چھ صدیوں پر محیط مسلم سلطنت
اسپیشل فیچر
خلافت عثمانیہ جسے Ottoman Empire یا ترکش سلطنت بھی کہا جاتا ہے۔یہ وہ خلافت ہے جسے مسلمانوں کی سب سے لمبی اور وسیع سلطنت کہا جاتا ہے۔ 1299ء سے شروع ہونے والی 620 سال کی یہ حکومت یورپ کے شمال مشرق، مغربی ایشیاء اور جنوبی افریقہ کے اوپر اپنا قبضہ جمائی بیٹھی تھی۔ تین براعظموں پر حکومت کرنے والی اس خلافت میں بلغاریہ، یونان ، ہنگری ، اردن ، لبنان ، اسرائیل، فلسطین ، میسیڈونیا، شام، عرب اور جنوبی افریقہ کے ممالک شامل تھے۔ اپنے عروج پر اس سلطنت نے ان سب علاقوں پر حکومت کی۔
گیارہویں صدی میں سلجوقوں نے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ پرشیا کے آس پاس کے علاقے انہوں نے قبضے میں لے لئے۔ سلجوق سلطنت ایک طاقتور سلطنت سمجھی جاتی تھی لیکن کچھ ہی مدت کے بعدیہ زور آور سلطنت، سلطنت منگول میں بدل گئی۔ 13ویں صدی میں منگولوں نے حملے شروع کئے اور اس سلطنت میں داخل ہو گئے۔ اب سلطنت اتنی طاقتور نہیں تھی اس لئے منگول اس کو ڈھانے میں کامیاب ہو گئے۔اس کی وجہ سے وہاں کے قبیلوں نے اپنی خودمختاری کا فیصلہ کرلیا اور اپنی طاقت کے زورپر مرضی کے علاقوں پر حکومت کرنے کا اعلان کر دیا۔ 13ویں صدی میں اس کی بنیاد اناطولیہ کے جنوب مغرب کے حصے کائی قبیلے کے ایک سردار عثمان غازی نے رکھی۔ تاریخی کتب کے مطابق 1354ء میں عثمانی بالکنز(جسے بالکن پینیسولا بھی کہا جاتا ہے، شمال مشرقی یورپ کے علاقوں میں تاریخی اور جغرافیائی تعریفوں کے ساتھ محیط ہے) کے علاقوں کو فتح کر کے یورپ میں داخل ہوئے۔
عثمان کے بعد اس کی جگہ اس کے بیٹے اورحان غازی نے لی۔ اس نے سلطنت کو وسیع کرنے کا کام شروع کیا۔ اورحان غازی نے بازنطینی سلطنت کی ایک شہزادی سے شادی کی۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس نے یورپ کا ایک بہت مشہور شہر گلی پولی بھی فتح کر لیا۔اورخان غازی کی وفات کے بعد اس کے بیٹے مراد اوّل نے مزیدکئی یورپی علاقے فتح کئے ۔مراد اوّل1389ء کو کصوہ کی جنگ میں شہید ہو گئے۔
مراداوّل کے بعد سلطنت ان کے بیٹے سلطان بایزید اوّل نے قسطنطنیہ کے فتح کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے اور انکرہ کی جنگ میں شہید ہوگئے۔ان کے بعد محمداوّل نے تخت سنبھالا اور محمد اوّل کے بعد مراددوئم نے سلطنت کو یکجا رکھنے کیلئے بہت کوششیں کیں۔ مراد دوئم کے بعد ان کا بیٹامحمد دوئم تخت نشین ہوا۔ محمد ثانی کو فتوحات کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔اس نے1453ء میں بازنطینی سلطنت کے دارالخلافہ قسطنطنیہ کو فتح کیا جس سے بازنطینی سلطنت کا مکمل طور خاتمہ ہو گیا۔اس شہر کوعثمانی سلطنت کا نیا دارالخلافہ بنایا گیا۔ محمددوئم کے بعد بایزید دوئم اس سلطنت کا نیا سلطان بنا۔پھرعثمانی سلطنت کو ایک ایسا حکمران ملا جس نے عثمانی سلطنت کو ایشیاء، افریقہ اور عرب تک پھیلا دیا۔ اس نے شام،عرب اور مصر تک حکومت قائم کی۔ اسی کے دورحکومت میں خلافت عباسی خاندان سے عثمانی خاندان میں منتقل ہوئی۔سلیم اوّل عثمانی سلطنت کا پہلا خلیفہ تھا،ایسا خلیفہ جس کا تعلق عرب سے نہ تھا۔سلیم اوّل کا جانشین سلیمان آیا اور تخت پر بیٹھا۔یہ سلطان اپنے انصاف اور جرمنی کے ایک خاندان سے دشمنی کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔ جب خلافت عثمانی خاندان کے ہاتھ میں آئی تو مکہ اور مدینہ کی ذمہ داری بھی اسی خاندان کو نصیب ہوئی اور اسی نسبت سے سلیمان کو خادم الحرمین شرفین کے لقب سے نوازا گیا۔سلیمان کے دورمیں سلطنت عثمانیہ کی طاقت اور وقار کو عروج حاصل ہوا۔اس کے دور میں سلطنت عثمانیہ سب سے زیادہ مضبوط تھی۔
