زبانوں میں دخیل الفاظ کی اصلاحات
اسپیشل فیچر
کسی زبان میں دیگر زبانوں کے الفاظ کا آنا ارتقائی عمل ہے اور ہرزندہ زبان دوسری زبانوںکے الفاظ کوقبول کرتی رہی ہے ۔ زبان ِغیر سے کوئی مقبول لفظ جس کا اپنی زبان میں متبادل ملنا مشکل ہو تو اسے بغیر ترجمہ کیے قدر ے لفظی تبدیلی کے ساتھ اپنا لیا جاتا ہے ۔ ایسے الفاظ عطیہ دہندہ زبان سے وصول کنندہ زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیںاور انہیں ''دخیل ‘‘ الفاظ کہا جاتا ہے ۔ جن قوموں کا سیاسی، مذہبی اور سماجی اختلاط ہو یا کبھی رہا ہو تو ان کے الفاظ ان کی زبانوں میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اردو میں بھی لشکری زبان ہونے کے باعث بے شمار زبانوں کے الفاظ در آئے ہیں ۔عربی ، فارسی، انگریزی اور پنجابی وغیرہ نے اردو زبان پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ اہلِ زبان و ادب نے ایک زبان سے دوسری زبان میں دخیل الفاظ کی ہیئت اور معانی کے لحاظ سے د رج ذیل اصطلاحات وضع کی ہیں۔
مُئورَّد: مُئورَّدسے مراد وہ لفظ جوکسی اور زبان سے لے کر اردو کا بنا لیا گیا ہو۔جب ایک لفظ اردو میں آگیا تو وہ اردو کا ہی سمجھا جائے گا۔ اردو میں فارسی، انگریزی اور عربی کے الفاظ آٹے میں نمک کے برابر نہیں بلکہ نمک میں آٹے کے برابر ہیں ۔ مثلاََ سکول، کالج اور یونیورسٹی انگریزی زبان سے اردو میں مستقل براجمان ہیں حالانکہ ان کے لیے مدرسہ اور جامعہ کے الفاظ موجود ہیں ۔ مُئورد بنائے گئے لفظ کے تلفظ کو ڈونر لفظ کی '' تارید ‘‘کہا جاتا ہے ۔جیسے کپتان انگریزی لفظ captain کی تارید ہے ۔اسی طرح ہندی لفظ '' وچار ‘‘ کی تارید ''بچار ‘‘ہے جس سے سوچ بچار کا مرکب بنایا گیا ۔کچھ احباب اردو سے فرنگی و ہندی الفاظ نکال کر عربی و فارسی کی اصطلاحات شامل کرنے کے چکر میں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے عربی الفاظ کو فارسی لاحقے لگا کر نئے نئے مرکبات بھی بنائے گئے ہیں ۔عربی لفظ '' تابع ‘‘ کے ساتھ دار کا فارسی لاحقہ لگا کر تابع دار اور غرض سے پہلے خود کا فارسی سابقہ لگا کر خود غرض بنا لیا گیا ۔افراط و تفریط سے افراتفری بنا ۔ چونکہ دنیا کی ترقی میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابرہے لہٰذا اردو زبان کے الفاظ بھی دیگر زبانوں میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ہم نے کرکٹ میں '' دوسرا ‘‘ کی اصطلاح دریافت کی تو تمام زبانوں میں اس گیند کو ''دوسرا‘‘ ہی پڑھا اور لکھا جاتا ہے ۔ سنا ہے پنجابی، بنگلہ، ہندی اور اردو زبان کا لفظ '' جُگاڑ ‘‘ بھی اپنی عملی خوبیوں کی وجہ سے دنیا بھر کی زبانوں میں مروج ہونے جارہا ہے ۔
