سنتھیٹک بیالوجی!
اسپیشل فیچر
سائنسی میدان میں '' سنتھیٹک بیالوجی‘‘ (Synthetic Biology) تیزی سے ترقی کرتا ہوا شعبہ ہے، جس میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ جانداروں کے متعلق سوچنے اور ان کے ساتھ تعلق کے انسانی نظریئے کو یکسر تبدیل کرسکتا ہے۔''سنتھیٹک بیالوجی‘‘ کا بنیادی مقصد نئے حیاتیاتی نظام کے ڈیزائن،تعمیر یا انجینئرنگ کا اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے موجودہ حیاتیاتی نظام میں ترمیم کرتے ہوئے بہتری لانا ہے۔ ''سنتھیٹک بیالوجی‘‘ محققین کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ نئے حیاتیاتی افعال اور حیاتیات تخلیق کی جا سکیں جو ادویات اور زراعت میں استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
''سنتھیٹک بیالوجی‘‘ کا کلیدی مقصد یہ بھی ہے کہ ایک نئی طرز کا حیاتیاتی نظام تخلیق کیا جائے جسے مخصوص مقاصد کیلئے آ سانی کے ساتھ استعمال کیا جاسکے اور نظام کی پروگرامنگ میں کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔اس عمل کیلئے انجینئرنگ کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ ''سنتھیٹک بیالوجی‘‘ کی مدد سے ادویہ یا بائیو ایندھن یا ایسے جاندار تیار کیے جاسکتے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھ سکیں اور ان کا جواب بھی دے سکیں۔ انجینئرنگ کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے ماہرین ''سینتھیٹک بیالوجی‘‘ کے کارآمد بناتے ہوئے ایک قابل اعتماد حیاتیاتی نظام بنا سکتے ہیں، جس سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جس سکیں اور ایک پروگرام کے ذریعے اسے کنٹرول بھی کیا جاسکے۔
''سنتھیٹک بیالوجی‘‘ پر کام کرنے والے ماہرین کی زیادہ توجہ طب کے شعبہ پر ہے۔ محققین کینسر جیسی بیماریوں کیلئے نئے علاج اور ادویہ تیار کرنے کیلئے ''سینتھیٹک بیالوجی‘‘ کا استعمال کر رہے ہیں۔ MITکے محققین نے ایک ایسا جین سرکٹ (Gene Circuit) تیار کیا ہے جو کینسر کے خلیات کا پتا لگانے کے بعدایک ایسی پروٹینز کو متحرک کرتا ہے جو کینسر سیلز کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ختم کرنے میں بھی سود مند ثابت ہو تا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ طریقہ علاج کیسنر کے ساتھ ساتھ دیگر خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں بھی موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
''سینتھیٹک بیالوجی‘‘ کو زراعت میں ایسی فصلیں بنانے کیلئے بھی استعمال کیا جارہا ہے جو بیماریوں اور کیڑوں کے خلاف زیادہ مزاحم ہوں ۔ محققین جین ایڈیٹنگ ٹولز جیسا کہ ''CRISPR‘‘کے استعمال کی تلاش کر رہے ہیں تاکہ پودوں کے جینوم میں ترمیم کی جا سکے اور ایسی فصلیں بنائی جائیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں مثلاً خشک سالی اور انتہائی درجہ حرارت کیلئے لچکدار رویہ رکھتی ہوں۔اس تکنیک سے ان خطوں میں غذائی تحفظات اور خدشات کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔بدقسمتی سے پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں'' سنتھیٹک بیالوجی‘‘ کے شعبے میں نمایاں ترقی دیکھی گئی۔ اس سلسلے میں متعدد سٹارٹ اپس اور کمپنیاں اس شعبہ میں داخل ہوئی ہیں۔ الائیڈ مارکیٹ ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سنتھیٹک بیالوجی کی مارکیٹ کی مالیت 2019ء میں 5.2 ارب ڈالر تھی جبکہ 2027 ء تک اس کی مارکیٹ کا حجم 23.7 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں مختلف عوامل کا حوالہ دیا گیا ہے جو ''سنتھیٹک بیالوجی‘‘ کی مارکیٹ کی ترقی میں اضافہ کرتے ہیں جن میں تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری میں اضافہ، بائیو بیسڈ مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ اور خوراک کی حفاظت اور موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجز اور ان کا حل شامل ہے۔ اپنے بے شمار فوائد کے باوجود'' سنتھیٹک بیالوجی‘‘ نے کئی ایسے سوالات بھی پیدا کئے ہیں جن کا تعلق اس کے اخلاقی اور حفاظتی پہلوسے ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ نئے حیاتیاتی نظام کی تخلیق کے غیر ارادی نتائج کی وجہ سے انسانی صحت اور ماحولیات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ان خدشات کو دور کرنے کیلئے محققین مصنوعی حیاتیات کی تخلیق اور اپیلی کیشنز کیلئے حفاظتی پروٹوکول کی تیاری میں بھی مصروف ہیں تاکہ ''سنتھیٹک بیالوجی‘‘ کو زیادہ محفوظ اور موثر بنایا جاسکے۔
ماہرین کے مطابق سینتھیٹک بیالوجی میں انسانی طرز زندگی کو تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس میں ادویات اور زراعت ایسے شعبے ہیں جن میںبہت جدت لائی جا سکتی ہے۔اگرچہ ماہرین کے مطابق ابھی اس ٹیکنالوجی میں بہت سی پیچیدگیاں موجود ہیں لیکن جلد ہی ان چیلنجز پو قابو پا لیا جائے گا ۔ محققین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مستقبل قریب میں ''سینتھیٹک بیالوجی‘‘ نئی خصوصیات کے ساتھ حیاتیات کا ایسا نظام مرتب کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جس سے نسل انسانی بہت سے فوائد حاصل کرسکے گی۔
اگرچہ اب بھی چیلنجز پر قابو پانا باقی ہے، اس ٹیکنالوجی کا وعدہ ناقابل تردید ہے، اور ہم آنے والے سالوں میں مسلسل ترقی اور جدت دیکھنے کی توقع کر سکتے ہیں۔