فالٹ لائن پر موجود ممالک

اسپیشل فیچر
زمیں کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹس کے ٹکرانے یا سرکنے سے زمین میں حرکت پیدا ہوتی ہے، جسے زلزلہ کہتے ہیں۔ ترکی چونکہ متعدد فالٹ لائنز پر واقع ہے اس لئے وہاں زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ فالٹ لائن، پلیٹوں یا پتھروں کے درمیان ایک ایسا فریکچر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک خلاء پیدا ہوتا ہے جو حرکت کا باعث بنتاہے۔ اس فالٹ لائن پر واقع ممالک میں زلزلے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ آتے ہیں ۔ زلزلوں کی شدت کی پیمائش ریکٹرسکیل پر کی جاتی ہے جو 1935ء میں امریکی سائنسدانوں چارلز ایف رچر اور بینو گٹنبرگ نے تخلیق کیا تھا۔پلیٹوں کی حرکت کے دوران گرم پتھر اوپر کی جانب اٹھتے ہیں اور ٹھنڈے پتھر نیچے کی جانب جاتے ہیں جس وجہ سے ہلچل پیدا ہوتی ہے اور پلیٹیں ایک دوسرے کے اوپر یا نیچے کھسک جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ چاند اور سورج کی کشش ثقل بھی ان پلیٹوں پر پریشر ڈالتی ہے، جس سے اکثر سمندر میں زلزلہ آتا ہے اور سونامی کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ سونامی اتنے خطرناک ہوسکتے ہیں کہ دنیا کی جیوگرافی بھی بدل سکتے ہیں۔ جاپان میں مارچ 2011ء کو آنے والا زلزلہ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ اس زلزلے کی وجہ سے پورا جاپان2011ء میں نارتھ امریکہ کی جانب 2.4 میٹرکھسک گیا۔
ترکی کے زیادہ تر علاقہ اناطولیہ کی ٹیکٹونک پلیٹ پر واقع ہے اور یہ پلیٹ ، یوریشیا،افریقہ اور عرب پلیٹ کے درمیاں میں پائی جاتی ہے۔ترکی میں قدرتی آفات کے لئے قائم کئے جانے والے ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال تقریباً 22ہزار چھوٹے و بڑے زلزلے ریکارڈ کئے گئے۔1999ء کو ترکی کے علاقے ازمیت میں آنے والے زلزلے کو ترکی کی تاریخ کا بدترین زلزلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی شدت 7.4ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ اس کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد17ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن گزشتہ روز آنے والے زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی ہے جو Magnitude کے لحاظ سے اس کو ترکی کا بدترین زلزلہ بناتی ہے۔زلزلے کے شدید جھٹکے ترکی اور شام دونوں ممالک میں محسوس کئے گئے ہیں جبکہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جارہی تھی،ماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
ہماری دنیا میجر اور مائنر پلیٹوں پر مشتمل ہے جس میں 7میجر پلیٹیں ہیں۔ جن کے نام یوریشین پلیٹ، افریقن پلیٹ، انڈو آسٹریلین پلیٹ، انٹارکٹک پلیٹ، نارتھ امریکن پلیٹ، پیسفک پلیٹ اورساؤتھ امریکن پلیٹ ہیں۔ جاپان ان میں سے چار کے جنکشن پر موجود ہے۔ پلیٹیں ایک دوسرے کے اندر یا اوپر یونہی نہیں جاتیں بلکہ اپنے ساتھ بڑے پیمانے پر راکی فارمیشن اور پانی لے کر جاتی ہیں۔ دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق دنیا کی تاریخ میں تین مرتبہ براعظم ایک دوسرے کے قریب آئے اور دور گئے ۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہی 180ملین سال پہلے اس براعظم کے ٹکڑے ہو گئے تھے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ وہ جیوگرافی بنی جو ہمیں آج نظر آتی ہے۔
ویسے تو دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں آتے ہیں۔جن کی اوسط سالانہ تقریباً 2ہزار ہے۔ 2021ء میں صرف ٹوکیو میں پانچ ایسے زلزلے آئے جن کی شدت 5 ریکٹر سکیل سے زیادہ تھی اور تقریباً 20 زلزلے 4سے 5 شدت کے تھے جبکہ 20زلزلے 3شدت کے اور 12معمولی نوعیت کے تھے۔ زمین کی اس قسم کی حرکات کو سیزمک ایکٹیویٹی کہتے ہیں۔
سائنسدانوں نے یہ پیشگوئی بھی کی ہے کہ آئندہ دس سال میں ٹوکیو کو ایک انتہائی خطرناک زلزلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ننکائی ٹرف پھٹنے کا ڈر ہے۔ جاپان میں پیسیفک سمند ر کی طرف ننکائی ٹرف 900 کلومیٹر کا علاقہ ہے، جہاں سیزمک ایکٹیویٹی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جاپانی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ مارچ2011ء میں آئے زلزلے (سونامی) سے زیادہ خطرناک زلزلہ آنے کی امید نہیں ہے۔ وہ جاپان کی تاریخ کا سب سے خطرناک زلزلہ تھاجسے ''دی گریٹ ایسٹ جاپان ارتھ کوئیک‘‘ کا نا م دیا گیا تھا۔ اس زلزلے کی وجہ سے فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ پھٹا اور 20ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ جاپان میں زیادہ زلزلے آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک ''سرکم پیسفک موبائل بیلٹ‘‘ پر واقع ہے جہاں اکثر ہی سیزمک ایکٹیوٹیز دیکھی جاتی ہیں۔
2011ء میں جاپان میں آنے والے زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی وجہ سے زمین کے ایکسز پر بھی اثر پڑا۔ رپورٹس کے مطابق اس زلزلے کے بعد زمین کے ایکسز میں 10سے 25سینٹی میٹر کا جھکاؤ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے ہمارے دن 2مائیکرو سیکنڈ تک چھوٹے ہو گئے تھے۔جاپان بے شک دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے برداشت کرنے والا ملک ہے جبکہ ''رنگ آف فائر‘‘ میں جو دیگر ممالک ہیں ان میںانڈونیشیا، نیوزی لینڈ، پاپویا نیوگینی، فلپائن،امریکہ،چلی،کینیڈا، گوئتے مالا، روس، پیرو، سولومن آئی لینڈ اور میکسیکو شامل ہیں۔ پوری دنیا میں آنے والے زلزلوں میں سے 90 فیصد زلزلے اسی خطے میں آتے ہیں لیکن 40ہزار کلومیٹر طویل ہے۔
تنزیل الرحمن جیلانی نوجوان صحافی ہیں اور
تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں