پہلی عالمی جنگ کی اصل وجہ معاشی بالادستی!

پہلی عالمی جنگ کی اصل وجہ معاشی بالادستی!

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد فضل اللہ


1776ء میں چھپنے والی ایڈم سمتھ کی کتاب ''ویلتھ آف نیشنز‘‘ (The Wealth of Nations)نے اقوام یورپ میں ایک نئی سوچ کو جنم دیا تھا جس کے بعد قوموں کی معاشی ترقی کیلئے باقاعدہ تحقیق کی جانے لگی اور اقوام یورپ معاشی وسائل اور ذرائع کے حصول کیلئے ایک نئے طریقہ سے مصروف عمل ہو گئیں۔ ''بارٹر سسٹم‘‘ کی جگہ بین الاقوامی تجارت و معیشت نے لے لی تھی۔قومیں اپنی تمام ضرورتیں اپنے ہی وسائل سے پوری کرنے کی بجائے ایک یا چند ایک پیداواری صلاحیتوں میں تخصیص کی خواہاں نظر آتی تھیں اور دیگر ضروریات کیلئے عالمی منڈی کی طرف رجوع کرنے لگی تھیں۔ برطانوی استعمار کے پھیلائو کی وجہ بھی یہی نقطہ نظر تھا۔ پہلے پہل تو وہ تجارت کے عمومی مقاصد کیلئے یورپ سے باہر نکلے اور ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ تک جا پہنچے اور وہاں کے سادہ لوح عوام کو اپنا محکوم بنا لیا۔
یورپ کی تمام اقوام تجارت و معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے یورپ کی تنگ سرزمین سے نکل کھڑی ہوئی تھیں اور اس طرح عالمی کھوج اور عالمی پیداواری ذرائع کی تحقیق اور ان سے استفادہ کی سرتوڑ کوششیں جاری تھیں۔ ہر ملک اپنی بیرون یورپ تجارت کیلئے بحریہ کی تشکیل کیلئے کوشاں تھا۔جس ملک کیلئے یہ آسانی سے ممکن نہ تھا تو وہ دیگر ممالک کے بحری جہازوں کے ذریعے اپنے تجارتی کاروان اور قافلے روانہ کر رہا تھا۔ بین الاقوامی تجارت کا رجحان نیا نیا قائم ہوا تھا، جس کے تحت ممالک دنیا بھر کے دور دراز علاقوں کی پیداوار سے اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق اجناس خورو نوش اور دیگر اشیاء ضرورت خرید کرتے اور بدلے میں اپنے ممالک کی تیار کردہ اجناس و اشیاء انہیں فروخت کرتے یا ان سے خریدے ہوئے مال کی قیمت ادا کرتے۔
یورپ کی باہمی جنگوں سے یورپی ماہرین و دانشوروں کو اس بات کا مکمل طور پر احساس ہو چکا تھا کہ جنگ لڑنے کیلئے کسی ملک کی مضبوط معیشت اور مستحکم سفارتی تعلقات انتہائی ضروری ہیں۔ اپنے ارد گرد منڈلانے والے خطرات کے پیش نظر ہر ملک معاشی و اقتصادی طور پر دیگر ہمسایہ ممالک سے سبقت لے جانے کا خواہاں نظر آتا تھا۔ یہ حقیقت واضح ہو چکی تھی کہ معاشی طور پر مستحکم ملک اپنے مد مقابل معاشی طور پر غیر مستحکم یا کم مستحکم ملک پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس طرح معاشی سبقت و استحکام دوسروں کے کمزور اور اپنے ملک کے مضبوط ہونے کی علامت تھی۔بیسویں صدی کے آغاز پر اقوام یورپ معاشی کامیابی کی خواہش میں ایک دوسرے سے مخاصمت کے جذبے سے سرشار تھیں۔ نہر سویز اس لئے انتہائی اہم مسئلہ بن چکی تھی کہ ایشیائی بالادستی قائم کرکے دیگر ممالک کے گزرنے والے بحری جہازوں سے محصول حاصل کیا جاسکتا تھا۔
برطانوی شاہی بحریہ اپنی بلند شان و شوکت اور وسعت کے باعث عالمی تجارت کے تمام بہترین راستوں پر قابض و حاکم تھی۔ دیگر ممالک اس بالادستی سے سخت نالاں تھے، کیونکہ اس طرح اپنی تجارت سے ہونے والی آمدن کا کچھ حصہ برطانیہ کو پیش کرنے کے پابند تھے۔ جو برطانوی معیشت کیلئے بہتر اور ان ممالک کی معیشت کیلئے سخت نقصان دہ تھا۔ فولاد سازی، صنعت سازی، کیمیائی مصنوعات کی تیاری، برقی و معدنی ذرائع سے توانائی کا حصول اور زرعی ترقی کیلئے ہر ملک اپنی اپنی سطح پر کوششوں میں مصروف تھا۔ ان مفادات کے حصول کیلئے یورپی ممالک اپنی تجارت کا دائرہ کار بڑھانے اور ایسے ممالک جہاں سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں، پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔ اس طرح ملکی مفادات کے حصول کیلئے ایک دوسرے پر بھی انحصار کیا جاتا تھا۔ زیادہ طاقتور ممالک اس انحصار سے ناجائز فوائد بھی حاصل کرتے اور مفادات کے حصول میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں باہمی رنجش و تعصب کے جذبات کی آبیاری کا ذریعہ بن کر یورپی ممالک کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کرنے کی وجہ بنیں۔
جرمنی عالمی تجارت میں سبقت لے جانے کی خواہش میں جدید ترین بحری بیڑے کے قیام میں مصروف عمل تھا۔ دوسری طرف جرمنی کے بحری بیڑے کے طاقتور ہونے سے برطانوی سمندری اجارہ داری کو شدید خطرہ تھا۔ اور اسی تشویش اور تعصب نے برطانیہ کو جرمنی کے خلاف میدان کار زار سجانے اور فرانس اور روس کے ساتھ مفادات کے ٹکرائو کے باوجود ہم صف ہونے پر آمادہ کیا۔ یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں کہ برطانیہ ، فرانس اور روس ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے بلکہ اپنے ارد گرد ایک ابھرتی ہوئی معاشی و اقتصادی قوت کو دیکھ کر یہ ممالک سخت پریشان ہو گئے تھے اور کچھ دیر کیلئے اپنی باہمی مخالفتوں کو بھول کر متحد ہو چکے تھے۔
فرانس بیرونی سرمائے کی فراوانی کے باعث دیگر ممالک کو سودی قرضوں کی فراہمی پر اپنی معیشت کو استوار کر رہا تھا۔ روس صنعتی ترقی اور فولاد سازی کیلئے کوشاں نظر آتا تھا۔ جرمنی فولاد سازی، کیمیائی مصنوعات کی تیاری، بھاری مشینری کی تیاری اور برقی پیداوار میں اضافے کے اسباب پر غور کر رہا تھا۔ برطانیہ عالمی سوداگر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ یہ سب اقدامات معاشی و اقتصادی استحکام و ترقی کیلئے روبہ عمل لائے جا رہے تھے اور ان اقدامات کے ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے پر کڑی نظر بھی رکھی جا رہی تھی تاکہ کسی مقابل کے زیادہ طاقتور ہو جانے کی صورت میں حصول طاقت کے جملہ ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکے۔
یورپی ممالک کے مابین ہونے والی جنگیں گزشتہ صدی کے پہلے نصف کی جنگوں کی طرح صرف عددی و علاقائی برتری کیلئے نہیں لڑی جاتی تھیں بلکہ یہ جنگیں عالمی منڈیوں، پیداواری علاقوں اور توسیعی مقاصد کے حصول کیلئے لڑی جا رہی تھیں اور ان سب مقاصد کے حصول سے ایک ہی بنیادی مقصد حاصل ہو سکتا تھا اور وہ تھا معاشی بالادستی!۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
سماجی روبوٹکس!

