ہسپانیہ(اسپین)میں اسلامی حکومت
اسپیشل فیچر
فتوحات کا دور(711ء تا715ء)
711ء میں عربوں اور بربروں کا ایک مخلوط لشکر، طارق کی سرکردگی میں، جو خود بربر تھا، افریقہ سے ہسپانیہ پہنچا۔ جس مقام پر یہ لشکر اترا تھا، اس کا نام جبل الطارق(جبرالٹر) پڑ گیا۔ مغربی گاتھوں کے آخری بادشاہ راڈرک نے وادی لطہ(وادی برباط) کی جنگ میں شکست فاش کھائی اور اس کی سلطنت کا قصر دھڑام سے زمین بوس ہوگیا۔ مسلمانوں نے قرطبہ اور ہسپانیہ کے دارالحکومت طلیطہ پر قبضہ کر لیا۔ طارق کے بعد 712ء میں اس کا آقا موسیٰ بن نصیر بھی ہسپانیہ پہنچ گیا اور اس نے مدینہ شذونہ، اشبیلیہ، ماردہ اور سرقسطہ فتح کر لیے۔ بہت جلد مسلمان جبل البرانس کے دامن میں پہنچ گئے اور بچے کچھے عیسائی شمال اور مغرب کے پہاڑوں میں چلے گئے۔ پھر مسلمان فرانس میں داخل ہو گئے۔ چارلس مارٹل اور فرینکوں نے انہیں جنگ تو رز میں فیصلہ کن شکست دی۔759ء تک وہ فرانس سے بالکل خارج ہو چکے تھے۔
اُموی قرطبہ میں (756ء- 1031ء)
امیر عبدالرحمن (ء756ء۔788ء) دمشق کے اُموی خلیفہ ہشام کا پوتا تھا۔ اسی نے ہسپانیہ میں اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ عیسائیوں کے ساتھ جزیہ ادا کرنے پر رواداری کا برتائو کیا گیا۔ یہودیوں سے بہت عمدہ سلوک ہوا۔ البتہ عرب اُمراء نے عبدالرحمن کی سخت مخالفت کی۔ باہر سے سپین اور شارلیمن ان کو امداد دے رہے تھے۔
شارلیمن کا حملہ (777ء)
شارلیمن نے حملہ کیا لیکن سر قسطہ کے جوانمردانہ دفاع نے اسے ناکام بنا دیا۔ اس کی فوج کا عقبی حصہ 778ء میں رون کس والس میں کاملاً تباہ کر ڈالا گیا۔ فرینکوں کے ساتھ لڑائیاں اس صدی کے آخر تک جاری رہیں۔ انجام کار شارلیمن نے شمالی ہسپانیہ کو دریائے ابرہ تک فتح کر لیا۔(برشلونہ کی تسخیر 711ء میں ہوئی)
ہشام اور حکم (788ء۔822ء)
عبدالرحمن کے بعد اس کا بیٹا ہشام امیر بنا۔ اس کے عہد میں ہسپانیہ کے اندر رفقہ مالکی جاری ہوئی۔796ء میں اس کا بیٹا حکم تخت امارت پر بیٹھا۔ طلیطلہ(814ء) اور قرطبہ (805ء اور817ء) میں بغاوتیں ہوئیں۔ قرطبہ کے باغیوں کو ہسپانیہ سے نکال دیا گیا۔ وہ پہلے اسکندریہ پہنچے اور وہاں سے جزیرہ کریٹ چلے گئے، جسے انہوں نے دوبارہ فتح کر لیا۔
عبدالرحمن ثانی (822ء۔852ء)
حکم کے بیٹے عبدالرحمن ثانی کے عہد حکومت میں الفا نسودوم والی لیونش(لی اون) نے ارغون اے، ایران گون پر حملہ کیا لیکن شکست کھائی اور اس کی سلطنت تباہ ہو گئی۔ فرینکوں کو بھی قیطلونیہ سے نکال دیا گیا۔ نارمنس سب سے پہلے اسی دور میں سواحل پر نمودار ہوئے۔ طلیطلہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی بغاوت فرو کر دی گئی(837ء) لیکن مسیحیت کے مذہبی جنونیوں کی سرگرمیاں جاری رہیں، خصوصاً قرطبہ میں۔
محمد اوّل(852ء۔886ء)
قرطبہ میں مسیحی سرکشوں کی سرکوبی لیونش جلیقیہ اے (گلیشیہ) اور نبر(نوارا) کی مسیحی ریاستوں کے خلاف وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیاں ہوئیں۔861ء میں ہنبلونہ (پمپی لونا، نوارا کا دارالحکومت) پر قبضہ ہوا۔ محمد اول کے بعد منذر نے دو سال (886ء۔888ء) تک حکمرانی کی۔ پھر منذر کا بھائی عبداللہ چوبیس سال (888ء۔912ء) تک برسر حکومت رہا۔
عبدالرحمن ثالث (912ء۔961ء)