مُعَرَّب : مُعرَّب اس لفظ کو کہتے ہیں جوکسی زبان سے عربی میں شامل کر لیا گیا ہو ۔عربی صورت بنا کر لفظ بدلنا اور عربی کا حصہ بنانے کے عمل کو '' تعریب‘‘ کہتے ہیں۔ جس طرح فارسی لفظ'' پارس‘‘ کو عربی میں فارس کے نام سے قبول کیا گیا۔
پاکستان سے الباکستان،کراچی سے کراتشی ، پیل سے فیل ،چراغ سے سراج، کیبنٹ سے کابینہ جیسے لفظ معرب بنائے گئے۔ لفظ '' فلسفہ ‘‘ یونانی لفظ philosophia کی تعریب ہے ۔
مُفَرَّس : مُفَرس کا مطلب فارسی بنایا گیا ، فارسی انداز میں ڈھالا ہوا ۔دیگر زبانوں کے لفظوں کوفارسی میں شامل کرنے کو''تفریس ‘‘ کہتے ہیں ۔ جیسے میڈم سے '' مادام ‘‘ ۔اکیڈمی سے اکادمی ، ڈھول(ہندی) سے دُہل ، ٹیلی فون سے تلفون ، فادر سے پدر اور ریڈیو سے رادیو وغیرہ ۔
مُہَنَّد : کسی زبان کا لفظ جس کو تصرف ِ لفظی یا معنوی کرکے ہندی بنالیا گیا ہو۔اکثر مُہَنَّد الفاظ اردو میں بھی برتے جاتے ہیں۔ہندی بنائے گئے لفظ کو اصل زبان کے لفظ کی تہنید کہتے ہیں ۔ رپورٹ کو رِپٹ ، لارڈ کو لاٹ اور جاروب کو جھاڑو کہا گیا ۔ترکیب ِ مُہََّد کا مطلب ہے مرکب الفاظ (مرکبِ اضافی ،توصیفی ،عطفی )کا ایک جُز عربی یا فارسی وغیرہ اور دوسرا کسی اور زبان کا ہو۔ جیسے عربی کا لفظ شمع اور پروانہ ملا کر '' شمع وپروانہ، لُطفِ نظارہ، پان دان،مچھر دانی ،کھدر پوش،ڈاک خانہ اور عجائب گھر‘‘ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ عربی میں ہندوستانی لوہے سے بنی میعاری تلوار کو بھی '' مُہَنَّد ‘‘ کہتے ہیں ۔
مُخَرَّب :مُخرَب سے مراد بگاڑاہوا،تخریب کیا ہوا ہے۔یہ ایسے الفاظ ہیں جن کی شکل کسی زبان سے دوسری زبان میں آتے آتے بگڑ گئی ہو۔ نارنج (عربی)، نارنگ(فارسی) اور انگریزی میں اورنج ، الفاظ کی تخریب کی صورتیں ہیں ۔ ایڈمرل عربی کے امیر البحر کا مُخَرَّب ہے۔ فارسی والوں نے یورپ کو بگاڑ کر '' اروپا ‘‘ کر دیا ۔واضح رہے کہ مفرس،مہند اور معرب خود عربی زبان کے جبکہ مُئورَد اردو کا لفظ ہے ۔ اس لسانی عمل کا مثبت پہلو یہ ہے کہ زبانوں کے سرمائے میںاضافہ ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف بولنے والوں پر مفت کا بوجھ منفی پہلو بھی ہے ۔
مُخَفَّف : لفظی آسانی کی خاطر کسی لفظ کو مختصر یا ہلکا کرنا تخفیف کہلاتا ہے ۔کاٹھ ( لکڑی) کا مخفف کٹھ ہے اور اسی سے کٹھ پتلی بنا ۔ اسی طرح ہڑتال دو لفظوں ہٹ اور تال کا مخفف ہے ۔ہٹی سے ہٹ اور تالا سے تال بنا کر ہٹ تال ہوا جو مخفف کے ساتھ مُخرَّب ہوکر ہڑتال بن گیا ۔