سماجی روبوٹکس!

گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والی ایجادات کی جانب دیکھیں تو ان سے پہلے کی دنیا ایک خواب معلوم ہوتی ہے۔ انسانی تصور کو جھنجھوڑ دینے والی ٹیکنالوجی آج ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایجادات نے انسان اور مشین کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے جس میں''سماجی روبوٹکس‘‘ سر فہرست ہے۔انسان قدرتی اور سماجی طور پر سب سے ذہین مخلوق ہے اور ''سماجی روبوٹس‘‘ کو انسانوں کے ساتھ اسی کے انداز میں گفتگو کرنے کیلئے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ '' سماجی روبوٹکس‘‘ روبوٹس کی ہی ایک شاخ ہے جو انسان کی سماجی طرز زندگی کو سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔روایتی روبوٹس کو کسی خاص مقصد اور ماحول کیلئے ڈیزائن کیا جاتا ہے جہاں وہ ایک پروگرام کی مدد سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔'' سماجی روبوٹکس‘‘ کو انسانوں کے ساتھ بہتر تعلقات اور سماجی روابط قائم کرنے کیلئے ڈیزائن کیا جاتاہے۔''سماجی روبوٹس‘‘ کو جدید سینسرز، الگورتھم اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک طاقتور سسٹم فراہم کیا جاتا ہے جو انہیں انسانی جذبات، رویئے اور چہرے کے تاثرات کو سمجھنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔سماجی روبوٹس کے استعمال کی واضح مثال صحت کے شعبہ میں اس کا وسیع استعمال ہے۔ سماجی روبوٹس اہم امور کی نگرانی کر سکتے ہیں، جیسا کہ مریضوں کو دوا وقت پر لینے کی یاد دہانی کرانا۔ سماجی روبوٹس کو مریض کے اندر موجود تنہائی اور مایوسی کے احساس دور کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جس سے مریض کو گفتگو کرنے کیلئے ایک ایسا ساتھی میسر ہوتا ہے جو اس کے تقریباً ہر سوال کا صحیح جواب دیتا ہے۔ سماجی روبوٹس سے فزیو تھراپی میں بھی مدد حاصل کی جاتی ہے۔بڑی عمر کے افراد اور معذور لوگوں میں دماغی صحت کے مسائل کو حل کرنے میں بھی سماجی روبوٹس بہت مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔تعلیم کے شعبے میں بھی ''سماجی روبوٹکس‘‘ کے استعمال سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ انہیںبطور ٹیوٹراستعمال کیا جاسکتا ہے جو پیچیدہ مسائل کو سمجھنے میں طلبا ء کی مدد کر سکتے ہیں۔ انفرادی طور پر مدد اور معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی روبوٹس کو سیکھنے کے نئے طریقوں کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے تعلیمی میدان میں مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔سماجی روبوٹس آف لائن مارکیٹ کے ساتھ ساتھ ورچوئل مارکیٹ میںبھی اپنی قابلیت کا لوہا منوانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی مثال کسی بھی کمپنی کی چیٹ سپورٹ سروس کے طور پر سب کے سامنے ہیں۔ اب سے کچھ عرصہ قبل اگر کسی کمپنی کے کسٹمر سپورٹ نمبر پر شکایت درج کروانے کیلئے پیغام بھیجا جاتا تھا تو اس کو جواب صرف دفتری اوقات میں ہی دیا جاتا تھا لیکن سماجی روبوٹ جو انسانوں کے ساتھ انٹریکشن کرنے کے قابل ہیں کی وجہ سے اب کسٹمر سپورٹ کے پیغامات کا 24گھنٹوں میں کسی بھی وقت جواب مل جاتا ہے۔اس طرح کے سماجی روبوٹس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ اپنے کام سے تھکتے نہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں کسٹمرز کو ڈیل کرنے کے باوجود ہر آنے والے نئے کسٹمر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ شکایات درج کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی روبوٹس کسٹمر کو اس کی مطلوبہ معلومات بھی فراہم کرسکتے ہیں۔ آج کے جدید دور میں ''چیٹ بوٹ‘‘ (Chat Bot) ریٹیل کی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔سماجی روبوٹس ایسے افراد کیلئے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں جن کو سماجی رابطوں کی اشد ضرورت ہے۔ایسے افراد جو تنہائی کا شکار ہیں یا جنہیں معاشرے میں گھل مل کر رہنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ سماجی روبوٹ کے ساتھ بات چیت کر کے اپنی ہچکچاہٹ ختم کر سکتے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ نرسنگ ہومز اور معاون رہائش گاہوں میں، سماجی روبوٹس تنہائی کے احساسات کو کم کر رہے ۔اگرچہ سماجی روبوٹس میں انسانوں کے ساتھ مؤثر رابطہ قائم کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ ان تمام سہولیات کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق کچھ چیلنجز اور اخلاقی تحفظات بھی موجود ہیں جن میں پرائیویسی کے خدشات، ڈیٹا سکیورٹی اور روبوٹکس کی انسانی ملازمتوں کی جگہ لینا شامل ہیں۔سماجی روبوٹس کاایک اور پہلو جو ماہرین کیلئے قابل تشویش ہے وہ ہے انسان اور انسان جیسے رویئے میں توازن کیسے برقرار رکھا جائے، یعنی یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ جس سے آپ بات کر رہے ہیں وہ انسان ہے یا کوئی روبوٹ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ روبوٹکس نے انسانی طرز زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ گھنٹوں میں ہونے والے کام منٹوں میں ہو رہے ہیں، آج کا انسان بہتر انداز میں مشین کے ساتھ انٹریکشن کر سکتا ہے اور روبوٹکس کی مدد سے کئی شعبہ ہائے زندگی میں انقلابی تبدلیاں بھی رونما ہوئی ہیں، لیکن ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کیلئے روبوٹکس کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک متوازن نظام قائم کیا جاسکے جس میں روبوٹس اور انسان ایک دوسرے کو مدد فراہم کریں نہ کہ ایک دوسرے کی بقاء کیلئے خطرہ بنیں۔  

وادیٔ پھنڈر

وادیٔ پھنڈر

قراقرم ہائی وے کو چھوڑ کر گلگت شہر کے اندر داخل ہوں یا پھر چیف کورٹ روڈ سے گزر کر غذر کی طرف نکل جائیں، شہر سے ایک راستہ دریا کنارے گاہکوچ کی طرف جاتا ہے جس کے اطراف میں تازہ پک چکی خوبانیوں کی مہک ہے اور کہیں دریائے گلگت سڑک کے کنارے کو چھو جاتا ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وادیٔ یٰسین کی طرف مڑنے والے راستے کو نظرانداز کر کے گوپس کی طرف چلتے جائیں تو دریائے گلگت اپنا نام بدل کر دریائے غذر کہلاتا ہے۔ پھنڈر کی کشش کہیں رکنے ہی نہیں دیتی۔ ایک حادثے کے نتیجے میں جنم لینے والی خلطی جھیل بھی پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتی وہی خلطی جھیل جو درجنوں گھر ڈبو کر وجود میں آئی تھی۔ پاکستان کا شمال عجوبوں سے بھرا پڑا ہے مگر پھنڈر کی وادیٔ فطرت کی انگوٹھی میں جڑے نیلم کی طرح نمایاں ہے۔دریائے غذر: پھنڈر کے مقام پر یہ ساری طغیانی کھو دیتا ہے جس کے کنارے پر بیٹھ کر پانی کو آسانی سے چھوا جا سکتا ہے۔ دریا میں رقص کرتی مچھلیاں بھی بے تکلف ہو کر سیاحوں سے آنکھیں ملاتی ہیں اور دریائے غذر اپنا روایتی خوف ترک کر کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے۔ ہم اس سڑک پر محو سفر تھے جو گلگت اور چترال کو آپس میں ملاتی تھی۔ یہ زیر تعمیر سڑک یوں تو شیندور تک جاتی تھی مگر راستے میں بہت سی حسین وادیوں کو راہداری فراہم کرتی ہے۔ لنگر کے سبزہ زار میں یاک بکریوں کی مانند گھاس چرتے ہیں۔اور بیشمار ندیاں خیبرپختونخوا کی سرحد عبور کر کے گلگت بلتستان میں داخل ہوتی ہیں۔ ضلع چترال اور ضلع غذر کی سرحد حیرت کدوں کی سرزمین ہے۔پھنڈر کی بلندی سے ذرا پہلے ، بائیں جانب بہت گہرائی میں، جہاں دریائے غذر دوست ہوچکا تھااور پھیل چکی وادی میں گھل مل گیا تھاوہ منظر متقاضی تھا کہ ہم نیچے اترتے اور ایک شام،کم از کم ایک مکمل صبح اس وادی میں گزارتے، تمام موجود اور تمام غیر موجود رنگوں کو انگلیوں کی ٹھنڈی پوروں سے چھو کر دیکھتے اور انگلیاں فطرت کی حدت سے جل جاتیں،مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ ہمارے بس میں ہوتا تو خلطی جھیل کے پانی میں ڈوب چکے گھروں میں گھس کر وہاں کے مکینوں کی محبت تلاش کرتے جو تباہ ہوتے جاتے گھروں کو چھوڑتے وقت کہیں کسی شیلف میں رکھی رہ گئی تھی۔پھنڈر جھیل پر کتنی شامیں قربان کی جا سکتی تھیں مگر ہم مجبور تھے۔معاشی اور عائلی زنجیروں میں جکڑے ہوئے آوارہ گرد تھے جو خراب تھے مگر پورے خراب بھی نہ تھے کہ ہم جنوں میں ہوش کے قائل تھے اور آوارگی برنگ تماشا ہمیں بری لگتی تھی۔ کتنے منظر ہم چلتے چلتے دیکھتے تھے اور پھر نئے منظر میں ڈھل جاتے تھے۔ہم پھنڈر ٹاپ پر پہنچے تو ایک تعجب ہمارا منتظر تھا۔مختلف عمارتوں کے بیچوں بیچ جو راستہ آگے بڑھتا تھا اور پھر ایک دم نیچے اتر جاتا تھا ہم وہیں پر تصویر ہوچکے تھے۔ایسے ہی لمحے تھے جب میرے بچے اور شریک سفر قافلہ مجھے پاگل سمجھنے لگتا تھا۔