اشکالون،5ہزار سال پرانی تاریخ کا مدفن

اسپیشل فیچر
پانچ ہزار قبل ''اشکالون‘‘ بحیرہ روم کی بڑی بندرگاہوں میں سے ایک تھی۔ اس کے گردو نواح کے علاقے پر اس کا دبدبہ ہمیشہ سے قائم تھا۔ بڑی جنگیں اس کی تباہی کا باعث بنیں اور اس بڑے شہر کو دنیا کے نقشے سے ختم کرنے کیلئے کافی بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ''اشکالون‘‘ اب موجودہ اسرائیل کا حصہ ہے۔ کچھ انتہا پسند یہودیوں کے گروپ اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ مرے ہوئے لوگوں کا خاص مقام ہوتا ہے اور ان کے جسموں بلکہ ڈھانچوں کو بالکل بھی تنگ نہیں کرنا چاہئے۔اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ ان کی پچھلی نسلوں کو ان کی قبروں سے نکال کر ان پر کسی قسم کی تحقیق کی جائے۔
3500قبل مسیح میں ''اشکالون‘‘ ایک بڑی بندرگاہ تھا اور ترکی اور شام سے مصر تک کے تجارتی راستے میں واقع تھا۔ یہ شہر بہت سی تہذیبوں کے عروج و زوال کا گواہ بھی تھا۔یہاں کے لوگوں نے دنیا کے بہت سے واقعات اور اتار چڑھائو کو اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن وقت کی دھول نے اس پر ایسا پردہ ڈالا کہ وہ لوگ اور شہر دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئے۔ سب سے پہلے 604قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ نے اس شہر پر چڑھائی کی اور اسے کافی نقصان پہنچایا۔ آخری دفعہ 1270ء میں مسلم دور کے مملوک حکمرانوں نے جو کہ اس دور میں مصر پر حکمران تھے نے اس پر حملہ کیا۔ صدیوں تک زمین میں دفن رہنے والا شہر جو کہ ملبے کے ڈھیر تلے دبا رہا، یہ شہر تقریباً 150ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔
1985ء میں ایک ٹیم جو کہ ماہرین آثار قدیمہ پر مشتمل تھی یہاں آئی۔ ہاورڈیونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی اس ٹیم کے سربراہ کا نام لارنس سیگرتھا۔ کافی تحقیق اور جستجو کے بعد انہوں نے ''اشکالون‘‘ کے لوگوں کے رہن سہن ، تہذیب و تمدن اور دفن کرنے کی رسومات کا پتہ چلا لیا۔
کنعانی وہ لوگ تھے جو کہ شاید مشرقی شام سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے بحیرہ روم کے ساحل کی طرف ہجرت کی۔ یہ شاید کشتیوں کی مدد سے گروپوں کی صورت میں یہاں داخل ہوئے اور پھر یہیں بس گئے۔ یہ لوگ فن صنعت و حرفت میں ماہر تھے اور بہتر طور پر جانتے تھے کہ اپنے شہر کے گرد حصار بندی کرنی ہے۔ انہی لوگوں نے اس شہر کے گرد ایک بہت بڑی اور مضبوط دیوار تعمیر کی۔ اس دیوار میں بڑے بڑے دروازے بھی رکھے گئے تاکہ شہر کے اندر آمدورفت میں مسئلہ نہ آئے۔ اس دیوار کو مٹی، اینٹوں اور مضبوط دھاتوں کی مدد سے بنایا گیا جس کی اونچائی 50فٹ تک تھی۔ اس دیوار نے شہر کو چاروں طرف سے اپنے حلقہ میں لے رکھا تھا اور یہ قوس کی طرح بنائی ہوئی تھی۔ کنعانیوں کی طاقت اس وقت تک قائم رہی جب 1550ء قبل مسیح میں مصریوں نے ان پر حملہ کیا۔
'' اشکالون‘‘ اپنے دور کا ایک خوشحال اور زرخیز خطہ تھا۔ دفاعی اعتبار سے بھی خاص اہمیت کا حامل تھا۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 1650 قبل مسیح میں ایک پراسرار جنگی گروہ ''ہائیکسوس‘‘(Hyksos) نے نیل کے ڈیلٹا پر قبضہ کر لیا اور کئی سال تک یہاں حکومت کرتا رہا۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ ''ہائیکسوس‘‘ جس کا مطلب مصری زبانوں میں ''بیرونی حملہ آور‘‘ ہے کہاں سے آئے تھے۔
13ویں صدی عیسوی میں بیرونی حملہ آوروں کے مختلف گروہوں نے ''اشکالون‘‘ پر حملہ کیا۔1175ء میں بیرونی حملہ آوروں کے گروپ جن کا نام فلسطین تھا انہوں نے حملہ کر کے ''اشکالون‘‘ اور اس کے قریبی علاقوں کو فتح کر لیا اور مستقل طور پر یہیں آباد ہو گئے ۔ برتنوں اور عمارت پر کندہ نقش و نگار ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطینی یونان سے تعلق رکھتے تھے اور وہاںسے ہجرت کرکے ''اشکالون‘‘ میں آکر آباد ہو گئے۔ ''اشکالون‘‘ میں کھدائی کے دوران ایک برتن ملا جس کے اندر ہڈیاں تھیں۔ یہ اس دور میں عمارت کو محفوظ رکھنے کا ٹوٹکا تھا۔
''اشکالون‘‘ کے افراد سکے استعمال کرتے تھے۔ سکوں کا اجراء تقریباً چوتھی صدی قبل از مسیح سے ہوا اور 12ویں صدی عیسوی تک فلسطین میں یہی سکے چلتے رہے اور آج بھی اسرائیلی میوزیم میں 31چھوٹے سکے محفوظ ہیں جس کا نام اوبولس ہے اور ان پر 400قبل مسیح کی تاریخ لکھی ہے۔
رومی سلطنت کے زیر اثر ''اشکالون‘‘ نے بہت ترقی کی۔ رومیوں نے یہاں پر اپنی تہذیب و ثقافت کے گہرے اثرات مرتب کئے۔ عظیم عمارتیں، تھیڑ اور سبزہ زار تعمیر کئے۔ تاریخ دانوں کے مطابق عظیم بادشاہ ہیراڈ یہاں پیدا ہوا۔ ایک یہودی تاریخ دان جوزف کے مطابق ہیراڈ نے عوام کیلئے غسل خانے، فوارے اوربڑی کالونیاں تعمیر کروائیں اور شہنشاہ آگسٹن کیلئے ایک محل بھی تعمیر کروایا۔
رومی دور میں ''اشکالون‘‘ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہو گئی اور اسے زراعت یعنی زیتون کے تیل، کھجور اور پیاز کی برآمد سے خطیر منافع ملتا تھا۔ تقریباً 640ء میں اشکالون کو اسلامی حکمرانوں نے فتح کر لیا۔ اس شہر کی کھدائی کے دوران اسلامی حکومت کے نشانات و علامات بھی ملی ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے ''اشکالون‘‘ میں دوبارہ تعمیر شروع کی اور اس شہر کو نئے انداز سے تعمیر کروایا۔ عمارتوں پر سونے اور دوسرے جواہرات سے مینا کاری اور کاشی کا کام کروایا۔ تقریباً50سال سے زیادہ عرصہ تک ''اشکالون ‘‘اسلامی حکومت کے زیر اثر رہا۔
12ویں صدی میں فاطمی خاندان کے حکمرانوں نے اس کی دیواریں دوبارہ مرمت کروائیں اور 50 کے قریب واچ ٹاور تعمیر کروائے گئے۔ آج اشکالونی مردوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ پہلے مردوں کا شہر نہیں تھا۔ یہاں بہت سی تہذیبیں پروان چڑھیں اور ہر تہذیب کے آثار اس کی بنیادوں سے ملتے ہیں۔