لاہور کی قدیم حویلیاں
اسپیشل فیچر
کنہیا لال ہندی نے شہر قدیم کے اندر حویلیوں کی کل تعداد چونسٹھ بتائی ہے جن میں آج سوائے چند ایک کے باقی سب دستبرد ِزمانہ کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان حویلیوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، اولین حویلیاں جو عہد مغلیہ کی یاد گار تھیں اور سکھوں کے قبضے میں آئیں۔ دوسرے حصے میں ان حویلیوں کا تذکرہ ہوگا جو عہد سکھی میں تعمیر ہوئیں اور ان کے معماروں نے حسب توفیق ان کے ظاہری خدوخال میں سکھ عہد کا تشخص اجاگر کرنے کی سعی کی۔نواب سعد اللہ خان، شاہ جہاں کا وزیر تھا اس نے اپنی رہائش کیلئے حویلی میاں خان تعمیر کی جس کے تین درجے تھے ایک زنانہ، دوسرا مردانہ اور تیسرا قلعی خانہ۔نواب سعد اللہ خان کی دوسری حویلی ''پتھراں والی حویلی‘‘ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس میں کالا پتھر لگا ہوا تھا۔ یہ حویلی موچی دروازے کے قریب واقع ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بارود کا کارخانہ اس میں لگایا۔ کئی من بارود اس میں ہر وقت بھرا رہتا۔ ایک صبح ایسا دھماکہ ہوا کہ حویلی کی دیواریں اور پتھر پانچ پانچ کوس دور تک جا کر گرے ۔ قریب دو سو افراد کی جانیں تلف ہوئیں۔ چند سال یہ حویلی کھنڈرات کی حالت میں رہی پھر لوگوں نے اس زمین پر آبادی کرلی۔
مبارک حویلی جو تین بھائیوں میر بہادر علی، میر نادر علی اور میر بابر علی نے تعمیر کروائی تھی۔ سکھ عہد کے آخری سالوں میں سردار کہر سنگھ کے زیر تصرف آ گئی۔ اس دوران اس کی عمارات میں بے شمار تبدیلیاں کی گئیں۔ مشرق کی طرف بڑا دروازہ نکالا گیا۔ بڑے بڑے دالان، صحن و عمارات جدید طرز پر بنوائی گئیں۔
وزیر خان نے شاہ عالمی دروازے کے اندر پری محل حویلی تعمیر کروائی۔ اس کے دو درجے تھے ایک زنانہ دوسرا مردانہ۔ سکھ عہد کے اولین دور میں پہلے تو تین سکھ سرداروں نے اس کے پتھر نکلوائے اور فروخت کئے۔ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور آیا تو اس نے اس حویلی میں فوج اور گولہ بارود رکھا۔ انگریزی عہد میں ایک ٹھیکیدار نے اسے خرید کر یہاں سے اینٹیں نکلوائیں اور پھر لنڈا بازار و سرائے کی عمارات تعمیر کروائیں۔
حویلی کلوبائی المشہور حویلی اہلووالیہ جو یکی دروازے کے اندر نواب زکریا خان نے اپنی پسندیدہ مغنیہ کیلئے تعمیر کی تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کے وارثوں سے یہ حویلی چھین کر سردار فتح سنگھ اہلوالیہ رئیس کپور تھلہ کو دے دی۔قدیم عمارات میں ایک ''اندھی حویلی‘‘ ہے چونکہ اس کی مسقف ڈیوڑھی میں بہت اندھیرا رہتا تھا اس لئے اندھی حویلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ شاہ جہاں کے عہد میں نواب وزیر خان کی نظامت کے وقت یہ حویلی ایک امیر ہندو نے تعمیر کروائی۔ سکھ عہد کے وقت اس کے وارث حویلی سے نکل گئے۔ لاہور شہر جب تین سرداروں کے قبضے میں تھا آرائیں خاندان کے تین افراد حویلی پر متمکن ہو گئے۔
