دریائے نیل اس کا اورقدیم تہذیب کا گہرا تعلق ہے
اسپیشل فیچر
دنیا میں قدیم تہذیبوں کے آثار زیادہ تر مختلف دریائوں کے کنارے پائے گئے ہیں۔ جنوب مغربی ایشیا میں دجلہ اور فرات، چین میں دیرائے نیگیزئے زی اور برصغیر پاک و ہند میں دریائے سندھ کے کنارے قدیم تہذیبوں کے آثار ملتے ہیں۔ گویا دریا اور تہذیب کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اسی طرح دریائے نیل اور مصر کا بھی آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔
دریائے نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ اس دریا کا منبع برونڈی میں دریائے کا گیرا کی شاخ ''لوی رونز‘‘ (Lavironzo)ہے۔ یہ دریائے مشرقی وسطیٰ افریقہ کے آخری سرے پر بحیرہ روم سے نکلتا ہوا شمال کی جانب 6671 کلو میٹر (4145میل) تک بہتا ہے۔ یہ جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا جھیل وکٹوریہ میں جا کر شامل ہوتا ہے اور آخر کار بحیرہ روم میں جا کر گرتا ہے۔ یہ 11لاکھ مربع میل رقبے کو سیراب کرتا ہے۔
دریائے کا گیرا برونڈی کی پہاڑیوں سے بہتا ہوا روانڈا اور تنزانیہ کو عبور کرتا ہے اور پھر وسیع و گہری جھیل وکٹوریہ میں گر جاتا ہے اور اس جگہ سے دریائے نیل صحیح معنوں میں برآمد ہوتا ہے۔
یوگنڈا کا شہر ''جنجہ‘‘ (Jinja)وہ مقام ہے جہاں دریائے نیل جھیل وکٹوریہ سے نکلتا ہے۔ اس جگہ دریا400میٹر (1312فٹ) چوڑا ہے۔
جیسے جیسے یہ دریا جھیل بوگا اور جھیل موبوتو(سابقہ البرٹ) سے بہتا ہوا سوڈان کے میدانوں تک پہنچتا ہے تو اس بارے راستے میں مختلف مقامات پر اس دریا کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں سے دریا کے بہائو میں کمی آ جاتی ہے اور وہ مختلف شاخوں اور نہروں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
جھیل وکٹوریہ کے بعد دریائے نیل کی گزر گاہ کا اکثر حصہ پہاڑی ہے اس لئے جھیل موبوتو تک پہنچتے پہنچتے راستے میں کئی آبشاریں بن جاتی ہیں۔ جھیل موبوتو کے بعد کی گزر گاہ میدانی ہے۔
یہاں دریائے پھیل جاتا ہے اور کئی جھیلیں بناتا ہے۔ جھیل نو کے قریب یہ بحرالغزل سے مل جاتا ہے اور یہاں سے لے کر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم تک اسے ''سفید نیل‘‘(نیل الابیض) کے نام سے پکارتے ہیں۔
خرطوم کے مقام پر سفید نیل ایتھوپیا کے جنوب مشرقی پہاڑوں سے آنے والے معاون دریا نیلا نیل (نیل ازرق(Blue)میں ملتا ہے جو شمال مغربی ایتھوپیا کی جھیل تانا کی طرف بڑھتا ہے اور یہاں پر دریائے نیل 5905فٹ کی بلندی پر 1368کلو میٹر (850میل) تک بہتا ہے۔
خرطوم سے 200میل شمال سے کالا نیل (نیل اسود) بھی اس سے آ ملتا ہے۔ وادی حیفہ سے یہ دریا مصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہ دونوں دریا مل کر دریائے نیل کی طغیانی کا باعث بنتے ہیں۔
دریائے اتبارا(کالا نیل) میں شامل ہونے کے بعد دریائے نیل نیوبن کے ریگستان میں 2700کلو میٹر (1678میل) تک بہتا ہے اور مصر کی سرحد تک پھیلے ہوئے انگریزی کے حرف (S) کی شکل کا ایک خم بناتا ہے۔
جنوبی مصر میں خرطوم سے اسوان تک دریائے نیل کا پاٹ تنگ ہو جاتا ہے۔ نیل میں تقریباً ایک ہزار میل تک جہاز رانی ہو سکتی ہے۔ نیل کا ڈیلٹا تقریباً ایک سو میل چوڑا ہے جو بہت زرخیز ہے۔ مصر اور ملحقہ علاقوں کی پیداوار اور خوشحال کا دارومدار نیل پر ہے۔
روس کی مدد سے مصر نے اسوان ڈیم تعمیر کیا۔ یہ ڈیم 111میٹر (364فٹ) اونچا اور دو میل چوڑا ہے۔ اس کے پیچھے مشہور جھیل ناصر ہے جو انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی دنیا کی سب سے لمبی جھیل ہے۔
اس کی لمبائی 480کلو میٹر (298 میل) ہے جو شمالی سوڈان تک جاتی ہے۔ جھیل ناصر کی وجہ سے بہت سے آثار ِقدیمہ مستقل طور پر زیر آب آ گئے لیکن ان میں سے بعض جن میں مشہور مندر ابو سمبل بھی شامل ہے جھیل کی سطح سے اونچا کر دیا گیا۔
زمانہ قدیم میں لوگ سوال کرتے تھے کہ نیل کا منبع کہاں ہے؟ اس کے بارے میں بڑی پراسرار کہانیاں مشہور تھیں۔ دوسری صدی عیسوی میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دو جڑواں جھیلیں ہیں جو چاند کی پہاڑیوں سے نکل کر آتی ہیں۔ آخر19ویں صدی میں اس حقیقت کو تلاش کر لیا گیا۔
جان ہینگ اسپاک نے 1858ء میں جھیل وکٹوریہ دریافت کی اور 1861ء میں اسے نیل کی مناسبت سے شناخت کیا۔ سیموئیل بیکر نے جھیل موبوتو دریافت کی۔ ہنری مورٹن سیٹنلے نے اپنے دو سفروں کے دوران جھیل ایڈورڈ اور ریوون راوی کے پہاڑ دریافت کئے۔
یکم اپریل 2006ء کو برطانوی و نیوزی لینڈ کے ماہرین نے دریائے نیل کا منبع تلاش کر لیا۔ مصر سے سفر شروع کرنے والے دونوں ممالک کے ماہرین نے 80دن کی جستجو کے بعد دریائے نیل کا منبع راوانڈا میں تلاش کر لیا۔ تین ماہرین نے80دن کے طویل سفر کا آغاز مصر میں اس مقام سے شروع کیا جہاں دریائے نیل سمندر میں گرتا ہے۔
یہ ماہرین مصر سے سوڈان، پھر سوڈان سے یوگنڈا اور وہاں سے جھیل وکٹوریہ کراس کرتے ہوئے تنزانیہ پہنچے۔ تاہم انہیں دریائے نیل کا منبع روانڈا میں ملا۔ تین کشتیوں میں سوار ان ماہرین نے 6007 کلو میٹر (4163میل) کا فاصلہ طے کیا اور 5ملکوں سے گزرے اور روانڈا کے گہرے جنگلات میں دریائے نیل کا منبع تلاش کر لیا۔