دنیا کا مہلک ترین ہتھیار
اسپیشل فیچر
ماضی کی بہت ساری ایسی ایجادات ہیں جن کے بارے میں نہ لوگ بات کرتے تھکتے ہیں اور نہ ہی سننے والے سن کے تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔ ان ہی ایجادات میں سے ایک ایجاد کلاشنکوف بھی ہے۔ کلاشنکوف جو '' اے کے 47‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے کوسوویت ماہرِ ہتھیار میخائل ٹی کلاشنکوف نے اپنے نام سے پیٹنٹ کروایا۔ اے کے 47 سے مراد آٹومیٹک کلاشنکوف 1947 ہے۔ تاریخ کی سب سے وافر مقدار میں بنائی جانے والی بندوق کا تمغہ بھی کلاشنکوف کے سر ہی جاتا ہے۔ اس سے قبل بہت سی آٹو میٹک بندوقیں سکیورٹی اداروں کے استعمال میں رہیں ۔پراس وقت جو بھی آٹومیٹک بندوق ہوتی یا تو وہ ایسی بھاری بھرکم ہوتی کہ اسے اٹھا کردوڑنا ناممکن ہوتایاان کا ری کوائل کا دورانیہ کافی زیادہ ہوتاتھا۔ ایسے میں میخائل ٹی کلاشنکوف کی جانب سے بنائے گئے اس ڈیزائن کو سوویت ملٹری کی جانب سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور کلاشنکوف بیسویں صدی کی سب سے مشہور رائفل مانی گئی۔
کلاشنکوف بہت سے ممالک کی فورسزاور انتشار پسند عناصر دونوں میں بے پناہ مقبول ہوئی اور 70ء کی دہائی میں کلاشنکوف دہشت کی علامت سمجھی جانے لگی۔شر پسندوں اور کلاشنکوف کا بندھن بھی 70ء کی دہائی میں مضبوط ہوا جب دہشتگردی کی ہر کارروائی میں کلاشنکوف کا استعمال سامنے آنے لگا۔ دہشتگردوں نے پاکستان کے خلاف محاذ کھڑا کیا تو ان کی جانب سے بھی کلاشنکوف کا استعمال کیا گیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ عسکریت پسندوں نے کلاشنکوف عراق سے حاصل کی اور اسے اپنی کارروائیوں میں استعمال کیا۔
کلاشنکوف کے کلچر کو میڈیا نے بھی پروان چڑھا یا، فلموں میں رعب کا اظہار کرنے کیلئے اداکاروں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف دکھانا اور فلموں کے پوسٹرز پر کلاشنکوف کی تصویر لگانا اس بات کا ثبوت تھا کہ کلاشنکوف دہشت کی علامت بن چکی ہے۔ میڈیا کی اس تشہیر نے کلاشنکوف کے استعمال کو مزید بڑھا دیا پہلے تو کلاشنکوف کا استعمال شر پسند گروہ کی جانب سے کیا جاتا تھا پر میڈیا سے متاثر ہو کر کلاشنکوف کو لاہور اور کراچی کی جامعات میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔ جامعہ کراچی میں طلبا کی جانب سے متعدد بار کلاشنکوف کا استعمال کیا گیا۔
جدید دور میں کلاشنکوف کو عام کرنے میں افغان جنگجوحکمت یار کا بہت اہم کردار ہے۔ وہ اس تلاش میں تھے کہ کوئی ایسا ہتھیار ہو جو چلانے مین آسان ہو اور پائیدار بھی ہو تو کلاشنکوف سے بہتر کوئی ہتھیار اس وقت موجود نہیں تھا۔ حکمت یار کا چھوٹا سا تعارف یہی ہے کہ وہ کابل یونیورسٹی میں ایک یوتھ ونگ کا لیڈر تھا اور اسے پہلی مرتبہ 1970 میں قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ تاریخ میں بہت سے نام چاہے وہ سیاست کے شعبے سے وابستہ ہوں یا سماجی و مذہبی ، تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی نامور شخص کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا اس کی تحقیق نے یہی ثابت کیا کہ اس قتل میں کلاشنکوف کو استعمال کیا گیا ہے۔ اب اس جدید دور میں بہت سے جدید ہتھیار آچکے ہیں جو کلاشنکوف سے کہیں زیادہ طاقت اور جدت رکھتے ہیں پر کلاشنکوف کی پیدا کردہ دہشت اب بھی پوری دنیا پر قائم ہے۔ چاہے وہ عالمی جنگیں ہوں یا ملکی خانہ جنگیاں عسکری محافظ ہوں یا شر پسند عناصر اب بھی پائیداری کے نام پر کلاشنکوف کو اولین ترجیح مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں کلاشنکوف کے لائسنس پر تا حال پابندی ہے پر پھر بھی اس کا استعمال اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ کلاشنکوف ہو یا کوئی بھی جدید ہتھیار اس کا استعمال عام عوام کیلئے ممنوع ہونا چاہیے حال ہی میں کینیڈا میں بل پیش ہوا جس کا مؤقف یہ تھا کہ کوئی بھی عام شخص خواہ وہ اپنی حفاظت کیلئے ہی کیوں نا رکھتا ہو وہ ہتھیار نہیں رکھ سکتا جس سے عام عوام میں ایک اعتدال قائم ہو جائے گا کہ ہتھیار صرف سکیورٹی ادارے ہی استعمال کریں گے ۔
کلاشنکوف سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دنیا بھر میںکسی بھی ہتھیار سے ہلاک ہونے والوں سے زیادہ ہے۔ اسے دنیا کا مہلک ترین ہتھیار تصوری کیا جاتا ہے۔ کلاشنکوف بنانے والے کو اس کی رائلٹی نہیںدی جاتی کیونکہ کلاشکوف کا ڈیزائن مختلف رائفلز کو ملا کر بنایا گیا تھا۔