شمشال روایتوں کی امین ایک منفردوادی
اسپیشل فیچر
پاکستان اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ملک ہے جسے قدرت نے خوبصورت وادیوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ ایسی ہی پاکستان کی بلند ترین وادیوں کی فہرست میں شمشال نامی ایک وادی کا ذکر ملتا ہے جس کاحسن ہر سال لاکھوں لوگوں کو دنیا کے کونے کونے سے یہاں کھینچ لاتا ہے۔
محل وقوع :پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں وادی ہنزہ میں واقع ایک گاؤں شمشال ہے جو سطح سمندر سے لگ بھگ 3100 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔شمشال پاکستان میں چین کی سرحد کے قریب آخری گاؤں ہے۔ اس کی سرحدیں چین اور بلتستان سے ملتی ہیں۔وادی شمشال میں پامیر کا علاقہ بھی شامل ہے۔یہ وادی ہنزہ کے نزدیک پسو سے 55کلومیٹر کے فاصلے پربجانب مشرق واقع ہے۔وادی شمشال بنیادی طورپر انتہائی بلندی پر واقع دنیا کی سہولتوں اور آسانیوں سے محروم ایک دشوارگزار پہاڑی خطہ ہے۔ اس کااندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ سن 2003ء تک یہ وادی رابطہ سڑک کی عدم دستیابی کی وجہ سے دنیا سے کٹی ہوئی تھی۔ جبکہ اس سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ اس نے دنیا کو متعدد نامور ترین کوہ پیما دئیے ہیں جن میں دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرنے والی کوہ پیما ثمینہ بیگ ، رجب علی شاہ اور مہربان علی شاہ کے نام نمایاں ہیں۔
شمشال میں سات ہزار میٹر سے بلند چار پہاڑ موجود ہیں جنہیں دنیا بھر کے کو پیما ہر لمحہ سر کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس وادی کے باسیوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا تھا لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے اب یہاں کے بیشتر باسیوں نے سیاحت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔شمشال وادی چار دیہاتوں، شمشال گاؤں ، خضر آباد، امین آباد اور فرمان آباد پر مشتمل ہے۔یہاں کے باسیوں کو ''واخی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ واخی لوگ نہایت محنت کش ، جفا کش اور خود انحصاری کے فلسفے پر عمل کرنے والے لوگ ہیں۔
نومس، ایک خوبصورت روایت : '' نومس ‘‘ ، صدیوں سے رائج شمشال کی ایک خوبصورت رسم اور روایت چلی آرہی ہے جو درحقیقت اس سرزمین کی پہچان اور شناخت ہے۔ نومس بنیادی طور پر واخی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ''انسان دوستی ، خدمت خلق ، یا انسانی بھلائی کے کام ‘‘کے ہیں۔ اس روایت کے تحت نومس ایک ایسا نظام ہے جس میں برادری کے صاحب ثروت افراد کسی رشتہ دار یا پیارے کی یاد (خواہ وہ زندہ بھی ہو ) اس کی تعظیم اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رحمت کے حصول کے لئے فلاحی کام جس میں پلوں کی تعمیر ، سڑک اور عمارات کی تعمیر شامل ہوتے ہیں سرانجام دیتے ہیں۔شمشال کے باسی ''نومس ‘‘ کے تحت مفاد عامہ کے کام کرنے والوں کازندگی بھر احسان یاد رکھتے ہیں ۔ شمشال میں زیادہ تر انفرا سٹرکچر کی ترقی میں پلوں اور سڑکوںکی تعمیر، بجلی کے کھمبوں کی تنصیب ،گاؤں کی سڑک کنارے پتھروں کی دیوار کی تعمیر،شمشال پاس کے ساتھ ساتھ مٹی اور پتھر سے بنے گھر، گاؤں میں لگے تین سو کے لگ بھگ سولر پینل، موبائل ٹاورز کی تنصیب ،سکولوں کی عمارات کی تعمیر ایسے ہی متعدد کام شمشال میں ''نومسی روایات ‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
