کرسٹل میتھ
اسپیشل فیچر
یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ نشے نے ہماری نوجوان نسل جس میں بڑی تعداد سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بچوں کی ہے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ نشے کی اس لعنت میں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہو چکی ہے۔ نئے دور کا یہ نشہ جو ہماری نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اسے '' کرسٹل میتھ ‘‘یا ''آئس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔بحیثیت ایک پاکستانی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آخر وہ کونسے حالات ہیں جنہوں نے میتھ پڑھتی عمر کے بچوں کو کرسٹل میتھ پر لا کھڑا کیا ہے؟
کرسٹل میتھ کیا ہے ؟ : کچھ عرصہ پہلے تک ہیروئن کو ایک خطرناک نشہ سمجھا جاتا تھا لیکن نشے کی دنیا میں پچھلے چند سالوں سے جس نئے نشے کا اضافہ ہوا ہے اس کا نام '' کرسٹل میتھ‘‘ ہے۔ ماہرین کے مطابق کرسٹل یا آئس نامی نشہ '' میتھ ایمفٹا مین ‘‘ نامی ایک کیمیکل سے مل کر بنتا ہے جو شیشے یا نمک کے بڑے دانوں کی شکل میں کرسٹل کی مانندہوتی ہے۔جسے باریک سے شیشے کے ذریعے حرارت دے کر بنایا جاتا ہے۔
شروعات کیسے ہوئی؟ : یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب افغانستان کے ویرانوں میںکثرت سے اگنے والی خود رو جھاڑیوں پر کچھ افغانیوں کی نظر پڑی جنہیں عام طور پر تلف کر دیا جاتا تھا۔ انہوں نے اس پودے بارے اپنے تئیں تحقیق کرنے کا ارادہ کیا۔یہ جان کر ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اسے بین الاقوامی سطح پر '' ایفیڈرا ‘‘ کہتے ہیں جو نشہ آور ادویات میں استعمال ہونے والے جزو '' ایفیڈرین ‘‘ کا بنیادی ذریعہ ہے۔اس کی پیداوار میں اضافہ تب دیکھنے میں آیا جب منشیات کے سمگلروں کے علم میں یہ بات آئی کہ دراصل یہی '' میتھ ‘‘ کا بنیادی عنصر ہیں۔
اس کی اہمیت کااندازہ ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں جا بجا پلاسٹک کے تھیلوں میں سفید رنگ کے کرسٹل میں پائی جانے والی میتھ فیٹامین جو یہاں تو فٹ پاتھوں پر بکتی نظر آتی ہے آسٹریلیا پہنچ کر اس کے ایک سو کلو گرام تھیلے کی قیمت پاکستانی کرنسی میں 40کروڑ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ افغانستان کے جنوب مشرقی ضلع کے دیہاتوں میں پھیلی 500کے لگ بھگ فیکٹریاں روزانہ کی بنیاد پر 3ہزار کلو گرام تک کرسٹل میتھ تیار کر رہی ہیں۔افغانیوں کے نزدیک اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ہر فیکٹری سے اوسطاً ساٹھ سے ستر لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔
منشیات کا گڑھ افغانستان ہی کیوں ؟
افغانستان چونکہ اس وقت تک پوست کاشت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور پوست کی کاشت سے حاصل شدہ افیون کی رسد کے80فیصد حصے کا واحد مالک ہے۔اسی وجہ سے باقی نشہ آور اشیاء کا آغاز بھی یہیں سے ہوتا ہے۔
''ای ایم سی ڈی ڈی اے‘‘جو دنیا بھر میں منشیات کی پیداوار اور اس کے استعمال بارے معلومات اکٹھی کرنے والا ایک مستند بین الاقوامی ادارہ ہے نے گزشتہ سال اپنی رپورٹ میں افغانستان کوخبردار کیاتھاکہ '' افغانستان دنیا میں کرسٹل میتھ کی پیداوار کے لحاظ سے نمایاں مقام حاصل کرتا جا رہا ہے۔ایک غیرملکی ٹی وی کو قندھار کے ایک رہائشی بتا رہے تھے کہ ہمیں علم ہے کہ پوست کی کاشت کے نقصانات زیادہ ہیں لیکن اس کے علاوہ کچھ اور اگا کر پیسہ کمانا مشکل ہے۔ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک کی معیشت جاں بلب حالت میں ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ سمیت عالمی طاقتوں اور اداروں کی جانب سے فنڈز کی فراہمی روکنا ہے۔ چنانچہ ایسے میں کسانوں کے پاس گزر بسر کیلئے واحد راستہ پوست کاشت کا ہی بچتا ہے۔
کون لوگ اس کے عادی بنتے ہیں ؟ : کراچی کے ایک مرکز نفسیات اور منشیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹرہیرا لال لوہانو ایک انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ عام طور پر اس نشے کے استعمال کی تین وجوہات ہوتی ہیں۔ جن میں ذہنی دباؤ سرفہرست ہے۔ بقول ڈاکٹر لوہانو یہ دباؤ طلباء میں عام طور پر امتحان کا دباؤ یا کسی ساتھی سے مقابلے کا دباؤہو سکتا ہے۔ اس کی دوسری صورت شخصیت میں عدم توازن ہے۔جس کے باعث قوت فیصلہ کا یکجا نہ ہونا یا دوسروں کی گفتگو سے بہت جلد متاثر ہونا شامل ہوتا ہے۔ اس کی تیسری وجہ دوستوں کا دباؤ ہے۔ اس کی مثال ڈاکٹر یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر چار دوست منشیات استعمال کرتے ہیں تو پانچواں دوست دباؤ میں آکر خود بخود اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔
استعمال ، اثرات اور علامات: نشہ کرنے والے اسے انجکشن کے علاوہ سگریٹ ، ناک اور زبان پر رکھ کر استعمال کرتے ہیں۔ نفسیاتی امراض کے ماہر اس کی علامات کے بارے کہتے ہیں کہ آئس کے نشے کے بعدانسان اپنے اندر دوگنا زیادہ توانائی محسوس کرتا ہے۔ایک عام شخص 24سے 48گھنٹوں تک بآسانی جاگ سکتا ہے۔ اس دوران انہیں نیند بالکل نہیں آتی۔تاہم نشہ اترنے کے بعد انسان تھکاوٹ ، سستی اور کمزوری محسوس کرتا ہے۔ انسان کا حافظہ وقتی طور پر تیز ہو جانے کے سبب طلبہ اس کا استعمال کثرت سے کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کے مسلسل استعمال سے طبیعت میں چڑچڑا پن اور ڈپریشن روز کا معمول بن جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2005ء سے2016ء کے دوران منشیات استعمال کرنے کے نتیجے میں معذوری کا شکار ہونے والے افراد میں 98فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے ۔
نشے کے سیلاب کو کیسے روکا جائے؟:یہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اس نشے کے استعمال سے دن بدن تیزی سے تباہی کے دھانے کی طرف جا رہی ہے، جہاں ایک طرف ہماری حکومتوں نے آ ج تک اس مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تو دوسری طرف ہمارے والدین بھی اس جرم میں برابر کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنے بچوں پر گہری نظر رکھنے کی بجائے انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔اس سلسلے میں جہاں ایک طرف والدین کو اپنے بچوں پر گہری نظر رکھنا ہو گی وہیں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اور فلاحی اداروں کو حکومت کے ساتھ مل کر نشے کے اس سیلاب کے سامنے آہنی بند باندھنا ہو گا۔