یہ امویان اندلس میں سب سے بڑھ کر قابل اور خاص خداداد صلاحیتوں کا مالک تھا۔ 929 ء میں اس نے خلیفہ کا لقب اختیار کیا، اس طرح بغداد کے عباسی خلفاء کے مقابلے میں اپنی مذہبی برتری بحال کی۔ اس کے عہد حکومت کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں کہ ملک میں امن کی بحالی، نظام حکومت کی تکمیل(مرکزیت) بحری سرگرمیاں، زراعت کا فروغ و توسیع، صنعت و حرفت کی ترقی، قرطبہ( آبادی کا پانچ لاکھ) یورپ کا سب سے بڑا علمی مرکز بن گیا۔ وہاں کاغذ کی تجارت بہت وسیع پیمانے پر پہنچ گئی۔بڑے بڑے کتب خانے اور ممتاز ترین درسگاہیں قائم ہو گئیں۔(طب، ریاضیات، فلسفہ و حکمت، شعر و ادب، موسیقی) یونانی اور لاطینی زبان کی کتابوں کے بکثرت ترجمے کیے گئے۔
مسلمانوں کے درمیان بلند ترین مقام ابند رشد(یورپی اسے Averroesکہتے تھے) نے حاصل کیا۔ (تقریباً 1126ء۔ 1198ء) جو بہت بڑا فلسفی، طبیب اور افلاطون و ارسطو شارح تھا۔ مسیحی متکلمین کا استاذ الاساتذہ بھی وہی تھا۔
اس زمانے تک پرانا طبقہ امراء تقریباً ناپید ہو گیا اور اس کی جگہ دولت مند متوسط طبقے اور جاگیردارانہ سپہ گری نے لے لی۔ مسیحی اور یہودی وسیع روادرانہ حسن سکول سے بہرہ اندوز رہے۔
عبدالرحمن ثالث کے عہد کی جنگیں
عبدالرحمن نے لیونش اور نبرہ کے خلاف جنگیں بھی جاری رکھیں، جو اس کے عہد حکومت کے بڑے حصے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ 955ء میں لیونس کے حاکم اردون ثالث کے ساتھ معاہدہ صلح ہوا۔ اس کے مطابق لیونش اور نبرہ کی آزادی تسلیم کر لی گئی اور اسلامی سرحد دریائے ابرہ پر آ گئی۔ ساتھ ہی لیونش اور نبرہ نے خلیفہ کی سیادت تسلیم کر لی اور خراج ادا کرنے لگے۔957ء میں اردون کے بھائی شنشو نے یہ صلح توڑ دی، لیکن شکست کھائی اور رعایا نے اسے سلطنت سے خارج کردیا۔ 959ء میں خلیفہ نے اسے بحال کر دیا۔
حکم ثانی (961ء۔976ء)
قشتلہ(کیسٹیل) لیونش اور نبرہ کے خلاف لڑائیاں (961ء۔970ء) جاری رہیں، یہاں تک کہ ان کے حاکم صلح پر مجبور ہو گئے۔ ساتھ ساتھ مراکش میں فاطمیوں کے خلاف جنگ،973ء میں فاطمی مراکش سے نکالے گئے اور یہ ملک امویوں کے قبضے میں آ گیا۔
ہشام ثانی (976ء۔1009ء)
اس کے عہد میں اُمیہ خاندان کا زوال شروع ہو گیا۔ تمام اختیارات حکومت محمد بن ابی عامر نے سنبھال لئے اور حاجب المنصور کا لقب اختیار کیا۔ اسے فوج اور نظم و نسق دونوں کی اصلاحات میں امتیازی درجہ حاصل تھا۔ لیونش، نبرہ، قیطلونیہ، ماری ٹانیا کے خلاف کامیاب مہمین، مذہبی اور نسلی اختلافات کو عارضی طور پر روکا جو انجام کار اُموی خلافت کی تباہی کا سبب بنے۔ 1002ء میں المنصور کی وفات پر اس کا بیٹا عبدالملک المظفر مختار سلطنت بنا۔ اس نے بار ہا مسیحیوں کو شکستیں دیں۔ پھر اس کے بھائی عبدالرحمن نے کاروبار حکومت سنبھالا۔ وہ شنشول کے لقب سے مشہور تھا۔ شنشول نے ہشام ثانی کو مجبور کرکے اپنی ولی عہدی کا پروانہ حاصل کر لیا۔ شاہی خاندان کے ایک فرد محمد کی سرکردگی میں قرطبہ کے اندر بغاوت ہوئی۔ ہشام ثانی، محمد کے حق میں دست برداری پر مجبور ہوگیا۔ شنشول کو قتل کردیا گیا۔ اس اثناء میں بربروں نے سلیمان کو خلافت کیلئے نامزد کیا۔ ملک میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔ ہسپانیہ تقریباً بیس چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں بٹ گیا۔ سلطنت میں طوائف الملوکی کا دور دورہ ہو گیا اور مسیحیوں کیلئے اسے دوبارہ مسخر کر لینا سہل ہو گیا۔ ہشام ثالث ہسپانیہ کا آخری اُموی خلیفہ تھا۔ ہشام ثانی 1027ء سے 1030ء تک حکمران رہا۔