یادرفتگان:عزیزمیاں فن قوالی کا بڑا نام
اسپیشل فیچر
فن قوالی کا ایک بڑا نام عزیز میاںکا بھی ہے، جسے کسی تعارف کی ضرورت نہیںبلکہ ان کا فن ہی ان کی شناخت ہے۔ عزیز میاں قوال نے اپنے زمانے میں جو کلام پڑھا،وہ آج بھی اسی طرح مقبول ہے۔ عزیز میاں نے قوالی کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت بننے والے اس عظیم قوال کی آج 22ویں برسی منائی جا رہی ہے۔
آج بھی جب بات قوالی کی ہو تو عزیزمیاں قوال کو ضرور یاد کیا جاتا ہے،ان کی بارعب آواز ہی نہیں بلکہ شاندار شاعری اور جنون سننے والوں پر وجد طاری کر دیتا ہے۔ قوالی کی دنیا میں شہنشاہ قوال عزیز میاں کا کوئی ثانی نہیں،''اللہ ہی جانے کون بشر ہے‘‘،'' تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے‘‘ جیسی درجنوں قوالیوں کی بدولت شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے اس عظیم قوال کو اپنے منفرد انداز گائیکی کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ عشق مصطفی ؐسے سرشار ان کی قوالیاں سننے والوں کے دلوں کو سرور بخشتی ہیں۔
عزیز میاں 17 اپریل 1942ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام عبدالعزیز تھا اور ''میاں‘‘ ان کا تکیہ کلام تھا،وہ اکثر اپنی قوالیوں میں بھی استعمال کیا کرتے تھے جو بعد میں ان کے نام کا حصہ بن گیا اور عزیز میاں قوال کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آئے اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔ استاد عبدالوحید سے فن قوالی سیکھنے کے بعد عزیز میاں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فارسی، اردو اور عربی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں اور قوالی کے شعبے کا چناؤ کیا۔ اپنے ابتدائی دور میں انہیں '' فوجی قوال‘‘ کا لقب ملا کیونکہ ان کی شروع کی بیشتر قوالیاں فوجی بیرکوں میں فوجی جوانوں کے لئے تھیں۔
ان کی آواز بارعب اور طاقتور تھی لیکن ان کی کامیابی کا راز صرف ان کی آواز نہیں تھی اور وہ نہ صرف عظیم قوال تھے بلکہ ایک عظیم فلسفی بھی تھے۔اردو، فارسی اور عربی میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے والے عزیز میاں اپنے لئے شاعری خود کیا کرتے جبکہ علامہ محمد اقبال اور قتیل شفائی کا کلام بھی بارہا گایا۔ عزیز میاں کو شاعری پڑھنے میں خاص مہارت حاصل تھی جو سامعین پر گہرا اثر چھوڑ جاتی تھی۔ عزیز میاں کی قوالیوں میں زیادہ توجہ کورس گائیکی پر دی جاتی تھی جس کا مقصد قوالی کے بنیادی نکتہ پر زور دینا تھا۔
عزیز میاں کو اپنی قوالیوں میں دینی اور صوفی مسائل پر بحث کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ براہ راست خدا سے ہم کلام ہوتے اور اشرف المخلوقات کی قابل رحم حالت کی شکایت کرتے۔ خدا سے ہم کلام ہونے والی قوالیوں میں وہ زیادہ تر علامہ اقبال کی شاعری استعمال کرتے۔ مثلا عزیز میاں کے مندرجہ ذیل پسندیدہ اشعار پڑھیے:
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
مجھے تو اس جہاں میں بس اک تجھی سے عشق ہے
یا میرا امتحان لے یا میرا اعتبار کر
عزیز میاں قوال اور ان کے ہم عصر قوال صابری برادران کے درمیان قوالیوں کی ذریعے ایک دوسرے پر گولہ باری بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
انہیں طویل ترین قوالی کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، ان کی قوالی '' حشر کے روز یہ پوچھوں گا‘‘ کا دورانیہ ایک گھنٹہ 55 منٹ ہے۔ان کی بیشتر قوالیاں دینی رنگ لئے ہوئے تھیں گو کہ انہوں نے رومانی رنگ میں بھی پذیرائی حاصل کی۔ان کی مقبول قوالیوں میں ''تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے‘‘، ''اللہ ہی جانے کون بشر ہے‘‘، ''نبی نبی یا نبی نبی‘‘، ''میری داستان حسرت‘‘، ''بے وفا تیرا یوں مسکرانا‘‘، ''ہائے کمبخت‘‘، ''''ان کی آنکھوں سے مستی برستی رہے‘‘، ''جنت مجھے ملے نہ ملے‘‘، ''میری آرزو محمدﷺ‘‘
1966ء میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے سامنے یادگار پرفارمنس پر انعام واکرام اور گولڈ میڈل سے نوازا گیا جبکہ حکومت پاکستان نے 1989ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ عزیز میاں کا انتقال6 دسمبر 2000 ء کو ایران کے دارالحکومت تہران میں یرقان کے باعث ہوا جہاں انہیں ایرانی حکومت نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یوم شہادت کے موقع پر قوالی کے لئے مدعو کیا تھا۔
عزیزمیاں نے بھارتی شہر دہلی میں آنکھ کھولی، لاہور میں زندگی گزاری، ایرانی شہر تہران میں جان جان آفریں کے سپرد کی اور وصیت کے مطابق انہیں اولیا کے شہر ملتان میں سپردخاک کیا گیا۔