یادرفتگان: ظہیر الدین بابر
اسپیشل فیچر
مسلمانانِ ہند کی تاریخ بہت ہی یادگار رہی ہے۔ ہندوستان میں جہاں بہت سی شاندار مسلم سلطنتیں قائم ہوئیں، وہیں سب سے زیادہ لمبے عرصے یعنی تین سو سال سے زائد حکومت کرنے والی سلطنت ''مغلیہ سلطنت‘‘تھی، جس کے بانی ''مرزا ظہیر الدین محمد بابر‘‘ تھے۔ ان کی زندگی بہت سے اہم پہلوؤں کا خاصا رہی ہے۔جو ہمارے لیے بہت ہی سبق آموز ہے۔ بابر 1483 ء میں اندجان ، فرغانہ(ازبکستان) میں پیداہوئے۔ ان کے والد عمر شیخ مرزا وادی فرغانہ کے حاکم اور چغتائی ترک اور امیر تیمور کے خاندان سے تھے اور ان کی والدہ قتلغ نگار خانم کی نسل سے تھیں۔ان کی والدہ انہیں پیار سے ''بابر ‘‘کہتیں جس کا مطلب ''شیر‘‘ہے۔
ظہیر الدین بابر ابھی بارہ سال کے ہی تھے کہ ان کے والد حادثے کا شکار ہوکر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اس طرح انہیں سلطنت کم عمری میں ہی سنبھالنا پڑی۔ اس کے بعد بابر سمر قند بھی فتح کرنا چاہتے تھے لیکن اپنوں کی شورش اور ان کے سخت ترین دشمن شیبانی خان کی وجہ سے انہیں کبھی سمرقند تو کبھی فرغانہ کی ریاست سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یوں ناکامیوں کا سامنا کرتے ہوئے انہیں دربدر ہونا پڑا مگر بابر نے ہار نہ مانی اور انھوں نے طویل جدوجہد کے بعد 1504ء میں بلخ اور کابل فتح کیا اور 1511ء میں قندھار کا علاقہ فتح کیا۔کابل، قندھار، غزنی، باجوڑ اور دیگر علاقوں کی فتوحات کرتے ہوئے بابر نے ہندوستان کا رخ کیا۔ پہلے بابر نے چند چھوٹے حملے کیے، جن کا مقصد یہاں کے حالات جاننا تھا۔ اس وقت یہاں ابراہیم لودھی کی حکومت تھی جو کہ ایک سخت گیر مسلمان بادشاہ تھا۔ بابر کو پنجاب کے گورنر دولت خان لودھی نے حملے کی دعوت دی۔ 1524ء میں لاہور پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد بابر کی شخصی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے ابراہیم لودھی کے امرا ء نے اسے مدد کی پیشکش کی۔
بابر کابل سے سیالکوٹ اورپھر پنجاب کے مغربی علاقوں کو فتح کرنے کے بعد دہلی پہنچے۔ اپریل 1526ء میں ابراہیم لودھی کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ بابر اور اس کی مختصر فوج کے درمیان پانی پت کی مشہور تاریخی جنگ لڑئی گئی۔ جس میں بابر کو فتح نصیب ہوئی،اس جنگ میں بابر نے بہترین حکمتِ عملی اپنائی۔ بابر نے پہلی مرتبہ ہندوستان میں توپ سے بارود نکالنے کی ٹیکنالوجی استعمال کی۔ بابر فاتح کی حیثیت سے آگرہ اور پھر گوالیار میں داخل ہوئے۔ 1526ء میں بابر نے مغل سلطنت کو قائم کیا جو 1857ء تک رہی۔
1527ء میں بابر کا سامنا میواڑ کے حکمران راناسانگا سے جنگ کنواہہ میں ہوا۔ جس میں بابر فاتح ٹھہرے۔اس کے بعد چندیری کا رخ کیا اور اس پر جھنڈا گاڑا۔ ابراہیم لودھی کے بھائی محمود لودھی کو بھی گھاگھرا کے مقام پر شکست دی۔
بابر جب تک وسط ایشیا میں رہے شیبانی خان سے جنگیں رہیںجن سے بابر نے بہت کچھ سیکھا اور یہی ہندوستان کو فتح کرنے کی وجہ بنیں۔
بابر نے اپنی زندگی میں کئی شادیاں کیں،ان کی پسندیدہ بیوی ماہم بیگم تھیں جن سے مغل سلطنت کے دوسرے فرمانروا مرزا نصیر الدین محمد ہمایوں کی پیدائش ہوئی، جبکہ باقی تین بچے وفات پا گئے۔ ہمایوں کی بابر کی جنگوں کے ساتھ جنگی تربیت کا آغاز ہوا۔ بابر نے ہمایوں کو چھوٹی عمر میں ہی بدخشاں کا حکمران مقرر کیا۔ ہمایوں پانی پت اور جنگِ کنواہہ میں بابر کے ساتھ تھے۔ بابر نے افغانستان میں بھی زبردست کامیابیاں سمیٹیں۔ ہمایوں 1529ء میں آگرہ آئے اور پھر انہیں یہاں کے انتظامات سونپے گئے۔
