’’مین آف دا ہول‘‘

اسپیشل فیچر
برازیل میں بولیویا کی سرحد کے مشرقی جانب ریاست رونڈونیا کے علاقے تنارو میں صدیوں سے نسل در نسل آباد قبائل آباد چلے آرہے تھے۔ان قبائل کی سب سے منفرد بات یہ تھی کہ دنیا کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی انہوں نے اپنے طور طریقوں سے نہ تو سمجھوتا کیا اور نہ ہی باقی دنیا کے ساتھ اپنا میل جول رکھا۔ برازیل میں مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم '' سروائیول انٹرنیشنل ‘‘ کے مطابق برازیل میں اس طرح کے مقامی قبائل کی تعداد لگ بھگ 240 کے قریب ہے۔ اس تنظیم نے اس خدشہ کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان قبائل کی بقا کو مختلف مافیاز ، جن میں کسان ،کان کن اور درخت کاٹنے والے شامل ہیں ، سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ کیونکہ برازیل کے جنگلات کے آس پاس ہزاروں ایکڑ زمین جو بنیادی طور پر ان قبائل کی ملکیت ہوا کرتی تھی اور وہ صدیوں سے یہاں آباد چلے آ رہے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان مافیازکا نشانہ بنتے بنتے یہ قبائل اب معدوم ہو چکے ہیں۔اگرچہ یہاں اس مافیا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ برازیل کا قانون اور آئین ہے جو مقامی افراد کو اپنی روائتی زمین پر زندہ رہنے کا پورا پورا حق دیتے ہیں لیکن یہاں پر یہ حقیقت اب کوئی راز نہیں رہا کہ یہاں کا طاقت ور طبقہ ان لوگوں کوقتل کر کے ان کی زمینوں پر قابض ہونا چاہتا ہے ۔چنانچہ اس مافیا کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ برازیل کے مقامی لوگوں کی طرف سے بنائی گئی ایک تنظیم '' فونائی ‘‘ ہے جس کا کام مقامی لوگوں کی حفاظت اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اگرچہ ان میں سے بیشتر قبائل ان مافیاز کی ہوس کا نشانہ بن چکے ہیں یا ان طاقتور گروپوں کے خوف سے کہیں روپوش ہو گئے ہیں تاہم زندہ بچ جانے والے ان قبائلی گروہوں میں ایک ریاست رونڈونیا کے علاقے تنارو کا قبیلہ تھا جو برازیل کے جنگلات کے آس پاس سب سے زرخیز علاقے میں صدیوں سے آباد چلا آرہا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کے باسیوں پر مقامی لوگ حملہ آور ہوتے رہے۔حتی کہ ستر کی دہائی میں جب اس علاقے میں ایک سڑک گزاری گئی تو اس کے بعد اس مختصر سے قبیلے کے لوگوں کی جان مزید خطرات میں گھر گئی۔ جبکہ اس وقت تک کسانوں اور غیر قانونی لکڑیاں کاٹنے والوں کے ہاتھوں اس گروہ کے زیادہ تر لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا ۔اور اب اس قبیلہ کے بچ جانے والے لوگوں کی تعدا صرف سات رہ گئی تھی۔
1995ء میں دولت کے ان پجاریوں کے ہاتھوں اس خاندان کے چھ افراد کے قتل کے بعد اب فقط ایک شخص ہی زندہ بچ گیاتھا۔جس کے بارے مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کہیں گھنے جنگل میں یا روائتی طور پر جانوروں کا شکار کرنے کے لئے کھودے گئے گڑھوں میں چھپ گیا ہو گا۔ یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں سے میل جیل نہ رکھنے کے سبب نہ تو اس قبیلے کا نام آج تک کوئی جان سکا ہے اور نہ ہی ان لوگوں میں سے کسی کا نام۔چنانچہ اس دن کے بعد میڈیا اس تنہا رہ جانے والے شخص کو '' دنیاکا تنہا ترین انسان ‘‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے۔