ایک نیلے رنگ کا بورڈ تعجب بھرا جملہ لئے ہوئے تھا ''شیندور ٹاپ 48 کلو میٹر‘‘۔ اس شیندور ٹاپ کیلئے، پولو فیسٹیول کیلئے،شیندور جھیل کیلئے ہم کن مشکل راستوں سے گزر کر پہنچتے تھے۔ ''سفر کیلاش کے‘‘ زمانوں میں ایون سٹاپ سے اپنی گاڑی اٹھا کر جب چترال کی جانب بڑھتے جاتے تھے تو کتنے لوگوں نے سمجھایا تھا کہ ''مت جائو‘‘عشق دریا ہے جو بچوں کو نگل جاتا ہے،مگر ہم سنتے کب تھے کسی کی۔ہم قدرتی مناظر کو بھلا کیسے فراموش کرکے آگے نکل جاتے کہ دنیا بھر میں نام منواچکا ''شیندور ٹاپ‘‘ چترال میں تھا اور ہم بھی چترال میں تھے،دشوار راہوں سے ہوتے ہوئے ایک طویل سفر کے بعد شیندور کا دیدار نصیب ہوا تھا۔اور اب بغیر خواہش کے، بغیر تھکن کے احساس کے ،وہی شیندور 48 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔زمین گول تھی،واقعی گول،پھر تمام پہاڑوں کے سلسلے باہم اسی طرح ملتے تھے کہ آپ حیران رہ جائیں۔''قیصر مجھے شیندور ضرور لے جائیں‘‘ فوزیہ نے پہاڑی مطالبہ کر ڈالا۔بچوں نے خواہش کی بازگشت تالیوں کی گونج سے بھر دی۔پھنڈر تک اگر سیاہ جاپانی کار پہنچ سکتی تھی تو پھر غذر کا سفر مشکل نہ تھا۔راستے دشمن نہ تھے۔ ہم پھنڈر ٹاپ سے نیچے اترے تو سامنے وسیع لینڈ سکیپ تھی۔درختوں کے درمیان سے گزر کر ایک سڑک شیندور کو جاتی تھی۔وادیٔ پھنڈر واقعی چھوٹا کشمیر تھی۔دونوں اطراف میں کھیت تھے اور دائیں جانب کھیتوں کے پاس دریائے غذر بہتا تھا۔وہ بہتا نہ تھا بلکہ فطرت کے فریم میں رنگ بھرتا تھا۔بلند و بالا درختوں کی گھنی باڑ کے درمیان نیل و نیل وجود جس کو دیکھتے ہی ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا۔دریائے غذر کے کنارے ایک بستی تھی مگر وہ اس لئے بھی بستی تھی کہ وہاں لوگ واقعی بستے تھے جن کے چہروں پر زندگی ناچتی تھی، وہ زندگی کے دن پورے نہیں کرتے تھے بلکہ واقعی زندگی جیتے تھے۔ہم وادیٔ پھنڈر کے وسیع لینڈ سکیپ کے درمیان سے گزرتی جاتی سڑک کے قریب بنی ایک عمارت کے پاس رک گئے ،بورڈ پر کسی خوبصورت منظر کی تصویر نمایاں تھی بورڈ پر جو عبارت درج تھی اس نے ہمیں حوصلہ دیا کہ یہاں شب بصری ممکن ہے۔ہم کسی فلم کے کردار نہ تھے،کسی تصویر کے نقش بھی تو نہ تھے۔تیز ہوا سے جھولتے درخت زندگی کا پتہ دیتے تھے۔خواب،سراب،وہم اور خیال۔ایک وادی جو خواب اور تعبیر کے درمیان معلق پل کی مانند جھولتی تھی۔غذر شیندور روڈ پر پٹرول کی بوتلیں سجائے ایک جوان ہمارا پہلا ملاقاتی تھا،''یہ ہوٹل ہے اور کمرے بھی ملیں گے‘‘ گاڑیاں غذر روڈ سے اتر کر ایک لان میں داخل ہوئیں جہاں چار کمروں پر مشتمل ہوٹل تھا جس کے سامنے لان تھا۔پہلا ملاقاتی شخص دوہزار روپے فی کمرہ مانگ رہا تھا ،تین کمرے پندرہ سو فی کمرہ کے حساب سے لئے گئے جہاں ہر کمرہ اپنا الگ باتھ روم رکھتا تھا،گیزر کی سہولت بھی تھی اس لئے ایک قطار میں بنے کمرے لئے گئے اور سامان بھی اتار لیا گیا۔ہوٹل سے نکل کر چند قدموں کے فاصلے پر دریائے غذر کا حسین منظر موجود تھا۔

آج کا دن

آج کا دن

پاکستانی راکٹ ''رہبر1‘ کی لانچنگ 1962ء میں آج کے روز پاکستان کا خلائی پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچا اور پاکستان نے اپنا پہلا راکٹ ''رہبر 1‘‘ کامیابی سے لانچ کیا۔اس لانچنگ کے ساتھ ہی پاکستان مسلم دنیا سمیت جنوبی ایشیا کی وہ پہلی قوت بنا جس نے کامیابی سے خلائی تجربہ سر انجام دیا۔ ڈاکٹر طارق مصطفی اس پروگرام کے سربراہ تھے۔ پہلا ڈرائیو اِن تھیٹر6جون1933ء کو دنیا کا پہلا ''ڈرائیو اِن تھیٹر‘‘ نیو جرسی میں کھولا گیا۔ ڈرائیو اِن تھیڑ ایک ایسا سینما گھر ہوتا ہے جس میں گاڑیوں کی پارکنگ کے سامنے سکرین نصب کی جاتی ہے جس سے لوگ اپنی کاروں میں رہتے ہوئے فلم دیکھ سکتے ہیں۔ڈرائیو اِن تھیٹر کا افتتاح کیا گیا تو یہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا کیونکہ اس سے قبل لوگوں کے دماغ میں صرف ایسے سینما کا ہی تصور تھا جس میں اندھیرے ہال میں کرسیوں پر بیٹھ کر فلم دیکھی جاتی تھی ۔ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر فلم سے لطف اندوز ہونا لوگوں کیلئے منفرد چیز تھی۔''دی گریٹ سیٹل فائر‘‘6جون 1889ء کو سیٹل شہر میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا جسے ''دی گریٹ سیٹل فائر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس آگ نے واشنگٹن کے پورے کاروباری مرکز اور ضلع کو تباہ کر کے رکھ دیا۔آگ دوپہر میں لگی اور رات گئے اس پر قابو پایا گیا۔ آ گ ایک ترکھان کی دکان سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ کے بعد ہنگامی بنیادوں پر شہر کی دوبارہ تعمیر کی گئی تاکہ معمولات زندگی بحال کئے جا سکیں۔ آج بھی اس آگ کو سیٹل شہر کے بدترین حادثے کی طور پر یاد کیا جاتا ہے۔آپریشن اوورلورڈآپریشن اوورلورڈ نارمینڈی میں لڑی جانے والی جنگ کا کوڈ نام تھا۔یہ دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی افواج کی جانب سے کیا جانے والا آپریشن تھاجس میں جرمنی کے زیر قبضہ مغربی یورپ پر کامیاب حملے کا آغاز کیا گیا۔آپریش کا آغاز6 جون 1944ء کو نارمینڈی لینڈنگ کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔آپریشن میں5ہزار سے زائد بحری جہازوں نے حصہ لیا۔6جون کوایک لاکھ60ہزار فوجیوں نے انگلش چینل عبور کیا اور20لاکھ اتحادی افواج فرانس میں موجود تھیں۔  

