ٹی بی ایک خطرناک بیماری
اسپیشل فیچر
تپ دق یا ٹی بی ایک مہلک مرض ہے یہ تیزی سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتاہے۔یہ بیماری ہمارے دماغ، انتڑیوں، ہڈیوں اور زیادہ تر پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوتی ہے یہ ہمارے کسی بھی اعضاء میں ہوسکتی ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال ایک کروڑ 70لاکھ سے زائد افراد اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں اور ہر سال 75 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس مرض کے 86 فیصد مریض صرف آٹھ ملکوں میں ہی پائے جاتے ہیں۔ جن میں بھارت، چائنہ، انڈونیشیا، فلپائن، پاکستان ،نائیجریا، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔جبکہ پاکستان کا نمبر اس بیماری میں دنیا بھر میں پانچواں ہے۔ پاکستان میں 5 لاکھ 70 ہزار سے زائد لوگوں کو ٹی بی ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ہسپتالوں میں رپورٹ ہوئی ہیں حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہTBکے اکثر مریض یا تو ہسپتال نہیں آتے یا وہ پرائیوٹ علاج کراتے ہیں اس لئے ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تعداد ڈبل ہو سکتی ہے۔
ٹی بی: ٹیوبر کلوسس یا ٹی بی مائیکو بیکٹیر یم ٹیو بر کلوسس نامی بیکٹیریا سے ہوتی ہے۔ یہ سب سے پہلے پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماری کو پلمنری ٹیوبر کلوسس کہتے ہیں۔ اگر چہ یہ بیکٹیریا تقریباً ہر انسان میں موجود ہوتا ہے لیکن جو نہی یہ بیکٹیریا ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے تو ہماری امیونٹی یا قوت معدافعت کا سسٹم ایکٹویٹ ہو جاتا ہے اور وہ کچھ سیلزجنہیں Macrophagesکہتے ہیں۔ یہ سیلز ان بیکٹیریا کو ٹریپ کر لیتے ہیں اور ان کے اردگرد ایک گھٹا سا بنا کر انہیں گھیر لیتے ہیں اور اسکو پھیپھڑوں میں پھیلنے سے روکتے ہیں۔یہ بیکٹیریا ساری عمر وہیں پڑے رہتے ہیں اسے ڈارون سٹیٹ کہتے ہیں۔ اس سے ہمارے جسم کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا اس کنڈیشن کو لیٹینٹ (Latent)ٹی بی یا ان ایکٹیو ٹی بی کہتے ہیں۔
کچھ لوگوں کی قوت مدافعت انکی میڈیکل کنڈیشن کی وجہ سے کمزور ہو جاتی ہے جیسا کہ شوگر، ایچ آئی وی یا کینسر وغیرہ یا دیگر کسی اور بیماری کی وجہ سے قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے ایسے میں یہ بیکٹیریا پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے جسکی وجہ سے یہ بیکٹیریا ڈارون سٹیٹ سے ایکٹو سٹیٹ میں چلا جاتا ہے اور اپنی تعداد کو بڑھانے لگتا ہے ہمارے امیون سیلز ان بیکٹیریا کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اسی دوران ہمارے پھیپھڑوں کے اپنے سیلز بھی مرنے لگتے ہیں اور پھیپھڑوں میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے سوراخ بن جاتے ہیں اور پھیپھڑے ٹھیک سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کنڈیشن کو ایکٹو ٹی بی کہا جاتا ہے۔ لیٹینٹ ٹی بی سے ایکٹو ٹی بی ہونے کے چانسز 5 سے دس فیصد تک ہوتے ہیں یہ ٹی بی ہمارے پھیپڑوں کو متاثر کرتی ہے اس لیئے اسے پلمبنری ٹی بی کہا جاتا ہے۔ لیٹینٹ ٹی بی کی کوئی علامات نہیں ہوتیں اور نہ ہی جسمانی طور پر کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے انسان بالکل نارمل نظر آتا ہے اسے نہ ہی کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی کھانسی بلغم وغیرہ کی کوئی شکایت ہوتی ہے۔ البتہ ایکٹو ٹی بی کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو یہ ہیں:
