کارل مارکس کا فلسفہ
اسپیشل فیچر
دنیا میں موجود مختلف معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو شاید کارل مارکس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آج بھی دنیا کے تقریبا ًہر کونے میں کارل مارکس کی طرف سے پیش کیے جانے والے خیالات پر بحث ہوتی نظر آتی ہے۔ کچھ سکالرز اور پڑھے لکھے لوگوں کا طبقہ کارل مارکس کی فلاسفی کا حامی نظر آتا ہے تو کہیں پر کارل مارکس کے خیالات پر کھل کر تنقید کی جاتی ہے۔
کارل مارکس 5مئی 1818ء کو جرمنی کے شہر ٹرائیر میں پیدا ہوئے اور زندگی کا بیشتر حصہ انگلینڈ میں گزارا۔ وہ ایک انتہائی قابل فلاسفر، لکھاری، ماہر معاشیات اور نظریہ ساز بنے۔ سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکیت اور سوشل ازم پر ان کے خیالات انتہائی اہمیت کے حامل بن چکے ہیں۔ دنیا میں موجود بڑی طاقتوں جیسا کہ امریکہ، یو ایس ایس آر، چائنا اور کیوبا میں ان کے نظریاتی خیالات انتہائی اہم مقام رکھتے ہیں۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں انہوں نے معاشی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں پر مبنی ایک نظریاتی تھیوری پیش کی جسے آج مارکسزم کہا جاتا ہے۔ دنیا میں موجود کئی ممالک میں اسی نظریاتی تھیوری کے مطابق سیاسی، معاشی اور معاشرتی آرڈر نافذ العمل ہے۔ یہ آرڈر بنیادی طور پر ورکنگ کلاس اور بورژوا کلاس کے درمیان ایک چپقلش اور لڑائی کی بات کرتا ہے اور محرومیاں واضح کرتا ہے اور اشتراکیت اور سوشل ازم کو سرمایہ دارانہ نظام پر فوقیت دیتا ہے۔
کارل مارکس کا فلسفہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا میں موجود ورکنگ کلاس کی محرومیاں اور امتیاز صرف سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہیں اور اسی نظام کی وجہ سے معاشرتی اور معاشی تقسیم اور ناانصافیاں جنم لیتی ہیں۔ مارکسزم کے مطابق کسی بھی معیشت کو دو طرح کی کلاسز کنٹرول کرتی ہیں، پہلی کلاس اونر شپ کلاس(بورژوا کلاس) اور دوسری کلاس ورکنگ کلاس ہے۔ بورژوا کلاس تمام کاروباری ذرائع کو کنٹرول کرتی ہے، پالیسیاں بناتی ہے اور سارا منافع خود وصول کرتی ہے اور ورکنگ کلاس کو اس منافع میں سے کچھ حصہ دے دیا جاتا ہے۔ کارل مارکس کے مطابق یہی بنیاد لیبر کلاس کا مزید استحصال کرتی ہے کیونکہ جو مزدور اپنی بھرپور جسمانی مشقت کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں اتنی رقم دی جاتی ہے کہ ان کا دو وقت کا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے جبکہ ان کے برعکس بورژوا کلاس جو کہ دفاتر میں بیٹھتی ہے اور محض پالیسیاں بناتی ہے سارا منافع بغیر کسی جسمانی مشقت کے حاصل کرتی ہے۔ کارل مارکس کے فلسفہ کے مطابق یہ معاشی شگاف کسی بھی معاشرے کے سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں میں بھی نظر آتا ہے۔ مارکسزم دلیل دیتا ہے کہ سرمایہ داری معاشی اور سماجی تولید کی ایک شکل کے طور پر غیر منصفانہ اور ناقص ہے۔ سرمایہ داری کی تعریف پیداوار کے ایک موڈ کے طور پر کی جاتی ہے جس کے تحت کاروباری مالکان پیداوار کے تمام ذرائع، کارخانے، آلات اور مشینری، خام مال، حتمی مصنوعات، اور ان کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کے مالک ہوتے ہیں ۔ جبکہ مزدوروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ مزدوروں کو دی جانے والی اجرت اس معاشی قدر سے کم ہے جو ان کے کام سے سرمایہ دار کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ یہ زائد محنت سرمایہ داروں کے منافع کا ذریعہ ہے اور محنت اور سرمائے کے درمیان موروثی طبقاتی کشمکش کی جڑ ہے۔