بقاء کی جنگ لڑتا دریائے ایمیزون۔۔۔۔

بقاء کی جنگ لڑتا دریائے ایمیزون۔۔۔۔

سانپ کی طرح بل کھاتا ،دنیا کے کئی ممالک سے گزرتا بلحاظ حجم دنیا کا سب سے بڑا جبکہ بلحاظ طوالت یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور منفرد دریا ہے۔منفرد یوں کہ اس کے بیشتر حصوں میں ہماوقت ابلتا پانی رواں دواں نظر آتا ہے جسے مقامی قبائلی '' شانے تمپشکا ‘‘ کہتے ہیں، جس کے معنی ''سورج کی گرمی سے ابلنے والا ‘‘ ہیں۔ عجب یوں کہ یہ ایک پراسرار اور دیومالائی دریا ہے جس کاذکر مقامی قبائلیوں کی کہانیوں میں ملتا ہے۔ ایندر روزو بنیادی طور پر ایک سائنسدان ہیں ، پیرو کا دارلحکومت لیما ان کا آبائی شہر ہے۔ ایندر روزو امریکہ میں ٹیکسس کی سدرن میتھو ڈسٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی کے دوران '' پیرو میں زیر زمین حاصل ہونے والی ممکنہ توانائی ‘‘ کے عنوان سے تحقیق کر رہے تھے ،کہتے ہیں '' جب اچانک مجھے یاد آیا کہ پیرو سے نکلنے والے دریائے ایمیزون جس کے متعلق ہم بچپن سے سنتے آرہے تھے کہ اس کا پانی ابلتا رہتاہے۔ یونیورسٹی میں دوران تحقیق میری سوچ اکثر مجھے اس نکتے پر بے چین کئے رکھتی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دریا کاپانی ابلتا ہوا گرم ہو ، میں اکثر اپنے آپ سے تنہائی میں سوال کرتا کہ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے ؟‘‘ اس دوران میںنے ونیورسٹی میں اپنے ساتھیوں، تیل اور گیس نکالنے والی کمپنیوں کے نمائندوں ،حتی ٰکہ کچھ حکومتی اراکین سے بھی اس سوال کا جواب چاہا لیکن سب کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے اپنی تحقیق کو آگے بڑھایا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگرچہ ابلتے دریا دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں لیکن وہ عام طور آتش فشاں کے ساتھ یا ان کے پہلو میں ہوتے ہیں۔اس طرح کی زمین کے اندر کی حرارت کے مظہر کیلئے بہت زیادہ گرمی یا گرم ماحول درکار ہوتا ہے جبکہ ایمیزون میں آتش فشاں نہیں ہیں۔میری تشنگی نے مجھے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور پھر میں نے عملی طور پر دریائے ایمیزون کا رخ کیا اور یوں کچھ عرصہ بعد میرا ٹھکانا ایمیزون جنگل میں دریائے ایمیزون کے کنارے تھا۔اس دوران میں دریا کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں کا درجہ حرارت چیک کرتا رہا جو یقینا '' میری اس تحقیق کاسب سے کٹھن مرحلہ تھا۔ مجھے یاد ہے ایک جگہ پہنچ کر میں نے محسوس کیا کہ یہاں درجہ حرارت خاصا گرم ہے۔چنانچہ میں نے اپنا تھرمامیٹر نکالا ، وہاں دریا کے اندر اوسط درجہ حرارت 86 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جبکہ ابلنے کیلئے عام طور پر درجہ حرارت 100 ڈگری سینٹی گریڈ درکار ہوتا ہے۔ اگلے دن جب دریائے ایمیزون کے کنارے میں نے چائے پینے کی خواہش کااظہار کیا تو میرے میزبان نے مجھے ایک مگ اور ٹی بیگ تھما کر دریا کی جانب اشارہ کیا۔پانی صاف اور شفاف تھا اس کا ذائقہ بھی اچھا تھاجبکہ جیوتھرمل نظام میں یہ سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ یہ درجہ حرارت بالکل ایسے ہی تھا جیسے میں نے آتش فشاؤں کے آس پاس دیکھا تھا بلکہ ''ییلو سٹون‘‘ جیسے سپر آتش فشاں پر بھی لیکن میرے لئے سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ دریا بغیر کسی آتش فشاں کے کیسے ابل رہا ہے ؟اس کا نقطہ آغاز نہ تو مقناطیسی ہے اور نہ ہی آتش فشانی کیونکہ قریب ترین آتش فشاں اس سے 700کلومیٹر دورہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک تحقیق کے ذریعے دریائے ایمیزون کے ابلتے پانی پر ایک رپورٹ کچھ اس طرح پیش کی'' ہاں یہ بالکل حقیقت ہے کہ اس دریا کے کچھ حصے بہت گرم ہیں۔ کئی قسم کے جانوروں کو اس پانی میں گرتے دیکھا گیا ہے۔ سب سے پہلے ان کی آنکھیں جاتی ہیں بظاہر آنکھیں جلد پک جاتی ہیں‘‘۔ 6992 کلومیٹر طویل دریا کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد اگر دنیا کے سات سب سے بڑے دریاؤں کا پانی ملاکر اکٹھا کیا جائے تو دریائے ایمیزون کا پانی اس سے کہیں زیادہ ہو گا۔ اس کے معاون دریاؤں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے جو اس میں ضم ہوتے ہیں۔ اس علاقے کو '' ایموزونیا ‘‘ کہتے ہیں۔اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ علاقہ یعنی ایموزونیا دنیا کے نو ممالک کے ساحلی علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایمیزون ایک بڑے جزیرے کو گھیرے ہوئے ہے۔یہ جزیرہ ماراجو سوئزرلینڈ جتنا بڑا ہے ۔ اس دریا میں بحرالکال سے بھی زیادہ مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔دریائے ایمیزون کی ابتدا جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کے مقام نیواڈو مسمی سے ہوتی ہے۔ اس کا پانی بحیرہ اوقیانوس میں گرتا ہے ۔ دنیا بھر میں سمندروں میں گرنے والے میٹھے پانی کا پانچواں حصہ دریاے ایمیزون سے گرتا ہے۔ معروف عالمی خبر رساں ادارے '' روئٹرز ‘‘ کے مطابق ایمیزون میں کشتیوں کے پاس دھواں اٹھتا دیکھا گیاہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دریا کی زمین کو سونے کی غیر قانونی تلاش میں کھنگالا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم '' گرین پیس ‘‘ نے برازیل کو متنبہ کیا تھا کہ دریائے ایمیزون کے ایک معاون دریا میڈیرا کے آس پاس سونے کی غیر قانونی تلاش کرنے والوں کی وجہ سے اس عظیم دریا کی بقا کوخطرات لاحق ہیں۔سونا ملنے کی افواہوں نے اس وقت زور پکڑا جب عالمی رہنما اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس'' کوپ26‘‘ کیلئے گلاسکو میں جمع تھے اور سونے کی دریافت کی بازگشت ایک غیر رسمی بحث کے طور پر سنی جاتی رہی۔ اس سے پہلے برازیل کی یونیورسٹی آف میناس گیریس نے 2020ء میں اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا انکشاف کیا تھا کہ برازیل میں 2019ء اور 2020ء کے درمیان نکالے جانے والے 174 ٹن سونے میں سے 66 فیصد سونا غیر قانونی طریقے سے نکالا گیا ہے۔

