میجر عزیز بھٹی شہید کے آخری لمحات
اسپیشل فیچر
11ستمبر کا سورج طلوع ہونے والا تھا۔ دشمن کی طاقت بڑھ رہی تھی۔ میجر عزیز بھٹی نے وائرلیس سے توپ خانے کو پیغام دے کر دشمن کی پوزیشنوں پرفائر کرائے۔ دشمن کو بے پناہ جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ میجر بھٹی نہر کے اوپر کھڑے پوری مستعدی سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ دشمن کی گولا باری سے جوان نذر محمد(جہلمی) شہید ہو گیا۔ میجر عزیز اس کے قریب گئے اور رومال اس کے چہرے پر پھیلا دیا۔ اس وقت صوبیدار غلام محمد میجر صاحب کے قریب آئے اور کہنے لگے : صاحب! پٹڑی کے اوپر آپ بالکل دشمن کی زد میں ہیں،نیچے ہو جائیں۔ میجر بھٹی کہنے لگے: '' یہ درست ہے کہ پٹڑی کے اوپر خطرہ زیادہ ہے، لیکن یہاں اس سے زیادہ اونچی جگہ نہیں ہے، جہاں سے دشمن کا مشاہدہ کر سکوں۔ صوبیدار صاحب! اس وقت وطن عزیز کا تحفظ ہر قابل لحاظ امر سے مقدم ہے۔ اگر جان اس راہ میں کام آئے تو اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے‘‘؟
صوبیدار غلام محمد سے باتیں کر رہے تھے کہ کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل ابراہیم قریشی کا پیغام آیا کہ ایک ضروری کانفرنس کیلئے فوراً فیلڈ ہیڈ کوارٹر پہنچ جائیں۔ نائب صوبیدار شیر دل کو بلا کر کہا میرے واپس آنے تک دشمن پر کڑی نظر رکھیں اور ضرورت کے مطابق فائر کرواتے رہیں۔
کمانڈنگ آفیسر محمد ابراہیم قریشی، میجر محمد اصغر، کیپٹن منیر الدین اور کیپٹن دلشاد کوارٹر ماسٹر، فیلڈ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میجر عزیز بھٹی کی تیز رفتار جیپ ان کے پاس آکر رکی۔120 گھنٹے برکی کے انتہائی نازک محاذ پر تاریخی کردار ادا کرنے والا مجاہد پوری مستعدی کے ساتھ جیپ سے اُترا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ساتھی افسروں کی جانب بڑھا۔ سب نے اٹھ کر میجر بھٹی کو گلے لگایا اور ان کے عظیم الشان کارنامے پر انہیں مبارکباد دی۔ ان کی حیرت انگیز مستعدی، چہرے کے تاثرات اور گل لالہ کی مانند سرخ آنکھیں ان کی بے تاب سرگرمیوں، ان کی بے خواب راتوں اور عسکری تاریخ میں ان کے لاجواب کارناموں کی داستانیں سنا رہی تھیں۔ میجر عزیز بھٹی مجوزہ کانفرنس سے جلد فارغ ہونے کے بعد واپس جانے کیلئے بے قرار تھے، مگر انہیں معلوم ہوا کہ ان کو کسی اہم کانفرنس کیلئے نہیں بلایا گیا بلکہ ان کے کمانڈنگ آفیسر انہیں آرام دلانا چاہتے ہیں۔ کرنل قریشی نے کہا بھٹی صاحب! میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں، آپ نے اس محاذ پر ایک تاریخی جنگ لڑی ہے۔ آپ کے کارنامے حیرت انگیز ہیں۔ آپ نے لاہور کو دشمن کے ناپاک قدموں سے بچا لیا ہے۔ آپ نے مسلسل چھ یوم سے آرام نہیں کیا، آپ کو آرام کی اشد ضرورت ہے۔ میں آپ کی جگہ دوسرا آفیسر بھیج رہا ہوں۔ آپ آرام کر لیں۔