نواب زکریا خان کے عہد میں میر جواد نے حویلی میر جواد دہلی دروازے میں تعمیر کروائی، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنڈت گنگارام کو یہ حویلی دی جو اس کا مالیاتی امور کا وزیر تھا۔ اس کی وفات کے بعد دیوان اجودھیا پر شاد کا بیٹا یہاں رہنے لگا۔ اس کے مرنے کے بعد دیوان تیج ناتھ کا بیٹا اس حویلی پر قابض ہو گیا۔مغل عہد کے فرمانروا محمد شاہ کے عہد میں دیوان جسپت رائے اور دیوان لاکھ پت رائے نے اپنی حویلیاں شاہ عالمی دروازے کے اندر تعمیر کروائیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ حویلیاں ملتان کے نواب سرفراز کو رہائش کیلئے دے دی۔ ان حویلیوں سے ملحقہ طویلہ کا نصف حصہ خرید کر کنہیا لال نے اپنی رہائش کیلئے حویلی بنوائی۔ شہر قدیم کے وسطی حصہ چوک رنگ محل کے نزدیک چوک ڈبی اور موتی بازار کے درمیان کا بلی مل نے اپنی حویلی تعمیر کی جو اس وقت (1763-67ء)لاہور کا گورنر تھا۔ مغل عہد کے آخری سالوں میں بیگم پورہ میں بے شمار حویلیاں روسائے شہر نے تعمیر کروائیں۔
رنجیت سنگھ کے عہد کی چار دہائیوں میں تینوں مذاہب کی عمارات مساجد مندر اور گوردوارے تعمیر ہوتے رہے اور امرائے سلطنت نے اپنی رہائش کیلئے حویلیوں کی تعمیر کی۔رنجیت سنگھ کے عہد میں لوہاری دروازے کے اندر مہاراجہ کھڑک سنگھ نے حویلی تعمیر کی اس کے ایک طرف کونے میں مسجد تھی ۔کھڑک سنگھ نے اپنی حویلی کی عمارت میں خم ڈال لیا مگر مسجد کو نہ گرایا ،جب تک زندہ رہا امام مسجد کیلئے دس روپے ماہوار مقرر کئے رکھا۔ انگریزی عہد میں سرکار نے حویلی کو گرا کر اینٹیں اور پتھر فروخت کر ڈالے۔مہاراجہ کھڑک سنگھ کے فرزند نو نہال سنگھ نے موری دروازے کے قریب اپنی حویلی تعمیر کروائی جس میں بڑے بڑے دالان تہہ خانے اور بالا خانے بنائے گئے۔
مستی دروازے کے اندر جہاں چونا منڈی ہے جمعدار خوشحال سنگھ نے وسیع و بلند و بالا حویلی تعمیر کروائی۔اس حویلی کی دیواریں اس قدر بلند اور مضبوط تھیں کہ بقول کنہیا لال گویا قلعہ لاہور کے سامنے دوسرا قلعہ بنا ہوا ہے۔بھاٹی دروازہ کے اندر بازار حکیماں میں فقیر خاندان کے تین بھائیوں سید عزیز الدین، سید نور الدین اور سید قمر الدین نے اپنی حویلی تعمیر کی۔ اس کے کچھ حصے میں آج کل فقیر خانہ میوزیم بنا دیا گیا ہے۔ سکھ عہد کے کشمیر کے گورنر نواب امام الدین خان نے لوہاری دروازے کے پاس ہی اپنی حویلی نواب امام دین تعمیر کی۔ دہلی دروازے کے اندر چوک وزیر خان کے قرب میں سکھ عہد میں حویلی راجہ ناتھ تعمیر کی گئی۔سکھ عہد کی ان حویلیوں کی چار دیواریاں بہت مضبوط قلعہ نما اور بلند ہوتی تھیں جس کا مقصد بیرونی حملہ آوروں کے خلاف دفاعی نظام کو مضبوط بنانا تھا۔ گویا یہ حویلیاں چھوٹے قلعے تھے۔