علامات: لگاتار کھانسی آنا، کھانسی کے ساتھ بلغم اور خون آنا، کھانسی تین ہفتوں سے زائد عرصہ تک رہے، شام کو ہلکا بخار ہونا، سینے میں درد، بھوک کا نہ لگنا، وزن بتدریج کم ہونا، اسکی اہم نشائیوں میں سے ہے۔
وجوہات:ٹیوبر کلوسس ایک ایسا انفیکشن ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں تیزی سے پھیلتا ہے۔ اگر کسی شخص کو ٹی بی ہو اور کوئی دوسرا شخص اسکے ساتھ رہ رہا ہو تو اسے ٹی بی ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں یا ایسے افراد جنکی امیونٹی کمزور ہو جیسا کہ بیمار افراد یا شوگر اور کینسر کے مریضوں میں یہ بیکٹیریا تیزی سے پھیلتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی جگہ رہتا ہے جہاں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہو ایسے علاقوں میں رہنے والے افراد میں بھی ٹی بی ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ایسی جگہیں جہاں صفائی نہ ہو اور لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہوں اور انہیں ٹھیک سے خوراک بھی نہ مل رہی ہو ایسے افراد میں بھی ٹی بی ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
ٹیسٹ: اگر مریض میں مندرجہ بالا علامات ظاہر ہو رہی ہوں تو اسکے لئے دو طرح کا ٹیسٹ کرایا جاتا ہے1) بلڈ ٹیسٹ : اس میں بلڈ کلچر یا امیون گلو بیلینس(IG)ٹیسٹ ہوتا ہے اس میںIGری ایکشن دیکھا جاتا ہے۔ اگر وہ پازیٹو آتا ہے توTBہونے کے زیادہ چانسز ہیں۔ 2)ٹیسٹ ریڈیو لاجکل ایگزامینیشن ٹیسٹ ہوتا ہے جس میں مریض کا چیسٹ ایکسرے لیا جاتا ہے اور اسے پرکھا جاتا ہے۔ اگر چیسٹ ایکسرے میں کوئی خرابی نظر آتی ہے تو اسے کنفرم کرنے کیلئے سی ٹی سکین کیا جاتا ہے جس میں انو ٹو میکل سٹرکیجر پیڑن کو سٹڈی کیا جاتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہTBہے یا نہیں اسکے علاوہ کچھ اور بھی ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں جیسا کہ سپوٹن ایگزامینیشن یعنی سلائیوا(تھوک) اور بلغم کی جانچ کی جاتی ہے اس سے بھی ٹی بی ہونے کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔
احتیاط اور علاج: پاکستان میں زیادہ اسکا علاج اینٹی بائیوٹک ادویات کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ یہ دوائیں6سے9ماہ تک کھانی ہوتی ہیں اگر کوئی شخص2،3 مہینے بعد اس کورس کو ختم کر دیتا ہے اور دوائیں کھانا چھوڑ دیتا ہے تو اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگلی بار یہ انفیکشن ڈبل ہو کر اور زیادہ بیمار کر دیتا ہے اس لئے مریض کو تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ چھ سے نو ماہ تک ادویات استعمال کرے۔روزانہ کئی بار ہاتھ دھونا چاہیے، اپنے کھانے پینے کے برتن الگ رکھنے چاہئیں۔ اپنے کپڑوں کو گھر کے دوسرے افراد کے کپڑوں سے الگ رکھیں۔ رش والی جگہوں پر کم سے کم جاناچاہیے، دھول مٹی اور پلوشن سے بچنا چاہیے۔صحت کو برقرار رکھنے کیلئے صحت مند کھانا کھانا ضروری ہے جیسا کہ پھل سبزی اور سلاد کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ ٹی بی ایک قابل علاج بیماری ہے اگر صحت و صفائی اور علاج معالجہ کا ٹھیک طرح سے خیال کیا جائے تو اس بیماری کو باآسانی ختم کیا جا سکتا ہے۔