یادرفتگاں: ایس بی جان۔۔

یادرفتگاں: ایس بی جان۔۔

دنیائے موسیقی میں کئی نام ایسے ہیں جنہوں نے ان گنت فلمی و غیر فلمی گیت گائے اور اپنے ان گیتوں کی بدولت اپنا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ میں لکھوا لیا۔ اس کے برعکس کچھ گلوکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے کئی فلمی گیت گانے کے ساتھ بیشمار غیر فلمی گیت بھی گائے لیکن انہوں نے ایک ایسا نغمہ گایا جو ان کی شناخت بن گیا اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی وہ اپنے اس گیت ہی کی بدولت پہچانے جاتے ہیں۔ ایسے گلوکاروں کی فہرست میں ایک نام ایس بی جون کا بھی ہے جن کے ایک گیت نے انہیں لازوال شہرت سے ہمکنار کر دیا۔ اس ایک گیت نے انہیں وہ مقام عطا کر دیا جو دوسرے گلوکاروں کیلئے قابل رشک ہے۔ جو گیت ان کی وجہ شہرت بنا وہ ہے ''تو جو نہیں ہے، تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ یہ گانا پاکستانی فلم ''سویرا‘‘ کیلئے انہوں نے ریکارڈ کروایا تھا جو 1959ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ پہلے ہی فلمی گیت سے لازوال شہرت حاصل کرنے والے گلوکار ایس بی جون اکتوبر 1934ء میں کراچی کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام سنی بنجمن جون تھا اور وہ میوزک ورلڈ میںایس بی جون کے نام سے مشہور ہوئے۔ سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ برنی روڈ کے قریب کمیان سنگیت وڈیالا میں پنڈت رام چندر ترویدی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔انہیں آلات موسیقی بجانے کا شوق تھا اور وہ وہاں طبلہ سیکھنے گئے تھے لیکن ان کے گرو نے انہیں کہا کہ وہ گائیکی سیکھیں۔ انہوں نے اپنے گرو کی بات کا مان رکھتے ہوئے گائیکی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور 1950ء میں گائیکی کو پیشے کے طور پر اپنایا اور ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہو گئے۔ ریڈیو کیلئے انہوں نے بیشمار غزلیں اور گیت ریکارڈ کروائے۔ انہوں نے کراچی سٹیج پر بھی بہت عرصہ تک پرفارم کیا۔ان کی گائیکی کے چرچے فلمی دنیا تک پہنچے اور انہیں فلمی گیت گانے کی پیشکش ہوئی۔ 1959ء ہدایتکار رفیق رضوی کی فلم ''سویرا‘‘ ان کی پہلی فلم تھی ،جس میں موسیقار منظور نے ان سے دو گیت گوائے ۔ فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے ان گیتوں میں سے ''تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ، یہ مانا کہ محفل جواں ہے ، حسیں ہے‘‘ ایک سدابہار گیت ثابت ہوا تھا۔ یہ گیت اداکار کمال پر فلمایا گیا تھا۔ایس بی جون نے اس گیت کو جتنی خوبصورتی سے گایا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ گیت بھارت میں بھی بہت مقبول ہوا۔ اس فلم میں ایس بی جون نے ایک اور گیت ''میری ملاقات ہوئی، پیا جی کے ساتھ ہوئی‘‘بھی گایا تھا، ناظم پانی پتی کا لکھا ہوا یہ نغمہ بھی معیاری تھا ۔وہ فلمی دنیا میں خاص کامیابی حاصل نہ کر سکے اور اپنے مختصر سے فلمی کریئر میں مجموعی طور پر پانچ فلموں کے لئے دس گیت گائے۔ان کے کم فلمی گیت گانے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں فلمیں لاہور میں بنتی تھیں اور ان کیلئے کراچی چھوڑنا ممکن نہیں تھا۔ ان کی دوسری فلم ''رات کے راہی‘‘ تھی جو 1960ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ایک گیت ''بات چھوٹی سی ہے ، مانو یا نہ مانو میں‘‘میں انہوں نے زبیدہ خانم اور احمدرشدی کے ساتھ شرکت کی تھی، اے حمید کی موسیقی میں یہ گیت بھی فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا تھا۔ 1961ء میں آنے والی فلم ''انسان بدلتا ہے‘‘ میں بھی ایس بی جون نے زبیدہ خانم کے ساتھ ایک دوگانا ''ہم تم اور یہ کھوئی کھوئی رات‘‘ گایا، یہ گیت شمیم آرا اور درپن پر فلمایا گیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی گیت مقبول نہ ہو سکا تھا۔ ہدایتکار شیخ حسن نے اپنی فلم '' لاکھوں فسانے‘‘کیلئے ایس بی جون سے پہلی بار تین گیت گوائے ۔تینوں گیت '' دنیا میں لاکھوں فسانے ، کیا دل پر گزری‘‘ ،''کسی ہم سفر کی تلاش ہے مجھے‘‘ اور''کتنے جوہر ہیں غربت میں‘‘ سولو سانگز تھے لیکن کسی گیت کو عوامی پذیرائی نہ مل پائی تھی۔1961ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں موسیقار دیبو بھٹاچاریہ تھے۔پانچویں اور آخری فلم ''پیار کی سزا‘‘ 1964ء میں منظرعام پر آئی ،اس فلم میں بھی ان کے تین گیت شامل تھے، جن میں سے ایک گیت ''اب رات ہے اور ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے‘‘ سولو گیت تھا۔ دیگر دو گیت ''آنکھ ملانا برا ہے ، دل کا ملانا برا ہے‘‘ اور ''دل لے کے اب جی ، کدھر چلے ہو‘‘ گلوکارہ شمیم بانو کے ساتھ تھے۔ ایس بی جون نے غزلیں بھی گائیں جن میں احمد فراز کی غزلیں بھی شامل ہیں۔انہوں نے ابن انشا کی غزل '' کل چودھویں کی رات تھی‘‘کو لافانی بنا دیا ۔وہ گلوکار طلعت محمود، ہیمنت کمار اور محمد رفیع کے زبردست مداح تھے اورسٹیج پر ان گلوکاروں کے گیت گاتے تھے۔ ایس بی جون پہلے عیسائی گلوکار تھے جنہیں 2010ء میںصدارتی ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔ 1934ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے ایس بی جون کا 5 جون 2021ء کو کراچی ہی میں انتقال ہوگیا۔انہوں نے 87برس کی عمر پائی۔ان کے بیٹے گلین جون بھی ایک بہترین گلوکار ہیں۔