چنانچہ برازیل کے مقامی لوگوں کی بقا کے لئے بنائی گئی تنظیم ''فونائی ‘‘نے اس تنہا رہ جانے والے شخص کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے 1996ء سے ہی اس پر نظر رکھی ہوئی تھی۔جہاں تک تنظیم کا اس گروہ کے لوگوں سے رابطے کا تعلق ہے تو اس بارے ان کا مؤقف ہے کہ ایسا کرنا ان تنہائی پسند لوگوں کی بقا کے لئے خطرناک بھی ہو سکتا تھا کیونکہ ان لوگوں میں جدید انسانوں کے جراثیم کے خلاف قوت مدافعت نہیں ہوتی اور یہ بڑی آسانی سے زکام اور دیگر وائرل امراض میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔دنیا کا یہ تنہا ترین شخص اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب2018 ء میں مقامی قبائلیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم نے ایک خفیہ کیمرے کی مدد سے اس شخص کی ایک مختصر ترین وڈیو بنائی تھی۔ جس میں اس شخص کو ریاست رونڈونیا میں واقع ایمیزون کے جنگل میں کلہاڑی کی مدد سے لکڑیاں کاٹتے دیکھا گیا تھا۔ ویڈیو بنانے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان کا مقصد لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ '' تنہا شخص ‘‘ زندہ ہے اور اس علاقے میں کسی کو نہ جانے دیا جائے۔ جبکہ اس سے پہلے کچھ قبضہ کرنے والے گروہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس علاقے میں اب کوئی قبائلی نہیں رہا۔
اس سے پہلے 2005ء میں اس شخص کی ایک دھندلی سی تصویراس کی بنائی ہوئی جھونپڑیاں ، تیر اور کلہاڑوں کی کچھ تصاویر منظر عام پر آچکی تھیں تاہم یہ مختصر سی ویڈیو پہلی بار منظر عام پرآئی تھی۔جبکہ بعض مقامی افراد کے مطابق کچھ ہی عرصہ بعد اس شخص نے اس جھونپڑی کو چھوڑ کر بہت سارے گڑھے کھود رکھے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حملہ آوروں کے خوف سے اس نے ان گڑھوں میں پناہ لینا شروع کر دی ہو گی جبکہ کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی تھا کہ ایسے گڑھے عموما ً قبائلی جانوروں کا شکار کرنے کے لئے کھودتے ہیں۔ تاہم اس ویڈیو کے بعد انسانی حقوق کی کچھ تنظیموں نے خوشی کا اظہار کیا تھا کہ یہ شخص زندہ اور صحت مند دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ '' سروائیول انٹرنیشنل‘‘ نامی تنظیم کی فیونا واٹسن کہتی ہیں کہ اس شخص نے بہت ہی تکلیف دہ ادوار دیکھے ہیں اور یقینااس کا نقطۂ نظر یہ ہو گا کہ یہ دنیا ایک خطرناک جگہ ہے۔ گزشتہ سال اگست میں برازیل کی حکومت نے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق ''ایمیزون کے جنگلوں میںایک قبیلے کا تنہا رہنے والا 60 سالہ ایک آخری شخص جس کا آج تک جدید دنیا کے کسی شخص سے کبھی کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔اس شخص کی لاش 23 اگست 2022ء کو بھوسے کے ایک جھونپڑے کے باہر ایک جھولے میں ملی ہے۔اس کے جسم پر کسی قسم کے تشدد کے کوئی نشان نہیں ملے۔تاہم پولیس بھی اسکا پوسٹ مارٹم کرے گی لیکن ظاہری طور پر اس کی موت کو قدرتی کہا جاسکتا ہے۔اس شخص کو ''مین آف دا ہول ‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ اس نے گڑھے کھود رکھے تھے جن میں سے کچھ میں وہ جانوروں کو پھنساتا اور انکا شکار کرتا تھا جبکہ بظاہر کچھ اس نے اپنے چھپنے کے لئے بنا رکھے تھے۔