کارل مارکس کا ماننا ہے کہ پیداوار کی کسی بھی عمل میں مزدوروں کا سرمایہ نہیں ہوتا اور انہیں کسی بھی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ آخر میں حاصل شدہ مصنوعات ناقص ہو سکتی ہیں اور مزدور و مالکان کے درمیان حائل خلیج مزید بڑھ جاتی ہے۔ کارل مارکس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ دنیا میں معاشی مقابلہ بڑھتا چلا جائے گا اور اس بات کا واضح امکان ہے کہ صارفین کو اچھا اور خالص مواد نہ مل سکے کیونکہ جب خاص سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم ہوگی تو نتیجتاً اشیاء کا معیار کم ہوتا چلا جائے گا۔ کارل مارکس کا ماننا تھا کہ جلد ہی سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی بوئے ہوئے بیجوں کی بنیاد پر گر جائے گا کیونکہ جیسے جیسے یہ نظام ترقی کرے گا تو سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے خلاف فرق بڑھتا چلا جائے گا اور نتیجتاً مزدور اپنے مالکان کے خلاف بغاوت کر دیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ نظام گر جائے گا۔ اس انقلاب کی قیادت روشن خیال رہنما کریں گے۔
تاہم کارل مارکس کے فلسفے پر تنقید بھی ہوتی چلی آئی ہے کہ یہ ایک ناقص فلسفہ ہے اور ناقدین دلیل پیش کرتے ہیں کہ کارل مارکس کی پیشگوئیوں کے باوجود بھی سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے ایک بڑے حصے پر رائج ہے اور دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں اسی آرڈر کے تحت کامیابی سے اپنا کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح کچھ ناقدین کا ماننا ہے کہ سوویت یونین، چائنا اور کیوبا جیسے ممالک جنہوں نے کارل مارکس کے فلسفے سے متاثر ہو کر اپنے معاشی، معاشرتی اور سیاسی خدوخال ترتیب دیے وہاں پر آج بھی کسی حد تک ذاتی جائیداد، دولت اور نسلی امتیاز کا تصور موجود ہے۔ کارل مارکس کی تھیوری الفاظ اور خیالات کی قید سے نکل چکی ہے اور آج دنیا میں موجود کئی سکالرز مانتے ہیں کہ امریکہ، چائنا اور روس جیسی عالمی طاقتوں کے درمیان موجود چپقلش اور تناؤ کی وجہ کارل مارکس کے دیئے ہوئے نظریات اور ان پر عمل درآمد کی جستجو ہے۔ مارکس نے روسی فلاسفرز کے ساتھ کم و بیش مستحکم تعلقات رکھے اور زار کی سلطنت کے معاشی اور سماجی حالات میں دلچسپی لی۔ روس میں ان کے نظریات کو کافی سراہا گیا۔ روس میں مارکسزم کو اصل میں متعارف کرانے والا شخص جارجی پلیخانوف تھالیکن مارکسزم کو روسی حالات کے مطابق ڈھالنے والا شخص لینن تھا۔ کارل مارکس کا انتہائی مشہور قول ہے''جمہوریت سوشلزم کا راستہ ہے‘‘ کارل مارکس نے ''ڈیس کیپٹل‘‘ اور ''دا کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ نامی کتابیں بھی لکھیں۔ انہوں نے 14 مارچ 1883ء کو لندن میں وفات پائی۔