میجر عزیز بھٹی نے سی او کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ''سر! جس احساس اور جذبے کے تحت آپ نے مجھے واپس بلایا ہے، میں اس کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن آپ یقین جانیں، میرے لیے آرام و راحت محاذ پر ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے جوانوں نے اپنے عزم سے دشمن کی کئی گنا زیادہ فوج اور بے پناہ اسلحہ کے باوجود اس کی یلغار کو روکا ہے، مجھے یہ بھی احساس ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی زیادہ فوج نہیں ہے کہ ہر محاذ پر تازہ دم دستے بھیج کر سب مجاہدین کو آرام دلا سکیں۔ میرے لئے یہ امر نا قابل تصور ہے کہ میں اپنے جوانوں کو محاذ پر چھوڑ کر یہاں آرام کرنے بیٹھ جائوں۔ میرے اعصاب بڑے مضبوط ہیں، مجھے کوئی تھکان محسوس نہیں ہو رہی، میں آرام نہیںبلکہ وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنا پسند کروں گا‘‘۔کرنل قریشی، میجر عزیز بھٹی کے دلائل، ان کے جوش جہاد اور ملک و ملت کیلئے جذبہ و ایثار سے بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ بلاشبہ میجر بھٹی کو محاذ سے واپس بلانا ان کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا۔کرنل قریشی اور دوسرے دوستوں سے رخصت ہو کر میجر بھٹی واپس محاذ پر پہنچ گئے۔ جاتے ہی نائب صوبیدار شیر دل سے کہا، صاحب! اب آپ آرام کریں اور میں دشمن کی خبر لیتا ہوں۔ دوسری طرف اس محاذ پر دشمن کو تازہ کمک پہنچ رہی تھی۔ میجر عزیز بھٹی کا قیاس یہ تھا کہ دشمن نہر پر عارضی پل بنانے کی کوشش کرے گا، چنانچہ پٹڑی پر چڑھنے والی دشمن کی ہر پارٹی کا بڑی احتیاط سے خاتمہ کراتے رہے۔
12ستمبر کی سحر قریب تھی۔دشمن نفری اور سامان حرب کی کثرت کے باوجود رات بھر فوجی اہمیت کی کوئی کارروائی نہیں کر سکا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کی کمان میں نہر کے اس کنارے ہمارے جوانوں کی چوکسی اور ہوشیاری بے مثال تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ گزشتہ 6دن کے مقابلوں میں اس محاذ پر دشمن کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا گیا تھا کہ اب وہ نفسیاتی طور پر مرعوب ہو کر ذہنی شکست قبول کر چکا تھا اور اسے پیش قدمی کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ برکی کے اس نازک ترین محاذ پر بھارت کے ایک بریگیڈ فوج کے مقابلے میں صوبیدار عالم زیب کی زیر قیادت 12پنجاب کی ایک پلاٹون سمیت میجر عزیز بھٹی کی کمان میں صرف 148 جوان تھے۔ ان 148 نفوس کے ساتھ انہوں نے بھارت کے ٹڈی دل لشکر کا 148گھنٹے ڈٹ کر مقابلہ کیااور اسے زبردست جانی نقصان پہنچایا۔ مٹھی بھر جان نثاروں کے ساتھ 6دن اور 7راتیں مقابلہ کرتے ہوئے ان کی کمان میں صرف 11جوان شہید ہوئے۔