شمشال اور جنگلی حیات:یاک دنیا بھر میں ایک نایاب اور بیش قیمت جانور کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔پاکستان میں شمشال، یاک کی سب سے بڑی آماجگاہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔1999 ء میں ایک سروے کے دوران وادی شمشال میں 1000یاک کی موجودگی کا بتایا گیا تھا۔یاک کو یہاں کے مقامی افراد گوشت ، دودھ اور باربرداری کے علاوہ یہاں کے تاریخی کھیل پولو کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہاں مارکو پولو بھیڑ ، مارخور، آئی بیکس ، بلو شیپس بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر جانور پوری دنیا میں تیزی سے معدومیت کا شکار ہو تے جا رہے ہیں۔
شمشال سے جڑے تاریخی حقائق:سابق صدر پاکستان جنرل ایوب خان اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ چین کے ساتھ جب سرحدوں کے تعین پر مذاکرات جاری تھے تو میں نے چین کو یہ باور کرایا کہ شمشال کے باسیوں کاروزگار اس کی وسیع و عریض چراگاہوں سے وابستہ ہے ان چراگاہوں سے محرومی اہل شمشال سے ذریعہ معاش چھیننے کے مترادف ہو گا ۔ چنانچہ چین نے پاکستان کے اس مؤقف کو تسلیم کر لیا اور یوں 3000مربع کلومیٹر کا یہ وسیع وعریض علاقہ پاکستان کی ملکیت تسلیم کر لیا گیا۔ شاید کچھ لوگوں کے لئے یہ انکشاف نیا ہو کہ معروف برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کی برطانوی آرمی کی ٹریننگ کے بعد پہلی تعیناتی 1896ء میں برطانوی انڈیا کے شمالی علاقہ جات میں ہوئی تھی۔یہاں قیام کے بعد چرچل نے اپنی ڈائری کو جب ''دی سٹوری آف مالا کنڈ فیلڈ فورس ‘‘ کے نام سے کتابی شکل دی تو اس نے ایک جگہ لکھا کہ ''پورے یورپ کے پہاڑی سلسلے ایلپس میں 6000میٹر بلندی کی اتنی چوٹیاں نہیں جتنی صرف ہنزہ کے چھوٹے سے علاقے میں ہیں۔ ‘‘
تاریخی روایات :اگر آپ وادی شمشال کے دورے کے دوران کسی پرانے شمشالی سے یہ سوال کریں کہ پوری دنیا سے رابطہ اور ذرائع آمدورفت نہ ہونے کے باوجود کہ جہاں سے صرف نکلنے کے لئے تین دن کا انتہائی پر خطر اور کٹھن پیدل سفر کرنا پڑتا ہے آخر یہاں آبادی کیوں کر ہوئی ؟ تو آپ کو یہاں کے لوگ نسل در نسل سرایت کرتی کچھ روایات ضرور سنائیں گے۔ایک سب سے مقبول روایت کچھ یوں ہے۔
'' لگ بھگ آٹھ سو سال قبل ہمارے جد امجد جن کا نام ماموں سنگھ تھا نے افغانستان کے ایک شاہی خاندان کی ایک لڑکی سے شادی کر لی اور اسے لے کر اسی وادی کی جانب آ نکلے۔شمشال کے علاقے میں انہیں کچھ مکانات نظر آئے جو غالبا ً کرغستان سے آنے والے خانہ بدوشوں کے تھے۔ماموں سنگھ اور شہزادی بیگم یہیں آباد ہوگئے۔ ایک دن افغانستان کے شہر بدخشاں سے ایک بزرگ ادھر آ نکلے۔ شہزادی نے ان کے احترام میں اپنا دوپٹہ بچھایا تو بزرگ نے خوش ہو کر اس شہزادی کو دعا دی اور کچھ ہی عرصہ بعد اس کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جسکا نام شیر خان رکھا گیا۔شیر خان یاک پر پولو کھیلنے کا ماہر تھا۔ایک دن چین سے آئے گھڑ سواروں نے شیرخان کو چیلنج کیا کہ وہ اگر انہیں ہرادے تو شمشال کا یہ سارا علاقہ تمہیں دے دیا جائے گا۔چنانچہ شیرخان نے چینیوں کو پولو میں شکست دے دی اور یوں اس دن کے بعد یہ سارا علاقہ شمشالیوں کی ملکیت ہو گیا‘‘۔