سملی پہاڑوں کے دامن میں قدرتی ڈیم

سملی پہاڑوں کے دامن میں قدرتی ڈیم

مری کی پہاڑیاں اور اس کے گردو نواح کے علاقے جو عرف عام میں ''گلیات‘‘ پکارے جاتے ہیں پر ہونے والی برف باری اور بارش صرف ان کے حسن و خوبصورتی میں اضافہ کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ ان سے لاکھوں افراد کو پینے اورآبپاشی کیلئے پانی جیسی انمول نعمت بھی حاصل ہوتی ہے۔ مری اور اس کے بالمقابل واقع گلہڑا گلی کی پہاڑیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان پر ہونے والی برفباری اور بارش ڈھلوان کے ایک جانب دریائے جہلم اور اس کی وادیوں کو پانی فراہم کرتی ہے تو دوسری جانب راولپنڈی اسلام آباد اور ان سے ملحقہ علاقے اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ مری سے دریائے سواں اور گلہڑ ا گلی سے کھاد نالہ ان پانیوں کو لے کر نشیب کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ راستے میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے برساتی نالوں اور چشموں کا پانی ان میں شامل ہو جاتا ہے۔لگ بھگ پچاس کلو میٹر کا پر پیچ راستہ طے کرنے کے بعد آزادی کے مقام پر کھاد نالہ، دریائے سواں سے مل جاتا ہے۔ کچھ فاصلے کے بعدیہ ایک چھوی سی پیالہ نما وادی میں آ نکلتا ہے۔ جہاں دو دہائی قبل ''سملی‘‘ نام کا ایک گائوں آباد تھا ۔وفاقی دارالحکومت کی تعمیر کے وقت پانی کی فراہمی کیلئے جو منصوبے بنائے گئے تھے وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے رفتہ رفتہ کم پڑنے لگے تو پانی کی کسی بڑی ذخیرہ گاہ کی تلاش شروع ہوئی چنانچہ ارضیاتی اور جغرافیائی سروے کے بعد قرعہ فال اس علاقے کے نام نکلا جہاں سملی گائوں آباد تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ تین اطراف بلند و بالا پہاڑ تھے جن کے عین نشیب میں آبادی تھی اگر اس گائوں کو خالی کرا لیا جاتا تو یہ پیالہ نما وادی قدرتی جھیل بن سکتی تھی۔ چنانچہ سملی کے مکینوں کو پرانی آبادی کے سامنے پہاڑی پر بھارہ کہو کو پتریاٹہ اور مری سے ملانے والی سڑک کے کنارے متبادل جگہ دے کر گائوں خالی کرا لیا گیا اور یہاں پانی کی اس ذخیرہ گاہ کی بنیاد رکھی گئی جسے اب ''سملی ڈیم‘‘ کہا جاتا ہے۔'' سملی‘‘ اسلام آباد کے شمال مشرق میں لگ بھگ چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے ۔ دریائے سواں پر واقع یہ مکمل قدرتی ڈیم ہے اور اس میں پانی کی آمد بارشوں سے مشروط ہے۔ کھاد نالہ اور دریائے سواں کے علاوہ منگل، جندریلا، چنیوٹ ، کلا لئی، کلاں، بساند بھانہ اور ملحقہ چھوٹے چھوے علاقوں سے بھی درجنوں نالوں اور چشموں کا پانی براہ راست اسی جھیل میں آ کر گرتا ہے جو 10کلو میٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ ستمبر 1982ء میں مکمل ہونے والے اس ڈیم کی عمر کا اندازہ 63برس ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اسلام آباد کے شہری 2045ء تک سملی کے پانی سے استفادہ کر سکیں گے۔ سملی ڈیم کی جھیل265 فٹ گہری ہے اور اس میں 25لاکھ80 ہزار کیوبک گز پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔445 کیوسک گنجائش کی 6فٹ چوڑی سرنگ کے ذریعے پانی دو جدید ترین فلٹریشن اور پیوری فکیشن پلانٹس میں پہنچایا جاتا ہے۔ 48انچ قطر کی 120میٹر طویل دو پائپ لائنوں پر متعدد پمپنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن کے باعث صاف پانی کی فراہمی میں کوئی تعطل پیدا نہیں ہوتا۔ جھیل میں گنجائش سے زیادہ پانی آ جانے کی صورت میں اس کے اخراج کیلئے سپل وے بنایا گیا ہے جو سطح زمین سے 250 فٹ بلند ہے۔ اس کے تین دروازے ہیں۔اس سپل وے سے 4500کیوسک پانی خارج ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں سپل وے کے گیٹ مزید20فٹ بلند کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ڈیم میں پانی کی مقدار 28ہزار 750ایکڑ فٹ سے بڑھ کر 38ہزار ایکڑ فٹ ہو گئی ہے۔ پہلے یہاں سے 2کروڑ 40لاکھ گیلن پانی روزانہ فراہم کیا جاتا تھا جبکہ توسیع سے یہ مقدار تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔اسلام آباد کی 5لاکھ 25ہزار کی آبادی کو اوسطاً گیلن فی شخص کے حساب سے 8کروڑ 25 لاکھ گیلن پانی درکار ہے۔ سی ڈی اے گیارہ مختلف ذرائع سے یہ پانی فراہم کرتا ہے جن میں کورنگ واٹر ورکس، سملی واٹر ورکس، سید پور واٹر ورکس، نور پور واٹر ورکس اور نیشنل پارک پرانے گولف کورس، نئے گولف کورس اور مختلف سیکٹروں میں نصب 143ٹیوب ویل شامل ہیں جن میں سے کئی ایک خشک یا خراب ہو چکے ہیں۔ سملی ڈیم کو ان تمام ذرائع پر اس لئے فوقیت حاصل ہے کیونکہ یہاں سے اسلام آباد کی پانی کی نصف ضروریات پوری ہوتی ہیں اور روزانہ 4کروڑ 20لاکھ گیلن پانی 48انچ کی دو پائپ لائنوں کے ذریعے یہاں پہنچتا ہے۔ اسلام آباد راولپنڈی سمیت پوری وادی پوٹھوہار کو ان دنوں بارشوں کی کمی کا سامناہے اس لئے اس بارانی ڈیم سے اسلام آباد کو پانی کی فراہمی نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔ سی ڈی اے کے مطابق اس وقت سملی صرف 2کروڑ گیلن پانی روزانہ فراہم کر رہا ہے جس سے اسلام آباد فی الوقت سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ سملی ڈیم کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کوئی کمرشل منصوبہ نہیں، یہ اپنا خرچہ اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کے عوض پورا کر لیتا ہے۔'' سملی‘‘ کی جھیل میں دو کشتیاں بھی موجود ہیں۔ اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کے علاوہ سملی ڈیم بعض سیاست دانوں کا میزبان بھی رہا ہے۔ جھیل کنارے بنے ہوئے عالی شان ریسٹ ہائوس میں کئی سیاست دان اپنے ایام اسیری بسر کر چکے ہیں۔ ان میں آصف زرداری اور سابق وزیراعظم آزاد کشمیر ممتاز راٹھور بھی شامل ہیں۔ بے نظیر بھٹو خود بھی دوبار اس ریسٹ ہائوس کی میزبانی کا لطف اٹھا چکی ہیں۔