میجر عزیز بھٹی کو پٹڑی پر چلتے ہوئے برکی سے شمال کی سمت میں ایک پلاٹون نہر کی جانب آتی دکھائی دی۔ وائرلیس سے مسیج پاس کیا، فائر کرایا۔ اس کی زد میں آنے والے کچھ مر گئے اور کچھ بھاگ گئے۔سپیدۂ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ میجر عزیز بھٹی پٹڑی سے نیچے اُتر آئے۔ امان خاں سپاہی سے پانی منگوا کر وضو کیا اور فجر کی نماز ادا کی۔ گرم پانی سے سر منہ دھویا۔ کئی دن بعد بالوں میں کنگھی کی۔ یہ ان کی زندگی کی آخری صبح تھی۔ وہ غیر شعوری طور پر کسی طویل سفر کی تیاری کر رہے تھے۔ صوبیدار غلام محمد کے ساتھ مل کر چائے پی، پیالی رکھ کر اچانک غلام محمد کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہنے لگے: یار! آپ کو پامسٹری میں بڑی دسترس ہے، ذرا میرا ہاتھ تو دیکھیں۔ غلام محمد نے ہاتھ کا معائنہ کرنے کے بعد کہا: '' جناب! آپ کے ہاتھ کی لکیریں دل و دماغ کی اعلیٰ صلاحیتوں کی غماز ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میری قسمت میں شہادت بھی ہے یا نہیں؟‘‘ صوابیدار غلام محمد نے دونوں ہاتھوں کا بغور مشاہدہ کیا اور پوری سنجیدگی سے کہا '' جناب! آپ کی قسمت میں شہادت تو ہے، مگر وقت کے بارے میں کوئی صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا‘‘۔ میجر بھٹی نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا ''صوبیدار صاحب! اگر آپ صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے، تو میں آپ کو بتا دوں۔ میری شہادت دور نہیں ہے‘‘۔
میجر عزیز بھٹی کی زندگی کا آخری سورج طلوع ہو چکا تھا۔نہر کی پٹڑی کے اوپر آئے اور دوربین سے مشاہدہ کرنے لگے۔ دشمن کی طرف سے فائر آ رہا تھا۔ حوالدار میجر فیض علی نے کہا ''سر! فائر آ رہا ہے، نیچے آ جائیں۔ میجر صاحب نے جواب دیا'' نیچے سے مشاہدہ نہیں ہو سکتا، بلا شبہ یہاں خطرہ ہے، لیکن موت و حیات اللہ کی طرف سے ہے‘‘۔ اتنے میں برکی سے نہر کی طرف بڑھتے ہوئے چند ٹینک نظر آئے۔ ان کے پیچھے پیدل فوج بھی تھی۔ میجر بھٹی نے ڈگری دے کر فائر کرایا۔ گولہ نشانے پر نہ پڑا۔ دوبارہ مسیج پاس کیا۔ اس بار گولے ٹھیک نشانوں پر پڑے،دشمن کے دو ٹینک تباہ ہوئے۔ توپ خانے کا انچارج کیپٹن انور فائر کروا رہا تھا، خوش ہو کر کہا: '' ویل ڈن انور‘‘! یہ الفاظ ان کی زبان پر تھے کہ سامنے سے ایک گولا آیا جوان کے قریب گرا ۔پٹڑی پر گردو غبار اٹھا۔ ساتھیوں نے سمجھا کہ میجر صاحب زخمی ہو گئے۔ وہ بھاگ کر آگے بڑھے مگر میجر عزیز بھٹی کو خراش تک نہیں آئی تھی۔ ساتھیوں سے کہا ''آپ فوراً اپنی اپنی پوزیشن لے لیں۔ یہ گولا میرے لیے نہیں تھا‘‘۔ صبح کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔ وہ دوربین لے کر دشمن کا مشاہدہ کرنے ہی والے تھے کہ ایک گولا ان کے سینے سے ٹکرایا،وہ منہ کے بل زمین پر گرے۔ حوالدار میجر فیض علی اور سپاہی امان اللہ دوڑ کر ان کے پاس پہنچے تو فرض شناسی اور شجاعت کا پیکر، قربانی اور ایثار کا مجسمہ اور عسکری تاریخ کا عظیم ہیرو اپنے فرض سے سبکدوش ہو رہا تھا۔ فیض احمد فیض نے شاید ان کیلئے کہا تھا:
لو وصل کی ساعت آ پہنچی
پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے
اور سینے کا در باز کیا
پروفیسر سید امیر کھوکھر اور امر شاہد کی مرتب کردہ کتاب ''1965ء وہ سترہ دن‘‘ سے اقتباس