ایک ایسا وقت آیا جب مرزا ہمایوں بیمار ہو گئے۔ صحت یابی کیلئے ہر طرح کی حکمت اپنائی گئی مگر افاقہ نہ ہوا۔ بابر کو ایک شیخ الاسلام نے کہا کہ کوئی صدقہ کیا جائے۔ دنیا کے تمام تر والدین اپنی اولاد کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن جو بابر نے کیا وہ شاید ہی کسی والدین نے کیا ہو۔حالانکہ ان کے اور بھی بیٹے تھے جو ان کی دوسری بیگمات میں سے تھے۔بابر نے یہاں ہمایوں کی صحت یابی کیلئے بطورِ والد اور سلطنت کیلئے بہت سی کوششیں کیں، بابر کی کوشش اور قربانی سے ہمایوں تو ٹھیک ہو گیا لیکن اسی دوران بادشاہ بابر کی طبیعت خراب ہوگئی اور ظہیر الدین محمد بابر بیمار ہو کر 26دسمبر 1530ء کو آگرہ میں خالقِ حقیقی سے جاملے اور دنیا کے سامنے اپنی موت کے کئی سوالات چھوڑ گئے۔ انہیں ان کی وصیت کے مطابق کابل میں دفن کیا گیا۔
بابر ایک بہترین شخصیت کے مالک اور بہترین جنگجو حکمران تھے۔ یہ اگرچہ ظالم بھی تھے لیکن بحیثیت انسان ایک نرم دل کے مالک بھی تھے۔ انہوں نے اپنی فوج، دوستوں اور رشتہ داروں کا بے حد خیال رکھا۔سب کے ساتھ مہربان رہے لیکن ان کی زندگی بے وفائیوں اور دھوکہ دہی کا منہ بولتا ثبوت بھی تھی۔بابر نے پانی پت کے بعد ابراہیم لودھی کے خاندان سے بہترین سلوک روا رکھا مگر ابرہیم لودھی کی ماں بیدہ خاتون نے انہیں جان سے مارنے کی کوشش بھی کی۔
بابر کی تعلیم و تربیت کا آغاز تو اسلامی روایات کے مطابق چار سال کی عمر سے ہو گیا تھا۔ ان کی شخصی تربیت میں ان کی نانی ایسان دولت خان اور والدہ قتلغ نگار خانم کا بڑا ہاتھ تھا۔بابر مرزا نہ صرف تلوار چلانا جانتے تھے بلکہ بچپن ہی سے شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ادب اور مصوری میں بھی اپنا ایک خاص شوق رکھتے تھے۔وہ اپنا روزنامچہ لکھنے کے بھی عادی تھے۔انہوں نے اپنا خاص رسم الخط بھی تخلیق کیا۔ ان کی ایک تصنیف بھی ہے جس کا نام ''تزکِ بابری یا بابر نامہ ‘‘رکھا گیا۔جس میں انہوں نے خود اپنی زندگی کے تمام حالات و واقعات کھل کر بیان کیے ہیں۔ ان کی اس کتاب کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے کہا کہ ''بابر ایک دلکش شخصیت کا مالک اور نشاۃ الثانیہ کے دور کا ایک ممتاز تھا‘‘۔ مشہور ہندوستانی ادیب ملک راج آنند نے بابر نامے کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ''یہ دنیا کی دلکش ترین کتابوں میں سے ایک ہے، اسے مصوروں نے چھوٹی چھوٹی تصاویر سے یوں ہی تھوڑی آراستہ کیا تھا، یہ تو ہم سب کی دولت ہے‘‘۔ ماہر تاریخ دان سٹیفن ڈیل نے اپنی ایک کتاب میں بابر کی نثر کو ''بہترین‘‘ قرار دیا ہے۔ بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کیلئے اپنا وصیت نامہ بھی تخلیق کیا جو اس کے سیاسی نظریے کی مثال ہے اور آج کے حکمرانوں کیلئے بھی۔ یوں وہ اپنے پیچھے ادبی تخلیقات کا عظیم الشان خزانہ چھوڑ گئے۔
بابر شہزادہ تھا ، پھر بادشاہ بھی بنا،ظالم بھی اور طاقتور بھی۔ دربدر بھی ہوا۔ سب کچھ برداشت کیا اور اپنی غلطیوں کو بھی مانا۔ قلم کا رسیا ہونا، نمازی ہونا،رواداری کی صفات کا بھی ہونااور فنا فی اللہ پر یقین بھی رکھنا اس کی خوبیاں ہیں۔بابر نے اتنی بڑی سلطنت کا قیام کرکے اپنی زندگی کو ہم سب کیلئے حیران کن ثابت کیا ہے۔ اگر بطورِ غائر دیکھیں تو ظہیر الدین کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر انسان کی ابتدائی زندگی صحیح اسلامی بنیادوں کے مطابق کی جائے دوسرا انسان پر چاہے زندگی میں کتنے ہی کٹھن حالات آئیں، کیسا ہی ہوجائے لیکن اللہ پر یقین،ہر صورت اپنوں اور اساتذہ کرام کا احترام کرنا اور مسلسل کوشش سے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ کر اپنانام چھوڑاجاسکتا ہے اور تیسرا کہ ضروری نہیں کہ جو انسان ظالم تصور کیا جائے وہ حقیقتاً ویسا ہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اندر سے اللہ کا نیک بندا ہو جیسا کہ بابر کی زندگی سے معلوم پڑتا ہے۔