خلتی جھیل یہ موسم سرما میں برف کا ایک وسیع میدان
اسپیشل فیچر
وطن عزیز پاکستان کو قدرت نے یہ اعزاز وافر مقدار میں عطا کر رکھا ہے کہ یہاں قدرت کی دیگر نعمتوں کے ساتھ ساتھ حسیں اور روح پرور مقامات بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔میدانی علاقے جہاں کی تاریخی عمارات دنیا بھر میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں وہیں ہمارے پہاڑی علاقے قدرتی مناظر ، خوبصورت وادیوں ،آبشاروں اور جھیلوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایسے میں ہمارے شمالی علاقہ جات کے ضلع غذر کی تحصیل گوپس سے چند کلومیٹر کی مسافت پر گلگت چترال شاہراہ پر واقع خلتی نامی گاؤں کے سنگم پر واقع خلتی جھیل سارا سال سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔یہ ایک قدرتی جھیل یوں ہے کہ 1980ء کی دہائی میں ہونے والی ایک قدرتی آفت کے باعث ، جس میں نہ صرف درجنوں انسان لقمہء اجل بن گئے تھے بلکہ ہزاروں مکانات کی تباہی و بربادی کے باعث کثیر تعداد میں لوگ بے گھر بھی ہو گئے تھے۔
قدرتی طور پر وجود میں آنے والی یہ خوبصورت جھیل سطح سمندر سے7ہزار 273فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔لگ بھگ ایک ہزار 510 فٹ چوڑی اس جھیل کی گہرائی اوسطاً 100 فٹ کے قریب ہے۔ یہ جھیل میٹھے پانی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ دسمبر کے شروع ہوتے ہی یہاں کا درجۂ حرات منفی 15 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔یوں یہ جھیل برف کے ایک وسیع میدان کا روپ دھار لیتی ہے جو درجۂ حرارت کے اضافے کے ساتھ ساتھ یخ بستہ ہو کر مزید مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔بادی النظر میں اتنے گہرے پانی کے اوپر برف پر چلنا خطرناک تو لگتا ہے لیکن یہاں بچوں اور نوجوانوں کے لئے کھیل کا کوئی میدان نہ ہونے کے سبب بچے موسم سرما میں اس برفانی میدان پر بے خطر ہو کر دوڑتے نظر آتے ہیںاور یوں بھی یہاں کے مقامی لوگ اسکی مضبوطی کا اندازہ لگاتے ہی اسے کھیل کے میدان میں بدل دیتے ہیں جو یہاں کے باسیوں کے لئے تو تفریح اور کھیل کے میدان کا کردار ادا کرتی ہی ہے ۔ گرد و نواح اور دو ر دراز کے سیاح بھی جوق در جوق یہاں کھینچے چلے آتے ہیں۔چنانچہ برف کے اس میدان پر جا بجا بچے اور بڑے فٹ بال ،آئس ہاکی اور دیگر مقامی کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں جبکہ گرمیوں میں یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔یہ ٹراؤٹ مچھلیوں کا ایک بہت بڑا مسکن ہونے کی وجہ سے شکار کے شائقین کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سردیوں میں ٹراؤٹ مچھلیاں منوں موٹی برف کی اس تہہ کے نیچے آرام کرتی رہتی ہیں۔
دراصل خلتی جھیل کی وجہ شہرت ٹراؤٹ سٹاک کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ گولا غمولی نامی گاؤں کے قریب سے ٹراؤٹ دریائے غذر میں ڈال دی جاتی ہے۔اس طرح ٹراؤٹ کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ وادیٔ گوپس کے ہر علاقے میں پہنچ کر یہاں کے باسیوں کے لئے آمدن اور خوراک کا ذریعہ بنتی ہے۔ یوں آفت کے نتیجے میں وجود میں آنے والی یہ جھیل اب عوام کے لئے رحمت کا باعث بن چکی ہے۔
رواں سال گلگت بلتستان حکومت کے تعاون سے یہاں 28 جنوری سے 30 جنوری تک تین روزہ میلے کااہتمام کیا گیا تھا جس کا مقصد مقامی اور گردو نواح کے لوگوں کو تفریح مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ دور دراز کے سیاحوں کو اس جھیل کی خوبصورتی سے متعارف کرانا بھی تھا۔ برف کے اس منفرد قدرتی میدان پر جہاں آئس ہاکی ، فٹ بال اور دیگر کھیلوں کے مقابلے منعقد کرائے گئے تھے وہیں لوگوں کی تفریح کے لئے مقامی کلچر اور علاقائی موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے سیاحوں اور مقامی لوگوں کو محظوظ بھی کیا گیا تھا۔خلتی جھیل کے اس میلے میں گلگت بلتستان کے علاوہ ہنزہ کی ٹیموں نے بھی حصہ لیا تھا۔ گلگت بلتستان حکومت کے مطابق اس سہ روزہ میلے کے انعقاد کا مقصد دور درازکے سیاحوں کو یہ پیغام دینا بھی تھا کہ یہ خطہ سرمائی سرگرمیوں اور تقریبات کے لئے بھی اتنا ہی اہم اور فعال سے جس قدر موسم گرما میں ۔
اس سہ روزہ میلے کے موقع پر یہاں کے مقامی لوگ ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ شکوہ کرتے نظر آ رہے تھے کہ خلتی جھیل تو ضلع غذر کے تفریحی مقامات کی محض ایک مثال ہے جبکہ اس کے علاوہ اس علاقے میں پھنڈر ، گوپس ، یاسین ، اشکومن اور ایسے پرکشش مقامات ہیں جو حکومتی توجہ کے منتظر ہیں جنہیں تھوڑی سی توجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنایا جاسکتا ہے۔ مقامی لوگ یہ شکوہ بھی کررہے تھے کہ دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ شندور بھی اسی ضلع میں واقع ہے جسے یہ منفرد اعزاز حاصل ہونے کے باوجود بھی وہ مقام نہیں دیا جا سکا جو دیا جانا چاہئے تھا۔چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت غذر سمیت گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات کے ذرائع آمدورفت ، ہوٹل انڈسٹری اور کمیونیکیشن کے انفرا سٹریکچر کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ایک جامع پروگرام مرتب کرے تاکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سیاحوں کی آمد کو پر کشش بنایا جا سکے اور یہی واحد ذریعہ ہے جس سے یہاں کے مقامی علاقوں کو ترقی کی راہ پرڈالا جا سکتا ہے۔