے شاہی میں اس کو جگہ دی۔ اس وقت سے اس ہیرے کا نام ''الماس اور لاف‘‘ہو گیا۔
جب روس میں انقلاب آ گیا تو تمام شاہی جواہرات کے ساتھ یہ ہیرا بھی گم ہو گیا ۔ جب جوہریوں نے کوہ نور کی سپاٹ سطح کا ملاحظہ کیا تو ان کو خیال گزرا کہ اس قسم کی سطح صرف کاٹ کر حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ کہ اس قسم کا دوسرا ٹکڑا بھی دنیا میں موجود ہے۔ چونکہ بڑے بڑے ہیروں کا دنیا میں سب کو پتہ ہوتا ہے اس لئے اس کے دوسرے ٹکڑے کی تلاش شروع ہوئی۔ چنانچہ روس میں الماس اور لاف مکمل طور پر کوہ نور کا تراشیدہ حصہ ثابت ہو گیا اور اس کا اصل نام کوہ طور بھی مل گیا۔ اسی طرح تیسرا ٹکڑا بھی شاہ ایران کے خزانوں سے دستیاب ہو گیا اور اس طرح یہ ہیرا مکمل ہو گیا۔
عبدالوحید متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،تحقیقی مضامین لکھنے پر گرفت رکھتے ہیں،ان کی تحریریں متعدد اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