سلیمان کی موت کے بعد ،سلیم اوّل نے سلطان کی جگہ لی ۔ سلیم دوئم کے بعد عثمانیوں کا اگلا سلطان مراد سوئم بنا۔اس دور میں عثمانیوں کی ایشیاء ،عرب اور افریقہ کے بہت سے علاقوں پر حکومت تھی۔اسی دور میں عثمانیوں کیلئے ایک ایسا موڑ آیا جہاں سے ان کا زوال شروع ہوا۔ اس کے بعد بہت سے عثمانی سلاطین تخت نشیں ہوئے لیکن انہوں نے سلطنت کے لئے کچھ خاص خدمات سر انجام نہیں دیں۔ اب تک حکومتی طاقت باپ سے بیٹے کو منتقل ہو رہی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر سلطان کی موت کے بعد اس کا کوئی طاقتور بیٹا اپنے بھائیوں کو قتل کردیتا تھا۔ سلطان محمد سوئم کا بیٹا سلطان احمد جوان تھا او ر اس کا کوئی اور بیٹا بھی نہیں تھا۔ سلطان سوئم کے بعد سلطان احمد نے بھائیوں کو قتل کرنے کی روایت کو ختم کیا۔ اس نے قوسم سلطان سے شادی کی جو ایک طاقتور خاتون کے طور پر سامنے آئیں اور اس نے سلطنت کے بہت سے اہم فیصلے بھی کیے یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ بہت سے فیصلوں پر اثر انداز ہوئیں ۔
سلطان احمد اوّل جوانی میں ہی انتقال کر گیا اور سلطنت اس کے بھائی مصطفی نے سنبھالی۔ کچھ عرصہ کے بعد احمد اوّل کے بیٹے سلطان عثمان دوئم نے اپنے چچا کے خلاف بغاوت کردی اور سلطان مصطفی اوّل کو تخت سے گرادیا لیکن کچھ ہی عرصے میں عثمان دوئم جینیسریز(عثمانی فوج کا مخصوص دستہ) کے ہاتھوں قتل ہو گیا اور مصطفی دوبارہ تخت نشیں ہو گیا۔اس کی موت کے بعد سلطان احمد اوّل کے دو اور بیٹے تھے۔ سلطان مرادچہارم اور سلطان ابراہیم باری باری تخت نشیں ہوئے۔
مرادچہارم تخت پر بیٹھتے وقت کم عمر تھا اس لئے سلطنت کے زیادہ تر فیصلے قوسم سلطان کیا کرتی تھیں۔ مراد چہارم جب فیصلوں کے قابل ہو بھی گیا تب بھی قوسم سلطان ہی زیادہ تر فیصلے کرتی رہیں۔اس کے بعد سلطان ابراہیم تخت شیں ہوا جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کا ذہنی توازن مکمل طور پر درست نہیں ہے۔اس نے قوسم سلطان کے خلاف بغاوت شروع کر دی اور آخر کار قوسم سلطان نے اسے قتل کروا دیا اور ابراہیم کے بعد اس کا بیٹا محمد چہارم تخت پر بیٹھا مگر یہ بھی فیصلے لینے کے معاملے میں قوسم سلطان پر ہی انحصار کرتا تھا۔اسی حسد میں سلطان کی والدہ نے قوسم سلطان کو قتل کروا دیا۔
اس کے بعد سلطان احمد کے بیٹے تخت پر بیٹھے لیکن کسی میں بھی حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں تھی۔سلطان محموددوئم نے تخت سنبھالا تو بہت سی اصلاحات کیں، فوج کا یونیفارم بھی بدل دیا گیا۔اس محاذ پر سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ایک طرف سلطان عبدالحمید تھا اور دوسری جانب سلطان عبدالعزیز تھا۔سلطان محمود کی وفات کے بعد ترکوں نے بہت سی جنگی شکستوں کا سامنا بھی کیا۔ سلطان عبدالحمید نے قوم پرستی کو روکنے کی ناکام کوشش کی۔ انہوں نے برطانیہ اور فرانس سے تعلقات استوار کئے اور اسی میں روس کے خلاف جنگ کریمیہ بھی لڑی ۔ سلطان عبدالحمید کی وفات کے بعد ان کے بھائی سلطان عبدالعزیز نے سلطنت سنبھال لی۔ان کے بعد سلطان عبدالحمید دوئم نے حکومت سنبھالی اور ان کے دور میں سلطنت عثمانیہ کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ۔اسی دوران پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا اور سلطنت عثمانیہ کو شدید نقصان پہنچا ۔ اسی دوران مصطفی کمال اتاترک نے جمہوریہ ترک کی بنیاد رکھی اور خلافت کا خاتمہ کردیا گیا۔ آج عثمانی خاندان دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور موجودہ دور میں ان کا سربراہ دوندار علی عثمان ہے۔
قرات خوشنود نوجوان لکھاری
اور صحافت کی طالبہ ہیں